ایک مشہور روایت ہے کہ کوئی نوجوان اگر 20سے 30سال کی عمر میں لیفٹ کے سوشلسٹ خیالات (یعنی سماج کو تبدیل کرنے کے تصور) سے متاثر نہ ہو تو اس پر حیرت ہے، لیکن اگر 40سال کی عمر تک وہ شخص اس رومانس سے تائب ہو کر عملی زندگی کی طرف متوجہ نہیں ہوجاتا تو پھر اس پر افسوس ہے۔ یہ دراصل رومانٹسزم سے پریکٹیکل ہونے کے ارتقائی سفر کی طرف اشارہ ہے۔
ہم لوئر مڈل کلاس کے لوگ نوجوانی میں 2کام بڑے ذوق شوق سے کرتے ہیں۔ ایف ایس سی کے بعد فوج میں جانے کے لیے آئی ایس ایس بی کے امتحان کی تیاری اور اس کی ٹرائی اور پھر 30سال سے پہلے مقابلے کے امتحان کی تیاری۔ سی ایس ایس ہو یا صوبائی سول سروس کے امتحان، یہ ہر گریجوایٹ کی کوشش اور دلچسپی کا مرکز بنتے ہیں۔ دراصل لوئر مڈل کلاس لڑکوں کو اپنی زندگی بدلنے کا یہ واحد موقع لگتا ہے۔
مقابلے کے امتحان کی تیاری میں سب سے مشکل کام تحریری امتحان ہے، ہمارے بیشتر لڑکے انگریزی ایسے (Essay) کے پرچے میں فیل ہوجاتے ہیں یا کم نمبر لیتے ہیں۔ یہ ویسے پرلے درجے کی ناانصافی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں پولیس یا کسی دوسری انتظامی پوزیشن کے لیے یہ قطعی ضروری نہیں کہ آپ بہت اچھی اور بے داغ انگریزی میں مضمون لکھ سکیں۔
زیادہ سے زیادہ صرف فارن سروس والوں کے لیے یہ ضرورت ہوسکتا ہے، صوبائی سروس میں تو ہرگز نہیں۔ اب آپ خود بتائیے کہ مجسٹریٹ، سیکشن آفیسر، تحصیل دار وغیرہ نے کون سے انگریزی میں مضامین لکھنے ہوتے ہیں؟ ویسے تو دنیا بھری پڑی ایسے ملکوں سے جن کے سفیر اور سفارتی عملہ انگریزی سے بے بہرہ ہیں اور وہ اپنی زبان بولتے اور پھر مترجم کی مدد سے کام چلاتے ہیں۔ خود ایران کے کئی قونصل جنرل لاہور میں ایسے رہے ہیں جو صرف فارسی بولتے تھے اور اس سے ان کی سفارتی مہارت یا کام کاج میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
ہم پچھلے سال کابل گئے تو وہاں جس بھی حکومتی اہلکار سے بات ہوئی اس نے فارسی یا پشتو کے سوا کسی زبان میں بات نہیں کی، حالانکہ وہ سب پاکستان میں رہ چکے تھے، اردو اچھی بول لیتے تھے۔ گلبدین حکمت یار جیسا شخص جس کی عمر کا ایک حصہ پاکستان میں گزرا، اس نے بھی پشتو میں گفتگو کی، پاکستانی مترجم اردو میں ترجمہ کر رہا تھا، دو تین بار حکمت یار نے اسے ٹوکا کہ میرے جملے کا یہ مطلب ہے، وہ نہیں جو آپ بتا رہے ہو، یعنی وہ اردو اچھی طرح اس کی باریکیوں سمیت سمجھ رہے تھے، مگر انہوں نے دانستہ افغان پشتو میں گفتگو کی۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ آگیا، تحریری امتحان کے بعد انٹرویو کا کٹھن مرحلہ آتا ہے جس میں باقاعدہ انگریزی بولنا پڑتی ہے۔ اس سے بھی پہلے ایک مرحلہ گروپ ڈسکشن کا ہوتا ہے جس میں اکثر ایک سوال پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا نمبر ون مسئلہ کیا ہے؟ لڑکے اپنی عقل وفہم یا اکیڈمی کے اساتذہ کے پڑھائے طریقے کے مطابق جواب دیتے ہیں، یہ بحثیں لمبی چلتی ہیں اور اکثراس کا کوئی حل نہیں نکلتا۔ پاکستان جیسے مسائل زدہ ترقی پذیر ممالک کا کوئی ایک بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔
یونانی مائتھالوجی کے کردار ہائیڈرا کے کئی سروں کی طرح ہمارے مسائل کے بھی کئی سرہیں، سب ہی خطرناک، سنگین اور پریشان کن، ہمارے مسائل بہت سے ہیں اور بعض ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ ان کے لیے کوئی سنگل ریمیڈی یا سنگل ڈوز تھراپی نہیں چاہیے، بیک وقت کئی چیزوں کا مکسچر بنا کردینا پڑے گا۔ یہ ہومیوپیتھی کے تناظر میں بات کی، جہاں سنگل ڈوز ریمیڈی یا ملٹی ڈوز ریمیڈی کا نظریہ چلتا ہے۔
خیر ان گروپ ڈکسشنز میں میرا نقطہ نظر تو کچھ اور رہا، اس پر بہت بحثیں بھی کیں۔ آج کل مگر غور وخوض کے بعد یہ سمجھ میں آیا کہ ہمارا ایک بڑا مسئلہ پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا ہے۔ ہم لانگ ٹرم پالیسی بنا ہی نہیں پاتے کہ جتنا اچھا منصوبہ بنا لو، ہر دو چار سال بعد نئے لوگ آکر سب کچھ تلپٹ کردیتے ہیں۔ ہر منصوبہ اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے اور نئی ٹیم ایک نیا منصوبہ لانچ کردیتی ہے۔ اس کے بعد آنے والے اپنا کچھ نیا لے آتے ہیں، یوں ہرجگہ افراتفری اور تباہی مچی ہے۔
باقی چیزیں اپنی جگہ، مگر آج کل ہمارے ہاں کرکٹ ٹورنامنٹ ہو رہا ہے۔ کرکٹ ٹیم کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے غیر ملکی دوستوں کے سامنے شرمندہ ہوتے ہیں۔ بنیادی وجہ پالیسیوں کا عدم تسلسل ہے۔ پچھلے چار پانچ برسوں میں چار چیئرمین کرکٹ بورڈ بدل چکے ہیں، ہر چیئرمین نے اپنی الگ کرکٹ مینجمنٹ لانچ کی۔
عمران خان وزیراعظم بنے تو چیئرمین بورڈ نجم سیٹھی تھے، خان صاحب نے پہلے احسان مانی اور پھر سابق کرکٹر رمیز راجہ کو چیئرمین بنا دیا۔ رمیز راجہ نے ورلڈ کپ سے صرف ایک مہینہ قبل کوچز مصباح الحق اور وقار یونس کو گھر جانے پر مجبور کردیا اور ایمرجنسی میں ثقلین مشتاق اور ورلڈ کپ کے لیے میتھو ہیڈن کو کوچ بنایا، ہیڈن ایک ماہ میں کیا کرسکتا تھا؟
عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو پھر فوری طور پر نجم سیٹھی لپک کر چیئرمین بن گئے۔ انہوں نے رمیز راجہ سے ایسے نجات پائی کہ انہیں دفتر سے اپنا ذاتی سامان، پیپرز تک نہ اٹھانے دیے۔ تب رمیز راجہ کو بھی احساس ہوا ہوکہ مصباح الحق اور وقار یونس جیسے بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ انہوں نے کیا رویہ روا رکھا تھا؟ نجم سیٹھی نے ثقلین مشتاق اور چیف سلیکٹر وسیم سے ویسا رویہ رکھا۔
سیٹھی صاحب نے ایک عجیب وغریب کام یہ کیا کہ مکی آرتھر کو ایسا کوچ بنا دیا جو انگلینڈ میں رہ کر زوم پر ٹیم کو لیکچر دے رہا۔ ایسا دنیا میں کہاں ہوتا ہے؟ پھر زرداری صاحب کی مہربانی سے زکا اشرف نجم سیٹھی کو دھکیل کر چیئرمین کرکٹ بورڈ بن گئے۔ انہوں نے مکی آرتھر وغیرہ سے فوری نجات حاصل کی۔
زکا اشرف نے بابراعظم کو ہٹا کر شاہین آفریدی کو کپتان بنایا اور محمد حفیظ کو مینجمنٹ میں لے آئے جو سلیکشن کے ساتھ کوچنگ بھی کر رہے تھے۔ ایک سیریز کے بعد ہی سب کچھ بدل گیا۔ زکا اشرف رخصت ہوئے اور محسن نقوی چیئرمین کرکٹ بورڈ بن گئے۔ انہوں نے پہلے وہاب ریاض کو لانچ کیا اور بابر اعظم کو کپتان بنایا پھر ورلڈ کپ ہارنے کے بعد غلطی کا احساس ہوا اور اب عاقب جاوید کوآل ان آل بنایا۔ عاقب جاوید نے بعض اچھے نتائج بھی دیے اور اب وائٹ بال کپتان بھی محمد رضوان بن گیا۔
اب آپ خود تصور کریں کہ اگر پچھلے چار سال ایک مینجمنٹ ہوتی، ایک ہی کوچ، چیف سلیکٹر اور کپتان ہوتا تو وہ کس قدر بہتر پلان بنا سکتا تھا۔ ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی20 ورلڈ کپ، چیمپینز ٹرافی جیسے ٹورنامنٹس کے لیے اچھی اور ٹھوس پلاننگ درکار ہوتی ہے۔ ہم عدم تسلسل کی وجہ سے اپنی خامیوں پر کام ہی نہیں کرسکے۔
ہمارے پاس وائٹ بال کرکٹ کے لیے اچھے آل راؤنڈر نہیں، لوئر آرڈر میں پاور ہٹرز نہیں، اچھے کوالٹی سپنرز نہیں۔ جو سپنر ہیں وہ نوجوان ہیں، انہیں تجربہ دلانے کی ضرورت تھی مگر کام نہیں کیا گیا۔ حال یہ ہے کہ ایک کھلاڑی صائم ایوب انجرڈ ہوا تو پورا ٹیم کمبینیشن خراب ہوگیا ہے۔ دو سال سے ٹیم سے باہر خوشدل شاہ اور فہیم اشرف کو لانا پڑا۔
ہمارے پاس اپنے اسٹار فاسٹ بولرز کا متبادل بھی نہیں۔ نسیم شاہ ایک سال سے اچھے ردھم میں نہیں، متبادل نہ ہونے کے باعث اسے گھوم پھر کر کھلانا پڑتا ہے، یہی معاملہ حارث رؤف کا ہے، شاہین شاہ آفریدی کا ہے۔ ہم نے متبادل ٹرائی ہی نہیں کیے۔ احسان اللہ تیز بولر تھا، انجرڈ ہوا اس کا درست علاج ہی نہیں ہوا، اب وہ میڈیم پیس سے بولنگ کرا رہا ہے جبکہ بورڈ کو پروا ہی نہیں۔ فاسٹ بولرز سے بھرا ملک ہے اور ہمارے پاس نوے میل فی گھنٹہ سے بولنگ کرانے والا کوئی نوجوان فاسٹ بولر ہی نہیں جسے تھوڑا گروم کرکے انٹرنیشنل کرکٹ کھلائی جائے، آخرکیوں؟
خرابی کی جڑ وہی ہے کہ لانگ ٹرم پلاننگ نہیں، پالیسیوں میں تسلسل نہیں۔ وقار، وسیم اکرم، عاقب جاوید اور کتنے ہی اچھے فاسٹ بولر گزرے ہیں۔ انہیں تمام تر سہولتوں اور اعلیٰ پیکج کے ساتھ یہ ٹاسک دیا جاتا کہ ملک کے مختلف علاقوں میں ٹرائل کرکے 140کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار سے تیز بولنگ کرنے والے لڑکے ڈھونڈو اور انہیں گروم کرو۔ تیس چالیس لڑکے ڈھونڈے جائیں، تین چار کوالٹی بولرز نکل ہی آئیں گے۔
کرکٹ بورڈ نے ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد جیسے اسپنرز کو آن بورڈ لیا، دو دو سال تک اکیڈمی میں رکھا، مگر ڈھنگ کا کام نہیں لیا۔ ان سے نئے اسپنرز تلاش کرانے چاہیے تھے، مسٹری اسپنرز، لیگ بریک بولرز اور آف اسپنرز، تینوں کیٹیگریز میں نوجوان اسپنرز لے کر تیار کیے جائیں۔
یہی معاملہ بلے بازوں کا ہے، یہی پاور ہٹرز کا ہے۔ کرکٹ بورڈ کا اربوں روپے کا بجٹ ہے، چند کروڑ روپے ٹیلنٹ ہنٹنگ اور ان کی گرومنگ پر لگا دییے جائیں۔ کوالٹی کھلاڑی نکلیں گے تو بورڈ کی اربوں کی اشتہاری اور دیگر مد میں کمائی کا باعث بنیں گے۔ یہ سادہ بات مگر کون سمجھے؟
ہر سال بعد چیئرمین اور پوری مینجمنٹ بدل جائے تو پھر یہی ہوگا جو آج کل ہو رہا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، خرابی کی جڑ یہی ہے۔ اس بیماری زدہ جڑ کا علاج کریں، پھول، پھل سب کچھ ہمیں ملے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: نجم سیٹھی کرکٹ بورڈ کے امتحان انہوں نے اور پھر ورلڈ کپ ہی نہیں کے ساتھ کے بعد کے لیے
پڑھیں:
رواں سال کتنے پاکستانی ملک چھوڑ گئے اور کہاں منتقل ہوئے؟
---فائل فوٹورواں سال پہلے 3 ماہ میں 1 لاکھ 72 ہزار 144پاکستانی ملازمت کی غرض سے بیرون ملک گئے۔
بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ 99 ہزار 139 پاکستانی مزدور بیرون ملک گئے، ایک ہزار 859 مستری، 38 ہزار 274 ڈرائیورز اور ایک ہزار 689 باورچی بیرون ملک چلے گئے۔
رواں سال کے پہلے 3 ماہ میں 849 ڈاکٹرز ملازمت کی غرض سے بیرون ملک گئے، ایک ہزار 479 انجینئرز نے بیرون ملک ملازمت کے لیے رخ کیا، 390 نرسز نے بھی بیرون ملک ملازمت حاصل کی، 3474 ٹیکنیشن اور 1058ویلڈرز بھی بیرون ملک گئے، 2130 الیکٹریشن اور 436 ٹیچرز نے بھی ملازمت کی غرض سے ملک چھوڑا۔
اسلام آ باد بیورو آف امیگریشن کی رپورٹ کے مطابق...
بیورو آف امیگریشن کے مطابق سب سے زیادہ ایک لاکھ 21 ہزار 970 پاکستانی سعودی عرب گئے، 6 ہزار 891 افراد یو اے ای اور 8 ہزار 331 افراد عمان گئے۔
12ہزار 989 پاکستانی قطر، 939 بحرین، 775 پاکستانی ملائیشیا اور 592 چین گئے۔
350 پاکستانی آذربائیجان، 264 جرمنی، 815 یونان، 108 جاپان، 109 اٹلی، 870 ترکیہ، ایک ہزار 454 برطانیہ اور 257 پاکستانی امریکا گئے۔