Jasarat News:
2025-02-22@01:22:44 GMT

پاکستانی جرنیلوں کا مشکوک اسلام اور مشتبہ پاکستانیت

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

پاکستانی جرنیلوں کا مشکوک اسلام اور مشتبہ پاکستانیت

پاک فوج کے سربراہ جنرل سید حافظ عاصم منیر نے راولپنڈی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اپنے مذہب، تہذیب اور روایات پر فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے اہم پاکستانیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کامریڈ کی طرح لڑتے ہیں، انہوں نے کہا کہ جب ہم ایک ساتھ بیٹھتے اور دشمن سے لڑتے ہیں تو ہمیں کوئی علم نہیں ہوتا کہ کون پختون، کون سندھی، کون پنجابی یا پٹھان ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ ہم فتنہ الخوارج کو پاکستان پر کبھی فرسودہ سوچ مسلط نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فتنہ الخوارج اسلام کی غلط تشریح کررہے ہیں۔ اسلام نے عورت کو ہر صورت میں بلند مقام عطا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فتنہ الخوارج عورت کے اس مقام کو چھیننے والے کون ہوتے ہیں؟ (روزنامہ جسارت و جنگ، 17 فروری 2025ء)

دنیا کے ہر مسلمان کو اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور روایات پر فخر ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اسلام، اس کی پیدا کردہ تہذیب اور مسلمانوں کی روایات ہیں ہی قابل فخر مگر اسلام اور اسلامی تہذیب پر فخر کے دعوے کو شہادتوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی جرنیلوں کا اسلام مشکوک اور ان کی پاکستانیت پاکستان کی تاریخ کے آغاز ہی سے مشتبہ ہے۔ متحدہ پاکستان میں بنگالی پاکستان کی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر پاکستانی جرنیلوں نے اسلام کے اصول انصاف اور حقیقی پاکستانیت کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1947ء سے 1960ء تک بنگالیوں کو فوج میں شامل ہی نہ ہونے دیا۔ چنانچہ 1947ء سے 1960ء تک پاک فوج میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا۔ یہ ظلم تھا، جبر تھا، ناانصافی تھی، اور اسلام اور اسلام سے پیدا ہونے والی پاکستانیت میں اس ظلم، جبر اور ناانصافی کی کوئی گنجائش نہیں تھی، مگر پاکستانی جرنیلوں نے فوج پر پنجابیوں، پشتونوں اور مہاجروں کو مسلط کرنے کے لیے ’’مارشل ریس‘‘ کا نظریہ گھڑ رکھا تھا۔ بنگالیوں کے قد پنجابیوں، پٹھانوں اور مہاجروں سے چھوٹے تھے چنانچہ انہیں پستہ قد ہونے کی وجہ سے فوج میں نہیں لیا جاتا تھا۔ یہ تلواروں، نیزوں اور تیروں سے لڑی جانے والی جنگ کا زمانہ نہیں تھا۔ اس وقت تک بندوقیں، توپیں، ٹینک اور طیارے ایجاد ہو چکے تھے اور بندوقوں، توپوں اور طیاروں کو چلانے کے لیے بلند قامت لوگوں کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک بنگالی پائلٹ ایم ایم عالم نے 1965ء کی جنگ میں دو منٹ میں بھارت کے پانچ طیارے گرا کر ایک عالمی ریکارڈ قائم کردیا تھا۔ پاکستان کے پنجابی، پشتون اور مہاجر جرنیلوں نے 1960ء کے بعد بنگالیوں کو فوج میں لینا شروع کیا۔ چنانچہ 1971ء میں جب پاکستان دولخت ہوا تو فوج میں 10 فی صد بنگالی موجود تھے۔ لیکن اگر فوج میں جرنیلوں نے اسلام اور پاکستانیت کو اہمیت دی ہوتی تو 1971ء کی پاک فوج میں بنگالیوں کو ان کی آبادی کے اعتبار سے 56 فی صد ہونا چاہیے تھا لیکن پاکستانی جرنیلوں نے 1947ء سے 1971ء تک فوج میں اسلام کے اصول انصاف اور اسلام سے نمودار ہونے والی پاکستانیت کو داخل ہی نہ ہونے دیا۔ 1970ء میں جنرل یحییٰ نے پاکستان میں انتخابات کرائے اور ان انتخابات میں تحریک پاکستان کے کارکن شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کرلی۔ اسلام کے ’’اصول انصاف‘‘ اور ’’پاکستانیت‘‘ کا تقاضا تھا کہ اقتدار ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر شیخ مجیب الرحمن کے حوالے کردیا جائے مگر جنرل یحییٰ اور ان کے ساتھی جرنیلوں نے اسلام کے ’’اصولِ انصاف‘‘ اور ’’پاکستانیت کے تقاضوں‘‘ پر تھوک دیا۔ انہوں نے اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کرنے کے بجائے الٹا بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا۔ بنگالی پاکستان بنانے والے تھے، مسلم لیگ 1906ء میں ڈھاکا میں قائم ہوئی تھی، لاہور، سیالکوٹ، کراچی، پشاور، یا کوئٹہ میں نہیں۔ چنانچہ پاکستانی جرنیلوں کو بنگالیوں کی ’’پاکستانیت‘‘ کا احترام کرنا چاہیے تھا مگر ایسا کرنے کے بجائے انہوں نے بنگالیوں کو ’’فتح‘‘ کرنے کا منصوبہ بنایا اور وہ بھی ہتھیاروں کے ذریعے فتح کرنے کا، بنگالی، پنجابیوں، پٹھانوں اور سندھیوں سے زیادہ بہتر ’’مسلمان‘‘ بھی تھے اور زیادہ بہتر ’’پاکستانی‘‘ بھی۔ مگر جنرل نیازی نے بچھرے ہوئے بنگالیوں کو دھمکاتے ہوئے فرمایا کہ ہم بنگالی عورتوں کا اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ یہ بیان پورے اسلام اور پوری پاکستانیت کے خلاف تھا اور ناگزیر تھا کہ جنرل نیازی کو ایسا بیان دینے پر نہ صرف یہ کہ ان کے عہدے سے برطرف کردیا جاتا بلکہ ان کا کورٹ مارشل بھی ہوتا مگر جنرل نیازی سے کسی نے نہ پوچھا کہ تم نے یہ زہر کیوں اُگلا ہے؟۔

مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو بھارت نے مداخلت کی۔ اس نازک صورت حال میں پاکستانی جرنیلوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں پر مشتمل دو تنظیمیں البدر اور الشمس کے نام سے قائم کیں۔ ان تنظیموں کا کام دفاع پاکستان کے سلسلے میں پاک فوج کی مدد کرنا تھا۔ یہ مشرقی پاکستان کے حالات میں ایک خطرناک کام تھا مگر جمعیت کے نوجوانوں نے جان پر کھیل کر یہ کام کیا۔ لیکن جب پاکستانی جرنیلوں نے چند دن کی جنگ کے بعد اچانک بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے تو پاکستانی جرنیلوں نے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کے تحفظ کے سلسلے میں اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی روایات اور پاکستانیت کے تمام تقاضوں کو فراموش کردیا اور انہوں نے البدر کے نوجوانوں کو مکتی باہنی کے غنڈوں کے آگے مرنے کے لیے پھینک دیا۔ جرنیل اور فوجی خود تو ہتھیار ڈال کر بین الاقوامی قانون کے تحت محفوظ و مامون ہوگئے مگر البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو مکتی باہنی کے لوگوں نے چن چن کر شہید کیا۔ 1971ء کی جنگ میں بہاریوں نے بھی پاک فوج کا ساتھ دیا تھا مگر پاکستانی جرنیلوں کو ان کے تحفظ کے سلسلے میں بھی نہ ’’اسلام‘‘ یاد آیا نہ ’’پاکستانیت‘‘ یاد آئی۔ چنانچہ یہ لوگ بھی مکتی باہنی کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔ ان مظلوم بہاریوں کو فوراً ہی پاکستان منتقل کردیا جانا چاہیے تھا مگر وہ پچاس سال سے بنگلا دیش کے کیمپوں میں پڑے سڑ رہے ہیں اور اس سلسلے میں اب تک نہ کسی جرنیل کا ’’اسلام‘‘ جاگا نہ پاکستانیت بیدار ہوئی۔

پاکستان 1958ء سے اب تک پاکستان پر عملاً جرنیل حکومت کررہے ہیں، جنرل ایوب نے 1958ء میں پاکستان پر مارشل لا مسلط کیا اور 10 سال تک حکومت کرتے رہے۔ جنرل ایوب ایک سیکولر جنرل تھے اور وہ دس سال تک اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان پر سیکولر ازم مسلط کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ ایسا کرتے ہوئے انہیں نہ ’’اسلام‘‘ یاد آیا نہ اسلام سے پیدا ہونے والی ’’پاکستانیت‘‘ یاد آئی۔ جنرل ایوب نے دس سال تک ملک کے سیاسی نظام کو اغوا کیے رکھا۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ پریس کے منہ پر سنسر کی کیلیں ٹھونک دیں۔ انہوں نے کراچی میں پہلا مہاجر پٹھان فساد کرایا۔ یہ تمام چیزیں اسلام کے بھی خلاف تھیں اور پاکستانیت کے بھی منافی تھیں۔ جنرل ایوب گئے تو جنرل یحییٰ ان کی جگہ آگئے۔ وہ ’’شرابی‘‘ اور ’’عورت باز‘‘ تھے اور یہ دونوں ’’خوبیاں‘‘ ’’اسلام‘‘ اور ’’پاکستانیت‘‘ کی ضد تھیں۔ جنرل ضیا الحق بلاشبہ اسلام پسند تھے مگر ان کے دس سالہ دور میں نہ قرآن و سنت بالادست ہوئے نہ سود کا خاتمہ ہوا نہ ’’پاکستانیت‘‘، نے جرنیلوں کی ’’امریکیت‘‘ کی جگہ لی۔ جنرل ضیا الحق کا ایک ’’کارنامہ‘‘ یہ ہے کہ انہوں نے کراچی میں جماعت اسلامی اور دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کے لیے سندھ کے شہری علاقوں میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی مہاجر عصبیت کا طوفان برپا کردیا۔ یہ طوفان اسلام ہی کے نہیں پاکستانیت کے بھی خلاف تھا۔ جنرل پرویز مشرف جب تک اقتدار میں رہے پاکستان کو لبرل بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ نائن الیون کے بعد انہوں نے پاکستان کو امریکا کی کالونی بنا کر ’’اسلام‘‘ اور ’’پاکستانیت‘‘ دونوں کو کچل ڈالا۔

جنرل عاصم منیر خیر سے ’’سید‘‘ بھی ہیں ’’حافظ قرآن‘‘ بھی اور اقبال کے ’’شہدائی‘‘ بھی مگر انہیں پاک فوج کا سربراہ بنے دو سال سے زیادہ ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے ملک میں نہ شریعت نافذ کی ہے، نہ سود کے خاتمے کے لیے کچھ کیا ہے۔ ان کے دور میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے ہیں، ان انتخابات میں تمام تر پابندیوں کے باوجود تحریک انصاف دو تہائی اکثریت حاصل کررہی تھی مگر خفیہ اداروں نے انتخابات کو اغوا کرلیا اور تحریک انصاف سے اس کا مینڈیٹ چھین لیا۔ جنرل عاصم منیر بتائیں کہ یہ عمل کتنا ’’اسلام‘‘ اور ’’پاکستانیت‘‘ کے مطابق تھا۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھر چکی تھی اور میئر جماعت اسلامی ہی کا بننا تھا مگر جنرل عاصم منیر کے عہد میں خفیہ اداروں نے یہاں بھی گندا کھیل کھیلا اور انہوں نے جماعت اسلامی کا مینڈیٹ چھین کر شہر پر پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کو مسلط کردیا۔ یہ عمل بھی ’’خلاف اسلام‘‘ اور ’’پاکستانیت‘‘ کے منافی تھا۔ یہ صورت حال بھی ہمارے سامنے ہے کہ جنرل سید حافظ عاصم منیر کے دور میں پنجاب پر اسلام اور پاکستان کی بیٹی کو نہیں ’’پنجاب کی بیٹی مریم‘‘ کو مسلط کردیا گیا۔ سندھ سندھیت میں ڈوبی ہوئی پیپلز پارٹی کے حوالے کردیا گیا اور کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشست پر ’’مہاجریت‘‘ کے تعصب میں ڈوبی ہوئی ایم کیو ایم کو فتح یاب کرایا گیا۔ کیا یہ عمل بھی اسلام اور اس سے پیدا ہونے والی پاکستانیت کی کھلی خلاف ورزی نہیں ہے؟ اس تناظر میں ہم یہ نہ کہیں تو کیا کہیں کہ پاکستانی جرنیلوں کا ’’اسلام‘‘ مشکوک اور ’’پاکستانیت‘‘ مشتبہ ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستانی جرنیلوں نے جرنیلوں نے اسلام انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی پاکستانیت کے اور پاکستان کے نوجوانوں پاکستان پر پاکستان کے جنرل ایوب اسلام اور اور اسلام سلسلے میں ہونے والی اسلام کے تھا مگر پاک فوج کرنے کے تھے اور فوج میں اور ان اور اس

پڑھیں:

مفتی محمد حبیب الرحمن کا عالم اسلام کی موجودہ صورتحال پر خصوصی انٹرویو

اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو میں تحریک عرفان الحق انٹرنیشنل کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ اہلبیت اطہار ہی حبل اللہ ہیں اور جہاں بھی تفرقہ و فساد ہے، وہاں اہلبیت نہیں ہیں بلکہ جہاں تفرقہ و منافرت ہے، وہاں شیطان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد میں طاقت ہے، اس لئے تمام انسانوں کو خاص طور پر مسلمانوں کے اتحاد و بھائی چارگی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ متعلقہ فائیلیںمفتی محمد حبیب الرحمن کا تعلق صوبہ جموں سے ہے۔ آپ وادی کشمیر بھر میں تبلیغی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، ساتھ ہی ساتھ تحریک عرفان الحق انٹرنیشنل کے چیئرمین بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے سرینگر میں ایک خصوصی ملاقات کے دوران مفتی محمد حبیب الرحمن سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جس دوران انہوں نے کہا کہ مسلمانوں اور عالم اسلام کی موجودہ زبوں حالی اہلبیت رسول اللہ (ص) سے دوری کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن نے ہمیں اتحاد سے رہنے اور حبل اللہ کو تھامے رکھنے کی تلقین کی ہے، انہوں نے کہا کہ اہلبیت اطہار ہی حبل اللہ ہیں اور جہاں بھی تفرقہ و فساد ہے، وہاں اہلبیت نہیں ہیں بلکہ جہاں تفرقہ و منافرت ہے، وہاں شیطان ہے۔ مفتی حبیب الرحمن نے کہا کہ اسلام نے تمام انسانوں کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد میں طاقت ہے، اس لئے تمام انسانوں کو خاص طور پر مسلمانوں کے اتحاد و بھائی چارگی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial

متعلقہ مضامین

  • عافیہ صدیقی معاملہ، حکومت کا جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع
  • لوئر کرم: آپریشن میں مزید 18 مشتبہ افراد زیرِ حراست
  • ٹنڈو جام ،جے یو آئی کا6 نئے کینالز نکالنے کے خلاف احتجاج
  • جمعیت علماء اسلام کا بے امنی کے خلاف پریس کلب کے باہر مظاہرہ
  • راکھی ساونت کا 10 پاکستانی، 10 بھارتی عازمین کو عمرے پر بھجوانے کا دعویٰ
  • اسلام آباد پولیس کیساتھ بدسلوکی، خیبرپختونخوا کا ایم پی اے اور گارڈز زیر حراست
  • کراچی: ماڈل کالونی میں سرچ آپریشن، بائیومیٹرک ڈیوائس سے چیکنگ
  • مفتی محمد حبیب الرحمن کا عالم اسلام کی موجودہ صورتحال پر خصوصی انٹرویو
  • حافظ نعیم الرحمن کی پی ایف یو جے کے نومنتخب عہدیداران کو مبارکباد