Jasarat News:
2025-02-22@01:24:33 GMT

انٹر نیشنل فلسطین کانفرس

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

انٹر نیشنل فلسطین کانفرس

امت مسلمہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس غیر ذمے داران بیان جس میں انہوں نے غزہ پر قبضہ کرنے اور فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کے ارادے کا اظہار کیا تھا پریشان اور حیران تھی اور سوچ رہی تھی کہ 57 سے زائد اسلامی ممالک ہونے کے باوجود امت مسلمہ کس قدر غیر محفوظ ہیں۔ ان کا قبلہ اوّل 77 سال سے یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ اسرائیل تمام بین الاقوامی قوانین اور اخلاقی تقاضوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، بین الاقوامی فوجداری عدالت اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سب اسرائیل جیسے عالمی غنڈے کے سامنے لاچار، بے بس اور بے کس بنے ہوئے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کا اہل غزہ اور حماس کے مجاہدوں کا حملہ فلسطین پر اسرائیل کے 77سالہ ظلم وستم کا ردعمل تھا اور اہل غزہ نے یہ جنگ اپنی ایمانی طاقت اور شہادت کے جذبوںکے ساتھ لڑی۔اہل غزہ نے دنیا کی سپر طاقتوں کو شکست فاش دی ہے اور آج اسرائیل اور امریکا اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔ مسلم ممالک جن میں ترکی، سعودی عرب، قطر ودیگر ممالک شامل ہیں نے امریکی صدر کے بیان کو انتہائی غیر ذمے دارانہ قرار دیا۔ ایسے میں جماعت اسلامی پاکستان اور اسلامی ورلڈ یوتھ فورم کی جانب سے 15.

16 فروری کو اسلام آباد ’’انٹرنیشنل فلسطین کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ اس دو روزہ کانفرس میں دنیا بھر سے 60 سے زائد ممالک کے لیڈرز اور مندوبین شریک ہوئے۔

دہائیوںکے ناکام مذاکرات غیرقانونی بستیوں کی مسلسل توسیع اور فلسطینی علاقوں کے مزید قبضے نے صہیونی منصوبے کے حقیقی فاشسٹ عزائم کو ظاہر کردیا ہے اور یہ حقیقت بھی ظاہر کردی کہ صہیونیت کے ساتھ بقائے باہمی ممکن نہیں۔ حقیقی انصاف اور پائیدار امن صرف فلسطین کی تمام زمین کی آزادی کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ نیتن یاہو کو بین الاقوامی فوجداری عدالت نے ایک مجرم اور قاتل قرار دیا ہے۔ آئی سی سی کے رکن ممالک کو اب نیتن یاہو کو گرفتار کرنا ہوگا، یہ ان مغربی ممالک کے لیے ایک ٹیسٹ ہے کہ جنہوں نے صدیوں سے قانون کی بالا دستی کی حمایت کی ہے۔ کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ مسلم ممالک کی حکومتیں آگے آئیں اور فلسطینی مسئلے کی حمایت کی ذمے داری اٹھائیں۔ صہیونی منصوبہ خطے کے تمام ممالک کے لیے ایک مشترکہ خطرہ ہے۔ مسلم ممالک کو صہیونی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے متحد ہونا چاہیے اور قوم پرستی، نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہوکر اسرائیل کے ظلم کے خلاف اٹھنا چاہیے اور مسلم ممالک اپنے عالمی اتحادیوں کے ساتھ مل کر غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لیے ایک سیکورٹی میکانزم تشکیل دے اور مسجد اقصیٰ کی حرمت کو کسی بھی صہیونی تجاویزات سے محفوظ رکھیں۔ غزہ کی تعمیر نو اور بحالی ایک بہت بڑا کام ہے تمام مسلم ممالک کو مشترکہ طور پر ایک غزہ کی تعمیر نو فنڈ قائم کرنا چاہیے اور وسائل سے مالا مال مسلم ممالک کو اس فنڈ کے لیے فراخدلی سے عطیات جمع کرائیں تاکہ غزہ میں رہائشی زندگی بحال ہوسکے۔ کانفرنس میں فلسطین کی تمام زمین کی آزادی کے ساتھ اپنے مکمل عزم اور یکجہتی کا بھی اظہارکیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ انصاف اور آزادی کی جاری جدوجہد کے پیش نظرفوری طور پر عالمی انصاف کے لیے وسیع تر اتحاد قائم کیا جائے جو تمام مذاہب اور جغرافیائی حدود سے بالاتر ہوکر انصاف پسند ممالک کے ذریعے تشکیل دیا جائے۔ کانفرنس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل کی جاری خلاف ورزیوں اور مظالم کو روکنے کے لیے اس پر پابندیاں لگائی جائیں ان پابندیوں میں ہتھیاروں پر مکمل پابندی، تجارتی معاہدوں پر پابندیاںاور فوجی ومعاشی حمایت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

اہل غزہ اور فلسطینیوں کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کی جانب سے انٹرنیشنل فلسطین کانفرنس ایک تاریخی باب اور اقدام ہے اور اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے ضرورت ہے کہ عالمی سطح پر آواز بلند کی جائے۔ انٹرنیشنل فلسطین کانفرنس کا چارٹر صرف فلسطینیوں کے لیے نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کے مظلوم لوگوں کی آواز ہے۔ اب وعدوں کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ غزہ کے باشندوں کو بنیادی انسانی حقوق فراہمی وقت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں غزہ میں قائم تمام محاصرے فوری طور پر ہٹائے جائیں، غزہ میں خوراک، پانی، بجلی، ایندھن اور طبی امداد کی فراہمی کو بحال کیا جانا چاہیے تاکہ وہاں کے لوگ انسانی زندگی گزار سکے۔ اقوام متحدہ کے اداروں کو اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف عملی اقدامات کرنے چاہیے اور بغیر کسی امتیاز کے شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ میڈیا نے اکثر فلسطین کی صورتحال کو غلط طریقے سے پیش کیا اور فلسطینیوں کے دکھ کو تسلیم نہیں کیا گیا جو کہ کھلی جانبداری ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کو دو برابر فریقوں کے تنازعے کے طور پر پیش کیا گیا اس طرح ایک قبضہ کرنے والی طاقت اور مظلوم آبادی کی حقیقت کو مٹا دیا گیا اصولی طور پر سچائی کی اس تحریف کو مسترد کیا جانا چاہیے۔

اس عظیم الشان کانفرنس کے انعقاد کے لیے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان، سیکریٹری جنرل امیر العظیم اور امورخارجہ کے ڈائریکٹر آصف لقمان قاضی قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے امت مسلمہ کی ترجمانی کرتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے مسئلہ فلسطین کو ناصرف اجاگر کیا بلکہ اس کا حل بھی تلاش کردیا ہے۔ اس کانفرنس کے جہاں امت مسلمہ بالخصوص فلسطین کے مجاہدوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے وہاں کفر کے ایوانوں میں بھی کھلبلی مچ گئی ہے۔ ان شاء اللہ جماعت اسلامی کی یہ محنت کوشش اور جدوجہد رنگ لائے گی اور امت کا کھویا ہوا مقام جلد بحال ہوگا اور فلسطین ہی نہیں کشمیر بھی جلد آزاد ہوگا۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی فلسطینیوں کے مسلم ممالک اور فلسطین چاہیے اور ممالک کے ممالک کو اہل غزہ کیا گیا کے لیے

پڑھیں:

غزہ پر قبضہ: امریکی سفارت خانے ہدف ہوں گے؟

صدر ٹرمپ تاریخ کے طالب علم نہیں بلکہ کسی اکھاڑے کے پہلوان معلوم ہوتے ہیں۔ شاید اِسی لیے انہیں مسلمانوں کی تاریخ کا علم نہیں۔ بدر سے کربلا تک، یُرموک سے بیت المقدس تک، صلیبیوں کے خلاف جنگ سے جہاد افغانستان تک، سومناتھ سے غزنی تک، ناٹو کی شکست سے سوویت یونین کی تحلیل تک، بابری مسجد سے مسجد اقصیٰ تک اور مقبوضہ کشمیر سے مقبوضہ فلسطین تک کی تاریخ کا اگر امریکی صدر مطالعہ کرچکے ہوتے تو آج ارضِ فلسطین سے اہل ِ غزہ کو نکال دینے کی بہکی بہکی باتیں نہ کرتے۔ البتہ اگر صدر ٹرمپ کا یہ خیال ہے کہ آج کے مسلم حکمران اور جرنیل اُن کی جارحیت، دہشت گردی اور سینہ زوری کا مقابلہ نہیں کرپائیں گے تو ممکن ہے یہ بات درست ہو۔ اُمت بھی یہ سمجھتی ہے کہ مسلم حکمرانوں میں اب شاہ فیصل، امام خمینی، صدام حسین اور ملا عمر جیسا کوئی نہیں رہا جبکہ محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر، سلطان محمود غزنوی، ٹیپو سلطان اور جنرل ضیا الحق جیسا کوئی سپہ سالار بھی باقی نہ بچا۔ تاہم صدر ٹرمپ اپنی اِس غلط فہمی کو دور کرلیں کیونکہ کمانڈ اور قیادت کا وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہنا ایک فطری عمل ہے جس کا تعلق زندگی اور منصب سے ہوتا ہے جو ہمیشہ عارضی رہے ہیں۔ اصل بات قوم کا زندہ رہنا ہے جبکہ الحمدللہ قوم کی کوکھ ابھی ہری بھری ہے، شیخ احمد یاسین، یاسر عرفات، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار اور حسن نصر اللہ جیسے کتنے ہی عظیم مسلم رہنما اور مجاہدین ہیں کہ جن کے نقش پا جہاد کے راستوں پر مشعلیں جلائے کھڑے ہیں۔ شہدا اسلام کا خون مقبوضہ کشمیر سے مقبوضہ فلسطین تک جہاں بھی گرا وہاں پر چراغ جل اُٹھے کہ جن کی روشنی میں بابری مسجد کا ملبہ اور بیت المقدس کا گنبد خضرا صاف دکھائی دینے لگے۔

اہل ِ غزہ محض عوام نہیں بلکہ ایک مضبوط عقیدے کے حامل مسلمان ہیں، انہیں اپنے آبائی وطن سے بھیڑ بکریوں کی طرح نکالا اور دھکیلا نہیں جاسکتا۔ بیت المقدس اِن کے درمیان عقیدہ توحید کی علامت اور نبی آخر الزماں نبی اکرمؐ کے سفر معراج کی پہلی منزل

اور سجدہ گاہ ہے، اِس کے دروازے پر خلیفہ دوم امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ کے دستک کی آواز اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی یلغار کی آوازیں آج بھی اہل فلسطین کو سنائی دے رہی ہیں۔ یہ اُمت کی امانت ہے اور شہدا اسلام کی آرام گاہ، انبیا علیہم السلام کی سرزمین اور آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے جس پر کوئی ڈیل یا سودے بازی نہیں ہوگی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دجالی ریاست ’’اسرائیل‘‘ اِس مقدس سرزمین پر یہود و نصاریٰ کا ایک ناجائز قبضہ اور ناپاک وجود ہے جس کو ہر صورت ختم کرایا جائے گا۔ لہٰذا صدر ٹرمپ اگر اہل غزہ سے زبردستی اُن کا وطن چھین کر بزور طاقت غزہ کی پٹی کو ہانگ کانگ اور بیروت جیسے عیاشی کے مرکز میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو یہ اُن کی خام خیالی ہے، اُن کی شیطانی سوچ ایسا سوچ سکتی ہے مگر عملاً ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ مسلم حکمرانوں اور مسلم جرنیلوں کی بزدلی اور ضمیر فروشی سے امت مسلمہ کا کوئی تعلق نہیں، دنیا میں موجود ڈھائی ارب مسلمان اپنا فیصلہ خود کریں گے جبکہ اس یقینی فیصلے کی ’’ریڈ لائن‘‘ بھی ہم ابھی سے صدر ٹرمپ کو بتائے دیتے ہیں تا کہ کل کلاں وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ مجھے خبر نہیں تھی۔ خبر یہ ہے کہ اگر اہل غزہ کو سرزمین فلسطین سے نکالنے کی کوشش کی گئی تو اُس کے بدلے میں مسلم ممالک میں موجود تمام امریکی سفارت خانے ہدف ہوں گے، تمام عالم اسلام میں کوئی امریکی سفارت خانہ اِس حالت میں نہیں بچے گا کہ اُس پر امریکا کا جھنڈا لہرا سکے۔ بہرحال یہ اختیار اب صدر ٹرمپ کا ہے کہ وہ جو فیصلہ اور راستہ اختیار کریں؟

اے اللہ… مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔ آمین یا رب العالمین۔

متعلقہ مضامین

  • دعا ہے اللہ پاک عرب ممالک کو فلسطینیوں کے مستقبل کی حفاظت کی ہمت دے، طاہر اشرفی
  • روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں معمولی اضافہ
  • انٹر بینک مارکیٹ  میں ڈالر کی قدر بڑھ گئی
  • ریاستی درجے کی بحالی ایک بنیادی ضرورت ہے، رتن لال گپتا
  • ریاستی درجے کی بحالی ایک بنیادی ضرورت ہے، رہنما نیشنل کانفرنس
  • امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کا پلڑا بھاری
  • خطے میں شرانگیزی کے نتائج صرف فلسطین تک ہی محدود نہیں رہینگے، لبنانی صدر
  • ڈالر آج کتنا سستا ہوا ؟
  • غزہ پر قبضہ: امریکی سفارت خانے ہدف ہوں گے؟