طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حال ہی میں جاپان کا دورہ کیا ہے۔ یہ دورہ جاپان کی نیپون فاؤنڈیشن کی دعوت پر کیا گیا۔ اس دورے کو بین الاقوامی تجزیہ نگار سیاسی، سفارتی، اور انسانی پہلوؤں کے حوالے سے انتہائی اہمیت دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ طالبان کے اگست 2021 میں افغانستان پر برسر اقتدار آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ان کی جانب سے کسی ایسے ترقی یافتہ ملک کا دورہ کیا گیا ہے جو انہیں سرکاری حیثیت میں تسلیم بھی نہیں کرتا۔ اس صورتحال کے پیش نظر مبصرین کی جانب سے کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں مثلاً کیا یہ طالبان کو بین الاقوامی سطح پر قبول کروانے کی عالمی کوششوں کا حصہ ہے؟ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں عالمی اور علاقائی صورتحال پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ واضح رہے کہ طالبان حکومت کو اس وقت افغانستان میں شدید معاشی بحران اور انسانی امداد کی کمی کا سامنا ہے اور نیپون فاؤنڈیشن کے مطابق اس کی خواہش ہے کہ طالبان اپنے مسائل کے حل کے لیے عالمی برادری کی جانب سے انسانی امداد کی اہمیت کو محسوس کریں۔ بہر حال یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں طالبان بین الاقوامی امداد کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہوں تاکہ افغانستان کی معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔

اس وقت مغربی ممالک کی جانب سے طالبان حکومت پر انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم اور آزادی کے حوالے سے صورتحال بہتر بنانے کا مطالبہ شد ومد سے کیا جارہا ہے لہٰذا یہ قیاس آرائی بھی کی جارہی ہے کہ اس دورے کے ذریعے طالبان اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہوں تاکہ خود کو ایک ذمے دار حکومت کے طور پر پیش کر سکیں اور دنیا کو یہ پیغام دے سکیں کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔

طالبان حکام کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ افغانستان ترقی کرنے کے لیے جاپان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا خواہش مند ہے۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین جس بات کو سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں وہ دونوں ممالک کی حکومتی پالیسیوں کا نمایاں فرق ہے۔ روایت پسند افغانستان کی معاشرت اور جاپانی سوسائٹی کے خدو خال میں نمایاں فرق ہے جس کے اثرات نے جاپان کے ترقیاتی ماڈل کو تشکیل دیا ہے۔ جبکہ طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی اور سخت گیر پالیسیاں جاپانی ترقیاتی ماڈل سے یکسر برعکس ہے۔ اس ساری صورتحال میں یقینا یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا یہ دورہ افغانستان کی جانب سے کسی ترقیاتی ماڈل سے سیکھنے کی سنجیدہ کوشش ہے یا سفارتی تعلقات مضبوط کرنے کی حکمتِ عملی ہے دوسری جانب نیپون فاؤنڈیشن کی جانب سے دی جانے والی دعوت اور وہ بھی کسی ایسے ملک کے اعلیٰ سطحی وفد کو جسے حکومتی سطح پر تسلیم بھی نہیں کیا جاتا اپنے جلو میں کئی سوالات لیے ہوئے ہے۔ یہ دعوت حکومتی اجازت کے بغیر تو ممکن نہیں تھی جس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جاپان طالبان کے ساتھ روابط کیوں بڑھا رہا ہے؟ ایک جانب جاپان نے واضح کیا ہے کہ وہ طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا، لیکن دوسری جانب جاپانی وزارتِ خارجہ کے نمائندے کی طالبان وفد سے ملاقات ایک اہم سفارتی اشارہ سمجھا جارہا ہے۔ جس کا ایک ممکنہ مقصد جنوبی ایشیا میں ایک نئی سفارت کاری کا آغاز ہوسکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق جاپان امریکی اتحادی ہے اور خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اثر رسوخ خصوصاً اس کا روڈ اینڈ بیلٹ پروگرام امریکی عزائم کے خلاف ایک چیلنج سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب افغانستان اور بھارت کا رومانس کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور تیسری جانب بھارت کی کواڈ معاہدے میں چین کے خلاف صف بندی سے اس کہانی کے خدو خال واضح ہوتے نظر آرہے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ حکمت عملی زبان حال سے پکار رہی ہے کہ گزرتے وقت نے طالبان کو تبدیل کردیا ہے۔ غالباً یہ اسی تبدیلی کے اشارے ہیں کہ جاپانی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ وہ طالبان میں ’’مثبت تبدیلیاں‘‘ دیکھنا چاہتی ہے، خاص طور پر انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے جاپانی حکومت کے یہ اشارے ظاہر کر رہے ہیں کہ جاپان طالبان کے ساتھ روابط رکھ کر انہیں نرم پالیسیاں اپنانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مغربی ممالک اور خصوصاً امریکا اور یورپی اتحادی، طالبان سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک کا طالبان کے ساتھ براہِ راست تبادلہ خیال مغربی طاقتوں کے لیے تشویش کا باعث بن سکتا ہے اور انہیں جاپان کی سفارتی حکمت عملی پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ نظر آرہا ہے اس معاملے پر جاپان اور امریکا کسی فارمولے پر متفق ہوچکے ہیں۔ مزید برآں طالبان کی حکمت عملی بھی انتہائی دور رس اور دانش مندانہ نظر آتی ہے جس نے ایک بیلنس سفارت کاری کو اپناتے ہوئے چین اور روس سے بھی فوائد سمیٹے ہیں۔ یہ دونوں ممالک پہلے ہی طالبان کے ساتھ تعلقات بحال کر چکے ہیں اور افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگر جاپان بھی کسی حد تک طالبان سے روابط بڑھاتا ہے، تو اس سے علاقائی سفارتی توازن میں تبدیلی آ سکتی ہے اور طالبان کی عالمی سطح پر مزید قبولیت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

آئیں اب ایک نظر طالبان وفد کے دورہ جاپان کے ممکنہ نتائج پر بھی ڈال لیں۔ تجزیہ نگار اس دورے کو طالبان کے لیے ایک سفارتی موقع بتارہے ہیں جس کے ذریعے وہ خود کو ایک جائز حکومت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور بین الاقوامی برادری سے اقتصادی امداد حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر اس دورے کے نتیجے میں جاپان طالبان کے ساتھ کسی حد تک سفارتی تعلقات استوار کرتا ہے، تو یہ افغانستان میں جاپان کی جانب سے امدادی منصوبوں کے لیے راہ ہموار ہوسکتی ہے، بہر حال اب یہ دیکھنا اہم ہے کہ کیا جاپان اس ملاقات کو طالبان کو ایک وسیع تر سیاسی حل کی طرف راغب کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے یا نہیں۔ بظاہر تو عالمی برادری کی نظر میں طالبان کی پالیسیوں میں عملی تبدیلی کے بغیر کسی بھی سفارتی پیش رفت کو قبولیت نہیں ملے گی جو انسانی حقوق اور خواتین کی آزادی جیسے بنیادی مسائل سے مشروط ہے لیکن چین کے بڑھتے ہوئے اثر نفوذ کو سامنے رکھتے ہوئے واضح امکانات ہیں کہ جاپان اور مغربی ممالک عنقریب طالبان حکومت کو قبول کرلیں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: طالبان کے ساتھ افغانستان کی طالبان حکومت بین الاقوامی کی جانب سے طالبان کی کہ طالبان حوالے سے رہے ہیں ہیں اور ہے کہ ا ہیں کہ کے لیے ہے اور

پڑھیں:

وفاقی محتسب کا سفارتی برادری کو ٹیکس شکایات کے ازالے کے طریقہ کار پر بااختیار بنانے کے لیے سیمینار کا انعقاد

ایک تاریخی اقدام میں، وفاقی محتسب (ایف ٹی او) پاکستان نے اسلام آباد میں ایف ٹی او سیکرٹریٹ میں پہلی بار "سفارتی شکایات کے ازالے کا سیل” قائم کیا ہے۔ یہ تاریخی قدم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی شکایات کے ازالے کے سیل (او پی جی آر سی) کی کامیاب تشکیل کے بعد اٹھایا گیا ہے اور اس کا مقصد سفارت کاروں کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اہلکاروں کی جانب سے ٹیکس کی بدانتظامی سے متعلق مسائل کے حل کے لیے ایک وقف پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔سفارتی شکایات کے ازالے کے سیل کا باضابطہ افتتاح 11 اپریل 2025 کو ایف ٹی او سیکرٹریٹ میں ہوا۔

اس تقریب کی میزبانی جناب الماس علی جووندہ، سربراہ اوورسیز اینڈ ڈپلومیٹک گریوینس سیل، لیگل اینڈ میڈیا ایڈوائزر ٹو فیڈرل ٹیکس محتسب اور ایگزیکٹو سیکرٹری فورم آف پاکستان محتسب اور او آئی سی محتسب ایسوسی ایشن نے کی۔ اس اجلاس کی صدارت پینلسٹ ڈاکٹر جاہ وفاقی محتسب، مشیر کسٹمز ڈاکٹر ارسلان سبکتگین اور رجسٹرار محمد خالد جاوید نے کی۔ وفاقی محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ مہمان خصوصی اور کلیدی مقرر تھے۔ اپنے استقبالیہ خطاب میں ڈاکٹر جاہ نے سفارت کاروں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سہولت کاری کے لیے اپنی دیرینہ وابستگی پر زور دیا، چاہے وہ کسٹمز میں اپنے دور ملازمت میں ہو یا اب وفاقی محتسب کی حیثیت سے۔

انہوں نے سفارت خانوں کی جانب سے شکایات میں اضافے کو اجاگر کیا اور زور دیا کہ نیا سیل ان مسائل کے حل کے لیے ایک شفاف اور موثر پلیٹ فارم مہیا کرے گا۔ اس تقریب میں مختلف سفارت خانوں اور بین الاقوامی مشنز کے نمائندوں نے شرکت کی، جن میں آسٹرین سفارت خانہ: مائیکل ہوفباؤر، محمد اشرف خان، مملکت نیدرلینڈز کا سفارت خانہ: عدنان حیات، پیٹرا ڈی کوسٹر، آسٹریلوی ہائی کمیشن: اکیمی انوئے، یونان کا سفارت خانہ: ایلینی پاپاکونسٹنٹینو، سوئٹزرلینڈ کا سفارت خانہ: علی جعفری، یونس خان، اجوت ارسلان خان،جرمنی کا سفارت خانہ: کرسچن بیکر، آصف اقبال، یورپی یونین کا وفد: عمران حیدر، راجہ نسیم الرحمان، آندرے کونگز، پولینڈ کا سفارت خانہ: آرتر واچویاک شامل تھے۔ الماس علی جووندہ نے محتسب کے ادارے کے ارتقاء پر ایک بصیرت افروز پریزنٹیشن دی—جس کی جڑیں خلیفہ عمر (رضی اللہ عنہ) تک جاتی ہیں، 1713 میں سویڈن کے بادشاہ چارلس XII کی جانب سے ادارہ سازی، اور 1809 میں اس کی جدید شکل کا قیام۔ آج، محتسب کے ادارے 140 سے زائد ممالک میں کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ سفارتی شکایات کے ازالے کا سیل سفارتی مشنز اور بین الاقوامی تنظیموں کی ٹیکس سے متعلق شکایات کے حل کے لیے ایک وقف طریقہ کار ہے۔ اس اقدام کا مقصد سفارتی برادری کے اندر اعتماد اور یقین کو فروغ دینا،شکایات کے ازالے میں شفافیت کو بڑھانا، وقف رابطہ افسران فراہم کرنا، ترجیحی حل کو یقینی بنانا، اور شفاف اپ ڈیٹس پیش کرنا ہے۔مشیر کسٹمز ڈاکٹر ارسلان سبکتگین نے کسٹمز ایکٹ کے تحت ان دفعات کا خاکہ پیش کیا جو سفارت کاروں کو دو ڈیوٹی فری گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیتی ہیں، جن کی شرائط یہ ہیں پہلی گاڑی ذاتی استعمال کے لیے ڈیوٹی فری ہے۔

دوسری گاڑی کی اجازت اس صورت میں ہے جب شریک حیات کے پاس پاکستان میں سفارتی کارڈ ہو۔ کسی بھی گاڑی کو ضائع کرنے کے لیے وزارت خارجہ کی منظوری درکار ہے۔دو سال کے اندر فروخت کی جانے والی گاڑیوں پر مکمل ڈیوٹی عائد ہوتی ہے۔ دو سال سے زائد عرصے میں، 1% ماہانہ فرسودگی (50% تک) لاگو ہوتی ہے۔
ایف ٹی او رجسٹرار محمد خالد جاوید، جن کے پاس ٹیکس کا وسیع تجربہ ہے، نے وضاحت کی کہ سفارت کار ایس ٹی آر-12 اجازت نامے کے ذریعے اشیا/خدمات پر زیرو ریٹڈ سیلز ٹیکس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

 

کم از کم 10,000 روپے کی خریداری اور وزارت خارجہ سے استثنیٰ سرٹیفکیٹ درکار ہے۔غلطی سے ٹیکس کی ادائیگی کی صورت میں، ریفنڈ کے دعوے وزارت کے ذریعے بھیجے جا سکتے ہیں۔فیڈرل ایکسائز ایکٹ، 2005 کے تحت، سفارت کار مشروط طور پر درآمدات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) سے مستثنیٰ ہیں، جو متعلقہ تعمیل سے مشروط ہے۔اس تقریب کا اختتام سوال و جواب کے سیشن پر ہوا۔ سفارت کاروں کو تحریری طور پر سوالات جمع کرانے کی دعوت دی گئی۔ شرکاء کو ایف ٹی او کی جانب سے حال ہی میں شائع کردہ "ٹیکس دہندگان کے حقوق پر مبنی دستی” بھی فراہم کی گئی۔الماس جووندہ نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور سفارتی شکایات کو موثر طریقے سے حل کرنے کے لیے ایف ٹی او کے عزم کا اعادہ کیا۔ شرکاء میں شرکت کے سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کیے گئے۔ایف ٹی او ڈاکٹر جاہ نے اجلاس کا اختتام ایک عملی اقدام کی دعوت کے ساتھ کیا:”ہم تمام سفارت کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنی شکایات کے ساتھ ہم سے رجوع کریں۔ ہم آپ کے حقوق کے تحفظ اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ ٹیکس حکام کی جانب سے کسی بھی قسم کی ہراسانی کا ازالہ کیا جائے۔”

اشتہار

متعلقہ مضامین

  • جعفر ایکسپریس پر حملے میں امریکا کی جانب سے افغانستان کو دیا گیا اسلحہ استعمال ہونے کی تصدیق
  • افغانستان؛ مسجد کے قریب بم دھماکے میں خاتون جاں بحق اور 3 افراد زخمی
  • نواز شریف سیاست سے نکلے کب تھے؟ وہ پوری طرح متحرک ہیں، اسحاق ڈار
  • نواز شریف سیاست میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں، اسحاق ڈار
  • وفاقی محتسب کا سفارتی برادری کو ٹیکس شکایات کے ازالے کے طریقہ کار پر بااختیار بنانے کے لیے سیمینار کا انعقاد
  • سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
  • طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
  • لیہ، ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کے صدر علامہ اقتدار نقوی کا دورہ لیہ، مرکزی کنونشن کی دعوت دی 
  • ایران میں 8 پاکستانی کار مکینکس قتل
  • امریکی ارکان کانگریس کا تین رکنی وفد اسلام آباد پہنچ گیا