طالبان وفد کا دورہ جاپان، جنوبی ایشیا کی سیاست میں نیا موڑ؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے حال ہی میں جاپان کا دورہ کیا ہے۔ یہ دورہ جاپان کی نیپون فاؤنڈیشن کی دعوت پر کیا گیا۔ اس دورے کو بین الاقوامی تجزیہ نگار سیاسی، سفارتی، اور انسانی پہلوؤں کے حوالے سے انتہائی اہمیت دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ طالبان کے اگست 2021 میں افغانستان پر برسر اقتدار آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ان کی جانب سے کسی ایسے ترقی یافتہ ملک کا دورہ کیا گیا ہے جو انہیں سرکاری حیثیت میں تسلیم بھی نہیں کرتا۔ اس صورتحال کے پیش نظر مبصرین کی جانب سے کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں مثلاً کیا یہ طالبان کو بین الاقوامی سطح پر قبول کروانے کی عالمی کوششوں کا حصہ ہے؟ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں عالمی اور علاقائی صورتحال پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ واضح رہے کہ طالبان حکومت کو اس وقت افغانستان میں شدید معاشی بحران اور انسانی امداد کی کمی کا سامنا ہے اور نیپون فاؤنڈیشن کے مطابق اس کی خواہش ہے کہ طالبان اپنے مسائل کے حل کے لیے عالمی برادری کی جانب سے انسانی امداد کی اہمیت کو محسوس کریں۔ بہر حال یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں طالبان بین الاقوامی امداد کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہوں تاکہ افغانستان کی معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔
اس وقت مغربی ممالک کی جانب سے طالبان حکومت پر انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم اور آزادی کے حوالے سے صورتحال بہتر بنانے کا مطالبہ شد ومد سے کیا جارہا ہے لہٰذا یہ قیاس آرائی بھی کی جارہی ہے کہ اس دورے کے ذریعے طالبان اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہوں تاکہ خود کو ایک ذمے دار حکومت کے طور پر پیش کر سکیں اور دنیا کو یہ پیغام دے سکیں کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔
طالبان حکام کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ افغانستان ترقی کرنے کے لیے جاپان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا خواہش مند ہے۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین جس بات کو سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں وہ دونوں ممالک کی حکومتی پالیسیوں کا نمایاں فرق ہے۔ روایت پسند افغانستان کی معاشرت اور جاپانی سوسائٹی کے خدو خال میں نمایاں فرق ہے جس کے اثرات نے جاپان کے ترقیاتی ماڈل کو تشکیل دیا ہے۔ جبکہ طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی اور سخت گیر پالیسیاں جاپانی ترقیاتی ماڈل سے یکسر برعکس ہے۔ اس ساری صورتحال میں یقینا یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا یہ دورہ افغانستان کی جانب سے کسی ترقیاتی ماڈل سے سیکھنے کی سنجیدہ کوشش ہے یا سفارتی تعلقات مضبوط کرنے کی حکمتِ عملی ہے دوسری جانب نیپون فاؤنڈیشن کی جانب سے دی جانے والی دعوت اور وہ بھی کسی ایسے ملک کے اعلیٰ سطحی وفد کو جسے حکومتی سطح پر تسلیم بھی نہیں کیا جاتا اپنے جلو میں کئی سوالات لیے ہوئے ہے۔ یہ دعوت حکومتی اجازت کے بغیر تو ممکن نہیں تھی جس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جاپان طالبان کے ساتھ روابط کیوں بڑھا رہا ہے؟ ایک جانب جاپان نے واضح کیا ہے کہ وہ طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا، لیکن دوسری جانب جاپانی وزارتِ خارجہ کے نمائندے کی طالبان وفد سے ملاقات ایک اہم سفارتی اشارہ سمجھا جارہا ہے۔ جس کا ایک ممکنہ مقصد جنوبی ایشیا میں ایک نئی سفارت کاری کا آغاز ہوسکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق جاپان امریکی اتحادی ہے اور خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اثر رسوخ خصوصاً اس کا روڈ اینڈ بیلٹ پروگرام امریکی عزائم کے خلاف ایک چیلنج سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب افغانستان اور بھارت کا رومانس کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور تیسری جانب بھارت کی کواڈ معاہدے میں چین کے خلاف صف بندی سے اس کہانی کے خدو خال واضح ہوتے نظر آرہے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ حکمت عملی زبان حال سے پکار رہی ہے کہ گزرتے وقت نے طالبان کو تبدیل کردیا ہے۔ غالباً یہ اسی تبدیلی کے اشارے ہیں کہ جاپانی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ وہ طالبان میں ’’مثبت تبدیلیاں‘‘ دیکھنا چاہتی ہے، خاص طور پر انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے جاپانی حکومت کے یہ اشارے ظاہر کر رہے ہیں کہ جاپان طالبان کے ساتھ روابط رکھ کر انہیں نرم پالیسیاں اپنانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مغربی ممالک اور خصوصاً امریکا اور یورپی اتحادی، طالبان سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک کا طالبان کے ساتھ براہِ راست تبادلہ خیال مغربی طاقتوں کے لیے تشویش کا باعث بن سکتا ہے اور انہیں جاپان کی سفارتی حکمت عملی پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ نظر آرہا ہے اس معاملے پر جاپان اور امریکا کسی فارمولے پر متفق ہوچکے ہیں۔ مزید برآں طالبان کی حکمت عملی بھی انتہائی دور رس اور دانش مندانہ نظر آتی ہے جس نے ایک بیلنس سفارت کاری کو اپناتے ہوئے چین اور روس سے بھی فوائد سمیٹے ہیں۔ یہ دونوں ممالک پہلے ہی طالبان کے ساتھ تعلقات بحال کر چکے ہیں اور افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگر جاپان بھی کسی حد تک طالبان سے روابط بڑھاتا ہے، تو اس سے علاقائی سفارتی توازن میں تبدیلی آ سکتی ہے اور طالبان کی عالمی سطح پر مزید قبولیت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
آئیں اب ایک نظر طالبان وفد کے دورہ جاپان کے ممکنہ نتائج پر بھی ڈال لیں۔ تجزیہ نگار اس دورے کو طالبان کے لیے ایک سفارتی موقع بتارہے ہیں جس کے ذریعے وہ خود کو ایک جائز حکومت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور بین الاقوامی برادری سے اقتصادی امداد حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر اس دورے کے نتیجے میں جاپان طالبان کے ساتھ کسی حد تک سفارتی تعلقات استوار کرتا ہے، تو یہ افغانستان میں جاپان کی جانب سے امدادی منصوبوں کے لیے راہ ہموار ہوسکتی ہے، بہر حال اب یہ دیکھنا اہم ہے کہ کیا جاپان اس ملاقات کو طالبان کو ایک وسیع تر سیاسی حل کی طرف راغب کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے یا نہیں۔ بظاہر تو عالمی برادری کی نظر میں طالبان کی پالیسیوں میں عملی تبدیلی کے بغیر کسی بھی سفارتی پیش رفت کو قبولیت نہیں ملے گی جو انسانی حقوق اور خواتین کی آزادی جیسے بنیادی مسائل سے مشروط ہے لیکن چین کے بڑھتے ہوئے اثر نفوذ کو سامنے رکھتے ہوئے واضح امکانات ہیں کہ جاپان اور مغربی ممالک عنقریب طالبان حکومت کو قبول کرلیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: طالبان کے ساتھ افغانستان کی طالبان حکومت بین الاقوامی کی جانب سے طالبان کی کہ طالبان حوالے سے رہے ہیں ہیں اور ہے کہ ا ہیں کہ کے لیے ہے اور
پڑھیں:
چیمپئنز ٹرافی: جنوبی افریقا کی شاندار فتح، افغانستان کو 107 رنز سے شکست
کراچی:انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ( آئی سی سی) چیمپئنز ٹرافی کے تیسرے میچ میں جنوبی افریقا نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کو 107 رنز سے شکست دے دی۔
تفصیلات کے مطابق نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلے گئے گروپ بی کے پہلے میچ میں جنوبی افریقا نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 315 رنز کا بڑا ٹارگٹ بناکرمخالف کو مشکل میں ڈال دیا۔
جنوبی افریقہ نے پروٹیز کی شاندار بیٹنگ کی، رائن رکلٹن نے شاندار 103 رنز کی اننگز کھیلی، کپتان ٹیمبا بووما نے 58 رنز بنائے، اسی طرح ???? راسی وان ڈیر ڈوسن نے 52 رنز کی ذمہ دارانہ اننگز کھیلی جبکہ ???? ایڈن مارکرم 52 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔
افغانستان کی جانب سے محمد نبی نے 2 وکٹیں حاصل کیں جبکہ فضل حق فاروقی، عظمت اللہ عمر زئی اور نور احمد نے 1، 1 کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔
316 رنز کے تعاقب میں افغانستان کی ٹیم 44 ویں اوور میں 208 رنز پر ڈھیر ہوگئی، رحمت شاہ 90 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر نمایاں رہے، تاہم کوئی دوسرا بلے باز خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکا، راشد خان اور عظمت اللہ عمر زئی نے 18، 18 رنز بنائے، ????رحمان اللہ گربز 10، نور احمد 9 جبکہ کپتان حشمت اللہ شاہدی بغیر کوئی رن بنائے آؤٹ ہوگئے۔
پروٹیز کے باؤلرز نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے افغانستان کی بیٹنگ لائن کو بے بس کردیا، کیگیسو رباڈا نے 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، اسی طرح وائین ملڈر اور لُنگی اینگیڈی نے 2، 2 وکٹیں حاصل کیں جبکہ مارکو جینسن اور کیشو مہاراج نے 1، 1 وکٹ اپنے نام کی۔
جنوبی افریقا کی اس فتح کے بعد ان کے سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات مزید روشن ہوگئے ہیں، جبکہ افغانستان کو اگلے مرحلے میں جگہ بنانے کے لیے مزید محنت کرنا ہوگی۔