Jasarat News:
2025-02-22@01:23:18 GMT

خط نہیں ملا

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

خط نہیں ملا

ہم پہلے بھی ایک کالم میں عمران خان کے اس خط کا ذکر کرچکے ہیں جو انہوں نے آرمی چیف سید عاصم منیر کو بھیجا تھا جس کا سوشل میڈیا پر تو بہت ذکر ہوا۔ میڈیا میں خط کا متن بھی شائع اور نشر کیا گیا لیکن سیکورٹی ذرائع نے میڈیا کو بتایا کہ ایسا کوئی خط آرمی چیف کو نہیں ملا۔ بات یہیں ختم ہوجانی چاہیے تھی لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ میڈیا والے بال کی کھال اُتارنے میں لگے رہتے ہیں۔ ایک تقریب میں آرمی چیف کے ساتھ ان کا ٹاکرا ہوگیا تو وہ یہی سوال محترم جنرل عاصم منیر سے کر بیٹھے۔ انہوں نے چونک کر اخبار نویسوں کو دیکھا اور کہا کہ مجھے کوئی خط نہیں ملا پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مجھے کوئی خط ملا بھی تو میں اُسے پڑھے بغیر وزیراعظم کو بھیجوں گا۔ اس جواب سے ہمیں شک ہورہا ہے کہ ممکن ہے کہ خان صاحب نے خط بذریعہ ڈاک ارسال کیا ہو۔ عمران خان اس وقت اڈیالہ جیل میں نظر بند ہیں اور جیل سے خط و کتابت جیل سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ خان صاحب نے خط جیل سپرنٹنڈنٹ کو دیا ہو کہ اسے سپرد ڈاک کردیا جائے لیکن اس نے اپنے اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے روک لیا ہو۔ اس لیے آرمی چیف کو یہ کہنا پڑا کہ انہیں خط نہیں ملا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خط کی اہمیت کے پیش نظر خان صاحب نے یہ خط کسی نامہ بریا قاصد کے ذریعے بھیجا ہو۔ آرمی چیف تک کسی کا پہنچنا اتنا آسان نہیں۔ اسے سیکورٹی کے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور باقاعدہ تلاشی بھی دینا پڑتی ہے۔ اس حوالے سے غالبؔ نے کہا ہے

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو اگر
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

ہمارا خیال ہے کہ خان صاحب نے جس نامہ بر کے ذریعے خط بھیجا تھا اُسے سیکورٹی گارڈ نے دھرلیا ہوگا اور پوچھا ہوگا کدھر جارہے ہو اور تمہاری مٹھی میں کیا ہے۔ یہ تو انتہائی راز داری کا معاملہ تھا وہ بیچارا کیا بتاتا۔ چنانچہ سیکورٹی گارڈ نے اُسے پکڑ کر آئی ایس آئی کے حوالے کردیا ہوگا۔ یہ لکھتے ہوئے ہمیں خیال آیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کئی دنوں سے مفقود الخبر ہیں کہیں وہ نہ دھر لیے گئے ہوں۔ ہم نے ایک دوست سے اس خدشے کا اظہار کیا تو وہ ہنسے اور کہنے لگے ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی کی واحد شخصیت ہیں جن پر آج تک نہ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ انہیں کبھی پکڑا گیا ہے۔ ان کی آرمی چیف سے بھی علیک سلیک ہے اور وزیرداخلہ محسن نقوی سے بھی یارانہ ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں اور دونوں فریق ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی خط لے جاتے ہوئے پکڑا گیا ہے تو وہ کوئی اور یوتھیا ہوگا۔ خان صاحب بھی ضد کے پکے ہیں خط ملے نہ ملے وہ مسلسل لکھے جارہے ہیں۔

بہرکیف خط ڈاک کے ذریعے بھیجنے کا معاملہ ہو یا نامہ بر کے ذریعے۔ دونوں صورتوں میں خط مکتوب الیہ تک نہیں پہنچا۔ آرمی چیف نے اس کا برملا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ خط ملا بھی تو وہ اسے پڑھے بغیر وزیراعظم کو بھیج دیں گے۔ تجزیہ کاروں نے اس سے دو نتیجے اخذ کیے ہیں ایک یہ کہ وہ عمران خان کو نہایت اہم سیاسی لیڈر سمجھتے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی یہ نہ کہتے کہ وہ مبینہ خط وزیراعظم کو بھیج دیں گے جو ریاست کی اعلیٰ ترین آئینی سیاسی شخصیت ہیں، بصورت دیگر وہ اگر عمران خان کو گھاس نہ ڈالتے تو یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اگر خط ملا تو وہ اُسے اپنے کسی اردلی کے حوالے کردیں گے وہ جانے اس کا کام۔ رہا یہ معاملہ کہ آرمی چیف نے مبینہ خط پڑھنے سے انکار کیا ہے تو اس کی واحد وجہ ان کا آئینی حلف ہے جو ان کے لیے سیاست کو شجر ِ ممنوع قرار دیتا ہے۔ وہ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد سے اب تک مسلسل اپنے حلف کی پاسداری کررہے ہیں ان پر یہ بیہودہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے 8 فروری 2024ء کے انتخابات ہائی جیک کرلیے تھے اور پی ٹی آئی کو اس کے عوامی مینڈیٹ سے محروم کردیا تھا حالانکہ اس الزام کی حقیقت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک آزاد و خود مختار ادارہ کی حیثیت سے انتخابی نتائج مرتب کیے تھے اور علامہ اقبال کے اس فرمان سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے نیا تجربہ کیا تھا۔

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

چنانچہ الیکشن کمیشن نے گنتی کے بجائے تولنے کا فارمولا اپنایا اور جو امیدوار تول میں بھاری تھے ان کی کامیابی کا اعلان کردیا۔ یہ تجربہ اگرچہ نیا تھا لیکن کامیاب رہا اور ملک میں ایک ’’منتخب نمائندہ جمہوری حکومت‘‘ قائم ہوگئی جو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے، اگرچہ اس میں کچھ ’’ترقی معکوس‘‘ کے اعداد و شمار بھی شامل ہیں، مثلاً ایک عالمی ادارے نے بتایا ہے کہ پاکستان نے کرپشن میں دو درجے مزید ترقی کرلی ہے اور کرپٹ ممالک میں چالیسویں درجے کے بجائے 38 ویں درجے میں پہنچ گیا ہے۔ لیکن وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے کے لیے شفافیت کا نظام لانے میں کوشاں ہیں جو کرپشن کا جڑ سے خاتمہ کردے گا۔ اسی طرح عالمی بینک نے ایک مایوس کن رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا ہے کہ پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی ہے۔ اس رپورٹ کا تدارک کرنے کے لیے بھی وزیراعظم رات دن ایک کررہے ہیں، انہوں نے ’’اُڑان پاکستان‘‘ پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت ہزاروں سرکاری ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے نکالا جاچکا ہے متعدد وزارتیں بند کردی گئی ہیں۔ حال ہی میں یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ہزاروں ملازمین فارغ کیے گئے ہیں اس طرح ملک میں خوشحالی آئے گی اور غربت میں کمی واقع ہوگی۔

اندریں حالات ملک میں سیاسی عدم استحکام کا واویلا بھی بے بنیاد ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے دماغ اور عظیم دانشور جناب عرفان صدیقی کے یہ جملے آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں جو انہوں نے تازہ کالم میں ارشاد فرمائے ہیں ’’الحمدللہ پاکستان نہ عدم استحکام کا شکار ہے نہ مسلمہ سیاسی لغت کے مطابق یہاں کوئی سیاسی بحران ہے۔ معمولات ریاست مضبوط ادارہ جاتی نظم کے ساتھ مستقیم راہوں پر چل رہے ہیں، اقتصادی اشاریوں میں مسلسل بہتری آرہی ہے‘‘۔ ہم عرفان صدیقی صاحب کے اس ارشاد کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ اقتصادی اشاریوں میں بہتری کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کروڑ پتی اور ارب پتی ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 200 فی صد تک اضافہ کردیا گیا ہے، جبکہ آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی 5 فی صد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ اقتصادی شرح بہتر ہوئی ہے تو حکومت یہ اللے تللے کررہی ہے۔

نوٹ۔ قارئین اس کالم کو غیر سیاسی ذہن کے ساتھ کھلے دل سے پڑھیں اور اس میں سیاسی ہیرا پھیری تلاش نہ کریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا رمی چیف کے ذریعے انہوں نے نہیں ملا ہے اور کیا ہے گیا ہے

پڑھیں:

وزیرِ اعظم نے پی ٹی آئی کو فلور آف دی ہائوس مذاکرات کی آفر کی: رانا ثنااللہ

وزیرِ اعظم کے مشیرِ سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے بانی پی ٹی آئی کو کوئی آفر نہیں کی گئی، ہم نے کبھی بھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا، ہم سیاسی استحکام پیدا کرنے چاہتے ہیں، تمام تر توجہ سیاسی استحکام پر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کہہ چکے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بات کرنے کے لئے تیار ہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں، این آر او اور ریلیف لینا چاہتے ہیں۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو کس نے آفر کی، آج تک وہ نام تو بتا نہیں سکے، پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت ضرور دی تھی، جمہوریت میں ڈائیلاگ سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں، ڈیل، رہائی یا کیسز ختم کرنے کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کے طریقے آئین و قانون میں ہیں اس کے مطابق احتجاج کریں، ملک دوبارہ اب پائوں پر کھڑا ہو رہا ہے، اس دوران کوئی بحرانی کیفیت نہیں پیدا کرنی چاہیے۔مسلم لیگ(ن) پنجاب کے صدرنے کہا کہ پی ٹی آئی کو ایسے ہتھکنڈوں کی اجازت نہیں دی جائے گی، نہ انہیں اپنانے چاہئیں، وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کو فلور آف دی ہائوس مذاکرات کی آفر کی۔انہوں نے کہا کہ ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں سرجوڑ کر بیٹھیں، ہم نے کبھی بھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا، ہم سیاسی استحکام پیدا کرنے چاہتے ہیں، تمام تر توجہ سیاسی استحکام پر ہے۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ سیاسی استحکام ہو گا تو ملک معاشی استحکام کی طرف جائے گا، معاشی استحکام ہو گا تو عام آدمی کے حالات بہتر ہوں گے، روزگار ملے گا، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ 26ویں ترمیم درست نہیں تو عدالت سے رجوع کرے اور پارلیمنٹ میں کوشش کرے۔

متعلقہ مضامین

  • ایک سیاسی جماعت لاکھوں ڈالر لگاکر ملک کیخلاف مہم چلارہی ہے، مصدق ملک
  • عمران خان فوج کو اپنی پارٹی کا ذیلی ادارہ بنانا چاہتے ہیں: وزیر دفاع
  • جرمنی میں آباد پاکستانیوں کو اپنا سماجی رویہ بدلنا ہو گا، کومل ملک
  • وزیرِ اعظم نے پی ٹی آئی کو فلور آف دی ہائوس مذاکرات کی آفر کی: رانا ثنااللہ
  • عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے این آر او لینا چاہتے ہیں: رانا ثنااللہ
  • حکومت کی طرف سے عمران خان کو کوئی آفر نہیں کی گئی: رانا ثناء اللہ
  • حکومت کی طرف سے عمران خان کو کوئی آفر نہیں کی گئی: رانا ثناء اللّٰہ
  • سیاسی استحکام
  • ٹریفک حادثات پر آل پارٹیز کانفرنس، ڈمپرز حادثات پر کمیشن بنانے کا مطالبہ