کراچی (رپورٹ: حماد حسین) ہمارا نصاب اصل ہیروز کے ذکر سے خالی ہے چاہے وہ شاعر ہوں۔ ادیب ہو ں یا سائنسدان۔ نہ اسلاف کی باتیں اور نہ ہی کردار سازی کے لیے دانشوراور ادیب ہیں۔کسی سماج میں تعلیم یافتہ افراد یعنی دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور سائنسدانوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور انہیں نوجوان نسل اپنا ہیرو یا رول ماڈل قرار دینے سے قاصر نظر آتی ہے تو یقیناً یہ معاشرتی تنزلی کی ایک واضح دلیل ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈائریکٹر انٹر نیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیو لوجیکل سائنسز، جامعہ کراچی، یونیسکو چیئر ہولڈر اور ہلالِ امتیازپروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چودھری، وفاقی اردو یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں شعبہ تدریس سے 20سال سے وابستہ سلمیٰ نذیر، فثانوی تعلیمی بورڈ کے سابق رکن عباس بلوچ، جامعہ کراچی کی شعبہ اردو کی اسسٹنٹ پروفیسر،شاعرہ اور مصنفہ ڈاکٹر شمع افروز اور نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹ کی
کو چیئرپرسن ہما بخاری نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چودھری کا کہنا تھا کہ ا گر کسی سماج میں علم یافتہ افراد یعنی دانشورں، شاعروں، ادیبوں اور سائنسدانوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور انہیں نوجوان نسل اپنا ہیرو یا رول ماڈل قرار دینے سے قاصر نظر آتی ہے تویہ یقینا معاشرتی تنزلی کی ایک واضح دلیل ہے۔ پاکستان میں موجودہ نئی نسل زیادہ تر اداکاروں، گلو گاروں اور کھلاڑیوں کو ہی اپنا رول ماڈل تصور رکرتی ہے۔ اگر ہم 30،40سال پہلے تک کا پاکستانی سماج دیکھیں تو ہمیں شاعر، ادیب، دانشور، فلسفی، سائنسدان، خطیب، علما معاشرے میں رول ماڈل کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب پاکستان میں کسی شاعر یا لکھاری کی کتاب کی اشاعت ہزاروں کی تعداد میں ہوتی تھی کیونکہ سماج میں کتب بینی کی ثقافت عام تھی، لوگوں کے گھروں میں چھوٹے بڑے ذاتی کتب خانے ہوتے تھے، نوجوانوں میں ڈائجسٹ اور ناول پڑھنے کا رجحان بہت زیاد ہ عام تھا، یہ وہ دور تھا جب ایک ہی سرکاری چینل ہوا کرتا تھا جس پر بہرحا ل شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، فلسفیوں، سائنسدانوں، خطبا اور علما کو نہ صرف ہیرو بناکر پیش کیا جاتا تھا لیکن آج صورتِ حال بالکل برعکس ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو وہ پہلے کے مقابلے میں بہت ترقی کرچکا ہے، ایک چینل کے بجا ئے سیکڑوں چینل موجود ہیں لیکن اْن چینلوں پر اب علم یافتہ لوگ کم ہی نظر آتے ہیں، ٹاک شوزکے نام پر چیخ پکار سنائی دیتی ہے، کھیل کود، ناچ گانااور غیر معیاری ڈراموں کا زور نظر آتا ہے۔ نجی چینلوں پرجو مرد و زن میزبانی کے فرائض انجام دیتے ہیں اْن کا یہ حال ہوتا ہے کہ نہ وہ مکمل طور پر صحیح اْردو بولنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی صحیح انگریزی بول سکتے ہیں، دوسری طرف ہماری نوجوان نسل ہے جو انگریری سے بے انتہا متاثر نظر آتی ہے، حال یہ ہے کہ نوجوان غلط اْردو بولنے پر فخر اور غلط انگریزی بولنے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ اب اس المناک سماجی صورتحال میں اور ایک جہل زدہ معاشرے میں لوگ کس طرح سے دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور سائنسدانوں کو اپنا ہیرو قرار دے سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا، دانشور اور والدین نوجوانوں کی تربیت پر خصوصی دھیان دیں اور انہیں حقیقی عالموں اور دانشوروں کے کارناموں سے آگاہ کریں۔ ثانوی تعلیمی بورڈ کے سابق رکن عباس بلوچ کا کہنا تھا کہ اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ’’وقت کی ضرورت ہے کہ خود کو متنازع شخصیت نہ بنایا جائے‘‘ کیونکہ جوحال ہماری تاریخ میں ادیبوں اور شاعروں اور سائنسدانوں کا ہے اس سے کوئی بھی والدین نہیں چاہیں گے کہ ان کی اولاد اس طرف راغب ہوں اور محنت کرنے کے باوجود وہ اپنی شخصیت کو متنازع بنا دیں۔ علامہ اقبال نے شکوہ لکھا تو دین کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے ان پر کفر کے فتوے لگائے جب جواب شکوہ لکھا تو پھر یہاں کوئی نہیں بولا۔ جمہوریت کے لیے فراز صاحب نے اپنی آواز، اس پر کتاب لکھی لیکن نہ صرف ان کو جیل میں ڈال دیا گیا بلکہ ان کے بچوں کو نظر بند کر دیا گیا۔ اسی طرح طارق عزیز نے بھی جمہوریت کے لیے آواز اٹھائی، وہ بھٹو صاحب کے مشن حامی تھے تو ان کے اوپر بھی بہت سی پابندیاں لگا دی گئیں اور ان کو بھی متنازع بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب جو پوری دنیا میں ایک مثالی انسان ہیں اور انہی کی بدولت آج ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا آپ نے دیکھ لیا، ان کو بھی نظر بند کیا گیا۔ کسی بھی قوم کا اثاثہ اساتذہ اور ڈاکٹر ہوتے ہیں لیکن افسوس ہمارے ملک میں ان کا برا حال ہے، آئے دن اساتذہ اور ڈاکٹر اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کے لوگ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ وہ بھی ان لوگوں کی طرح بنیں اور اتنی محنت کے بعد اپنی شخصیت کو متنازع بنا دیں۔ جب ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھتے ہیں تو ہمیں بخوبی نظر آتا ہے کہ بہت کم وقت میں کون سے لوگ ہیں جو کامیابی کی بلندیوں کو چھو جاتے ہیں راتوں رات بہت کم محنت کرکے نہ صرف عزت و شہرت پاتے ہیں بلکہ وہ معاشی طور پر بھی مضبوط ہو جاتے ہیں۔ دنیا کی تمام آسائشیں ان کے پاس ہوتی ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اداکار، گلوکار، فنکار،کرکٹرز یہ وہ لوگ ہیں جو بہت کم وقت کے اندر بہت کم محنت کرکے کامیابی کی بلندیوں کو چھو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج لوگ شاعر ادیب اور سائنسدان نہیں بننا چاہتے۔ آج بچوں سے پوچھیں بانو قدسیہ کا، اشفاق احمد ،مستنصر حسین تارڑ صاحب، فیض احمد فیض پروین شاکر، امجد سلام امجد، منیر نیازی، احسان دانش، حفیظ جالندھری کا،یہ سب آج کے دور میں بہت گمنام ہو چکے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب، ڈاکٹر عبدالسلام،ثمر مبارک، عطاء الرحمن تک کو کوئی نہیں جانتا۔ ہماری سوچ کے ڈھانچے جیسے ہوں گے ویسی ہی سوچ نکلنا شروع ہو جاتی ہے، قائداعظم، علامہ اقبال، سرسید احمد خان وہ لوگ ہیں جو آئیڈیل ہوا کرتے تھے لیکن لوگ شاید یہ نام سن سن کر تھک گئے ہیں نئے چہروں کی شدید ضرورت ہے جو مثالی کردار ادا کریں۔ سلمیٰ نذیر کا کہنا تھا کہ یہ ہماری قوم کے لیے لمحہ فکرہے اور خاص طور پر اس لیے کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔ انسانی فطرت کے لحاظ سے ہر وہ چیز جو سامنے ہو متحرک ہو اپنا اثر رکھتی ہے اگر وہ چیز بار بار سامنے ہو اور متحرک اور متاثرکرنے والی ہو تو اثر دیرپا ہوگا۔ ذہن اس کے اثرات کو قبول کر تا ہے۔تو پھر اس جیسا بننا چاہتا ہے۔اب اگر غور کیا جائے تو ہمارے اداکار،گلوکار،کھلاڑی ہر طرف متحرک ہیں اور اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل جو بھی چینل استعمال کر رہی ہے ان سب میں صرف یہ ہی لوگ مثلاً ٹی وی،یو ٹیوب،انسٹاگرام میں ان تمام کے اکاؤنٹ بھی ہیں۔ اب ذرا تصویر کادوسرا رخ دیکھیے کیا ہمارے شاعر،ادیب،سائنسدان اور دانشور کہیں موجود ہیں اور وہ اثر انداز ہورہے ہیں۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے نصاب ہی ہمارے اصل ہیروز کے ذکر سے خالی ہے چاہے وہ شاعر ہو۔ ادیب ہو یا سائنسدان، نہ اسلاف کی باتیں اور نہ ہی کرداد سازی کے لیے دانشوراور ادیب ہیں۔ ایسے حالات میں ان کے کردار کے اثرات کیسے ہماری نوجوان نسل تک منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی شاعر ادیب دانشوروں اور سائنس دانوں کا ذکر نہیں کرتا بلکہ ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ جہاں تک تعلیمی اداروں کا ذکر ہے تو افسوس کا مقام ہے کہ دور حاضر کے اساتذہ بھی شاعر ادیب اور سائنس دانوں کے نہ تو ناموں سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کے کارناموں سے واقف ہیں۔ پھر حکومتی سطح پر بھی انہیں اداکاروں،گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو نوازا جاتا ہے۔ یہاں تک کے 14 اگست اور 6 ستمبر کے پروگرامات میں بھی نمائندگی ان ہی لوگوں کی ہے۔ اب اس صورتحال میں کس طرح کوئی شاعر،ادیب دانشور یا سائنسدان ہیرو بن سکتا ہے۔ ہما بخاری کا کہنا تھا کہ بقول شاعر آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی گئی جس نے خود اسے بہتر کرنے کا نہ سوچا ہو- اقوام کی ترقی کا دارومدار اچھی تعلیم وبہترین تربیت ہے۔ تعلیم بہترین سوچ کے ساتھ مرتب کیے گئے نصاب کے ذریعے اور تربیت بہترین مثالوں کے ذریعے کی جائے تو پسماندہ سے ترقی یافتہ کا سفر باآسانی طے ہوجاتا ہے۔ آج اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم اس سفر میں بہت پیچھے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے تعلیم کے اس پہلو کو قطعاً نظر انداز کردیا ہے جو ہمیں ہماری ثقافت سے جوڑ دے۔ ہمیں ان مثالی شخصیات سے روشناس کرائے جنہوں نے اس سرزمین کو دنیا بھر میں منوایا ہے۔ جن کی تقلید ہمیں، ہماری نوجوان نسل کو قابل فخر پاکستانی بناسکے۔اسلحہ و بارود کی جنگوں سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کسی قوم کے اجاگر ذہن کو، سوچ کو سلب کردیا جائے۔ اس ٹیکنالوجی سے بھرپور دور میں اگر پاکستان کے پالیسی میکرز نے ہر سطح پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے سفر نامے کو ہر پلیٹ فارم پر روشناس کرانا شروع کردیا جس کی تقلید پوری دنیا میں کی جاتی ہے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے نوجوان اپنے اندر موجود چھپی کسی بھی صلاحیت کو اپنی ہی زمین سے پیدا ہونے والے اور اپنے ناموں کو اپنے کارناموں کو امر کرنے والوں کی تقلید کرتے ہوئے اپنے نام پر اک رہنما کی مہر ثبت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ڈاکٹرشمع افروزکا کہنا تھا کہ بہت کم دانشور،شاعر و ادیب اور سائنس دان بطور ہیروز بنانے کا تعلق ہے تواس کا تعلق تعلیم سے ہے علوم و فنون سے ہے۔ باشعور قوم اپنے ہیروز خود بناتی ہے ، دانشور، شاعر و ادیب اور سائنسدانوں کو ہیرو بنانے کے لیے جو حقیقت میں ہیرو ہیں ہمیںان کو کے کام کو سامنے لانا ہو گا تاکہ ان کو دیکھ کر ان کو سن کر ان کی انتھک محنت کر کر نوجوان ان کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لہٰذا ہمارے ہیروز دانشور شاعر و ادیب اور سائنسدان کیسے ہو سکتے ہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ دوسری جانب کیا ہم کتاب کلچر سائنس کلچر دانشورانہ کلچر کو فروغ دے رہے ہیں اگر نہیں دے رہے تو یقینا اس کے نتائج بھی تسلی بخش برآمد نہیں ہوں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اور سائنسدانوں کو ہماری نوجوان نسل ادیب اور سائنس کا کہنا تھا کہ اور سائنسدان ادیبوں اور اپنا ہیرو اور نہ ہی رول ماڈل یہ ہے کہ جاتا ہے ہیں اور لیکن ا ہے اور اور ان کے لیے بہت کم

پڑھیں:

ہے اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں

8اپریل2025 کی دوپہر جب اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت Pakistan Minerals Investment Forum کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی تھی، عین اُس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی نے اپنا ’’ تماشہ‘‘ لگا رکھا تھا ۔ اور اُسی وقت کراچی میں ایک منفرد سیاسی ’’تماشہ‘‘ یوں لگا تھا کہ ایم کیوایم کی سینئر قیادت (جن میں ایک وفاقی وزیر بھی شامل تھے) سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور کراچی میئر کے خلاف سخت زبان کی حامل پریس کانفرنس کررہی تھی۔ اوراُسی وقت بلوچستان کے کوہستانی علاقوں میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، اختر مینگل، کی قیادت میں شوریدگی پر آمادہ ایک جلوس وفاقی حکومت اور بلوچستان حکومت کے خلاف نعرہ زَن تھا۔ اور عین اُسی وقت ایک پانچواں ’’تماشہ‘‘ سندھ میں یوں لگ رہاتھا کہ سندھ حکومت اور کئی سندھی قوم پرست جماعتیں مبینہ6نہروں کے بارے وفاقی حکومت کے خلاف سڑکیں گرم کررہے تھے۔ اوراِنہی ہاؤ ہُو کے مناظرمیں ایک منظر یہ بھی دکھائی دے رہا تھا کہ پاکستان بھر سے افغان مہاجرین سمیت غیر قانونی غیر ملکیوں کوبے دخل کیا جارہا تھا۔

ایسے متنوع منظر نامے اور جھگڑوں میں قومی یکجہتی اور اتفاق کا عنصر تلاش کیا جائے تو کیسے اور کیونکر؟ایسے پُر شور اور شوریدہ سر ماحول میں وفاقی حکومت نے اگر اسلام آباد میں ’’ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم‘‘ کے زیر عنوان دو روزہ (8تا9اپریل)بھرپور کانفرنس کا انعقاد کیا ہے تو اِسے غیر معمولی مثبت اقدام قرار دیا جانا چاہیے ۔ اِس کانفرنس میں 300کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی وفود نے شرکت بھی کی ہے اور پاکستان سے معدنیات نکالنے میں بھاری سرمایہ کاری کا اظہار بھی کیا ہے ۔ امریکیوں نے بھی اِس میں شرکت کی ہے ۔ اِس اہم کانفرنس سے و زیر اعظم شہباز شریف، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے مفصّل خطاب کیا ۔ اِن خطابات کے جملہ مندرجات ہمارے میڈیا میں شائع اور نشر ہو چکے ہیں ۔

اِن مندرجات کا غائر نظر سے جائزہ لیا جائے تو ایک عنصر مشترکہ طور پر نکھر کر سامنے آتا ہے کہ اگر پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کے پہاڑوں ، میدانوں اور ریگزاروں میں چھپی قیمتی معدنیات کو نکال لیا جائے تو ہمارے سارے دلدّر دُور ہو جائیں گے۔بقول وزیر اعظم شہباز شریف، یہ معدنیات کھربوں ڈالرز مالیت کی ہیں اور اِن کی بدولت ہم اپنے تمام غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے آئی ایم ایف کے چنگل سے بھی چھُوٹ سکتے ہیں۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی ایک خوشنما نوید اِن الفاظ میں سنائی ہے:’’پاکستان عالمی معدنی معیشت کی قیادت کے لیے تیار ہے۔‘‘

اگر وزیر اعظم صاحب و دیگر مقررین صاحبان کے جملہ دعوے نہائت رُوح افزا، دلکش او ر دلکشا ہیں۔ لیکن اِس خواب کی تعبیر تب ہی ممکن ہے اگر وطنِ عزیز میں پائیدار امن قائم ہو۔ اگر ہمارے سیاسی استحکام میں کوئی دراڑ نہ پڑے ۔ اگر آئے روز اڈیالہ جیل کے باہر تماشے نہ لگائے جائیں ۔

یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ جب8اور 9 اپریل2025 کو اسلام آباد میں محولا بالا کانفرنس ہورہی تھی، اڈیالہ جیل کے باہر بانی پی ٹی آئی کی تینوں محترم ہمشیرگان و دیگران نے جو تماشہ لگایا ، اِس کی بازگشت کانفرنس مذکور کے شرکت کنندگان کے کانوں تک نہیں پہنچی ہوگی؟مذکورہ کانفرنس کے شرکت کنندگان نے وہ شور ِ اور شوریدگی نہیں سُنی اور دیکھی ہوگی جو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور سندھی قوم پرستوں نے مبینہ نہروں کی اساس پر اُٹھا رکھی ہے؟ جو بلوچستان میں اختر مینگل نے احتجاجی ڈھول بجا رکھا ہے ؟ جو ایم کیو ایم سندھ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے؟ اِس شور اور اُٹھائی گئی دھول میں معدنیات نکالنے کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رُخ کریگا تو کیونکر؟

اس تاریخ ساز کانفرنس میں پاکستان کے تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ تو شریک ہُوئے مگر خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی عدم شرکت ایک بار پھر نئے سوالات کھڑی کر گئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی ایک ہمشیرہ ، محترمہ علیمہ خان، نے تو غیر مبہم الفاظ میں اِس کانفرنس کے خلاف ایک کھلا بیان یوں دیا ہے: اگر عمران خان جیل میں بند رہے تو پھر ایسی کانفرنس میں ہماری شرکت کا فائدہ؟ پی ٹی آئی نے بلوچستان کے دہشت گردوں کے ہاتھوں جعفر ایکسپریس کے اغوا کے بعد اسلام آباد میں ہونے والی قومی کانفرنس میں بھی شرکت سے انکار کر دیا تھا۔

اور اب پی ٹی آئی نے منرلز کانفرنس میں بھی شرکت نہ کرکے اپنے مرکزِ گریز ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ لاریب اِس عدم شرکت سے پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنے دامن پر ایک اور دھبہ لگا لیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں اور مرکزی قیادت میں نااتفاقیوں، جھگڑوںاور سرپھٹول نے جو لاتعداد تماشے لگا رکھے ہیں، یہ مناظر اپنی جگہ حیرت انگیز ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بانی صاحب اِن مناظر کے سامنے بے بس ہیں ۔

 پی ٹی آئی کے باطنی جھگڑے روز افزوں ہیں۔ یہ جھگڑے پی ٹی آئی کو روز بروز اپنے عشاق عوام سے دُور بھی کررہے ہیں اور پی ٹی آئی اپنی محوری طاقت بھی کھو رہی ہے ۔ یہ پارٹی کے لیے غیر معمولی خسارہ ہے ۔ پی ٹی آئی کے تین سینئر قائدین( سلمان اکرم راجہ، اعظم سواتی اور علی امین گنڈا پور) کی جانب سے اپنے ہی ساتھیوں پر جو تازہ الزامات سامنے آئے ہیں، اِن سے یہ خسارہ اور نقصان دو چند ہو گیا ہے۔ ایسے میں جب خیبر پختونخوا کی ’’داخلی احتساب کمیٹی‘‘ کی طرف سے تیمور سلیم جھگڑا ( کے پی میں پی ٹی آئی کے سابق وزیر خزانہ و صحت) پر جب 36ارب روپے کی مبینہ بد عنوانیوں کا الزام عائد کیا گیا تو اِس الزام کی بازگشت دُور و نزدیک صاف سنائی دی گئی ۔

پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی تو اپنے جملہ سیاسی حریفوں کو ’’چور‘‘ کہتی رہی ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ اب یہی سیاہ داغ خود پی ٹی آئی پر پی ٹی آئی کی قیادت کے ہاتھوں لگ رہے ہیں ۔ تیمور جھگڑا پر کرپشن کا مبینہ الزام سب کو حیران کر گیا ہے۔ تیمور جھگڑا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔وہ سابق صدرِ پاکستان، غلام اسحاق خان ، کے نواسے ہیں ۔ جنوری 2019کو ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ نے اپنے ایک تفصیلی آرٹیکل میں لکھا ہے کہ تیمور خان جھگڑا جب پی ٹی آئی میں شامل ہُوئے تھے، اُس وقت وہ ممتاز عالمی ادارے Mckinseyکے پارٹنر تھے اور6لاکھ ڈالرز سالانہ تنخواہ لے رہے تھے (تقریباً17کروڑ روپے سالانہ، تقریباً 56لاکھ روپے ماہانہ)۔ ایسے جنٹلمین اور خوشحال شخص پر مذکورہ بالا الزام لگا ہے تو سب ششدر رہ گئے ہیں ۔

سب حیران ہیں اور یہ سوال کررہے ہیں کہ تیمور جھگڑا پر یہ الزام عائد کیے جانے کے عقب میں کیا مقاصد کارفرما ہیں؟ بعض تجزیہ کار اِس سوال کا یہ جواب بھی دیتے ہیں کہ تیمور جھگڑا دراصل علی امین گنڈا پور کے حقیقی سیاسی حریف ہیں۔ تیمور جھگڑا میں جو اوصاف پائے جاتے ہیں، وہ اُنہیں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ قیافہ لگانے والے کہتے ہیں کہ تیمور جھگڑا کے خلاف الزام کا یہ راستہ کس نے اختیار کیا ہوگا ۔

تیمور جھگڑا نے پی ٹی آئی کی ’’داخلی احتساب کمیٹی ‘‘کی طرف سے چارج شیٹ ملنے پر جو مبینہ جواب داخل کیا ہے، اِس کی شدت کا مرکزی ہدف علی امین گنڈا پور ہیں۔ اُنھوں نے علی امین کے مالی معاملات پرانگشت نمائی کی ہے ۔ شنید ہے کہ تیمور جھگڑا کے خلاف مزید انکوائری فی الحال روک دی گئی ہے۔الزام تراشی کے یہ متنوع اور متعدد مناظر دراصل اِس امر کے بھی غماز ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیزی سے جاری ہے ۔ پی ٹی آئی کی مرکزیت بکھر چکی ہے اور اِس کے باطن میں کئی قطب (Poles) بن چکے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے اندر تہمت تراشی زبیر علی تابش کے اِس شعر کی تفسیر بن گئی ہے:ہے اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں/ نجانے کس سے جھگڑا کررہا ہُوں۔

متعلقہ مضامین

  • تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کا نیا لائحہ عمل: عمران خان سے ملاقات صرف منظور شدہ فہرست کے ذریعے ممکن
  • ملائشیا میں خوفناک آتشزدگی: 5 پاکستانی کیسے پوری ملائشین قوم کے ہیرو بنے
  • رنگ روڈ پولیس نے بھی چالان ٹارگٹ پالیسی اپنا لی
  • وقف بل پر پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر کی خاموشی سے مسلم معاشرے میں غصہ کا ماحول ہے، مایاوتی
  • حکومت تعلیمی معیاربہتر بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے،خواجہ سلمان رفیق
  • صوفی شاعر شاہ حسین ؒ کا عرس، میلہ چراغاں شروع، آج مقامی چھٹی
  • مادھوری اور جوہی چاؤلہ نے فلمی ہیرو سے شادی نہ کرنے کی دلچسپ وجہ بتادی
  • کشمیر اسمبلی میں وقف قانون پر بات چیت کی اجازت نہ دینا کہاں کی جمہوریت ہے، ڈاکٹر محبوب بیگ
  • حکومت ایکسپورٹرز کے مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں ہے، ملک کے لئے سب سے زیادہ ڈالر کما نے والا ایکسپورٹر قومی ہیرو بنے گا، احسن اقبال
  • ہے اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں