جیل زدہ معاشرے میں دانشور،شاعر،ادیب ،یا سائنسداں کو اپنا ہیرو قرار دینا ممکن نہیں
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
کراچی (رپورٹ: حماد حسین) ہمارا نصاب اصل ہیروز کے ذکر سے خالی ہے چاہے وہ شاعر ہوں۔ ادیب ہو ں یا سائنسدان۔ نہ اسلاف کی باتیں اور نہ ہی کردار سازی کے لیے دانشوراور ادیب ہیں۔کسی سماج میں تعلیم یافتہ افراد یعنی دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور سائنسدانوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور انہیں نوجوان نسل اپنا ہیرو یا رول ماڈل قرار دینے سے قاصر نظر آتی ہے تو یقیناً یہ معاشرتی تنزلی کی ایک واضح دلیل ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈائریکٹر انٹر نیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیو لوجیکل سائنسز، جامعہ کراچی، یونیسکو چیئر ہولڈر اور ہلالِ امتیازپروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چودھری، وفاقی اردو یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں شعبہ تدریس سے 20سال سے وابستہ سلمیٰ نذیر، فثانوی تعلیمی بورڈ کے سابق رکن عباس بلوچ، جامعہ کراچی کی شعبہ اردو کی اسسٹنٹ پروفیسر،شاعرہ اور مصنفہ ڈاکٹر شمع افروز اور نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹ کی
کو چیئرپرسن ہما بخاری نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چودھری کا کہنا تھا کہ ا گر کسی سماج میں علم یافتہ افراد یعنی دانشورں، شاعروں، ادیبوں اور سائنسدانوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور انہیں نوجوان نسل اپنا ہیرو یا رول ماڈل قرار دینے سے قاصر نظر آتی ہے تویہ یقینا معاشرتی تنزلی کی ایک واضح دلیل ہے۔ پاکستان میں موجودہ نئی نسل زیادہ تر اداکاروں، گلو گاروں اور کھلاڑیوں کو ہی اپنا رول ماڈل تصور رکرتی ہے۔ اگر ہم 30،40سال پہلے تک کا پاکستانی سماج دیکھیں تو ہمیں شاعر، ادیب، دانشور، فلسفی، سائنسدان، خطیب، علما معاشرے میں رول ماڈل کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب پاکستان میں کسی شاعر یا لکھاری کی کتاب کی اشاعت ہزاروں کی تعداد میں ہوتی تھی کیونکہ سماج میں کتب بینی کی ثقافت عام تھی، لوگوں کے گھروں میں چھوٹے بڑے ذاتی کتب خانے ہوتے تھے، نوجوانوں میں ڈائجسٹ اور ناول پڑھنے کا رجحان بہت زیاد ہ عام تھا، یہ وہ دور تھا جب ایک ہی سرکاری چینل ہوا کرتا تھا جس پر بہرحا ل شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، فلسفیوں، سائنسدانوں، خطبا اور علما کو نہ صرف ہیرو بناکر پیش کیا جاتا تھا لیکن آج صورتِ حال بالکل برعکس ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو وہ پہلے کے مقابلے میں بہت ترقی کرچکا ہے، ایک چینل کے بجا ئے سیکڑوں چینل موجود ہیں لیکن اْن چینلوں پر اب علم یافتہ لوگ کم ہی نظر آتے ہیں، ٹاک شوزکے نام پر چیخ پکار سنائی دیتی ہے، کھیل کود، ناچ گانااور غیر معیاری ڈراموں کا زور نظر آتا ہے۔ نجی چینلوں پرجو مرد و زن میزبانی کے فرائض انجام دیتے ہیں اْن کا یہ حال ہوتا ہے کہ نہ وہ مکمل طور پر صحیح اْردو بولنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی صحیح انگریزی بول سکتے ہیں، دوسری طرف ہماری نوجوان نسل ہے جو انگریری سے بے انتہا متاثر نظر آتی ہے، حال یہ ہے کہ نوجوان غلط اْردو بولنے پر فخر اور غلط انگریزی بولنے پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ اب اس المناک سماجی صورتحال میں اور ایک جہل زدہ معاشرے میں لوگ کس طرح سے دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور سائنسدانوں کو اپنا ہیرو قرار دے سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا، دانشور اور والدین نوجوانوں کی تربیت پر خصوصی دھیان دیں اور انہیں حقیقی عالموں اور دانشوروں کے کارناموں سے آگاہ کریں۔ ثانوی تعلیمی بورڈ کے سابق رکن عباس بلوچ کا کہنا تھا کہ اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ’’وقت کی ضرورت ہے کہ خود کو متنازع شخصیت نہ بنایا جائے‘‘ کیونکہ جوحال ہماری تاریخ میں ادیبوں اور شاعروں اور سائنسدانوں کا ہے اس سے کوئی بھی والدین نہیں چاہیں گے کہ ان کی اولاد اس طرف راغب ہوں اور محنت کرنے کے باوجود وہ اپنی شخصیت کو متنازع بنا دیں۔ علامہ اقبال نے شکوہ لکھا تو دین کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے ان پر کفر کے فتوے لگائے جب جواب شکوہ لکھا تو پھر یہاں کوئی نہیں بولا۔ جمہوریت کے لیے فراز صاحب نے اپنی آواز، اس پر کتاب لکھی لیکن نہ صرف ان کو جیل میں ڈال دیا گیا بلکہ ان کے بچوں کو نظر بند کر دیا گیا۔ اسی طرح طارق عزیز نے بھی جمہوریت کے لیے آواز اٹھائی، وہ بھٹو صاحب کے مشن حامی تھے تو ان کے اوپر بھی بہت سی پابندیاں لگا دی گئیں اور ان کو بھی متنازع بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب جو پوری دنیا میں ایک مثالی انسان ہیں اور انہی کی بدولت آج ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن ان کے ساتھ کیا ہوا آپ نے دیکھ لیا، ان کو بھی نظر بند کیا گیا۔ کسی بھی قوم کا اثاثہ اساتذہ اور ڈاکٹر ہوتے ہیں لیکن افسوس ہمارے ملک میں ان کا برا حال ہے، آئے دن اساتذہ اور ڈاکٹر اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج کے لوگ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ وہ بھی ان لوگوں کی طرح بنیں اور اتنی محنت کے بعد اپنی شخصیت کو متنازع بنا دیں۔ جب ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھتے ہیں تو ہمیں بخوبی نظر آتا ہے کہ بہت کم وقت میں کون سے لوگ ہیں جو کامیابی کی بلندیوں کو چھو جاتے ہیں راتوں رات بہت کم محنت کرکے نہ صرف عزت و شہرت پاتے ہیں بلکہ وہ معاشی طور پر بھی مضبوط ہو جاتے ہیں۔ دنیا کی تمام آسائشیں ان کے پاس ہوتی ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اداکار، گلوکار، فنکار،کرکٹرز یہ وہ لوگ ہیں جو بہت کم وقت کے اندر بہت کم محنت کرکے کامیابی کی بلندیوں کو چھو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج لوگ شاعر ادیب اور سائنسدان نہیں بننا چاہتے۔ آج بچوں سے پوچھیں بانو قدسیہ کا، اشفاق احمد ،مستنصر حسین تارڑ صاحب، فیض احمد فیض پروین شاکر، امجد سلام امجد، منیر نیازی، احسان دانش، حفیظ جالندھری کا،یہ سب آج کے دور میں بہت گمنام ہو چکے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب، ڈاکٹر عبدالسلام،ثمر مبارک، عطاء الرحمن تک کو کوئی نہیں جانتا۔ ہماری سوچ کے ڈھانچے جیسے ہوں گے ویسی ہی سوچ نکلنا شروع ہو جاتی ہے، قائداعظم، علامہ اقبال، سرسید احمد خان وہ لوگ ہیں جو آئیڈیل ہوا کرتے تھے لیکن لوگ شاید یہ نام سن سن کر تھک گئے ہیں نئے چہروں کی شدید ضرورت ہے جو مثالی کردار ادا کریں۔ سلمیٰ نذیر کا کہنا تھا کہ یہ ہماری قوم کے لیے لمحہ فکرہے اور خاص طور پر اس لیے کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے۔ انسانی فطرت کے لحاظ سے ہر وہ چیز جو سامنے ہو متحرک ہو اپنا اثر رکھتی ہے اگر وہ چیز بار بار سامنے ہو اور متحرک اور متاثرکرنے والی ہو تو اثر دیرپا ہوگا۔ ذہن اس کے اثرات کو قبول کر تا ہے۔تو پھر اس جیسا بننا چاہتا ہے۔اب اگر غور کیا جائے تو ہمارے اداکار،گلوکار،کھلاڑی ہر طرف متحرک ہیں اور اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل جو بھی چینل استعمال کر رہی ہے ان سب میں صرف یہ ہی لوگ مثلاً ٹی وی،یو ٹیوب،انسٹاگرام میں ان تمام کے اکاؤنٹ بھی ہیں۔ اب ذرا تصویر کادوسرا رخ دیکھیے کیا ہمارے شاعر،ادیب،سائنسدان اور دانشور کہیں موجود ہیں اور وہ اثر انداز ہورہے ہیں۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے نصاب ہی ہمارے اصل ہیروز کے ذکر سے خالی ہے چاہے وہ شاعر ہو۔ ادیب ہو یا سائنسدان، نہ اسلاف کی باتیں اور نہ ہی کرداد سازی کے لیے دانشوراور ادیب ہیں۔ ایسے حالات میں ان کے کردار کے اثرات کیسے ہماری نوجوان نسل تک منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی شاعر ادیب دانشوروں اور سائنس دانوں کا ذکر نہیں کرتا بلکہ ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ جہاں تک تعلیمی اداروں کا ذکر ہے تو افسوس کا مقام ہے کہ دور حاضر کے اساتذہ بھی شاعر ادیب اور سائنس دانوں کے نہ تو ناموں سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کے کارناموں سے واقف ہیں۔ پھر حکومتی سطح پر بھی انہیں اداکاروں،گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو نوازا جاتا ہے۔ یہاں تک کے 14 اگست اور 6 ستمبر کے پروگرامات میں بھی نمائندگی ان ہی لوگوں کی ہے۔ اب اس صورتحال میں کس طرح کوئی شاعر،ادیب دانشور یا سائنسدان ہیرو بن سکتا ہے۔ ہما بخاری کا کہنا تھا کہ بقول شاعر آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی گئی جس نے خود اسے بہتر کرنے کا نہ سوچا ہو- اقوام کی ترقی کا دارومدار اچھی تعلیم وبہترین تربیت ہے۔ تعلیم بہترین سوچ کے ساتھ مرتب کیے گئے نصاب کے ذریعے اور تربیت بہترین مثالوں کے ذریعے کی جائے تو پسماندہ سے ترقی یافتہ کا سفر باآسانی طے ہوجاتا ہے۔ آج اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم اس سفر میں بہت پیچھے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے تعلیم کے اس پہلو کو قطعاً نظر انداز کردیا ہے جو ہمیں ہماری ثقافت سے جوڑ دے۔ ہمیں ان مثالی شخصیات سے روشناس کرائے جنہوں نے اس سرزمین کو دنیا بھر میں منوایا ہے۔ جن کی تقلید ہمیں، ہماری نوجوان نسل کو قابل فخر پاکستانی بناسکے۔اسلحہ و بارود کی جنگوں سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کسی قوم کے اجاگر ذہن کو، سوچ کو سلب کردیا جائے۔ اس ٹیکنالوجی سے بھرپور دور میں اگر پاکستان کے پالیسی میکرز نے ہر سطح پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے سفر نامے کو ہر پلیٹ فارم پر روشناس کرانا شروع کردیا جس کی تقلید پوری دنیا میں کی جاتی ہے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے نوجوان اپنے اندر موجود چھپی کسی بھی صلاحیت کو اپنی ہی زمین سے پیدا ہونے والے اور اپنے ناموں کو اپنے کارناموں کو امر کرنے والوں کی تقلید کرتے ہوئے اپنے نام پر اک رہنما کی مہر ثبت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ڈاکٹرشمع افروزکا کہنا تھا کہ بہت کم دانشور،شاعر و ادیب اور سائنس دان بطور ہیروز بنانے کا تعلق ہے تواس کا تعلق تعلیم سے ہے علوم و فنون سے ہے۔ باشعور قوم اپنے ہیروز خود بناتی ہے ، دانشور، شاعر و ادیب اور سائنسدانوں کو ہیرو بنانے کے لیے جو حقیقت میں ہیرو ہیں ہمیںان کو کے کام کو سامنے لانا ہو گا تاکہ ان کو دیکھ کر ان کو سن کر ان کی انتھک محنت کر کر نوجوان ان کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لہٰذا ہمارے ہیروز دانشور شاعر و ادیب اور سائنسدان کیسے ہو سکتے ہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ دوسری جانب کیا ہم کتاب کلچر سائنس کلچر دانشورانہ کلچر کو فروغ دے رہے ہیں اگر نہیں دے رہے تو یقینا اس کے نتائج بھی تسلی بخش برآمد نہیں ہوں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اور سائنسدانوں کو ہماری نوجوان نسل ادیب اور سائنس کا کہنا تھا کہ اور سائنسدان ادیبوں اور اپنا ہیرو اور نہ ہی رول ماڈل یہ ہے کہ جاتا ہے ہیں اور لیکن ا ہے اور اور ان کے لیے بہت کم
پڑھیں:
جرمنی میں آباد پاکستانیوں کو اپنا سماجی رویہ بدلنا ہو گا، کومل ملک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 فروری 2025ء) جرمنی میں آباد پاکستانی تارکین وطن برادری مختلف گروپوں میں بٹی ہوئی ہے اور ان کی سماجی، سیاسی اور معاشی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں مختلف کیٹیگریز میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ پاکستانی نژاد ماہر قانون، انسانی حقوق اور تنازعات کے حل کے لیے سندیافتہ میڈیئیٹر کومل ملک کا کہنا تھا کہ اس ملک میں آباد پاکستانیوں کے سیاسی اور سماجی رویوں کا جائزہ لیتے وقت مختلف عوامل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
ڈی ڈبلیو: جرمنی میں آباد پاکستانی تارکین وطن کاکن شعبوں سے تعلق ہے؟
کومل ملک: حالیہ سالوں میں اچھی خاصی تعداد میں پاکستانی اسکلڈ ورکرز یا ہنر مند کارکن اور طلبہ جرمنی آئے ہیں۔
(جاری ہے)
وہ افراد جو ورک ویزا کے ذریعے آتے ہیں، خاص طور پر آئی ٹی، انجینئرنگ، میڈیکل، اور دیگر شعبوں میں انہیں اچھی نوکریاں مل جاتی ہیں۔ ایک گروپ کاروباری افراد پر مشتمل ہے، جو جرمنی میں اپنے کاروبار جیسے کہ ریستورانوں، ٹیکسٹائل اور دیگر بزنس کے شعبوں سے منسلک ہے۔
پھر ایک کیٹیگری ہے اسپاؤز ویزہ ہولڈرز کی۔ اس میں وہ افراد شامل ہیں، جو اپنے شریک حیات کی وجہ سے ویزہ حاصل کر کے جرمنی منتقل ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ایک بڑی تعداد پاکستان سے جرمنی آ کر سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کی بھی ہے۔جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟ڈی ڈبلیو: پاکستانی تارکین وطن کے مشترکہ مسائل کیا ہیں؟
کومل ملک: مشترکہ مسائل اور چیلنجز میں اولین مشکل جرمن زبان کا سیکھنا ہے۔
اگر کوئی جرمن بول نہیں پاتا ہو تو اسے جاب مارکیٹ اور سوشل انٹیگریشن میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر زیادہ تر کو سماجی اور سیاسی انضمام (Integration) میں بھی مشکل ہوتی ہے کیونکہ جرمن معاشرہ نئے آنے والوں کو جلد قبول نہیں کرتا۔معاشی دباؤ بھی ایک اہم فیکٹر ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے، جو پاکستان میں موجود اپنے خاندان کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ جر منی میں آباد پاکستانی برادری کے اندر سپورٹ سسٹم اور اتحاد کی کمی ہے، جس کی وجہ سے نئے آنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستانیوں کا ایک بڑا مسئلہ جرمن قوانین، ویزا پالیسیز اور شہریت کے پراسیس کو سمجھنے میں دقت کا بھی ہے۔پاکستان کے ناموافق حالات اور انسانوں کی اسمگلنگ کا ناسور
ڈی ڈبلیو: جرمنی میں پروان چڑھنے والے پاکستانیوں کو جرمن معاشرے میں اپنا سماجی اور سیاسی مقام حاصل کرنے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی کیوں حاصل نہ ہو سکی؟
کومل ملک: یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری ایک یا دو نسلیں انتھک محنت کے باوجود جرمن سوسائٹی میں مکمل قبولیت حاصل نہیں کر پائیں۔
یہاں پیدا ہونے والے اکثر نوجوانوں کو یہ سننے کو ملتا ہے کہ واہ، تم تو بہت اچھی جرمن بولتے ہو۔ ان کے سکن کلر کی وجہ سے ان کی شناخت پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مایوس ہونے کی بجائے، اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں اور سیاست میں شرکت کو ترجیح دیں۔ ہم اپنے کام، گھر، اور ذاتی زندگی میں اتنے الجھے رہتے ہیں کہ جرمن سیاست اور سماجی معاملات میں کردار ادا نہیں کر پاتے۔جرمن زبان میں مہارت، سسٹم کی مکمل سمجھ، اور سیاست میں شرکت کے بغیر ہم خود کو کبھی ایک مضبوط کمیونٹی کے طور پر منوا نہیں سکتے۔ جو پاکستانی نوجوان یہاں پیدا ہوئے یا پروان چڑھے ہیں، انہیں سیاست میں آگے آنے کے لیے شدید مقابلے، یا نسل پرستی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈی ڈبلیو: ان مشکلات کا حل کیا ہے؟
کومل ملک: ہمیں سیاست میں اپنی شرکت بڑھانا ہوگی، سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی، اور ووٹنگ کے حق کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہو گا۔
اپنی کمیونٹی کے مسائل کے لیے متحد ہو کر آواز اٹھانا ہوگی تاکہ جرمنی میں ہماری سیاسی اور سماجی حیثیت مستحکم ہو۔ پاکستانی کمیونٹی کے اندر کوئی مؤثر نیٹ ورک نہیں جو نئے آنے والوں کو سیاست میں شامل ہونے کی ترغیب دے۔ مزید یہ کہ پاکستانی سیاست اور جرمنی کا سیاسی سسٹم بہت مختلف ہے، جس کی وجہ سے نئے آنے والے لوگ یہاں کے سیاسی نظام سے بالکل ناآشنا ہوتے ہیں۔جرمنی میں نجی یونیورسٹیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت
ڈی ڈبلیو: آپ پاکستانی کمیونٹی کو قانونی اور سماجی آگاہی فراہم کرتی ہیں۔ آپ کو سب سے زیادہ کن مسائل کے حوالے سے کام کرنا پڑتا ہے؟
کومل ملک: بطور پاکستانی وکیل اور میڈیئٹر، میرا تجربہ کہتا ہے کہ درج ذیل مسائل سب سے زیادہ عام ہیں۔ قانونی حقوق سے لاعلمی۔ پاکستانی کمیونٹی کو جرمن امیگریشن، شہریت، رہائشی اجازت نامے، اور لیبر قوانین کے بارے میں بہت محدود معلومات ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ ڈومیسٹک وائلنس یا گھریلو تشدد کا بھی ہے۔ خواتین کو گھریلو تشدد کے خلاف اقدامات، اپنے قانونی حقوق کی آگاہی اور علیحدگی کے معاملات میں رہنمائی فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ لوگ معاشی دباؤ کی وجہ سے اپنی ذاتی اور سماجی زندگی پر صحیح توجہ نہیں دے پاتے، جس کی وجہ سے انٹیگریشن کا عمل مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ جب تک گھریلو اور سماجی استحکام نہیں ہوگا، تب تک کمیونٹی کا سیاسی اور سماجی سطح پر آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔ڈی ڈبلیو: پاکستانی تعلیم یافتہ نوجوان خواتین کے مخصوص مسائل کون کون سے ہیں؟
کومل ملک: جاب مارکیٹ میں امتیازی سلوک، ایک اہم مسئلہ ہے۔ خاص طور پر اگر وہ حجاب پہنتی ہوں۔ گھریلو ذمہ داریوں کا دباؤ بھی ایک اہم وجہ ہے۔ کئی خواتین خاندانی اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے اپنے پروفیشنل اور سماجی کیریئر پر توجہ نہیں دے پاتیں۔
اس کے علاوہ سوشل نیٹ ورکنگ کا فقدان۔ پاکستانی خواتین عام طور پر جرمن کمیونٹی میں میل جول نہیں بڑھاتیں، جس کی وجہ سے سیاست میں آنے کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ کمیونٹی میں سپورٹ کی کمی ہے۔ اگر کوئی پاکستانی خاتون سیاست یا سوشل ورک میں آنا چاہے، تو اسے اپنی کمیونٹی سے زیادہ سپورٹ نہیں ملتی۔جرمنی: بچوں کی دیکھ بھال کے بحران میں کمی کے لیے تارکین وطن پر انحصار
کومل ملک جو پاکستانی برادری کی جرمن معاشرے میں نا صرف نمائندگی کرتی ہیں بلکہ تمام پاکستانی تارکین وطن، چاہے مرد ہوں یا خواتین سب کے گوناگوں مسائل کے حل کے لیے رات دن مشاورت اور تنازعات کے حل کے لیے ثالث کی حیثیت سے اپنی پیشہ وارانہ صلاحتیوں کو بروئے کار لاتی ہیں۔
ان کا ماننا ہہ کہ اپنی جڑوں کو بھولے بغیر پاکستانیوں کو جرمن معاشرتی اور سیاسی نظام کو جاننا، اسے اپنانا اور اس کے لیے کام کرنا چاہیے۔ نیز ووٹ کے حق کے استعمال کو اہمیت دینی چاہیے تاکہ جرمنی میں پاکستانی با شعور شہریوں کی طرح اپنی پہچان برقرار رکھتے ہوئے اپنا مقام بنا سکیں۔