انتخابات کرانے کا حکومتی فیصلہ تاجر برادری کے خلاف ہے، چیئرمین ماسپیڈا
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
کراچی (کامرس رپورٹر)آل پاکستان موٹر سائیکل اسپیئرپارٹس امپورٹرز اینڈ ڈیلرز ایسوسی ایشن (اے پی ماسپیڈا)کے چیئرمین سہیل عثمان نے وفاقی حکومت کی جانب سے 2025 میں ٹریڈ باڈیز کے نئے انتخابات کرانے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہارکیاہے۔سہیل عثمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 2024 میں ہونے والے چیمبرز آف کامرس اور ایسوسی ایشنز سمیت تمام ٹریڈ باڈیز کے منتخب عہدیداروں کا مینڈیٹ 2 سال کے لیے ہے،یعنی کہ اکتوبر 2024 سے ستمبر 2026 تک کے لیے ہے اور یہ مینڈیٹ باقاعدہ ایکٹ کی شکل میں نافذ ہوا اوراسکی سینیٹ آف پاکستان سے بھی منظور حاصل کی گئی اس لئے حکومت کا نیا فیصلہ غیر منصفانہ ہے۔ سہیل عثمان نے کہا کہ اے پی ماسپیڈا سمیت ملک بھر کی تمام ٹریڈ باڈیز ستمبر 2024 میں دوسال کیلئے انتخابات کے مرحلے سے گزر چکی ہیں اورا س وقت کی وفاقی حکومت کے دو سالہ مدت کے فیصلے پر عمل درآمد یقینی بناتے ہوئے جمہوری انداز میں نمائندے منتخب کیے گئے تھے اور اگر حکومت کے نئے فیصلے پر عمل درآمد ہوتا ہے اور سال 2025 میں ٹریڈ باڈیز کے انتخابات ہوتے ہیں تو 2 سال کے لیے منتخب ہونے والی تجارتی تنظیموں کی مدت غیر منصفانہ طور پر کم ہو کر 1 سال رہ جائے گی جو کہ کاروباری، صنعتی اورتاجر برادری کے ووٹرز کی مرضی ومنشاء کے خلاف ہو گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
عورت کی قانونی تعریف پیدائش کے وقت اس کی جنس پر منحصر ہے.برطانوی سپریم کورٹ
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 اپریل ۔2025 )برطانوی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عورت کی قانونی تعریف پیدائش کے وقت اس کی جنس پر منحصر ہے جنس کی تبدیلی کے بعد عورتیں بننے والے افراد ’ ’عورتیں‘ ‘ نہیں ہیں عدالت کا یہ فیصلہ ٹرانس جینڈرز کے حقوق سے متعلق جاری بحث پر دور رس مضمرات کا حامل تاریخی فیصلہ ہے.(جاری ہے)
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق عورت کی قانونی تعریف کا تعین کرنے کے مقدمہ ایک تنظیم فار ویمن اسکاٹ لینڈ (ایف ڈبلیو ایس) برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت میں لے کر گئی تھی جس پر لندن کے پانچ ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا کہ ”مساوات ایکٹ 2010 میں“عورت اورجنس کی اصطلاحات سے مراد ایک حیاتیاتی ( بایولوجیکل) عورت اور جنس ہے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیصلے کے مطابق ایک ٹرانس جینڈر شخص، جو ایک سرٹیفکیٹ کے سہارے خود کو ایک عورت تسلیم کرتا ہے، اسے صنفی مساوات کے تحت عورت نہیں سمجھا جانا چا ہیے، بہ الفاظ دیگر پیدائشی لڑکی ہی کو لڑکی یا عورت سمجھا جائے گا تاہم عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ مساوات ایکٹ ٹرانس جینڈر افراد کو امتیازی سلوک سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے.
یہ عدالتی فیصلہ اسکاٹش حکومت اور مہم چلانے والی تنظیم فار ویمن اسکاٹ لینڈ (ایف ڈبلیو ایس) کے درمیان برسوں کی لڑائی کا نتیجہ ہے جس نےا سکاٹش عدالتوں میں سرکاری اداروں میں مزید خواتین کو بھرتی کرنے کے مقصد سے بنائے گئے ایک غیر واضح قانون کے خلاف اپیلیں ہارنے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی. ایف ڈبلیو ایس اور دیگر صنفی تنقیدی مہم چلانے والوں جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ حیاتیاتی جنس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا کے درجنوں حامیوں نے فیصلے کے بعد خوشی سے نعرے لگائے اور عدالت کے باہر گلے ملے اور روئے فیصلے سے قبل ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے کارکنوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ایف ڈبلیو ایس کے حق میں فیصلہ ٹرانس جینڈرز کے ان کی منتخب کردہ جنس کی بنیاد پر ان سے امتیازی سلوک کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے. دوسری جانب اس فیصلے سے برطانیہ کی ٹرانس جینڈر کمیونٹی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ٹرانس جینڈرز اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ”اسٹون وال “نے کہا کہ برطانیہ کی عدالت کا فیصلہ ” ٹرانس کمیونٹی “کے لیے ناقابل یقین حد تک تشویشناک ہے برطانوی تنظیم کے سی ای او سائمن بلیک نے کہا کہ اسٹون وال کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے وسیع مضمرات پر گہری تشویش ہے امتیازی سلوک سے تحفظ پر زور دینے کے باوجود یہ فیصلہ ٹرانس جینڈر خواتین اور ان کی صرف ایک جنس کے لیے مخصوص جگہوں تک رسائی کے لیے ایک دھچکا ہوگا جو ٹرانس جینڈرز کے حقوق پر منقسم بحث میں ایک اہم تنازعہ ہے. برطانوی سپریم کورٹ کا فیصلہ وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کی حکومت پر دباﺅ ڈال سکتا ہے کہ وہ قانون سازی کو مزید واضح کریں کیونکہ برطانوی وزیراعظم ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے مسائل پر بڑی حد تک خاموش رہے ہیں.