حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)جستجو فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اور او جی ڈی سی ایل کے تعاون سے ہیلتھ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جو صحت کے مسائل پر جامع اور مؤثر مکالمے کا بہترین فورم ثابت ہوئی۔ اس کانفرنس میں طبی ماہرین، سول سوسائٹی کے نمائندے، وکلاء، بزنس کمیونٹی کے افراد اور سماجی رہنماؤں نے شرکت کی۔پہلا سیشن طبی ماہرین کے لیے مختص تھا، جس میں ڈاکٹر امیران، ڈاکٹر نند کمار، ڈاکٹر صبا، ڈاکٹر خالد ابڑو اور دیگر ممتاز طبی ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ماہرین نے کینسر اور دیگر مہلک بیماریوں پر تفصیلی گفتگو کی اور اس بات پر زور دیا کہ جدید علاج معالجے کے باوجود مریضوں کو سماجی رویوں اور بے حسی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف طبی سہولیات کافی نہیں بلکہ مریضوں کو نفسیاتی مدد، اہل خانہ کی سپورٹ اور سماجی قبولیت بھی درکار ہوتی ہے۔ڈاکٹر امیران نے کہا:’کینسر محض ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی ذمہ داری بھی ہے۔ مریض کی حوصلہ افزائی کے لیے خاندان اور معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔”ڈاکٹر نند کمار نے نشاندہی کی:ہمارے ہاں کینسر کی تشخیص تاخیر سے ہوتی ہے، جس کی بڑی وجہ عوام میں شعور کی کمی ہے۔ بروقت تشخیص کے ذریعے کئی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔”ڈاکٹر خالد ابڑو نے کہاکہ’صوبہ سندھ میں علاج معالجے کی سہولیات موجود ہیں، لیکن عوام کو بروقت آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے کئی مریض دیر سے علاج کرواتے ہیں، جسے بدلنے کے لیے اجتماعی کوششیں ضروری ہیں۔”دوسرے سیشن میں سول سوسائٹی، وکلاء، بزنس کمیونٹی اور سماجی رہنماؤں نے شرکت کی، جہاں سماجی رویوں، صحت سے متعلق پالیسیوں اور عوامی شعور کی کمی پر گفتگو کی گئی۔ایکٹو ویمن فاؤنڈیشن کی نازش فاطمہ نے کہا:’صحت کا مسئلہ صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہمیں صحت کے شعور کو عام کرنے کے لیے اسکولوں، کالجوں اور کمیونٹی سینٹرز میں آگاہی مہم چلانی ہوگی۔”سپریم کورٹ کے وکیل امداد انڑ نے کہاکہ صحت کے مسائل کو صرف اسپتالوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ پالیسی سطح پر بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ قانون اور ادارہ جاتی سطح پر مستحکم اقدامات ناگزیر ہیں۔”جستجو فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن صدف وڑائچ، سی او او بہزاد بشیر میمن، بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اسد الحق قریشی اور شہزاد رضا نے کانفرنس میں شریک معزز مہمانوں کو اجرک اور شیلڈز پیش کیں، تاکہ ان کی خدمات کو سراہا جا سکے۔اس کے علاوہ، جستجو فاؤنڈیشن کی انتھک محنت کرنے والی ٹیم کو بھی ایوارڈز سے نوازا گیا۔کانفرنس کے ماڈریٹر عمران بورا?و اور وہاب منشی نے بہترین انداز میں اپنی ذمہ داری نبھائی، جس سے تمام مقررین کو مؤثر طریقے سے اپنی رائے پیش کرنے کا موقع ملا۔یہ ہیلتھ کانفرنس صحت کے مسائل پر عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔ ماہرین، وکلاء، بزنس کمیونٹی اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے عزم کیا کہ وہ صحت کے فروغ کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں گے، آگاہی مہمات چلائیں گے، اور پالیسی سطح پر اصلاحات کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔جستجو فاؤنڈیشن اور او جی ڈی سی ایل کا یہ قدم عوامی فلاح و بہبود کی ایک بڑی مثال ہے، جو مستقبل میں بھی صحت کے شعور کو عام کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
اسلام قبول کرنے والی خاتون کے رشتے دار جان کے دشمن بن گئے
ٹنڈومحمدخان(نمائندہ جسارت)مذہب اسلام قبول کرنی والی خاتون کے رشتے دار جان کے دشمن بن گئے۔ اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور مسلمان بن گئی۔ تحفظ فراہم کیا جائے۔ جھوک شریف کی رہائشی نو مسلم خاتون کی پریس کلب ٹنڈو محمد خان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ اپنی مرضی سے دین اسلام قبول کرلیا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جستجو فاؤنڈیشن اسلام قبول صحت کے کے لیے

پڑھیں:

عمر رواں، ایک عہد کی داستان

’’ عمرِ رواں‘‘ یہ ایک عہدکی داستان ہے۔ ایسی داستان کہ جس میں دل ہے ، خرد ہے، روح رواں ہے، شعور ہے۔ داستانِ حیات، آٹو بائیو گرافی،آپ بیتی، یہ ایسے مشہور شخصیات کی ہوتی ہیں، جن سے ایک زمانہ وابستہ رہا ہو۔ ایسی ہی شخصیات میں سے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ایک ہیں جنھوں نے ’’عمرِ رواں‘‘ کی صورت میں حالات و زندگی پر ایک خوبصورت کتاب تحریر کی ہے۔

 ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی ذاتی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک درویش منش اور سفید پوش انسان ہیں جنھوں نے ساری زندگی مخلوقِ خدا کی خدمت اور فلاح انسانیت کو اپنی زندگی کا مشن سمجھا۔

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کے صاحبزادے اور جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ہیں۔ وہ زمانہ طالب علمی میں اسلامی تحریک سے وابستہ ہوئے اور پھر تمام عمر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ ان کا سفرِ زندگی روشن ستارے کے مانند،کامیابیوں کی راہوں میں ساری زندگی چراغ جلاتے منزلوں کو پانے کی جستجو میں مگن رہے۔

ان کی دلکش گفتگو، انتھک محنت، موثر دعوت و تبلیغی اسلوب اور اعلیٰ سیرت و کردار نے ان کی شخصیت کو اس قدر اعتبار بخشا کہ آج وہ عوام الناس کے ہر دلعزیز رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ’’ فرید احمد کو میں نے گفتار سے زیادہ کردار کا غازی پایا مگر مائیک سامنے ہو تو گل افشانی گفتار بھی دیدنی اور شنیدنی ہوتی ہے۔

ان کی ایک قابلِ رشک صلاحیت ماضی کی یادوں اور مستقبل کے ارادوں سے کٹ کر لمحہ موجود کو ڈھنگ سے بسرکرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ میدانِ عمل کے آدمی ہیں لیکن زندگی کی ریل پیل یا بسا اوقات جیل میں جہاں چند لمحوں کی فرصت میسر آئی وہ کمال یکسوئی سے کتاب، قلم یا مُوقلم سے رشتہ جوڑ لینے میں کامیاب رہے۔‘‘

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ بے شمار صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ان کی ہر صلاحیت ایک سے بڑھ کر ایک ہے، جس میں سے ’’ عمرِ رواں‘‘ بھی ان کی صلاحیت کا ایک بھرپور عکس ہے جس میں انھوں نے خود کو بڑی دیانتداری سے اپنے ناقدین کے سامنے پیش کیا ہے۔

ان کی یہ کتاب بہت جاندار اور اس کی جانداری میں ان کی پختہ نثر کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی زندگی میں جہاں کامیابیاں حصے آئی وہیں ناکامیاں بھی راہ کا پتھر بنیں۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق اپنی رائے میں لکھتے ہیں کہ’’ ان کی کتاب ’’ عمرِ رواں‘‘ نہایت عمدہ انداز و اسلوب اور خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ ترتیب دی گئی ہے جس سے ہماری قومی و ملی تاریخ کے نہ صرف نمایاں بلکہ بعض خفیہ گوشے بھی سامنے آتے ہیں۔

تحریکی یاد داشتوں کا یہ ایک دلکش اور عمدہ مجموعہ ہے جو اپنے قاری کو مطالعہ مکمل کیے بغیر کتاب رکھنے نہیں دیتا۔‘‘ اس کتاب میں بہت سی علمی، ادبی، سیاسی اور مذہبی شخصیات کا ذکر بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ جن میں میراں شاہ، مولانا مودودی، کوثر نیازی، ڈاکٹر اسعد گیلانی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر انوار احمد اور ڈاکٹر خورشید رضوی ودیگر اہم چہروں کی کہکشاں موجود ہے۔

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی باتیں اور یادیں محض قصے کہانیاں نہیں بلکہ دعوت فکر دینے والی اور سبق آموز باتیں ہیں۔ ان کی سوانح عمری سدا بہار موسم کی طرح ہے جو انسان کو مطالعہ کے دوران اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب کی انفرادیت کے حوالے سے اپنے ابتدائیہ میں رقم طراز ہے کہ’’ کتاب میں بعض واقعات کو اتنا ہی کھول کر بیان کیا ہے جتنی ضرورت اور اجازت تھی، واقعات میں تاریخی تسلسل پوری طرح مدنظر نہیں رکھا جا سکا۔‘‘

’’عمرِ رواں‘‘ یہ ایک خود دار اور بااصول انسان کی داستان ہے جس نے افلاس اور تنگدستی کا استقلال اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور محض ذاتی کوشش و جانفشانی سے کامیابی کی منزل تک پہنچا۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران کئی دہائیوں کی یادیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگتی ہیں، جن میں الفاظ یادِ ماضی اور عصرِ حاضرکی جدت طرازی کے چٹکے ہوئے پھول بھی اپنی نکہتیں لٹاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ بقول شاعر

کیسے گزری زندگانی لکھ رہا ہوں

میں محبت کی کہانی لکھ رہا ہوں

ایک دن تجھ کو بڑھاپا دیکھنا ہے

یہ جوانی آنی جانی لکھ رہا ہوں

اس کتاب کا انتساب انھوں نے سید مودودیؒ ، اپنے ابا جی گلزار احمد مظاہریؒ اور اپنی اماں جی مرحومہ ودیگر عزیزو اقارب، احباب و رفقا کے نام کیا ہے۔ 400 صفحات پر مبنی یہ ضخیم کتاب ان کی 71 سال کے شب ور وز اور ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔اس سے قبل بھی ان کی ایک کتاب ’’میرے رہنما میرے ہم نوا‘‘ کے نام سے شایع ہوچکی ہے، جب کہ ’’عمرِ رواں‘‘ دلکش نقوش اور دلی تاثرات پر مشتمل ہونے کے باعث ایک تاریخی داستان بن گئی ہے ۔

اس کتاب کو لاہور کے معروف اشاعتی ادارے ’’ قلم فاؤنڈیشن‘‘ نے شایع کیا ہے۔ جس کے روحِ رواں علامہ عبدالستار عاصم ہے جو خود بھی بہت خوبصورت نثر لکھنے کے باوصف ایک کتاب دوست شخصیت کے مالک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے بھی اپنے حرفِ آغاز میں انھیں ایک کرشماتی شخصیت کے لقب سے نوازا ہے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ :

یہ نصف صدی کا قصہ ہے

دو چار برس کی بات نہیں

متعلقہ مضامین

  • بھارت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، حریت کانفرنس
  • حضورؐ آخری نبیؐ، شک کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج: طاہر القادری 
  • کپتان سے سیکھی کپتانیاں اب اس کے ساتھ ہی ہو رہی ہیں
  • آئی پی ایل میں انجری کا سلسلہ جاری، اہم کھلاڑی ٹورنامنٹ سے باہر
  • مستونگ، بی این پی کی آل پارٹیز کانفرنس، 9 مطالبات پیش کئے گئے
  • چیف جسٹس سے ایران اور ترکیہ کے سفرا کی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں،عدالتی اور ادارہ جاتی تعاون مضبوط کرنے پر اتفاق
  • بیکری ، کنفیکشنری آئٹمز پر20 فیصد ہیلتھ ٹیکس کی تجویز
  • گرینڈ ہیلتھ الائنس دھرنے میں بجلی چوری کا انکشاف
  • عمر رواں، ایک عہد کی داستان
  • یوسف رضا گیلانی کا نئے عالمی سماجی معاہدے کی تشکیل کی ضرورت پر زور