ایران کے چیف آف سٹاف سے ملاقات میں فلسطینی رہنما نے وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 آپریشنوں کی صورت میں جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی براہ راست شمولیت کو خطے کی اقوام کے لئے نیا جذبہ بیدار کرنے والی ایک اسٹریٹجک اور اثر انگیز پیش رفت قرار دیا۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے سیکرٹری جنرل زید النخالہ نے ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف جنرل محمد باقری کے ساتھ ملاقات میں عظیم مزاحمتی قائدین شہید سید حسن نصر اللہ، شہید یحییٰ سنوار اور تمام مزاحمتی کمانڈروں کی شہادت پر تہنیت اور تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین اور لبنان میں تمام تر کامیابیاں اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت اور موثر کردارکی بدولت حاصل ہوئی ہیں۔ جناب زید النخالہ نے کہا کہ مزاحمتی گروہوں کا عسکری اور سیاسی اتحاد مزاحمتی محاذ کی شرائط کو تسلیم کروانے اور دشمن کو پسپائی پر مجبور کرنے کا باعث بنا۔

انہوں نے کہا کہ ہم دوسرے مرحلے میں صیہونی افسروں اور فوجیوں کے تبادلے کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ ہم اپنے تمام قیدیوں کو رہا کروا سکیں، ہم دشمن کو مکمل پسپائی پر مجبور کریں گے۔ فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے سکریٹری جنرل نے غزہ میں مزاحمتی گروہوں کی حمایت میں حزب اللہ کے موثر اور تعمیری کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے حزب اللہ کے مجاہدین کے شانہ بشانہ صیہونی رجیم کا مقابلہ کیا اور اس طرح بہت سے لوگ شہید اور بعض زخمی ہوئے، یہ مقاومتی محاذ کے اتحاد کی علامت ہے جو تمام فلسطینی عوام کے لیے باعث افتخار ہے۔

 جناب النخالہ نے وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 آپریشنوں کی صورت میں جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی براہ راست شمولیت کو خطے کی اقوام کے لئے نیا جذبہ بیدار کرنے والی اسٹریٹجک اور اثر انگیز پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران مزاحمت کا گھر ہے۔ ایرانی مسلح افواج کے سربراہ نے فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک کے سیکرٹری جنرل کا خیرمقدم کرتے ہوئے، فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کو انقلاب اسلامی ایران کی پہچان قرار دیتے ہوئے کہا کہ انقلاب کی اس جہت کو امام خمینی (رہ) نے اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین اور حکومت کی تمام شاخوں میں ایک اصل قرار دلوایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جنگ پابندیوں اور بیرونی دباؤ سمیت تمام مشکلات کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کبھی بھی فلسطین اور مزاحمت کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹا اور یہ حمایت ہمیشہ باقی رہے گی، جاری رہیگی اور زیادہ مضبوط ہوگی۔ میجر جنرل باقری نے کہا کہ صیہونی حکومت کے تمام جرائم اور بڑی تعداد میں شہادتوں اور مظلوم فلسطینی عوام پر دباؤ کے باوجود گزشتہ ڈیڑھ سال کے واقعات نے مسئلہ فلسطین کو دنیا کا سرفہرست مسئلہ بنادیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ نے دنیا پر ثابت کردیا ہے کہ فلسطینی عوام جاہل اور غاصب قوت کیخلاف مزاحمت کر رہے ہیں، لیکن امریکہ اور یورپ ایک ظالم اور جارح ریاست کے حامی ہیں۔ 

ایرانی مسلح افواج کے سربراہ نے تاکید کی کہ فلسطینی عوام کے خلاف ڈیڑھ سال سے جاری صیہونی ظلم، 50 ہزار بچوں، خواتین اور معصوم فلسطینی شہداء کا خون ہی ظالم کی تباہی اور دنیا میں فلسطین کے استحکام کا باعث بنے گا، دشمن اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اس منظر کے فاتح فلسطینی عوام اور مزاحمت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں مزاحمت کا طاقتور ہونا، جنگ لڑنے کا حوصلہ پایا جانا، کامل اتحاد اور قربانی کے جذبے کا موجود ہونا پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ میں جنگ کے دوران اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے، لیکن فلسطینی کاز ہمیشہ زندہ رہیگی اور غاصب حکومت اپنے انجام کو پہنچے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران اسلامی جہاد تحریک انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کہ فلسطین ایران کی کی حمایت

پڑھیں:

سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) افغان طالبان کے رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے گزشتہ جمعے کو افغانستان میں چار افراد کو دی گئی سزائے موت کو اسلامی شریعت کا لازمی حصہ قرار دیا ہے۔ قبل ازیں انسانی حقوق کے گروپوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے ان چار افراد کو سرعام دی گئی سزائے موت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ سزائیں سن 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ایک ہی دن میں دی جانے والی موت کی سب سے زیادہ سزاؤں میں سے تھیں۔ موت کی سزائیں کب اور کہاں دی گئیں؟

افغانستان کی سپریم کورٹ نے چار افراد کو قتل کے جرم میں مجرم قرار دیا تھا۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مقتولین کے اہل خانہ نے ملزمان کو معافی دینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد سزائے موت کا حکم جاری کیا گیا۔

(جاری ہے)

یہ سزائیں گزشتہ جمعے کو تین مختلف صوبوں نمروز، فراہ اور بادغیس کے اسٹیڈیمز میں ہزاروں تماشائیوں کے سامنے دی گئیں۔ طالبان کے جنگجوؤں نے بندوقوں سے فائرنگ کر کے ان سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔

اخوندزادہ کا موقف

اتوار کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر اخوندزادہ کا ایک 45 منٹ کا آڈیو پیغام جاری کیا، جو انہوں نے جنوبی صوبے قندھار میں حج انسٹرکٹرز کے ایک سیمینار کے موقع پر دیا تھا۔

اخوندزادہ نے کہا، ''ہمیں نظم و ضبط کے لیے اقدامات کرنے، نمازیں پڑھنے اور عبادات کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام صرف چند رسومات تک محدود نہیں، یہ الہٰی احکام کا ایک مکمل نظام ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ خدا نے لوگوں کو نماز کے ساتھ ساتھ سزاؤں پر عملدرآمد کا بھی حکم دیا ہے۔ اخوندزادہ نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے اقتدار یا دولت کے لیے جنگ نہیں لڑی، بلکہ ان کا مقصد ''اسلامی قانون کا نفاذ‘‘ ہے۔

انہوں نے ان سزاؤں پر عالمی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مغربی قوانین کی افغانستان میں ضرورت نہیں۔ سزاؤں پر عالمی ردعمل

اقوام متحدہ کی امدادی مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے) نے ان سزاؤں کو انسانی حقوق کی ''واضح خلاف ورزی‘‘ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر موت کی تمام سزاؤں پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عوامی سطح پر سزائیں خوف پھیلانے اور طالبان کے سخت گیر نظریے کو مسلط کرنے کا ذریعہ ہیں۔

یو این اے ایم اے نے ان سزاؤں کو مسترد کرتے ہوئے شفاف عدالتی کارروائی، منصفانہ مقدمات اور ملزمان کے لیے قانونی نمائندگی کے حق کی ضرورت پر زور دیا۔

گزشتہ روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ان سزاؤں پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، ''یہ انسانی وقار اور حق حیات سے بنیادی طور پر متصادم ہیں۔‘‘

ہیومن رائٹس واچ نے ان سزاؤں کو ''شدید پریشان کن‘‘ اور ''بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔

اس تنظیم کی افغانستان ریسرچر فرشتہ عباسی نے کہا کہ یہ واقعات عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے لیے ایک یاد دہانی ہیں کہ وہ افغانستان میں ایک آزاد احتسابی نظام قائم کرے تاکہ ''ان غیر قانونی اقدامات کے ذمہ داروں‘‘ کو جواب دہ بنایا جا سکے۔ طالبان کی سابقہ پالیسیاں

اخوندزادہ نے سن 2022 میں ججوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسلامی شریعت کے تحت حدود اور قصاص کی سزاؤں کو مکمل طور پر نافذ کریں۔

نومبر 2022 میں لوگر صوبے میں 12 افراد کو سرعام کوڑے مارے گئے تھے، جو طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد اس طرح کی سزا کا پہلا مصدقہ واقعہ تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے پہلے دور (1996-2001) میں بھی عوامی سطح پر دی جانے والی سزائیں عام تھیں اور موجودہ پالیسیاں اسی طرز کی طرف واپسی کا اشارہ دیتی ہیں۔ عالمی تعلقات پر اثرات

اخوندزادہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب طالبان مغربی ممالک سمیت عالمی برادری کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ امریکہ نے طالبان کے تین سینئر رہنماؤں بشمول وزیر داخلہ، جو ایک طاقتور نیٹ ورک کے سربراہ بھی ہیں، کے سروں کے لیے رکھی گئی انعامی رقوم ختم کر دی تھیں۔ رواں سال طالبان نے چار امریکی شہریوں کو رہا کیا، جنہیں وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی ''نارملائزیشن‘‘ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوامی سطح پر سزاؤں نے طالبان کی ممکنہ بین الاقوامی قبولیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا کر رکھی ہے۔

افغان عوام کے خدشات

افغانستان میں طالبان کے سخت گیر قوانین کے باعث خواتین کے حقوق، تعلیم اور آزادیوں پر شدید پابندیاں عائد ہیں۔ طالبان رہنما اخوندزادہ کی پالیسیوں کے نتیجے میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی ہے اور خواتین کی عوامی مقامات تک رسائی بھی محدود ہو چکی ہے۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
  • فلسطین کی حمایت اب ایک سوچ بن گئی ہے، اس سوچ کو شکست نہیں دی جاسکتی، منعم ظفر
  • جتنے مرضی کیسز کر لیں ہم نے بانی کا ساتھ نہیں چھوڑنا: زرتاج گل
  • ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد اب فرض ہوچکا ہے، مفتی تقی عثمانی
  • جماعت اسلامی کے زیراہتمام فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے فلسطین مارچ 
  • گورنر سندھ کامران ٹیسوری سے ایرانی قونصل جنرل حسن نوریان کی ملاقات
  • پاکستان کے علماء کرام نے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کیلئے جہاد کا اعلان کردیا، شاداب نقشبندی
  • فلسطینیوں کیساتھ کھڑے، فضل الرحمن: اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی
  • پاکستان سمیت تمام مسلمان حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی
  • امریکہ اور صیہونی رژیم سے مقابلے کا واحد راستہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، قائد انصاراللہ یمن