صوابی بہ مقابلہ نارووال جلسہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
آٹھ فروری کو تحریک انصاف نے بطور یوم سیاہ منایا تھا۔ ویسے تو تحریک انصاف پورے ملک میں احتجاج کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ تاہم صوابی میں جلسہ ہوا۔ آج کل جلسوں کی تصاویر اور ویڈیوز سے جلسوں کی کامیابی اور ناکامی کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ رات کی ویڈیوز لائٹ سب چھپا دیتی ہیں۔ اس لیے سب جلسے ہی اچھے لگتے ہیں۔ اسی لیے رات کا انتظار بھی کیا جاتا ہے۔ دن کے جلسے اسی لیے ختم ہو گئے ہیں۔
بہر حال فروری میں دو جلسے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے گڑھ صوابی میں جلسہ کیا ہے۔ جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے گڑھ نارووال میں جلسہ کیا ہے۔ ہم کسی حد تک دونوں جلسوں کا تقابلی جائزہ کر سکتے ہیں۔ ویسے تو صوابی جلسہ میں صرف کے پی سے لوگوں کو نہیں لایا گیا تھا بلکہ پنجاب کے بھی شمالی دس اضلاع کے لوگوں کو بھی صوابی پہنچنے کا کہا گیا تھا۔ آٹھ فروری کے صوابی جلسہ کے لیے تحریک انصاف نے بہت محنت کی، ساری قیادت وہاں پہنچی، پنجاب کی قیادت بھی وہاں پہنچی۔
بہر حال ہمیں اب تجزیہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مارکیٹ میں کے پی ، کے تحریک انصاف کے صدر جنید اکبر کی ایک آڈیو زیر گردش ہے۔ جس میں وہ صوابی جلسہ کی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔
وہ بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے رہنما لوگوں کو نہیں لائے۔ بلکہ جب ان سے لوگ لانے کا ثبوت مانگا گیا تو انھوں نے اسلام آباد احتجاج کی ویڈیوز اور تصاویر بھجوا دی ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے انھیں بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بیوقوف نہیں بنیں گے۔ سب کی رپورٹ بانی تحریک انصاف کو دیں گے۔ ویسے تو غیر جانبدار اندازے بھی یہی تھے کہ صوابی جلسہ ناکام ہو گیا ہے۔ لیکن اب تو صوبائی صدر نے ناکامی تسلیم کر لی ہے، اس لیے جلسہ کی ناکامی پر مہر لگ گئی ہے ۔
دوسری طرف نارووال میں چند سڑکوں کے افتتاح پر مریم نواز نے بھی ایک جلسہ سے خطاب کیا ہے۔ یہ جلسہ دن میں کیا گیا ہے۔ اس کی ویڈیوز میں رات کی لائٹنگ کا سہارا نہیں لیا گیا۔ اگر مریم نواز کے جلسے اور صوابی جلسے کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو نارووال میں نارووال کے ہی لوگ تھے۔ کوئی باہر سے لوگوں کو مدعو نہیں کیا گیا ۔ سیالکوٹ گوجرانوالہ سے بھی لوگوں کو نہیں بلایا گیا۔ فقط نارووال کا جلسہ تھا۔ لیکن پھر بھی صوابی جلسہ سے بڑا تھا۔ نارووال جلسہ میں صوابی جلسہ سے عوام کی تعداد زیادہ تھی۔ حالانکہ اس کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کوئی باقاعدہ کال بھی نہیں دی گئی تھی۔
ویسے مجھے تحریک انصاف کی صوابی جلسہ کی ناکامی میں یہ منطق قابل قبول نہیں کہ ارکان سمبلی لوگ نہیں لائے۔ تحریک انصاف کا تو سیاسی فلسفہ یہی رہا ہے کہ لوگ خود آتے ہیں۔ لوگ بانی تحریک انصاف کی کال پر آتے ہیں۔ عوام بانی تحریک انصاف سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ بس اڈیالہ سے کال ہی کافی ہے۔ لیکن اگر اس فلسفہ کو دیکھیں تو پھر ارکان اسمبلی سے یہ گلہ کیوں کہ وہ لوگوں کو نہیں لائے۔ اگر لوگ خود آتے ہیں تو پھر کے پی حکومت سے گلہ کیوں کیا جا رہا ہے کہ اس نے جلسہ میں مدد نہیں کی۔ اگر جلسے حکومت کی مدد سے ہی کامیاب ہوتے ہیں تو پھر بانی تحریک انصاف کی محبت کہاں گئی۔
اس طرح تو اب تحریک انصاف کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ لوگ اب بانی تحریک انصاف کی کال پر خود نہیں آتے۔ لوگ حکومتی آشیر باد کے بغیرنہیں آتے، لوگ حکومتی وسائل کے بغیر نہیں آتے۔ پہلے بھی لوگوں کو حکومتی وسائل اور حکومتی آشیر باد سے ہی لایا جاتا تھا۔ پھر پنجاب کے لوگوں سے گلہ کیوں۔ جب کے پی کے لوگ حکومتی آشیرباد کے بغیر آنے کو تیار نہیں تو پنجاب کے لوگ حکومتی آشیرباد کے بغیر کیسے آجائیں۔ پنجاب پر گلہ پھر ناجائز ہے۔
جہاں تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے تو مسلم لیگ (ن) میں ایک نیا جوش نظر آرہا ہے۔ وفاقی اور پنجاب حکومت کی کارکردگی نے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں میں ایک نیا جوش پیدا کیا ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) کا کارکردگی کا بیانیہ مقبول ہوتا نظر آرہا ہے۔لوگ کارکردگی کے معترف نظر آرہے ہیں۔ لوگ اب کارکردگی کی بات کر رہے ہیں۔ لوگوں کو اپنے مسائل حل ہونے کی امید نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ اس لیے ہمیں اب مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں اضافہ نظر آرہا ہے۔
اس سے قبل مریم نواز پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں میں بھی گئی ہیں۔ انھوں نے طلبا و طالبات سے بھی خطاب کیا ہے۔ انھیں جامعات میں بہت پذیرائی ملی ہے۔ ان کے جامعات کے خطاب بھی بہت پسند کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کہتی تھی کہ نوجوان ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نوجوان بھی ن لیگ کی حکومتوں کی کارکردگی پسند کر رہے ہیں۔
بالخصوص وفاقی اور پنجاب حکومتیں نوجوانوں کے لیے جو خصوصی اسکیمیں لائی ہیں وہ نوجوانوں میں مقبول اورپسند بھی کی جا رہی ہے۔ اس میں اسکالر شپ اسکیم بھی شامل ہے۔ لیپ ٹاپ اسکیم بھی شامل ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے آرمی چیف کا بھی نوجوان طلبا و طالبات سے خطاب دیکھا ہے۔ اور فوج کے افسران بھی یونیورسٹیوں میں گئے ہیں۔ نوجوانوں کی سوچ بھی اب حکومت کی طرف مائل نظر آرہی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ابھی ملک میں جلسہ جلوس کا مقابلہ شروع نہیں کرنا چاہتی۔ ابھی حکمت عملی یہی ہے کہ کام کیا جائے اور سیاسی درجہ حرارت کو کم رکھا جائے۔ ابھی دو سال کام کرنے کے ہیں ۔ سیاست تو شروع ہوگی جب ملک میں انتخابات کا بگل بجے گا۔ اس لیے حکومتی پالیسی سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے کی ہے۔ اس لیے صرف مناسب جواب ہی نظر آتا ہے۔ کیونکہ سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ اپوزیشن کے حق میں ہے۔ اس سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی تحریک انصاف پاکستان مسلم لیگ تحریک انصاف کی لوگوں کو نہیں صوابی جلسہ حکومتی ا ا رہا ہے جلسہ کی رہے ہیں تے ہیں کیا ہے اس لیے ہیں کہ کے لوگ
پڑھیں:
عوام خود کھڑے ہوں,حکمرانوں کی پروا کیے بغیر اسرائیلی ظلم و جارحیت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کریں:مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کراچی میں منعقدہ اسرائیل مردہ باد ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کے عوام نے جمعیت علمائے اسلام کی آواز پر لبیک کہہ کر اسلامی تاریخ کا ایک عظیم اجتماع قائم کیا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے اپنے پرجوش خطاب میں کہا کہ ہم خون کے آخری قطرے تک اہلِ غزہ اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ آج کا یہ اجتماع اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو غیرت دلا رہا ہے۔ اگر بیس ہزار بچوں اور بیس ہزار خواتین کی شہادت بھی انہیں بیدار نہیں کر سکی، تو ہم اور آپ انہیں کیسے جگائیں گے؟انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام خود کھڑے ہوں اور حکمرانوں کی پروا کیے بغیر اسرائیلی ظلم و جارحیت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کریں۔مولانا نے تاریخی تناظر میں اسرائیل کی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین میں یہودی آبادی صرف دو فیصد تھی۔ اسرائیل کوئی ملک نہیں، بلکہ عرب سرزمین پر ایک غاصب قبضہ ہے۔ یہ ایک خنجر ہے جو عربوں کی کمر میں گھونپا گیا۔”انہوں نے عالمی قوتوں پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئیے کہا کہ آج امریکہ اور یورپ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، لیکن مسلمانوں کا خون انہیں سستا نظر آتا ہے۔اگر سعودی عرب میں قصاص لیا جائے تو شور مچایا جاتا ہے. لیکن فلسطین میں بے گناہوں کے قتل پر خاموشی چھائی رہتی ہے۔”ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکہ کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر افغانستان سے کچھ نہیں سیکھا، تو وہ وقت دور نہیں جب آپ کو ہمیں جواب دینا ہوگا۔انہوں نے اس اجتماع کو فلسطینی عوام کے عزاز میں ایک تاریخ ساز مظاہرہ قرار دیا اور کہا کہ دنیا بدل رہی ہے .معیشت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے اور مسلمانوں کو اب ایک نئی حکمت عملی کے تحت متحد ہونا ہو گا۔آخر میں مولانا فضل الرحمان نے عوامی بیداری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ مسلمان مذہبی، سیاسی اور معاشی میدانوں میں متحد ہوکر اپنا کردار ادا کریں اور مظلوم فلسطینیوں کا بھرپور ساتھ دیں۔