Express News:
2025-02-21@19:15:18 GMT

سیاسی مخالفین کے خلاف ہمارا مجموعی سیاسی کلچر

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہ کرنا ہے۔ہمارا مجموعی مزاج سیاسی تنقید کا کم اور سیاسی دشمنی کا زیادہ غالب نظر آتا ہے۔

سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مخالفین پر تنقید کے نام پر تضحیک کے پہلو کو نمایاں پیش کرتی ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست میں جمہوری روایات اور طرز عمل پنپ نہیں سکا۔سیاسی جماعتیں جمہوریت اور جمہوری طرز عمل کے دعوے تو بہت کرتی ہیں لیکن ان جماعتوں کی مجموعی سیاست جمہوری اور اخلاقی اصولوں کے برعکس ہے۔

یہ مسئلہ کسی ایک جماعت کی حد تک محدود نہیں بلکہ تمام بڑی اور چھوٹی جماعتیں اس کھیل میں اپنا اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ایک وجہ قومی سیاست میں حقیقی مسائل کی بنیاد پر ہمیں عملی سیاست کا فقدان نظر آتا ہے۔جب حقیقی مسائل پر مبنی سیاست نہیںہوگی تواس کی جگہ ہمیں غیر سنجیدہ اورالزام تراشیوں پر مبنی سیاست کا کھیل دیکھنے کو ملتا ہے۔

پاکستان میں جو ہمیں سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کے عدم تسلسل کی کہانی یاجمہوریت کے کمزور ہونے کا عمل دیکھنے کوملتا ہے تو اس کی وجوہات کو دیکھیں توایک بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے داخلی سطح پر موجود غیر جمہوری طرزعمل اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی سیاست بھی ہے جو قومی سیاست پر غالب ہے۔ سیاسی جماعتوں کا دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف الزام تراشیوں کا کھیل ایک طرف ان کے اپنے سیاسی مفادات کے گردگھومتا تھا تو دوسری طرف اس کا فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو بھی ہوتا تھا جو سیاسی جماعتوں کی باہمی لڑائی کا فائدہ اٹھاکر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل بھی کرتے تھے۔

ہم جب سیاسی جماعتوں کی طرز سیاست کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے بہت سے دوست اس تجزیے کی بنیاد 2011 سے بناتے ہیں۔ان کے خیال میں 2011 سے پہلے پاکستان کی سیاست میں نہ تو کوئی محاذآرئی کا کلچر تھا اور نہ ہی کردار کشی اور گالم گلوچ پر مبنی سیاست۔ان کے بقول یہ سب کچھ 2011 کے بعد سے شروع ہوا ہے اور اس کا الزام پی ٹی آئی پر لگایا جاتا ہے۔پی ٹی آئی پر بہت تنقید کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔یقیناً انھوں نے بھی دیگر جماعتوں کی طرح کوئی اچھی سیاسی روایت قائم نہیں کی ہے۔ لیکن ہم نے جو سیاست 80 اور 90 کی دہائی میں دیکھی ہے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

اس سیاست میں بہت کچھ ہوا اور مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کی کردار کشی تک کی۔ بھٹوصاحب کے خلاف بننے والا پی این اے کا اتحاد ہو یا محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد ان دونوں اتحادوں کی سیاست مجموعی طورپر منفی اور نفرت کی سیاست پر مبنی تھی اور اس سیاست کی وجہ سے جمہوری عمل متاثر ہوا۔یہ جو بار بار ہمیں ملکی سیاست میں فوجی مداخلتوں کا کھیل دیکھنے کو ملا ،وہ بھی اسی سیاست کا عملی نتیجہ تھا۔

ہمیں مجموعی طورپر اس ناکامی کا اعتراف بھی کرنا چاہیے کیونکہ ایک طرف بھٹو کے مخالفین تھے دوسری طرف بھٹو کے حامی اور دونوں نے اس کھیل میں نفرت کے بیج بوئے۔ماضی کی سیاست میں ہم نے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلافملک دشمنی ،قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا، بھارت اسرائیل اور امریکا دوستی اور مسلم دشمنی پر مبنی سیاست کو دیکھا ہے۔اس کھیل میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی اپنا حصہ خوب ڈالا تھا۔ماضی کی جو منفی سیاست ہم نے دیکھی تھی اب اس کی نئی شکل ہم دیکھ رہے ہیں۔

بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں سے ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے سبق سیکھا ہے اور اس کی مثال وہ میثاق جمہوریت کو دیتے ہیں۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ میثاق جمہوریت کے بعد بھی یہ جماعتیں ایک دوسرے سے دست وگریبان رہی ہیں اوراس وقت یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار کے کھیل شریک ہیں۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا، چاہے ماضی کی سیاست ہو یا آج کی سیاست ہم مجموعی طور پر جمہوری سیاست اور جمہوری طرز عمل کو اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا جمہوری تجربہ وہ نتائج نہیں دے رہا جو جمہوری ملکوںکو ملتا ہے۔ہماری جمہوریت آج دنیا کی درجہ بندی میں بہت پیچھے ہے اور لوگ ہماری جمہوریت پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھارہے ہیں یا ان کو ہماری جمہوریت پر شدید تحفظات ہیں۔

جمہوریت سے مراد اپنے سیاسی مخالفین کی سیاسی قبولیت سے ہوتا ہے اور جمہوری عمل ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا سکھاتا ہے جب کہ ہم جمہوریت کے نام پر سیاسی دشمنی کے کھیل میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ جمہوریت کا سفر پیچھے رہ گیا ہے۔یہ کھیل میںکسی ایک سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت کی ناکامی نہیں بلکہ اس میں سب جماعتوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔بعض سیاسی جماعتوں نے غیر سیاسی قوتوں کے ایجنڈا کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی سیاست کے بیج بوئے ہیں۔

ان سیاسی جماعتوں نے یہاں اپنی اپنی جماعتوں کو ایک دوسرے کی عملی مخالفت میں نفرت کے طور پر استعمال کیا ۔ اس لیے ہماری سیاست کے حقائق کافی تلخ ہیں اور ہمیں اپنی اپنی سیاسی پسندوناپسند سے باہر نکل کر ایک بڑے سیاسی فریم ورک میں قومی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔یہ جو ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر ہم اپنا قومی سیاسی بیانیہ نفرت کی بنیاد پر بنا رہے ہیں، اس سے معاشرے میں سیاسی بنیادوں پر اور زیادہ تقسیم ہوگی۔پہلے ہی ہم بطور معاشرہ سیاسی طور پر بہت تقسیم ہوگئے ہیں اور اس تقسیم نے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کردیا ہے۔

اس لیے ہمیں ایک نئی سیاست درکار ہے جو لوگوں میں سیاسی نفرت کو کم کرے اور اس عمل میں ہماری سیاسی جماعتوں اورسیاسی قیادت کو بڑی ذمے داری کا مظاہرہ کرناہوگا۔یہ عمل روائتی اور فرسودہ یا غیر حقیقی سیاسی ایجنڈا کی بنیاد پر نہیں آگے بڑھے گا۔سول سوسائٹی اور میڈیا کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ اپنی سیاست کی سمت کو درست کریں اور سیاست کو جمہوری اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھائیں۔یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، ہمیںاس عمل میں قومی سطح پرایک تحریک چلانی ہوگی کہ سیاست اور جمہوریت کی بنیاد سیاسی دشمنی پر نہیں بلکہ قومی اورحقیقی مسائل سے جڑی ہونی چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیاسی مخالفین سیاسی جماعتوں پر مبنی سیاست ایک دوسرے کے سیاسی جماعت کی بنیاد پر اپنے سیاسی جماعتوں نے جماعتوں کی جمہوریت کے اور جمہوری سیاست میں میں سیاسی کھیل میں سیاست کا کی سیاست نے سیاسی ماضی کی کے خلاف اور اس ہے اور

پڑھیں:

26 ویں ترمیم جمہوریت کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے‘ بیرسٹر گوہر

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ 26 ویں ترمیم جمہوریت کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام 26 ویں آئینی ترمیم اور سیاسی بحران کے موضوع پر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آج کے کامیاب سیمینار پر وکلا کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ عوام کے حقوق اور عدلیہ کی بحالی کے لیے ہر تاریخ کا آغاز لاہور ہائی کورٹ بار سے ہوا۔ انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کے خلاف بھی تحریک یہاں سے کامیاب ہوگی۔ 26 ویں ترمیم پر میں بات کرنا چاہتا ہوں، جیسے یہ بنائی گئی، اس کو پاس کیا گیا، یہ جمہوریت کے راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ پی ٹی آئی ایوان کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ عمران خان بھی جیل میں اس ملک کی آزادی کے لیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں ترمیم کے لیے ایک اسپیشل پروسجر ہے، یہ ترمیم پاس کروانے میں تمام قانون کو بالائے طاق رکھا گیا۔ پارٹی کی ڈائریکشن کے بغیر ووٹ تصور کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح اکثریت کے خلاف یہ ترمیم ہوئی، ہم اسے نہیں مانتے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ کورٹ کے اندر ایک کورٹ بنائی گئی ہے۔ 6 کروڑ عوام نے ووٹ دیا، یہ سیاسی نظام تباہ ہو چکا ہے۔ جوڈیشری کو خودمختار ہونا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ اس ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرے اور وہ ججز ان درخواستوں کو سنیں جو 26 ویں ترمیم سے پہلے کے ججز تھے۔ کنونشن میں بیرسٹر گوہر کے علاوہ محمود خان اچکزئی، حامد خان، سردار لطیف کھوسہ، ہائی کورٹ بار کے صدر، اسد منظور بٹ، سابق صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، صدر پریس کلب ارشد انصاری، سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار اشتیاق اے خان، صدر لاہور بار ایسوسی ایشن مبشر رحمن علی احمد کرد اور دیگر بھی شریک ہوئے۔

متعلقہ مضامین

  • ایک سیاسی جماعت لاکھوں ڈالر لگاکر ملک کیخلاف مہم چلارہی ہے، مصدق ملک
  • پی ٹی آئی ایک بار پھر اداروں کے خلاف مہم چلانا چاہتی ہے، مصدق ملک
  • بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں خواتین کو آگے آنے کیلئے راستہ کھولا، بلاول بھٹو
  • سیاست، جمہوریت سے ناواقف گروہ کو اب لانگ مارچوں، دھرنوں کی اجازت نہیں دینگے: نوازشریف
  • ہمارا اصل ہدف سیمی فائنل میں جگہ بنانا ہے: ول ینگ
  • کیا امریکی “ڈیپ اسٹیٹ” بھارتی جمہوری عمل پر اثر انداز ہو رہی ہے؟
  • مخالفین کو حسد اور بدتمیزی کے سوا کچھ نہیں آتا، نوازشریف
  • 26 ویں ترمیم جمہوریت کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے‘ بیرسٹر گوہر
  • گالم گلوچ اور لڑائی کا کلچر