عیادت کی اسلامی تعلیمات
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام جس طرح ہمیں خوشیوں میں دوسروں کا ساتھ دے کر ان کی خوشیاں بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے۔
اسی طرح دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھنے، اس میں شریک ہونے اور اس کے ازالے کی کوشش کرنے کی تلقین کرتا ہے، ایک مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان بھائی کو بیماری و پریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کے اندر رحم کے جذبات ابھریں اور اس کی مصیبت کا اسے بھی احساس ہو، یقیناً ایک مسلمان کا دوسروں کی تکلیف کا احساس کرکے دل جوئی اور دل داری کی خاطر اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر بیمار پرسی کرنے میں اس فرمانِ مصطفی ﷺ کا عملی اظہار ہوتا ہے کہ جس میں تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے۔
بیمار پرسی سے آپسی تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے، ایک دوسرے کے لیے ہم دردی اور غم خواری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، مریض، اس کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے دل میں بیمار پرسی کرنے والے کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اتحاد و یگانگت کی ایک اچھی فضا قائم ہوتی ہے، گویا سماجی اور دینی دونوں ضرورتیں اس سے پوری ہوتی ہیں، اگر بیماری کے علم کے باوجود مریض کی عیادت نہ کی جائے اور اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی جائے، تو آپس میں عداوت، کدورت، نفرت اور بدگمانی پیدا ہو تی ہے۔
بیمار پرسی مسلمان کا حق:
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا، مریض کی بیمار پرسی کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کے جواب پر یرحمک اﷲ کہنا۔‘‘ (البخاری)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: اے ابن آدم! میں بیمار تھا، تُونے میری عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا، حالاں کہ تو رب العالمین ہے۔ اﷲ تعالی فرمائے گا: کیا تُو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تُونے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تُو اس کی عیادت کرتا، تو تُو مجھے اس کے پاس پالیتا۔‘‘ (مسلم)
بیمارپرسی کے فضائل:
مریض دوست ہو، یا دشمن، امیر ہو، یا غریب عیادت کو سنت، اخلاقی فریضہ اور مسلمان کا حق سمجھ کر کرنا چاہیے۔ آج عیادت کا دائرہ سمٹ کر رہ گیا ہے ، معاشرے میں عیادت ایک رسم بن گئی ہے، لوگ اس وجہ سے عیادت کرتے ہیں کہ اگر میں نے عیادت نہیں کی، تو اس کے گھر والے کیا سمجھیں گے، کوئی مال دار، یا عہدہ دار، یا خاص رشتہ دار ہو، تو اس کی عیادت کی جاتی ہے۔ اگر کوئی غریب ہے ، تو پڑوس میں ہونے کے باوجود ایک مرتبہ بھی مزاج پرسی اور اظہارِ ہم دردی نہیں کی جاتی، اس لیے کہ اس سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ نہیں اور نہ آئندہ اس کی کوئی توقع ہے۔
حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت کو جاتا ہے، تو واپس ہونے تک وہ جنت کے باغات میں ہوتا ہے۔ یعنی عیادت کرنے والا جب سے عیادت کے لیے نکلتا ہے، تو واپس ہونے تک اس طرح ثواب کو حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے، جس طرح جنتی جنت کے باغات میں پھل توڑنے میں لگا رہتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح)
بیمارپرسی اور ستّر ہزار فرشتے:
حضرت ابوفاختہؒ فرماتے ہیں: حضرت علی ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: میرے ساتھ حسن کی عیادت کے لیے چلو۔ (ہم حضرت حسنؓ کے گھر گئے) وہاں حضرت ابوموسی اشعریؓ موجود تھے، حضرت علیؓ نے حضرت ابوموسی اشعریؓ سے پوچھا: ابوموسی! آپ ملاقات کے لیے آئے ہو؟ یا عیادت کی غرض سے آئے ہو؟
حضرت ابوموسی اشعریؓ نے عرض کیا: حضرت حسنؓ کی عیادت کی غرض سے حاضر ہُوا ہوں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو مسلمان صبح کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کرتا ہے، شام تک ستر ہزار فرشتے عیادت کرنے والے کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں، اگر شام کے وقت عیادت کرے، تو صبح تک ستّر ہزار فرشتے عیادت کرنے والے کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ تیار کیا جاتا ہے۔ (رواہ ابوداؤد و الترمذی)
حضرت ابوہریرہ ؓفرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص کسی مریض کی عیادت کرے، یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کرے، تو آسمان سے ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے کہ تم نے اچھا کیا، تمہارا (عیادت و ملاقات کے لیے) چلنا مبارک ہے اور تم نے (عیادت کرکے) جنت میں اپنے لیے ٹھکانا بنا لیا۔‘‘ (رواہ الترمذی
ایک مسلمان کا فرض ہے کہ مریض کے ساتھ ہم دردی اور غم خواری کرے، اس کے احوال پوچھے اور جہاں تک ہوسکے، اس کا تعاون کرے، اسی کو عربی زبان میں عیادت کہا جاتا ہے۔
عیادت کا ادنی درجہ یہ ہے کہ بیمار کی مزاج پرسی کی جائے، یا تیمار داروں سے اس کے احوال معلوم کر لیے جائیں۔ عیادت کا اعلی درجہ یہ ہے کہ مریض کے ساتھ مکمل غم خواری کی جائے، یعنی بیمار کے پاس پیسے کی کمی ہے اور اﷲ نے وسعت دی ہے، تو پیسوں کے ذریعے اس کا تعاون کریں، تاکہ صحیح علاج کیا جا سکے، اگر خدمت کی ضرورت ہو، تو خدمت کی جائے، صحیح طبیب کی راہ نمائی کی جائے، اپنے علم کے اعتبار سے صحیح اور مفید مشورے دیے جائیں۔ تیمار داروں (اور مریض کے رشتہ داروں) پر لازم ہے کہ وہ اپنی وسعت و مالی استطاعت کے موافق مریض کی خدمت، اس کا علاج اور اس کی ضروریات کی تکمیل کریں۔ شریعت ہمیں بتاتی ہے کہ مریض بوجھ نہیں بل کہ سببِ رحمت ہے، اس کی خدمت اور تیمارداری اجر و ثواب کے حصول کا ذریعہ ہے۔
بیمارپرسی کا طریقہ اور آداب:
(1) جب بیمار پرسی کے لیے جائے تو باوضو جائے۔
(2) اﷲ کی رضا اور ثواب کی نیت سے عیادت کی جائے، جاہ و منصب، مال و منال کی رعایت، یا ترک ِعیادت پر ملامت سے بچنے کی غرض سے عیادت نہ کی جائے۔
حضر ت انس ؓفرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص وضو کرے، اچھا وضو کرے اور اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے (کسی دنیوی غرض سے نہ جائے بل کہ محض رضائے الٰہی اور) ثواب کی نیت سے جائے تو اﷲ تعالی اس کو جہنم سے ساٹھ سال کی مسافت کے بہ قدر دُور کر دیتے ہیں۔‘‘ (ابوداؤد)
(3) مریض کے سامنے اس کو خوش کرنے والی باتیں کی جائیں، ایسی باتیں نہ کی جائیں جو اس کے دل کو تکلیف پہنچانے والی ہوں، یا اس کے فکر و اندیشے میں اضافہ کرنے والی ہوں۔ مریض کو تسلی دے اور کہے: ان شا اﷲ ٹھیک ہوجائیں گے، کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ رسول اﷲ ﷺ جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے، تو ایسے ہی کلمات سے تسلی دیتے تھے: کوئی تکلیف یا گھبراہٹ کی بات نہیں ہے، اس لیے کہ بیماری گناہوں کی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ہے۔ ان شا اﷲ۔ ( بہتر ہی ہوگا)
(4) مریض کو صحت و تن درستی اور زندگی کی امید دلائے، مریض کو ناامید بنانے والی گفت گُو سے احتراز کرے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب تم بیمار کے پاس جاؤ تو اس سے عمر کی درازی اور لمبی حیاتی کی بات کرو، درازی عمر کی بات سے اس کی عمر لمبی اور بیماری دور نہیں ہوجائے گی لیکن بیمار خوش اور مطمین ہوجائے گا۔‘‘ (الترمذی)
(5) مریض کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹھہرنا چاہیے۔ بعض مرتبہ مریض کو آرام یا بعض خاص ضروریات کی تکمیل کا تقاضا ہوتا ہے، بیمار اور تیماردار مہمان کے واپس ہونے کے انتظار میں رہتے ہیں، زبان سے کہہ نہیں سکتے جس کی وجہ سے ان لوگوں کو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے اس لیے مریض اور تیمار داروں سے چند تسلی کے کلمات کہہ کر فوراً چلے آنا چاہیے البتہ اگر مریض خود خواہش مند ہو اور اہل خانہ کو بھی کوئی زحمت نہ ہو تو دیر تک بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
(6) مریض کے پاس شور و شغب نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ شور و شغب سے مریض کو بھی اذیت ہوتی ہے اور تیمار داروں کو بھی بُرا لگتا ہے ۔
(7) مریض کسی کھانے پینے کی چیز کی خواہش کرے اور وہ چیز اس کی صحت کے لیے نقصان دہ نہ ہو تو وہ چیز مریض کے لیے فراہم کرنا چاہیے۔
(8) جب بیمار پرسی کے لیے جائے تو مریض سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے اس لیے کہ مریض کی دعا قبول ہوتی ہے۔
(9) عیادت کے لیے مناسب وقت میں جائے کیوں کہ بعض اوقات مریض اور تیماردار کے آرام اور ضروریات کا ہوتا ہے، اس لیے ان چیزوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
غیر مسلم کی بیمار پرسی:
فخر کونین حضرت محمد مصطفی ﷺ بچوں اور عورتوں یہاں تک کہ غیر مسلموں کی عیادت کے لیے بھی تشریف لے جاتے تھے، اس لیے کہ انسانیت کی بنیاد پر وہ بھی ہم دردی کے مستحق ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی عیادت کرنا تو اسلامی حق ہے مگر اس سے آگے بڑھ کر انسانیت کی بنیاد پر بلاتفریقِ مذہب و ملت غیر مسلم برادرانِ وطن کی مزاج پرسی بھی اجر و ثواب سے خالی نہیں، اگر اس میں تبلیغِ اسلام کی نیت کرلی جائے، تو پھر اس کے بہتر اور مفید نتائج سامنے آتے ہیں۔
ایک یہودی لڑکا رسول اﷲ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہوگیا۔ رسول اﷲ ﷺ اس یہودی لڑکے کی خبر گیری اور عیادت کے لیے تشریف لے گئے اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اس کو اسلام کی دعوت دی اور فرمایا: اسلام قبول کرلو! (اس کا باپ بھی وہیں بیٹھا ہُوا تھا) وہ یہودی لڑکا اپنے باپ کو دیکھنے لگا۔ باپ نے کہا: بیٹا! ابوالقاسم (ﷺ) کی بات مان لے۔ بیٹے نے فوراً کلمہ پڑھا اور انتقال کرگیا۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: تمام تعریفیں اس اﷲ کے لیے ہیں جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔(رواہ البخاری)
اﷲ تعالیٰ ہمیں اسلامی اصولوں کے مطابق بیماروں کی بیمار پرسی و تیمار داری کرنے کی توفیق دے، معاشرہ میں اسی سے اخوت و بھائی چارے کی فضاء قائم ہوگی۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی عیادت کے لیے تیمار داروں ایک مسلمان مسلمان کی مسلمان کا اور تیمار اس لیے کہ اﷲ تعالی عیادت نہ کرتے ہیں عیادت کی سے عیادت مریض کو مریض کے کہ مریض نہیں کی کی جائے ہوتی ہے ہوتا ہے مریض کی کے پاس اور اس کی بات ہے اور
پڑھیں:
جماعت اسلامی کا حافظ نعیم الرحمٰن کی زیر قیادت کراچی میں عظیم الشان ”یکجہتی غزہ مارچ“
اسلام ٹائمز: یکجہتی غزہ مارچ سے حافظ نعیم الرحمٰن، شیخ مروان ابو العاص، ڈاکٹر زوہیر ناجی، علامہ سید حسن ظفر نقوی، کاشف سعید شیخ، منعم ظفر خان، سیف الدین ایڈوکیٹ، توفیق الدین صدیقی، آبش صدیقی، یونس سوہن ایڈوکیٹ و دیگر نے خطاب کیا۔ خصوصی رپورٹ
جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمٰن کی زیر قیادت کراچی کی شاہراہ فیصل پر عظیم الشان ”یکجہتی غزہ مارچ“ کا انعقاد کیا گیا، لاکھوں کی تعداد میں کراچی کے عوام، علماء، وکلاء، ڈاکٹرز، انجینئرز، طلبہ، تاجر، مزدور سمیت سول سوسائٹی و تمام طبقات اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ مرد و خواتین ایمانی جذبے اور بھرپور جوش و خروش کے ساتھ اپنی فیملی کے ہمراہ جوق درجوق ”یکجہتی غزہ مارچ“ میں شر یک ہوئے۔ یکجہتی غزہ مارچ میں مرکزی خطاب حافظ نعیم الرحمٰن نے کیا، جبکہ چیئرمین القدس اتحاد المسلمین شیخ مروان ابو العاص، حماس کے ترجمان و غزہ کے رہائشی ڈاکٹر زوہیر ناجی، امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ، امیر کراچی منعم ظفر خان، نائب امیر کراچی سیف الدین ایڈوکیٹ، سکریٹری کراچی توفیق الدین صدیقی، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ سید حسن ظفر نقوی، اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم آبش صدیقی، جماعت اسلامی کراچی اقلیتی ونگ کے رہنما یونس سوہن ایڈوکیٹ و دیگر نے بھی خطاب کیا۔
مرکزی امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے شاہراہ فیصل پر ”یکجہتی غزہ مارچ“ کے لاکھوں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں نے اہل غزہ و فلسطین کیلئے عملی کردار ادا نہ کیا تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی، حکومتِ پاکستان لیڈنگ رول ادا کرے، وزیراعظم شہباز شریف اور فوجی قیادت آگے بڑھیں، عالم اسلام کے حکمرانوں اور فوجی سپہ سالاروں کا اجلاس بلائیں اور اسرائیل کو مشترکہ طور پر واضح پیغام دیں کہ اگر فلسطینیوں کی نسل کشی بند نہ کی گئی تو ہم پیش قدمی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ حماس کی تحریک کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتی، حماس محبت، خدمت، مزاحمت، مقاومت اور سامراج کے خلاف جہاد و قتال کا عنوان ہے، اہل غزہ و حماس سے اظہار یکجہتی کیلئے 22 اپریل کو پورے ملک میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہوگی، اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو خطوط ارسال کر چکے ہیں، فلسطینی قیادت سے توثیق لے چکے ہیں، عالم اسلام کی تحریکوں سے رابطہ کیا جا رہا ہے، 22 اپریل کی ہڑتال کو گلوبل ہڑتال بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ طاغوت کے ہتھیار سے طاغوت کا مقابلہ کریں گے، طاغوت کی تجارت نہیں چلنے دیں گے، صیہونی مصنوعات کی بائیکاٹ کی مہم مزید تیز کریں گے، پاکستان کے علمائے کرام نے جہاد کا فتویٰ دیا اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی تو اس پر امریکا و اسرائیل کے غلاموں اور یہودی ایجنٹوں کو کیوں تکلیف ہو رہی ہے۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور پی ٹی آئی امریکا و اسرائیل کی مذمت اور ان دہشتگرد ریاستوں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتیں، تمام جماعیتں امریکا سے آشیرباد وصول کرنے کیلئے لائن بنا کر کھڑی ہیں، امریکا و اسرائیل نے اقوام متحدہ کا چارٹر پھاڑ کر رکھ دیا ہے، امریکا و اسرائیل کے غلام اپنی سازشوں سے امت کے جذبہ جہاد کو کم نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ آج شہر کراچی نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ یہ شہر عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر ہے، اہل کراچی کا لاکھوں کی تعداد میں شرکت کا جذبہ ضرور رنگ لائے گا، آج کا یکجہتی غزہ مارچ اختتام نہیں بلکہ آغاز ہے، اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کی تحریک جاری رہے گی، بچوں کا بھی مارچ ہوگا، 18 اپریل کو ملتان اور 20 کو اسلام آباد میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مارچ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اہل غزہ جس مصیبت میں ہیں وہ بیان سے باہر ہے، 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، طاقتور کی حکمرانی ہے، استعمار اور سامراج فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل شکست کھا چکا ہے، اسرائیل کی ٹیکنالوجی کو دریا برد کر دیا ہے، اسرائیل غزہ کو جیل بنا رہا ہے اور رفح بارڈر پر قبضہ کر رہا ہے، آج بھی اسرائیل القسام کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اہل غزہ کے مسلمان کہہ رہے ہیں کہ پوری مسلم دنیا کے میزائل و ایٹم بم سامنے کیوں نہیں آتے، دنیا بھر کے باضمیر انسان تو سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں، لیکن مغرب کا سامراجی ذہن سب کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہل غزہ اہل کراچی سے جذبہ حاصل کر رہے ہیں، ڈیڑھ سال سے مقابلہ کر رہے ہیں، خلیل الحیہ مزاحمت و مقاومت کے محاز میں ڈٹے ہوئے ہیں، آج ان کے پوتے کو شہید کر دیا ہے، شہادتوں کا قافلہ اور عزیمتوں کی داستاں کو طاقت سے نہیں کچلا جا سکتا، ان شاء اللہ فلسطینیوں کو آزادی ضرور ملے گی، بچوں کے خون کی برکت سے سامراج سے نجات ملے گی۔
شیخ مروان ابو العاص نے اپنے آڈیو خطاب میں کہا کہ ہم فلسطینی بھائیوں کی طرف سے پاکستانی بھائیوں کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں، آپ سب جانتے ہیں کہ غزہ میں ظلم و بربریت جاری ہے، ہمارے گھروں، مساجدوں اور اسپتالوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے، اہل غزہ کے مسلمان امت کے مسلمانوں سے مدد طلب کر رہے ہیں، ہمارے بچوں اور عورتوں پر بمباری کی جا رہی ہے، میرے پاکستانی بھائیو، ہم بیت المقدس اور اہل غزہ کی آزادی کیلئے ڈٹے رہیں گے، اہل غزہ و فلسطین کے مسلمانوں نے اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچان لیا ہے، غزہ کے بچوں اور خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے صرف باتیں ہی کرتے ہیں، عملاً کچھ نہیں کیا جا رہا، مسجد اقصیٰ کو مکمل ہیکل سلیمانی میں تبدیل کرنے میں کوشاں ہیں، ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں مسجد اقصیٰ کی آزادی کے بعد مسجد اقصیٰ میں نماز شکرانہ ادا کریں گے۔
ڈاکٹر زوہیر ناجی نے کہا کہ جماعت اسلامی اور اہل کراچی کے شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے نکل کر مارچ میں شرکت کرکے فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیا، پاکستان کے عوام اول روز سے ایک غزہ و فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمارے دشمن صیہونی نے ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کو شہید کیا ہے، صیہونی ہمارا دشمن ہے اور وہ اپنی طاقت سے ہمیں شکست نہیں دے سکتا، ہم صیہونیوں کے سامنے ایمان قوت سے ڈٹے ہوئے ہیں، غزہ کی جنگ صرف غزہ کی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی جنگ ہے، ہم نے ایک دن کیلئے بھی صیہونیوں کے سامنے شکست تسلیم نہیں کی۔ کاشف سعید شیخ نے کہا کہ اہل کراچی کو اہل غزہ و فلسطین کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے سلام پیش کرتا ہوں، اہل غزہ امت مسلمہ کے حکمرانوں کو مدد کیلئے پکار رہے ہیں، عالم اسلام کے حکمرانوں سن لو، اب تقریر اور تحریر سے نہیں بلکہ اب عصا اٹھانا پڑے گا، اہل ایمان کی رمق اور جہاد فی سبیل اللہ کا عنوان بننے کی ضرورت ہے، معصوم بچوں اور خواتین پر بمباری کرکے اسلام کو ختم نہیں کر سکتے، گزشتہ ڈیڑھ سال سے اسرائیل غزہ پر بمباری کر رہا ہے، لیکن اہل غزہ استقامت کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں، اہل غزہ نے پیغام دیا ہے کہ ہم مٹ تو سکتے ہیں، لیکن اسرائیل کو قبول نہیں کر سکتے۔
منعم ظفر خان نے کہا کہ اہل کراچی کو مبارکباد اور شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے ثابت کر دیا کہ اہل کراچی کا دل مظلوموں کے ساتھ دھڑکتا ہے، جب بھی اہل غزہ نے پکارا ہے، اہل کراچی نے ثابت کر دیا کہ ہم کل بھی اہل غزہ کے ساتھ تھے اور آج بھی اہل غزہ کے ساتھ ہیں، گزشتہ ڈیڑھ سال سے ایک غزہ پر ظلم کی انتہا کر دی گئی، لاکھوں لوگوں کو شہید و زخمی کر دیا گیا، اہل غزہ ایمانی قوت اور اللہ پہ بھروسہ کرکے استقامت کا استعارہ بنے ہوئے ہیں، حماس اور اہل فلسطین نے اپنے عزم کے ذریعے ثابت کر دکھایا اور مسلم امہ کے حکمرانوں کو ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایمانی جذبے اور ایمانی قوت سے سرشار ہیں، حماس اور اہل غزہ کے مسلمان امت مسلمہ کے حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ تم بیت المقدس کی حفاظت کیلئے کیوں نہیں بولتے، امت مسلمہ کے حکمران خاموش رہ کر امریکا و اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، شہادت مسلمانوں کیلئے امید کا پیغام ہے، جدوجہد و مزاحمت میں کوئی مایوسی اور ناامیدی نہیں ہے، عالمی دنیا کے نقاب اتر گئے جو انسانی حقوق اور حقوق نسواں، جانور کے حقوق کی بات کرنے والوں کو فلسطین میں ظلم کیوں نظر نہیں آ رہا، کہاں ہے او آئی سی اور کہاں ہے عرب لیگ، انہیں فلسطین میں جاری ظلم کیوں نظر نہیں آتا، ہم اہل غزہ و فلسطین کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی جاری رکھیں گے اور امت مسلمہ کے حکمرانوں کو جھنجھوڑتے رہیں گے۔
علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کہا کہ معصوم بچوں کے خون نے عالم اسلام کے مسلمانوں میں یکجہتی پیدا کی ہے، سامراج کی کوشش ہے کہ امت مسلمہ کی یکجہتی میں دراڑ ڈالی جائے، دنیا کی کوئی طاقت امت مسلمہ میں انتشار پیدا نہیں کر سکتی، جماعت اسلامی وہ جماعت ہے، جو اول روز سے بیت المقدس اور اہل غزہ کے ساتھ ہے، ہمارا فلسطینی بھائیوں سے ایمانی رشتہ ہے۔ سیف الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ اہل غزہ و فلسطین میں رہنے والوں سے اظہار یکجہتی ہم سب پر واجب ہے، اہل غزہ کے مظلوم و نہتے فلسطینی مسلمان ایمان کی بدولت صیہونیوں سے مقابلہ کر رہے ہیں، ایمانی قوت سے سامراجی قوت کو پسپا کرنے پر مجبور کر رہی ہے، ہمیں اپنا دشمن صاف نظر آ رہا ہے، ایسا دشمن جو انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کی بھی بات کرتا ہے، جان لیجیے کہ امریکا کبھی بھی ہمارا دوست نہیں بن سکتا، ہمیں اپنا حق ادا کرنا ہے۔ یونس سوہن ایڈوکیٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے فلسطین میں جاری ظلم کے بارے میں دکھایا جا رہا ہے، مسلم امہ کے حکمرانوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، او آئی سی اور اقوام متحدہ کے ذمہ داران کو فلسطین میں جاری ظلم کیوں نظر نہیں آ رہا، کراچی میں بسنے والے مسیحی برادری اہل غزہ و فلسطین کے مسلمان کے ساتھ ہے، ہم فلسطینی بھائیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستانی مسیحی برادری آپ کے ساتھ ہیں، ہم امریکا اور اسرائیل کے ویزے پر لعنت بھیجتے ہیں۔
آبش صدیقی نے کہا کہ ہم پاکستان کے علمائے کرام سے کہنا چاہتے ہیں کہ امت کا ایک ایک بچہ واقف ہے کہ امت پر جہاد فرض ہو چکا ہے، صرف اعلان نہیں بلکہ آرمی چیف کا نام لے کر کہا جائے کہ آپ حافظ تو ہیں اب مجاہد بن کر جہاد کا اعلان بھی کریں، اہلیان کراچی بائیکاٹ مہم جاری رکھیں، جو لکھ سکتا ہے وہ لکھے اور جو بائیکاٹ کر سکتا ہے، وہ بائیکاٹ کرے اور جو فنڈ جمع کر سکتا ہے وہ فنڈ جمع کرے۔ ”یکجہتی غزہ مارچ“میں ناظمہ کراچی جاوداں فہیم، نائب قیمہ پاکستان عطیہ نثار، ناظمہ صوبہ سندھ رخشندہ منیب، نائب ناظمہ صوبہ سندھ عذرا جمیل، نائب ناظمہ کراچی فرح عمران، شیبا طاہر، سمیہ عاصم، ندیمہ تسنیم، ہاجرہ عرفان، سیکریٹری اطلاعات کراچی ثمرین احمد اور دیگر خواتین ذمہ داران بھی موجود تھیں۔