Express News:
2025-04-15@08:00:41 GMT

سچائی: دنیا و آخرت میں کام یابی کی کلید

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو جن راہوں پر چلنے کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک سچائی بھی ہے۔ سچائی اﷲ تعالیٰ، انبیائے کرام علیہم السلام، بالخصوص خاتم الانبیاءؐ، ملائکہ، اولیاء و صلحاء اور ہر سلیم الفطرت شخص کا درجہ بہ درجہ مشترکہ وصف ہے۔

سچائی اپنی اہمیت کے حوالے سے صرف مسلمان ہی نہیں بل کہ ہر انسان خواہ وہ مومن ہو یا کافر، نیک ہو یا بد، حاکم ہو یا رعایا، افسر ہو یا مددگار، استاد ہو یا شاگرد، پیر ہو یا مرید، امیر ہو یا غریب، اپنا ہو یا پرایا، والدین ہوں یا اولاد ال غرض زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے انسان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ انسانی اخلاق و کردار کا تعین انسان کے گفتار و معاملات سے ہوتا ہے۔ جو انسان ہمیشہ سچ بولتا ہے وہ ہمیشہ فاتح اور کام یاب رہتا ہے۔ وقتی مشکلات کے باوجود سچائی انسان کو نجات و عافیت کی منزل پر لے جاتی ہے۔ جُھوٹا انسان وقتی طور پر کچھ فوائد تو حاصل کر لیتا ہے لیکن اس کا جھوٹ بالآخر اسے ہلاکت کے گڑھے میں گرا دیتا ہے۔

آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’سچ بولنا نجات کا ذریعہ ہے اور جھوٹ باعث ہلاکت ہے۔‘‘

آج ایک عجیب فضاء قائم ہو چکی ہے کہ اکثریت جھوٹ بولنے کی عادی ہے اور سچ کی نعمت سے محروم ہے۔ جس معاشرے میں جھوٹ عام ہو جائے اور سچائی دم توڑ جائے وہاں جرائم کا ہونا لازمی امر ہے۔ آپس میں احترام اور محبت سب جھوٹ کی وجہ سے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں سچائی جرائم کو کنٹرول کرنے اور امن و امان کی فضاء کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سچا انسان ہی دوسروں کا احترام کرتا ہے اور اس کے بدلے اسے بھی احترام ملتا ہے جب کہ جھوٹا انسان سماج کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔

قرآن کریم اور احادیث نبوی ﷺ میں مومنین کی جو صفات بیان کی گئی ہیں، ان میں ایک اہم اور بنیادی صفت سچ بولنا بیان کی گئی ہے۔ صدق یعنی سچائی کا ایک بنیادی اور سادہ مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی گفت گُو میں جھوٹ اور خلافِ واقعہ باتوں سے پرہیز کرے اور ہمیشہ وہی بات کرے جو واقعے کے مطابق اور سچ ہو۔

رسول اﷲ ﷺ کی ہدایات میں سچائی کی اس بنیادی قسم پر بھی بہت زور دیا گیا ہے اور اس کو ایمان کی نشانی اور جھوٹ بولنے کو ایک طرح کے نفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بندۂ مومن کسی بھی حالت میں سچ کا دامن نہیں چھوڑتا۔ اگرچہ سچ بولنے کے نتیجے میں اس کو کتنی ہی تکلیف اٹھانی پڑے، یہاں تک کہ وہ سچ بولنا چاہے تو اس کے رشتے داروں کے خلاف ہو یا اس کے والدین کے خلاف ہو، حتیٰ کہ سچ بولنے کی وجہ سے اس کی جان بھی چلی جائے تو وہ کبھی سچ بولنے سے گریز نہیں کرتا۔

سچائی کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ ہر طرح کے معاملاتی جھوٹ اور مکر و فریب سے آدمی بچے اور کسی قسم کے دھوکے وغیرہ کا ارتکاب نہ کرے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص جھوٹ سے اور اس پر عمل ( یعنی دھوکہ فریب) سے نہ بچے اﷲ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پروا نہیں۔ نیز ایمان لانے کے بعد سچائی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اﷲ سے کیے گئے اس عہد کو پورا کرے اور اس وعدے میں سچائی دکھائے جو ایمان لاتے وقت وہ اﷲ سے کرتا ہے۔ اس کی مکمل اطاعت کرے اور نفس کی خواہشات اور شیطان کے وسوسوں کے بہ جائے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت، فرماں برداری اور اس کے احکام کی تابع داری کرے اور اسی کو اپنی زندگی کا طریقہ بنا لے۔ قرآن وحدیث کی تشریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سچائی کا ایک خاص مقام ہے۔

اﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے:

’’اصل نیکی تو اس شخص کی نیکی ہے جو اﷲ پر ایمان لائے اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر اور مال دے اس کی محبت کے باوجود رشتے داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں اور مسافروں کو اور سائلوں کو اور غلاموں کے آزاد کرنے کے لیے۔ اور جس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی اور ان کی جو عہد کرے اس کو پورا کرتے ہیں اور جو صبر کرتے ہیں تکلیف میں اور (جمے رہتے ہیں) سخت حالات میں اور جنگ کے وقت یہی لوگ ہیں سچے اور یہی متقی ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرۃ)

قرآن پاک میں مومنوں کو ہر حال میں سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خواہ یہ سچ ان کے اپنے یا نزدیکی رشتے داروں ہی کے خلاف کیوں نہ ہو۔

سورۃ النساء میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، انصاف پر قائم رہو اور اﷲ واسطے کے گواہ بنو، خواہ تمہاری یہ (سچی) گواہی تمہاری اپنی ذات یا تمہارے والدین یا تمہارے نزدیکی رشتے داروں ہی کے خلاف ہو۔‘‘

اﷲ تعالیٰ نے سچائی کو اپنانے اور لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔‘‘

اسی طرح احادیث میں بھی کثرت سے سچائی کو بیان کیا گیا ہے جن میں آپ ﷺ نے سچ کی اہمیت کو اجاگر کیا اور سچ بولنے والے کی فضیلت کو بیان کیا ہے۔ نیز جھوٹ بولنے کے نقصان کو بھی اجاگر کیا گیا تاکہ لوگوں کہ سامنے سچ اور جھوٹ دونوں روز روشن کی طرح واضح ہو جائیں۔ چناں چہ نبی کریم ﷺ نے سچ اور جھوٹ میں فرق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ سچ انسان کو کام یاب کر دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں جھوٹ انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔

حضرت حسن بن علیؓ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اﷲ ﷺ کا یہ فرمان یاد ہے کہ صدق باعث اطمینان ہے جب کہ کذب باعث بے قراری ہے۔ (جامع ترمذی)

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’سچا اور امانت دار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘ (جامع ترمذی) یعنی قرب خداوندی کے اعلیٰ مقامات حاصل کرنے کے لیے بھی دنیا اور مشاغل دنیا چھوڑنا ضروری نہیں بل کہ اگر ایک عام سا تاجر بھی اور اس جیسا کوئی بھی عام آدمی صدق جیسے دینی قوانین کی پابندی کے ذریعے حضرات انبیاء اور صدیقین و شہداء کی رفاقت اور ساتھ حاصل کر سکتا ہے۔

حضرت رفاعہؓ نے رسول اﷲ ﷺ سے حدیث روایت کی ہے، مفہوم: ’’تاجر لوگ قیامت کے دن بدکار اٹھائے جائیں گے سوائے ان تاجروں کے جنہوں نے اپنی تجارت میں تقویٰ، حسن سلوک اور سچائی کو برتا ہوگا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

اس روایت میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ تاجروں کو اگر کوئی چیز بدکار ہونے سے بچا سکتی ہے تو وہ صدق یعنی سچائی ہے۔

حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم:

’’مجھے چھے چیزوں کی تم ضمانت دے دو، جنت کی ضمانت میں تمہیں دیتا ہوں۔ جب بولو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو پُورا کرو، امانت ادا کرو، شرم گاہوں کی حفاظت کرو، نگاہوں کو غیر محرم سے بچاؤ اور ظلم سے اپنے آپ کو روک کر رکھو۔‘‘

(صحیح ابن حبان)

اگر یہ عادات تمہارے اندر پیدا ہوجائیں تو دنیا کی پریشانیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ وہ چار عادات یہ ہیں: ’’امانت داری، صدق، اچھے اخلاق اور حلال رزق۔‘‘ (مسند احمد)

حضرت عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہُوا اور عرض کی کہ یارسول اﷲ! کوئی ایسا عمل بتلائیں جس کی وجہ سے جنت مل جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’صدق۔ کیوں کہ صدق کو اختیار کرنے والا شخص نیک ہے اور نیکی کرنے والا پُرامن ہے اور پُرامن رہنے والا جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ اس شخص نے درخواست کی: یارسول اﷲ ﷺ! ایسے عمل کی نشان دہی بھی فرما دیں جس کی وجہ سے انسان مستحق دوزخ بنتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جھوٹ۔ کیوں کہ جھوٹا شخص گناہ گار ہے اور گناہ کرنے والا نافرمان ہے اور نافرمانی کرنے والا جہنم جائے گا۔‘‘ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد)

شیخ ابن تیمیہؒ اپنے رسالہ ’’امراض القلوب‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’بعض مشائخ کا معمول یہ تھا کہ وہ اپنے کسی پیروکار کو کسی گناہ یا فحش عمل سے روکنے کے بہ جائے ابتدا میں اس کو نصیحت کرتے تھے کہ وہ سچائی کو لازم پکڑلے، اس لیے کہ سچائی اختیار کرنے کے بعد انسان کے نفس کا شر مغلوب ہونے لگتا ہے۔‘‘

امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حکیم لقمان سے پوچھا گیا کہ آپ کو فضل و کمال اور عظیم الشان مرتبہ کیسے ملا ؟ انہوں جواب دیا کہ قول و قرار میں سچائی، امانت داری، فضول کاموں اور لایعنی و بے کار باتوں سے اپنے آپ کو بچانے کی وجہ سے حاصل ہُوا۔ (مؤطا امام مالک)

ہم اس نبی کریم ﷺ کی امت میں سے ہیں جس نے ہر لمحہ سچائی کی تعلیم بھی دی اور خود سچ کو اپناکر بھی دکھایا یہاں تک کہ ابوجہل جو آپ ﷺ کا سب سے بڑا دشمن تھا لیکن وہ بھی آپ ﷺ کو صادق و امین سمجھتا تھا۔ لہٰذا مذکورہ بالا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آپ خود اندازہ لگائیں بھلا ہمارے دین اور شریعت میں جھوٹ بولنے کی کیا کچھ گنجائش بھی نکلتی ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں۔ کسی کلمہ گو کے لیے جھوٹ بولنا ہرگز جائز نہیں۔ سچ بولنا اور اس پر قائم رہنا ایمان کی علامت بھی ہے اور نبی کریم ﷺ کے پیروکار ہونے کا ثبوت بھی ہے۔ اب ہم عہد کریں کہ ہمیشہ سچ بولیں گے اور اس سے پہلے جو ہم سے کوتاہیاں ہوئیں اس پر توبہ کریں اور آئندہ خود بھی سچ بولنے کا عزم کریں اور اپنے گھر والوں، رشتے داروں اور تمام دوست احباب کو سچ بولنے کی ترغیب اور جھوٹ سے بچنے کی تلقین کریں۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں جھوٹ سے بچنے اور ہمیشہ سچائی پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ﷺ نے فرمایا رشتے داروں جھوٹ بولنے رسول اﷲ ﷺ کرنے والا میں سچائی کی وجہ سے اﷲ تعالی انسان کو اور جھوٹ میں جھوٹ سچائی کو سچ بولنے سچ بولنا بولنے کی دیتا ہے کے خلاف جھوٹ سے کرے اور ا ہے کہ اور سچ کو اور اور اس گیا ہے کے لیے ہے اور بھی ہے

پڑھیں:

چین کا امریکا کو کھلا چیلنج: دنیا امریکا پر ختم نہیں ہوتی، ہم آخری دم تک لڑیں گے

بیجنگ: چین کے معروف تھنک ٹینک "سینٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن" کے نائب صدر وکٹر گاؤ نے امریکا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین امریکا سے تجارتی جنگ میں آخری دم تک لڑنے کے لیے تیار ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وکٹر گاؤ نے کہا کہ "دنیا اتنی بڑی ہے کہ وہ امریکا پر آکر ختم نہیں ہو جاتی"۔ انہوں نے واضح کیا کہ چین پچھلے 5 ہزار سال سے قائم ہے، اور اُس وقت بھی زندہ تھا جب امریکا کا وجود تک نہیں تھا۔

وکٹر گاؤ کا کہنا تھا کہ اگر امریکا چین کو دبانے یا دھمکانے کی کوشش کرتا ہے، تو چین اس کا جواب دینا جانتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہم امریکا پر انحصار کیے بغیر اگلے 5 ہزار سال بھی گزار سکتے ہیں"۔

یاد رہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے اور دونوں ممالک کی جانب سے ٹیرف اور پابندیوں کا تبادلہ جاری ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • بروقت اور دلیرانہ فیصلے کامیابی کی کلید ہیں
  • چین کا امریکا کو کھلا چیلنج: دنیا امریکا پر ختم نہیں ہوتی، ہم آخری دم تک لڑیں گے
  • دنیا امریکا پر آ کر ختم نہیں ہو جاتی، وکٹر گاؤ
  • دنیا امریکا پر آکر ختم نہیں ہوجاتی، وکٹر گاؤ
  • حماس ہسپتالوں کو کمانڈ سنٹر کے طور پر استعمال نہیں کرتی، اسرائیلی جھوٹ بولتے ہیں، یورپی ڈاکٹر
  • فیک نیوز: شیطانی ہتھیار جو سچائی نگل رہا ہے
  • معافی اور توبہ
  • مطالعہ کیوں اورکیسے کریں؟
  • واٹس ایپ سروس میں تعطل، صارفین دنیا بھر میں مشکلات کا شکار
  • فلسفہ بیگانگی اور مزدور کا استحصال