فرانس میں حجاب پر پابندی کی نئی لہر:مسلم خواتین کے لیے مشکلات میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
پیرس:فرانسیسی سینیٹ نے ایک نئے بل کی منظوری دی ہے جس کے تحت کھیلوں کے مقابلوں میں حجاب سمیت تمام مذہبی علامات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اس متنازع فیصلے پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور بائیں بازو کے سیاستدانوں نے شدید تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بل مسلم خواتین کے خلاف امتیازی سلوک ہے اور فرانس میں پہلے سے موجود اسلاموفوبیا کو مزید بڑھاوا دے گا۔
دائیں بازو کی اکثریت والی فرانسیسی سینیٹ نے 210 ووٹوں کے مقابلے میں 81 ووٹوں سے اس بل کو منظور کیا ہے۔ اس بل کے تحت کھیلوں کے مقابلوں میں ایسے تمام نشانات یا لباس پہننے پر پابندی ہوگی جو سیاسی یا مذہبی وابستگی ظاہر کرتے ہیں۔ اس بل کو ابھی قانون بننے کے لیے نیشنل اسمبلی سے منظوری درکار ہے،تاہم دائیں بازو کی حکومت نے اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔
بل کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون فرانس میں سیکولر ازم کے اصولوں کے مطابق ہے۔ کسی بھی قسم کی مذہبی علامتوں کو کھیلوں سے دور رکھنا ضروری ہے۔ کھیل ایک غیر جانبدارانہ میدان ہے جہاں مذہب کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔
بائیں بازو کے سیاستدانوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مسلم کمیونٹی نے اس بل کو امتیازی اور اسلاموفوبیا پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل مسلم خواتین کو نشانہ بناتا ہے اور ان کے مذہبی آزادی کے حق کو سلب کرتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ یہ قانون مسلم خواتین کے خلاف مذہبی، نسلی اور صنفی امتیاز کو مزید بڑھا دے گا۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے بھی فرانس میں حجاب پر عائد پابندیوں کو غیر متناسب اور امتیازی قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ فرانس میں حجاب پر پابندی پہلی بار نہیں لگائی گئی، اس سے قبل بھی کئی قوانین کے ذریعے حجاب پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ 2004 میں فرانسیسی حکومت نے سرکاری اسکولوں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کی تھی۔
اس کے بعد 2010 میں عوامی مقامات پر برقع پہننے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ ان تمام پابندیوں کا مقصد فرانس میں سیکولر ازم کے اصولوں کو برقرار رکھنا بتایا جاتا ہے،تاہم ان قوانین کو ہمیشہ مسلم کمیونٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس نئے بل کے نتیجے میں فرانس میں مسلم خواتین کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہیں کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت سے روکا جا سکتا ہے جس سے ان کی کھیلوں کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے مواقع کم ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بل سے فرانس میں پہلے سے موجود نسلی اور مذہبی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مسلم خواتین کے پر پابندی ہے کہ یہ
پڑھیں:
پنجاب میں عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی، خلاف ورزی پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا
راولپنڈی:پنجاب بھر میں انسدادِ تمباکو نوشی آرڈیننس 2002 پر سختی سے عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کے تحت تعلیمی اداروں ،دفاتر، اسپتال ،شاپنگ مالز اور پبلیک ٹرانسپورٹ میں سگریٹ نوشی پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
پنجاب حکومت نے راولپنڈی سمیت صوبے بھر میں انسداد سگریٹ نوشی ایکٹ پر سختی سے عملدرآمد کے احکامات جاری کردیے، جس کی روشنی میں ایڈیشنل کمشنر کوارڈینیشن سید نذرات علی کی زیر صدارت اجلاس منقعد ہوا۔
اجلاس میں متعلقہ اداروں کے حکام نے شرکت کی، شرکا کو بتایا گیا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے دفاتر، سکول، اسپتال، شاپنگ مالز اور ٹرانسپورٹ میں سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کی گی قانون کی خلاف ورزی پر 1000 سے 100,000 روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہےْ
ایڈیشنل کمشنر کوارڈینیشن سید نذرات علی کا کہنا تھا کہ دکانوں پر سگریٹ فروخت کرتے وقت نوٹس آویزاں کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے تعلیمی اداروں کے 50 میٹر کے دائرے میں سگریٹ فروخت کرنا ممنوع ہوگا۔
خلاف ورزی پر 5 ہزار سے 1 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جاسکے گی، جںکی مجاز افسران کو دکان بند کرنے، سامان ضبط کرنے اور جرمانے عائد کرنے کے اختیارات حاصل ہے۔
تمام سرکاری اداروں کو فوکل پرسن خصوصا سکول ایجوکیشن کو فوکل پرسن اور ٹرینرز نامزد کرنے کی ہدایت بھی کی گی ہے۔
سید نذرات علی کا مزید کہناتھاکہ طلبا کو تمباکو نوشی سے بچانا ہماری اولین ترجیح ہے۔ تمباکو نوشی گلے کا کینسر، دل اور پھیپھڑوں کی بیماریاں کا باعث بنتی ہےجس سے ہر سال 1.6 لاکھ سے زائد اموات ہو رہی ہیں۔
شہری "سموک فری پاکستان" ایپ کے ذریعے خلاف ورزی کی اطلاع دے سکتے ہیںریجن کو سموک فری بنانے کے لیے تمام اقدامات اٹھائے جائیں۔