اپنے آپ سے باتیں کرنا شرم کی بات نہیں، خودکلامی کے فوائد بھی ہیں!
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
عام طور پر زندگی میں خود سے باتیں کرنا عجیب یا شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے لیکن طبی ماہرین کے مطابق یہ عادت درحقیقت بہت سے فوائد کی حامل ہے۔ خود کلامی نہ صرف دماغی صلاحیتوں کو بہتر بناتی ہے بلکہ جذباتی صحت کو بھی مستحکم کرتی ہے۔
تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ خیالات کو زبانی طور پر بیان کرنے سے دماغ کے متعدد حصے فعال ہو جاتے ہیں، جس سے مسائل کو حل کرنے کی مہارت اور وضاحت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اونچی آواز میں خود سے بات کرنا میموری کو بہتر بناتا ہے، معلومات کو منظم کرتا ہے اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کو مستحکم کرتا ہے۔
خود کلامی جذباتی ضبط کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ عادت منفی جذبات سے دور رکھتی ہے اور اضطراب اور تناؤ کو کم کرنے میں معاون ہے۔ ماہرین کے مطابق خود سے باتیں کرنا آپ کو زیادہ عقلی نقطہ نظر فراہم کرتا ہے، جس سے آپ چیلنجوں کا بہتر طریقے سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اونچی آواز میں خود سے بات کرنا علمی صلاحیتوں کو بہتر بناتا ہے، خاص طور پر مسائل حل کرنے کے معاملات میں۔ یونیورسٹی آف وسکونسن میڈیسن کے پروفیسر گیری لوپیان کے مطابق ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ تصویروں میں اشیا کو تلاش کرتے ہوئے ان کے نام اونچی آواز میں بولتے ہیں، وہ انہیں جلد ڈھونڈ لیتے ہیں۔
خود کلامی ایک ایسا عمل ہے جو علمی اور جذباتی بہبود دونوں کو فروغ دیتا ہے۔ یہ عادت آپ کو زیادہ منظم اور توجہ مرکوز رہنے میں مدد دیتی ہے، جس سے روزمرہ کے کاموں کو ترجیح دینے اور انہیں مؤثر طریقے سے انجام دینے میں آسانی ہوتی ہے۔
خود سے باتیں کرنا شرمندگی کا باعث نہیں، بلکہ یہ ایک فائدہ مند عادت ہے جو دماغی اور جذباتی صحت کو بہتر بناتی ہے۔ اگر آپ کو کبھی خود سے باتیں کرتے ہوئے شرم محسوس ہو تو یاد رکھیں کہ یہ عادت آپ کی علمی صلاحیتوں کو بڑھانے اور جذباتی توازن برقرار رکھنے میں مددگار ہے۔ اب سے خود کلامی کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائیں اور اس کے فوائد سے لطف اندوز ہوں!
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سے باتیں کرنا خود سے باتیں خود سے بات خود کلامی یہ عادت کو بہتر
پڑھیں:
ایران کا دارالحکومت منتقل کرنے کا منصوبہ: چیلنجز، فوائد اور اسٹریٹجک مقاصد
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 فروری 2025ء) سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے مختلف مواقع پر سامنے آتا رہا ہے لیکن بھاری مالی اور انتظامی چیلنجوں کے باعث ان تجاویز کو بارہا غیر عملی قرار دے کر مؤخر کر دیا گیا۔
تاہم اصلاح پسند صدر مسعود پزشکیاں ، جنہوں نے جولائی میں عہدہ سنبھالا، نے حال ہی میں اس تجویز کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔
تہران کو، جن سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں شدید ٹریفک جام، پانی کی قلت، وسائل کا ناقص انتظام، بدترین فضائی آلودگی اور زمین کا بتدریج دھنسنا شامل ہیں، جو یا تو قدرتی عوامل کی وجہ سے یا انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیش آ رہے ہیں۔
(جاری ہے)
جنوری میں، ایرانی حکومت کی ترجمان فاطمہ مهاجرانی نے تصدیق کی کہ حکام دارالحکومت کی ممکنہ منتقلی کا جائزہ لے رہے ہیں اور مکران کے علاقے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے کسی حتمی ٹائم لائن کا نہیں بتایا۔
مکران خلیج عمان کے کنارے واقع ایک کم ترقی یافتہ ساحلی خطہ ہے، جو ایران کے جنوبی اور پسماندہ صوبے سیستان و بلوچستان اور ہمسایہ صوبہ ہرمزگان کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے۔
یہ علاقہ کئی بار دارالحکومت کی منتقلی کے لیے ایک ممکنہ آپشن کے طور پر زیر بحث آ چکا ہے۔ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اتوار کے روز اپنے خطاب میں کہا، ’’مکران، جو اب تک ایک 'کھویا ہوا جنت نظیر علاقہ‘ ہے، اسے ایران اور خطے کے مستقبل کا معاشی مرکز بنانا ضروری ہے۔‘‘
ستمبر میں صدر مسعود پزشکیاں نے بھی واضح کیا تھا، '' ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا، ہمیں ملک کے اقتصادی اور سیاسی مرکز کو جنوب میں سمندر کے قریب منتقل کرنا ہو گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ تہران کے مسائل وقت کے ساتھ مزید سنگین ہوتے جا رہے ہیں اور موجودہ پالیسیوں کے تسلسل سے یہ بحران حل ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
دارالحکومت کی منتقلی کے منصوبے کی بحالی نے ایک بار پھر اس کے جواز پر بحث چھیڑ دی ہے، جہاں کئی حلقے تہران کی تاریخی اور اسٹریٹجک اہمیت کو اجاگر کر رہے ہیں۔
ایرانی رکن پارلیمنٹ علی خزاعی کا کہنا ہے کہ جو بھی نیا شہر منتخب کیا جائے، اسے ایران کی بھرپور ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جانا چاہیے۔
تہران، جسے 1786 میں آغا محمد خان قاجار نے دارالحکومت قرار دیا تھا، گزشتہ دو صدیوں سے ایران کا سیاسی، انتظامی اور ثقافتی مرکز رہا ہے۔
گورنر محمد صادق معتمدیان کے مطابق، تہران صوبے میں اس وقت تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ افراد مقیم ہیں، جب کہ روزانہ تقریباً 20 لاکھ افراد کام کے لیے یہاں آتے ہیں۔
دوسری جانب، مکران اپنے ماہی گیری کے دیہات، ریتیلے ساحلوں اور سکندرِ اعظم کے دور تک پھیلی قدیم تاریخ کے لیے جانا جاتا ہے۔
تاہم، دارالحکومت کی ممکنہ منتقلی کے خلاف بھی کافی مخالفت پائی جاتی ہے۔28 سالہ انجینئر اور تہران کے رہائشی کامیار بابائی نے کہا، ''یہ بالکل غلط فیصلہ ہو گا، کیونکہ تہران حقیقی طور پر ایران کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''یہ شہر تاریخی قاجار سلطنت کی علامت ہے... جدیدیت اور شہری زندگی کی پہچان بھی۔‘‘
اسی طرح شہری منصوبہ بندی کے پروفیسر علی خاکسار رفسنجانی نے تہران کے اسٹریٹجک محل وقوع پر زور دیا۔ انہوں نے اصلاح پسند اخبار اعتماد کو بتایا، ’’یہ شہر ایمرجنسی اور جنگی حالات میں محفوظ اور مناسب ہے اور مکران دوسری طرف بہت زیادہ کمزور ہے کیونکہ یہ خلیج عمان کے کنارے واقع ہے۔‘‘
اپریل 2024 میں، اس وقت کے وزیر داخلہ احمد وحیدی نے کہا تھا کہ دارالحکومت کی منتقلی کے لیے تقریباً 100 ارب ڈالر کے بجٹ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
مقامی خبر ایجنسی ایس این اے نے مکران منتقلی کے فوائد اور نقصانات پر غور کیا اور کہا کہ اس میں خطے کا ’’اہم تجارتی اور اقتصادی مرکز بننے کی صلاحیت‘‘ موجود ہے۔ تاہم، اس نے یہ بھی نوٹ کیا کہ منتقلی ایران کے پہلے ہی بھاری مالی بوجھ میں مزید اضافہ کرے گی، جو جزوی طور پر عالمی پابندیوں کے نتیجے میں ہے۔
ایرانی امور کی ماہر بینفشے کنوش کے مطابق مکران کا انتخاب ایران کی وسیع تر اسٹریٹجک منصوبہ بندی کی عکاسی کر سکتا ہے۔
انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، "مکران کو ممکنہ طور پر اگلا دارالحکومت منتخب کر کے ایران دبئی اورگوادر جیسی سمندری بندرگاہوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام چابہار کے قریب ساحلی شہر کو پابندیوں کے باوجود فروغ دے گا اور اہم طور پر خلیج فارس کی آبی گزرگاہ میں ایران کے کردار کو دوبارہ مضبوط کرے گا۔
ش خ/ ا ا (اے ایف پی)