بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں دھماکہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
عیسیٰ ترین: بلوچستان کے دارلخلافہ کوئٹہ میں دھماکہ ہوا ہے جس سے ایک شخص جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے۔
کوئٹہ کے قمبرانی روڈ پر خودکش دھماکہ سے ایک شخص جاں بحق ہوا ہے۔
پولیس کے مطابق پولیس اورسیکیورٹی فورسز نے علاقےکو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور دھماکے کی نوعیت کا تعین کیا جا رہاہے۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
غیرذمے داری
جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنا کر دنیا کو دہشت گردی کی نئی سوچ دینے والے تخریب کاروں نے اپنی ناکامی کے بعد جہاں دہشت گردی بڑھائی ہے وہاں اس واقعے کو بنیاد بنا کر ان کی حمایت کرنے والوں نے بھی اپنے سیاسی مفادات کے لیے راہ تبدیل کر لی ہے اور حقائق کے برعکس احتجاجی سیاست شروع کر دی ہے۔
انھی پیچیدہ حالات میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر جان مینگل نے اپنا احتجاج شروع کر رکھا ہے، مزے کی بات ہے کہ پی ٹی آئی نے اس احتجاج کی حمایت کررکھی ہے حالانکہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں بھی بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوئے تھے ، اس کو بنیاد بنا کر سردار اختر مینگل نے پی ٹی آئی حکومت کی حمایت ترک کی تھی اور دونوں کے راستے الگ ہوگئے تھے۔
اس دور میں بھی بلوچستان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ یہ بات ماننا ہوگی کہ دہشت گردوں کی منفی سوچ اب وہاں تک پہنچ گئی ہے جس کا تصور کسی نے بھی نہ کیا تھا کہ دہشت گرد ملک میں پہلی بار ٹرین کے مسافروں کو یرغمال بنا کر پیغام دیں گے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے ٹرین کو نشانہ بنائیں گے۔
بلوچستان میں برسوں سے جاری دہشت گردی کے باعث رات کے وقت ٹرینیں کوئٹہ آتی ہیں نہ ہی جاتی ہیں، اس لیے ٹرینوں کا سفر اور وقت محدود کر دیا گیا تھا۔ یوں توکراچی، راولپنڈی و پشاور کے لیے کوئٹہ سے صبح دن چڑھنے کے بعد ہی روانہ ہوتی تھیں جو اندرون ملک رات کو سفرکر کے منزل مقصود پہنچتی تھیں اور دہشت گردی بڑھنے کے بعد کراچی و پشاور سے کوئٹہ آنے والی ٹرینوں کے ایسے اوقات بنائے گئے تھے کہ وہ رات کے وقت سندھ و پنجاب سے گزر کر دن کی روشنی میں بلوچستان میں داخل ہوں اور سورج غروب ہونے سے پہلے کوئٹہ پہنچ جائیں، اگر موسم یا کسی اور وجہ سے شام تک ٹرین کوئٹہ نہ پہنچ سکے تو مسافروں کی حفاظت کے لیے مذکورہ ٹرین کو محفوظ مقام پر روک لیا جاتا تھا۔
جعفر ایکسپریس پہلے کوئٹہ ایکسپریس تھی جو دن میں کوئٹہ سے روانہ ہو کر راولپنڈی جاتی تھی جس سے راقم نے اپنے آبائی شہر شکارپور سے کوئٹہ کے لیے متعدد بار رات کا سفرکیا جو صبح کوئٹہ پہنچا کرتی تھی۔ کراچی کوئٹہ کا سفر کوئٹہ راولپنڈی سے کم تھا، اس لیے بولان میل کراچی سے شام کو روانہ ہوکر دوسرے روز شام تک کوئٹہ پہنچ جاتی تھی۔
چھ سات سال قبل راقم نے دوستوں کے ساتھ بولان میل سے کوئٹہ جانا تھا مگر کوئٹہ آنے سے قبل ریلوے پولیس اہلکار بوگیوں میں آئے اور انھوں نے مسافروں سے کہا کہ وہ آہنی کھڑکیاں بند کر لیں۔ ان سے راقم نے وجہ پوچھی تو بتایا گیا تھا کہ شرپسند ٹرین پر پتھراؤ کرتے ہیں، اس لیے مسافر نقصان سے بچنے کے لیے کھڑکیاں بند کرلیں ۔ ان دنوں پتھر لگنے سے بعض مسافر زخمی بھی ہوئے تھے اس لیے احتیاط کی جاتی تھی۔
کوئٹہ کا سفر جیکب آباد سے سبی تک میدانی علاقوں کا سفر ہے جہاں جیکب آباد کے بعد سبی تک کوئی بڑا شہر نہیں ہے، صرف نصیرآباد ضلع کا طویل علاقہ ہے اور سبی کے بعد پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پہاڑوں کے درمیان متعدد ٹنل ہیں۔ ایسی ٹنل جہلم سے راولپنڈی جاتے ہوئے بھی آتی ہیں مگر کوئٹہ کے راستے کی ٹنل طویل اور خطرناک ہیں جس کے اطراف آبادی نہیں پہاڑ ہیں جنھیں عبور کر کے کوئٹہ سے آیا جایا جاتا ہے۔
ملک بھر میں ریلوے لائن کے اطراف آبادیاں ہیں مگر وہاں کھڑکیاں بند نہیں کرائی جاتیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دور اندیش سرکاری افسروں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کوئٹہ سے مچھ کا سفر غیر محفوظ ہو جائے گا اور ٹنل کے قریب ٹرین روک کر یرغمال بنائی جا سکتی ہے، یہ سوچ دہشت گردوں کی تھی جنھوں نے 12 مارچ کو اپنے مذموم منصوبے پر کامیابی سے عمل کیا اور پہاڑوں اور ٹنل سے گزرنے والی جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنایا جس میں 26 افراد شہید ہوئے۔ یہ ایسا مقام تھا کہ جہاں سے سڑک بھی دور تھی، دہشت گرد پہاڑ پر مورچہ زن تھے مگر پاک فوج نے اپنی صلاحیت سے چند گھنٹوں کی فضائی کارروائی سے 33 دہشت گردوں کو ہلاک کرکے باقی مسافروں کو دہشت گردوں سے بازیاب کرانے کا کارنامہ انجام دیا اور دہشت گرد ناکام رہے مگر یہ منفی سوچ دہشت گردوں کی تھی جس سے متعلق سرکاری دماغوں کو پہلے سوچنا چاہیے تھا۔
جعفر ایکسپریس واقعے کے بعد پی ٹی آئی، اختر مینگل، علیحدگی پسندوں کے حامیوں نے جعفر ایکسپریس سانحہ پر دہشت گردی کی کوئی مذمت نہیں کی۔ اسی لیے ماہ رنگ لانگھو کو بھی سیاست کرنے کا موقعہ ملا۔ حالانکہ یہ وقت دہشت گردوں کی مذمت کا تھا۔