ایران میں گزشتہ برس 975 افراد کو سزائے موت دی گئی
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 فروری 2025ء) انسانی حقوق کی دو تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران میں گزشتہ برس کم از کم 975 افراد کو سزائے موت دی گئی۔
ناروے میں قائم ’ایران ہیومن رائٹس‘ (آئی ایچ آر) اور فرانس کے گروپ 'ٹوگیدر اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی‘ (ای سی پی ایم) کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 2008 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے، جب آئی ایچ آر کی جانب سے ایران میں سزائے موت کا ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔
دوہری شہریت رکھنے والے جرمن شہری شارمہد کو ایران میں پھانسی دے دی گئی
ایران میں دو ڈاکوؤں کو سرعام پھانسی دے دی گئی
دونوں گروپوں کی طرف سے ایک مشترکہ رپورٹ میں ایران پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ سزائے موت کو 'سیاسی جبر کے مرکزی ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور یہ کہ یہ اعداد و شمار اسلامی جمہوریہکی جانب سے 2024 میں سزائے موت کے استعمال میں ہولناک اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت سزائے موت کو اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ کے طور پر استعمال کر رہی ہے تاکہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھ سکے۔
ہر روز اوسطاﹰ پانچ افراد کو پھانسیانہوں نے کہا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا خطرہ بڑھنے کے بعد سال کے آخری تین مہینوں میں ہر روز اوسطاﹰ پانچ افراد کو پھانسی دی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس پھانسی دیے جانے کے ریکارڈ شدہ واقعات میں 2023 کے مقابلے میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سال 834 افراد کو پھانسیاں دی گئی تھیں۔
سزائے موت پانے والے 975 افراد میں سے چار افراد کو سرعام پھانسی دی گئی۔ اس کے علاوہ 31 خواتین کو بھی یہ سزا دی گئی، جو گزشتہ 17 سالوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
چین کے بعد ایران دنیا میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والا ملک ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ایرانی حکام پر الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ عوام میں خوف پیدا کرنے کے لیے سزائے موت کا استعمال کر رہے ہیں، خاص طور پر 2022ء میں ملک گیر مظاہروں کے بعد۔
ایران میں، جن جرائم میں سزائے موت دی جاتی ہے، ان میں قتل، عصمت دری اور منشیات سے جڑے جرائم شامل ہیں لیکن ساتھ ہی مبہم الفاظ میں ''زمین پر بدعنوانی‘‘ اور ''بغاوت‘‘ جیسے الزامات بھی شامل ہیں، جن کے بارے میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کا استعمال مخالفین کے خلاف کیا جاتا ہے۔
آئی ایچ آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال ایران کم از کم 121 افراد کو سزائے موت دے چکا ہے۔
ا ب ا/ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سزائے موت دی آئی ایچ آر ایران میں افراد کو کے بعد
پڑھیں:
سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) افغان طالبان کے رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے گزشتہ جمعے کو افغانستان میں چار افراد کو دی گئی سزائے موت کو اسلامی شریعت کا لازمی حصہ قرار دیا ہے۔ قبل ازیں انسانی حقوق کے گروپوں اور اقوام متحدہ کی جانب سے ان چار افراد کو سرعام دی گئی سزائے موت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ سزائیں سن 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ایک ہی دن میں دی جانے والی موت کی سب سے زیادہ سزاؤں میں سے تھیں۔ موت کی سزائیں کب اور کہاں دی گئیں؟افغانستان کی سپریم کورٹ نے چار افراد کو قتل کے جرم میں مجرم قرار دیا تھا۔ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ مقتولین کے اہل خانہ نے ملزمان کو معافی دینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد سزائے موت کا حکم جاری کیا گیا۔
(جاری ہے)
یہ سزائیں گزشتہ جمعے کو تین مختلف صوبوں نمروز، فراہ اور بادغیس کے اسٹیڈیمز میں ہزاروں تماشائیوں کے سامنے دی گئیں۔ طالبان کے جنگجوؤں نے بندوقوں سے فائرنگ کر کے ان سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
اخوندزادہ کا موقفاتوار کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر اخوندزادہ کا ایک 45 منٹ کا آڈیو پیغام جاری کیا، جو انہوں نے جنوبی صوبے قندھار میں حج انسٹرکٹرز کے ایک سیمینار کے موقع پر دیا تھا۔
اخوندزادہ نے کہا، ''ہمیں نظم و ضبط کے لیے اقدامات کرنے، نمازیں پڑھنے اور عبادات کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام صرف چند رسومات تک محدود نہیں، یہ الہٰی احکام کا ایک مکمل نظام ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ خدا نے لوگوں کو نماز کے ساتھ ساتھ سزاؤں پر عملدرآمد کا بھی حکم دیا ہے۔ اخوندزادہ نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے اقتدار یا دولت کے لیے جنگ نہیں لڑی، بلکہ ان کا مقصد ''اسلامی قانون کا نفاذ‘‘ ہے۔
انہوں نے ان سزاؤں پر عالمی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مغربی قوانین کی افغانستان میں ضرورت نہیں۔ سزاؤں پر عالمی ردعملاقوام متحدہ کی امدادی مشن برائے افغانستان (یو این اے ایم اے) نے ان سزاؤں کو انسانی حقوق کی ''واضح خلاف ورزی‘‘ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر موت کی تمام سزاؤں پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عوامی سطح پر سزائیں خوف پھیلانے اور طالبان کے سخت گیر نظریے کو مسلط کرنے کا ذریعہ ہیں۔
یو این اے ایم اے نے ان سزاؤں کو مسترد کرتے ہوئے شفاف عدالتی کارروائی، منصفانہ مقدمات اور ملزمان کے لیے قانونی نمائندگی کے حق کی ضرورت پر زور دیا۔گزشتہ روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ان سزاؤں پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، ''یہ انسانی وقار اور حق حیات سے بنیادی طور پر متصادم ہیں۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ نے ان سزاؤں کو ''شدید پریشان کن‘‘ اور ''بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔
اس تنظیم کی افغانستان ریسرچر فرشتہ عباسی نے کہا کہ یہ واقعات عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے لیے ایک یاد دہانی ہیں کہ وہ افغانستان میں ایک آزاد احتسابی نظام قائم کرے تاکہ ''ان غیر قانونی اقدامات کے ذمہ داروں‘‘ کو جواب دہ بنایا جا سکے۔ طالبان کی سابقہ پالیسیاںاخوندزادہ نے سن 2022 میں ججوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسلامی شریعت کے تحت حدود اور قصاص کی سزاؤں کو مکمل طور پر نافذ کریں۔
نومبر 2022 میں لوگر صوبے میں 12 افراد کو سرعام کوڑے مارے گئے تھے، جو طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد اس طرح کی سزا کا پہلا مصدقہ واقعہ تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے پہلے دور (1996-2001) میں بھی عوامی سطح پر دی جانے والی سزائیں عام تھیں اور موجودہ پالیسیاں اسی طرز کی طرف واپسی کا اشارہ دیتی ہیں۔ عالمی تعلقات پر اثراتاخوندزادہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب طالبان مغربی ممالک سمیت عالمی برادری کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ امریکہ نے طالبان کے تین سینئر رہنماؤں بشمول وزیر داخلہ، جو ایک طاقتور نیٹ ورک کے سربراہ بھی ہیں، کے سروں کے لیے رکھی گئی انعامی رقوم ختم کر دی تھیں۔ رواں سال طالبان نے چار امریکی شہریوں کو رہا کیا، جنہیں وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی ''نارملائزیشن‘‘ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عوامی سطح پر سزاؤں نے طالبان کی ممکنہ بین الاقوامی قبولیت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا کر رکھی ہے۔ افغان عوام کے خدشاتافغانستان میں طالبان کے سخت گیر قوانین کے باعث خواتین کے حقوق، تعلیم اور آزادیوں پر شدید پابندیاں عائد ہیں۔ طالبان رہنما اخوندزادہ کی پالیسیوں کے نتیجے میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی ہے اور خواتین کی عوامی مقامات تک رسائی بھی محدود ہو چکی ہے۔
ادارت: مقبول ملک