صرف 45 منٹ کیلئے ملک کا صدر بننے والی شخصیت کون؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
میکسیکوسٹی(انٹرنیشنل ڈیسک)عام طور پر صدارت کا منصب کئی برسوں پر محیط ہوتا ہے، مگر تاریخ میں ایک ایسا منفرد واقعہ بھی پیش آیا جہاں میکسیکو کے صدر پیڈرو لاسکورین نے محض 45 منٹ کے لیے اقتدار سنبھالا اور پھر مستعفی ہو گئے۔ یہ دنیا کی مختصر ترین صدارت سمجھی جاتی ہے۔
میکسیکو کا انقلابی دور
1910 سے 1920 کے درمیان میکسیکو ایک بڑے انقلابی دور سے گزر رہا تھا، جہاں مسلسل سیاسی عدم استحکام، حکومتوں کے تختے الٹنے اور بغاوتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اس دوران لاکھوں افراد ہلاک ہوئے اور ملک میں انتشار کی کیفیت رہی۔
9 فروری 1913 کو ایک نئے سیاسی بحران کا آغاز ہوا جب جنرل وکٹوریانو ہویرٹا نے صدر فرانسسکو آئی۔ مادیرو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی۔ جنرل ہویرٹا کو امریکی اور جرمن حمایت حاصل تھی، جس کی بدولت انہوں نے حکومت کے کئی اعلیٰ عہدیداروں کو گرفتار کر لیا۔
پیڈرو لاسکورین کا غیر متوقع عروج
اس وقت پیڈرو لاسکورین میکسیکو کے وزیر خارجہ تھے۔ انہوں نے دیگر حکومتی عہدیداروں کو قائل کیا کہ مادیرو کے مستعفی ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ میکسیکن آئین کے مطابق صدر کے بعد نائب صدر، اٹارنی جنرل، وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ جانشین ہو سکتے تھے۔
اقتدار پر قبضہ جمانے کی نیت سے جنرل ہویرٹا نے نائب صدر اور اٹارنی جنرل کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا، جس کے نتیجے میں پیڈرو لاسکورین کو صدر بنانے کا فیصلہ ہوا۔
صرف 45 منٹ کی صدارت
صدر بنتے ہی لاسکورین پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ جنرل ہویرٹا کو وزیر داخلہ مقرر کر دیں، کیونکہ آئینی طور پر صدر کے مستعفی ہونے پر یہی عہدہ سب سے پہلے جانشین بنتا۔
چنانچہ، پیڈرو لاسکورین کی صدارت صرف 45 منٹ تک رہی، جس کے بعد انہوں نے مستعفی ہو کر اقتدار جنرل ہویرٹا کے حوالے کر دیا۔
یہ تاریخ میں اب تک کی سب سے کم ترین مدت کے لیے صدارت کا ریکارڈ ہے، جسے آج بھی دنیا بھر میں مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
سیاسی زندگی سے کنارہ کشی
اقتدار چھوڑنے کے بعد جنرل ہویرٹا نے لاسکورین کو اپنی حکومت میں اہم عہدہ دینے کی پیشکش کی، مگر انہوں نے اسے ٹھکرا دیا اور سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر کے دوبارہ وکالت کے پیشے کی طرف لوٹ گئے۔
پیڈرو لاسکورین کی یہ مختصر ترین صدارت ایک حیرت انگیز سیاسی چال کا حصہ تھی، جو آج بھی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک منفرد موضوع بنی ہوئی ہے
مزیدپڑھیں:اسلام آباد میں پنشن اصلاحات کے خلاف احتجاج، پولیس سے جھڑپیں
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انہوں نے
پڑھیں:
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی: ایک عظیم شخصیت کا وداع
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی، جو فارماسوٹیکل مائیکروبیالوجی کے شعبے میں ایک جانی پہچانی شخصیت تھے، 10 دسمبر 2024 کو دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات نے علمی دنیا میں ایک گہرا خلا چھوڑا ہے، جو شاید کبھی پر نہ ہو سکے۔ ان کی زندگی کا سفر ایک ایسی کہانی ہے جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر سائنسی تحقیق اور تعلیم کے میدان میں گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا۔ ان کے والد ایک معروف ماہر تعلیم اور محقق تھے، جنہوں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ علم کی اہمیت بتائی۔ باقر شیوم نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستان کے معتبر تعلیمی اداروں کا رخ کیا۔ ان کی ذہانت اور تحقیق میں گہری دلچسپی نے انہیں مائیکروبیالوجی کے میدان کی طرف راغب کیا، جہاں وہ فارماسوٹیکل مائیکروبیالوجی میں ایک نامور ماہر بن گئے۔
پروفیسر نقوی نے دنیا کے مختلف تعلیمی اداروں سے اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر پاکستان واپس آ کر اس شعبے میں اپنی خدمات فراہم کرنا شروع کر دیں۔ ان کی تدریس کا طریقہ نہ صرف سائنسی تھا بلکہ وہ ہمیشہ اپنے طلباء کو تحقیق کی اہمیت سمجھاتے اور ان کے اندر سائنسی تجسس کو پروان چڑھاتے تھے۔
تدریس اور تحقیق میں نمایاں مقام
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی نے اپنی پوری زندگی تدریس اور تحقیق کے میدان میں گزار دی۔ وہ پاکستان کے ممتاز تعلیمی اداروں میں فارماسوٹیکل مائیکروبیالوجی کے استاد کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کی تدریس کا انداز ہمیشہ دل چسپ اور موثر تھا۔ وہ صرف کتابوں کی باتیں نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے تجربات اور تحقیق کی بنیاد پر طلباء کو عملی علم فراہم کرتے۔
ان کے تحقیقی کاموں میں سب سے اہم موضوع اینٹی بایوٹک ریزسٹنس تھا، جس پر انہوں نے کئی سال تک تحقیق کی اور جدید طریقوں سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ پروفیسر نقوی کا یہ تحقیقی کام عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا، اور ان کی تحقیق نے دوا سازی کی دنیا میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں۔ ان کی تحقیق نے نہ صرف بیماریوں کی شناخت کو بہتر بنایا بلکہ ان کے علاج کے نئے طریقے بھی متعارف کرائے۔
مائیکروبیالوجی کے شعبے میں ان کی خدمات
پروفیسر نقوی نے مائیکروبیالوجی کے شعبے میں کئی اہم سنگ میل قائم کیے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے دوا سازی میں مائیکروبیالوجی کے کردار کو اجاگر کیا اور اس کے ذریعے نئے طریقے متعارف کرائے۔ ان کی تحقیقی کامیابیاں اور اس شعبے میں ان کے نقوش ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
پروفیسر نقوی نے اپنے تحقیقی کاموں کے ذریعے مائیکروبیالوجی کے شعبے کو عالمی سطح پر نمایاں کر دیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ مائیکروبیالوجی نہ صرف بیماریوں کے علاج کے لیے اہم ہے بلکہ یہ انسانیت کی فلاح کے لیے بھی ضروری ہے۔ ان کی تحقیق نے نئے علاج کے طریقے اور ویکسینز کی تیاری میں مدد فراہم کی۔
انسانی خدمت اور ورثہ
پروفیسر نقوی کی شخصیت صرف ایک ماہر سائنسی نہیں تھی بلکہ وہ ایک بہترین انسان بھی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے علم کا فائدہ انسانیت کو پہنچانے کی کوشش کی۔ ان کا یقین تھا کہ علم کا مقصد صرف خود تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد دوسروں تک پہنچانا اور انسانیت کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی نے اپنے طلباء کو ہمیشہ اس بات کی تعلیم دی کہ تحقیق کا اصل مقصد صرف نئی معلومات حاصل کرنا نہیں بلکہ ان معلومات کو دنیا کے فائدے کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ان کی تدریس میں سچائی، محنت، اور انسانیت کی خدمت کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔
10 دسمبر 2024 وہ دن تھا جب پروفیسر سید باقر شیوم نقوی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات سے نہ صرف ان کے خاندان، دوستوں اور طلباء کو صدمہ پہنچا، بلکہ سائنسی کمیونٹی نے بھی ایک عظیم شخص کو کھو دیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں اور ساتھیوں نے ان کی زندگی اور کام کو خراج تحسین پیش کیا۔
پروفیسر نقوی کی وفات کے بعد ان کے طلباء اور محققین نے ان کے کام کو یاد کیا اور ان کی تحقیق کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو مزید آگے بڑھانے کا عہد کیا۔ ان کا علمی ورثہ ہمیشہ زندہ رہے گا اور ان کے کام کو آنے والی نسلیں اپنانا اور آگے بڑھانا چاہیں گی۔
ورثہ اور یاد
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی کی زندگی کا مقصد علم کی روشنی کو پھیلانا اور انسانیت کی خدمت کرنا تھا۔ ان کی تحقیق اور تدریس کی بدولت جو نسلیں پروان چڑھیں، وہ ان کی کاوشوں کا ثمرہ ہیں۔ ان کی زندگی کا پیغام یہ تھا کہ علم کا مقصد صرف خود کے لیے فائدہ حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس علم کو دنیا کی فلاح کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔
ان کی وفات کے بعد، ان کے شاگردوں اور محققین نے ان کے کام کو یاد کیا اور ان کے ورثے کو آگے بڑھانے کا عہد کیا۔ ان کا علمی ورثہ، ان کی تدریس، اور ان کی تحقیق ہمیشہ زندہ رہے گی، اور ان کا نام ہمیشہ سائنسی دنیا میں عزت و احترام سے یاد رکھا جائے گا۔
پروفیسر سید باقر شیوم نقوی کی وفات ایک بڑی کمی کا باعث بنی ہے، مگر ان کا کام، ان کی تعلیم، اور ان کا نظریہ ہمیشہ ہمارے درمیان زندہ رہے گا۔ ان کی زندگی ایک روشنی کی مانند تھی، جو سائنسی دنیا کی تاریکیوں میں روشنی پھیلانے کا سبب بنی۔ ان کا انتقال اس بات کی یاد دہانی ہے کہ زندگی مختصر ہے، مگر انسان کے کام اور ورثے کا اثر ہمیشہ باقی رہتا ہے۔