وزیراعظم اور چیف جسٹس کی مُلاقات میں کیا ہوا؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
گزشتہ روز سپریم کورٹ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ میں ملاقات کی۔
وزیراعظم کا خط12 فروری کو جب آئی ایم ایف وفد نے چیف جسٹس سے ملاقات کی تھی تو اُس کے بعد چیف جسٹس نے صحافیوں سے خصوصی ملاقات کی، جس میں اُنہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف وفد کی آمد سے قبل اُنہیں وزیراعظم کا ایک خط ملا، جس میں اُنہوں نے چیف جسٹس کو بتایا کہ آئی ایم ایف پاکستان میں جائیداد کے حق ملکیت کا تحفظ اور کنٹریکٹ حقوق کے بارے میں یقین دہانی چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات، ٹیکس سے متعلق کیسز کے فیصلے میرٹ پر جلد سنانے کی استدعا
آپ کے خط کا جواب نہیں دوں گاچیف جسٹس نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ میں نے وزیراعظم سے کہا کہ آپ کے خط کا جواب نہیں دوں گا، بلکہ آپ خود سپریم کورٹ تشریف لائیں ہم آپ کے ساتھ نیشنل جوڈیشل پالیسی کمیٹی کا ایجنڈا شیئر کریں گے اور اُس کے بارے میں آپ اپنی تجاویز دے سکتے ہیں، کیونکہ ہم پہلے ہی عدالتی نظام کی اصلاح پر کام کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم نے چیف جسٹس سے ملاقات کی تھی، اس موقع پر اُن کے ساتھ وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اور مشیر احمد چیمہ بھی تھے۔
سپریم کورٹ کا اعلامیہسپریم کورٹ سے جاری اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے کہا کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی کے حوالے سے حزبِ اختلاف کو بھی اعتماد میں لوں گا تاکہ اصلاحات غیرمتنازع اور پائیدار ہوں۔ اور وزیراعظم نے چیف جسٹس سے ٹیکس معاملات پر جلد فیصلے کرنے کی بھی گزارش کی۔
یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات پر آئینی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ملاقات میں رجسٹرار سپریم کورٹ اور سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن بھی شریک ہوئیں۔
کیا انتظامی عہدیداران سے چیف جسٹس مِل سکتے ہیں؟15 فروری کو یہ سوال جب ہم نے ماہرین آئین و قانون کامران مرتضیٰ اور اکرام چوہدری کے سامنے رکھا تو اُن کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور انتظامیہ 2 الگ اگ شعبے ہیں۔ گو کہ چیف جسٹس کے آئی ایم وفد سے ملنے پر کوئی قدغن نہیں لیکن عدالتی روایات کے مطابق تو چیف جسٹس یا دیگر ججز اپنے ملک کے وزیراعظم اور انتظامی عہدیداران سے بھی نہیں ملتے۔
اِس سے قبل ہمیں چیف جسٹس اور وزرائے اعظم کے درمیان ون آن ون ملاقاتوں کا پتا نہیں چلتا لیکن وزیراعظم شہباز شریف 2 چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ ملاقاتیں کر چُکے ہیں اور اِسی طرح سے سابق وزیراعظم عمران خان اور اُس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقت نثار کے درمیان بھی ایسی ایک مُلاقات ہوئی تھی۔
چیف جسٹس اس سے قبل وزرائے اعظم سے کب ملے؟28 مارچ 2024 کو وزیراعظم شہباز شریف اِسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے سلسلے میں اُس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ سپریم کورٹ ملنے کے لئے آئے۔
ف
05 دسمبر 2018 کو اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ یہ ملاقات بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں سپریم کورٹ کے منعقدہ سمپوزیم سے پہلے کی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چیف جسٹس سے ملاقات ا ئی ایم ایف نے چیف جسٹس سپریم کورٹ ا س وقت کے ملاقات کی کے ساتھ
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے جنگلات اراضی کیس میں واگزار کروائی گئی اراضی کی تفصیلات طلب کر لیں
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14 اپریل ۔2025 ) سپریم کورٹ نے جنگلات اراضی کیس میں زیرقبضہ اور واگزار کروائی گئی اراضی کی تفصیلات طلب کر لی ہیں سپریم کورٹ میں جنگلات اراضی کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی عدالت نے تمام صوبوں اور وفاقی حکومت سے تفصیلی رپورٹس طلب کر لیں جبکہ زیر قبضہ اور واگزار کروائی گئی اراضی کی تفصیلات جمع کروانے کا بھی حکم دیا.(جاری ہے)
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایک مسئلہ اسلام آباد کی حدود کا بھی تھا اس کا کیا ہوا؟ ساری دنیا میں جنگلات بڑھائے جا رہے ہیں اور پاکستان میں کم ہو رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمیں رپورٹ نہیں حقیقت دیکھنا ہے اور زیارت میں منفی 17 درجہ میں لوگ درخت نہیں کاٹیں تو کیا کریں کیا حکومت سرد علاقوں میں کوئی متبادل انرجی سورس دی رہی ہے ؟. سرکاری وکیل نے کہا کہ اسلام آباد کی حدود کا مسئلہ حل ہو چکا ہے اور زیارت میں ایل پی جی فراہم کی جا رہی ہے جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پہاڑی علاقوں پر بسنے والے غریب لوگوں کو کیا سبسڈی دی جا رہی ہے؟ عوام کو بہتر سہولیات دینا حکومتوں کا کام ہے 2018 سے آج تک مقدمے میں رپورٹس ہی آ رہی ہیں عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سندھ کی اراضی سمندر کھا رہا ہے‘ درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی.