غزہ کو نیلام کرنے کا صیہونی منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
معصوم مرادآبادی
غزہ میں حالیہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ جنم دینے کے بعد اب اسرائیل اور امریکہ اس کا تیاپانچہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ ایک طرف جہاں نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے غزہ کو خرید کر اس کا مالک بننے کی شرمناک خواہش کا اظہار کیا ہے تو وہیں اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے فلسطینی باشندوں کو سعودی عرب اور دیگر پڑوسی ملکوں میں بسانے کی بات کہی ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل ہی وہ طاقتیں ہیں جنھوں نے گزشتہ80 سال سے فلسطینیوں کا جینا حرام کررکھا ہے اور پورے خطے کو جہنم بنارکھا ہے ۔ اسرائیل نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے ۔غزہ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے قبرستان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔ یہاں کھنڈرات کے علاوہ کچھ نہیں بچا ہے ۔ پندرہ مہینوں کی درندگی، بربریت، وحشت اور ظلم نے غزہ کو ایک ایسے کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے ، جہاں زندگی کے آثار معدوم ہیں۔ اس طویل بربریت کے بعد جب گزشتہ ماہ جنگ بندی عمل میں آئی تھی تو امید بندھی تھی کہ اب دنیا غزہ کی بازآبادکاری کی طرف قدم بڑھائے گی اور فلسطینیوں سے ان کی سرزمین پر ہونے والے ظلم وبربریت پر معافی مانگی جائے گی، لیکن ایسا کرنے کی بجائے دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ غزہ کو خریدنے اور اس کا مالک بننے کی باتیں کررہا ہے ۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے پوری بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ کہا ہے کہ 7/اکتوبر 2023کے بعد کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہے ۔’ نتن یاہو نے یہ بیان ایک ایسی ریاست کے خلاف دیا ہے جس کی سچی سرزمین پر ناجائز قبضہ کرکے اس نے یہودی بستیاں بسائی ہیں۔ فلسطین کے ساتھ مسلمانوں کا اٹوٹ رشتہ ہے ۔ یہاں قبل اوّل ہے ، جو مسلمانوں کی عقیدت واحترام کا تیسرا بڑا مرکزہے ۔دنیا بھر کے مسلمان قبل اوّل کی بازیابی کے لیے عہد بند ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حماس نے گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران اسرائیل کو چھٹی کا دودھ یاددلادیا ہے ۔ اسرائیل کی تمام جارحیت کے باوجود اس نے ہتھیار نہیں ڈالے اور آخرکار اسرائیل کو اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے گفتگو کی میز پر آناپڑا۔یہ درحقیقت اسرائیل کی شکست اور حماس کی فتح ہے ۔ مستقبل میں مزید کسی خطرے سے دوچار ہونے کا خوف ہی دراصل اسرائیل کو اس بات پر مجبور کررہا ہے کہ وہ باقی ماندہ فلسطین کو ہی نیست ونابود کردے ۔کیا واقعی اسرائیل فلسطین کا وجود مٹانے میں کامیاب ہوپائے گا؟یہ صیہونیت کا ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ مسلمان قبلہ اوّل کی بازیابی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔
دنیا جانتی ہے کہ فلسطینی عوام دنیا کی وہ واحد غیور قوم ہیں جو پچھلے 80سال سے بدترین درندگی اور بربریت کا مقابلہ کرنے کے باوجود اپنے وطن عزیز کے دفاع میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ کوئی اور قوم ہوتی تو اپنی سرزمین چھوڑ کر کہیں اورچلی جاتی یا پھر غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیتی، لیکن یہ فلسطینی ہیں جو اپنے وطن کی ایک انچ زمین سے بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔حال میں جب اسرائیل نے امریکہ کی مدد سے غزہ پر مسلسل آگ برسائی اور وہاں زندگی کے آثار ملیا میٹ کئے تب بھی کوئی ایک فلسطینی شہری ایسا نہیں تھا جس نے رحم کی بھیک مانگی ہو۔ پوری پوری بستیاں ویران کردی گئیں۔ ہزارہا فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ پورے پورے خاندان لقمہ اجل ہوگئے ۔ محدود اندازے کے مطابق غزہ میں شہیدوں کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ ہے جبکہ آزاد ذرائع نے یہ تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ بتائی ہے ۔ لاکھوں زخمیوں میں عورتیں، بچے ، بوڑھے اور جوان سبھی ہیں۔ لوگوں کا سب کچھ لٹ پٹ چکا ہے ، لیکن ایک بھی کمزور آواز سنائی نہیں دی ہے ۔ ایک ایسی غیور قوم کو خریدنے اور اس کی بولی لگانے کا کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اپنا دماغی توازن کھوچکے ہیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ان کے سردار معلوم ہوتے ہیں، جو کھلے عام غزہ کی بولی لگاکر پوری دنیا میں اپنی بھد پٹوارہے ہیں۔پوری دینا نے ان کی اس خواہش کو مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کردیا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے غزہ کو خریدنے کے اپنے بے ہودہ ارادوں کی چوطرفہ مذمت کے باوجود اب بھی اپنا موقف تبدیل نہیں کیا ہے ۔ انھوں نے گزشتہ پیر کو ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ غزہ کو خریدنے اور اور اس کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ حماس واپس نہ آسکے ۔ انھوں نے کہا کہ وہاں واپس جانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ، یہ جگہ انہدام کی جگہ ہے ، بقیہ جگہ کو مسمار کردیا جائے گا، سب کچھ تباہ ہوچکا ہے ۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق امریکی صدر نے کہا ہے کہ ”میرے خیال میں فلسطینیوں یاغزہ میں رہنے والے لوگوں کو ایک بار پھر واپس جانے کی اجازت دینا ایک بڑی غلطی ہوگی اور ہم نہیں چاہتے کہ حماس واپس آئے ۔ انھوں نے مزید کہا کہغزہ کو ایک بڑی رئیل اسٹیٹ سائٹ کے طورپر سوچیں اور امریکہ اس کا مالک بننے جارہا ہے اور ہم آہستہ آہستہ ایسا کریں گے”۔
گزشتہ سال فروری میں جب غزہ پر بموں کی بارش ہورہی تھی اور اس کے ساحل پر موت کا رقص جاری تھا تو نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کایہودی داماد تھا جس نے بے شرمی اور بے غیرتی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”غزہ کا ساحل بہت خوبصورت ہے اور وہاں لگژری ہوٹل اورولاز بن جائیں تو دنیا بھر سے لاکھوں سیاح آئیں گے ۔ واضح ہوکہ ٹرمپ کا یہ داماد جس کا نام جبر ڈکشنر ہے ، ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی کا مالک اور بڑا سرمایہ دار ہے ۔ اس کی کمپنی سربیا اور البانیہ کی جنگ سے تباہ حال علاقوں میں لگژری ولاز بنارہی ہے ۔ اب غزہ کا خوبصورت ساحل اس کی نگاہوں میں ہے جہاں وہ دنیا کی عیاشیوں کا سامان مہیا کراکے اربوں ڈالر کمانا چاہتا ہے ۔ نیو یارک کا ایک اور یہودی رئیل اسٹیٹ سرمایہ دار اسٹیوین کوف بھی جیرڈ کا ساتھی ہے جسے ٹرمپ نے پچھلے ماہ مشرق وسطیٰ کے لیے اپنا خصوصی ایلچی مقررکیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے غزہ کو خریدنے اور اس کا مالک بننے کی شدید خواہش کا اظہار کیا ہے ۔مگر ہوس کے یہ سوداگر اس لازوال جذبہ سے واقف نہیں ہیں جو فلسطینیوں کا اپنے مادر وطن کے ساتھ ہے ۔ دنیا کی کوئی طاقت فلسطینیوں کے اس لافانی جذبہ کو سرد نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ حماس نے ان عزائم کی بخئے ادھیڑ کر رکھ دی ہیں۔حماس کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے باور کرایا ہے کہ فلسطینی عوام اپنی جبری ہجرت کے تمام منصوبوں کو ناکام بنادیں گے ۔ انھوں نے کہا کہ غزہ کوئی جائیداد نہیں ہے جس کی خرید وفروخت کی جائے بلکہ یہ مقبوضہ فلسطینی اراضی کا اٹوٹ حصہ ہے ۔”عزت الرشق نے ٹرمپ کے بیان کو فضول قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ فلسطین اور خطے کے حوالے سے گہری جہالت کا عکاس ہے ۔
اس دوران حماس نے اسرائیل پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے مزید قیدیوں کی رہائی غیر معینہ مدت تک موخر کردی ہے ۔القسام بریگیڈ کے ترجمان ابوعبیدہ نے کہا کہ صیہونی ریاست کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں میں بے گھر افراد کی شمالی غزہ واپسی میں تاخیر، غزہ کے مختلف علاقوں میں کارروائی کے ذریعہ شہریوں کو نشانہ بنانا اور معاہدے کے مطابق ہر قسم کے امدادی سامان کے قافلے کو اجازت نہ دینا شامل ہے ، جبکہ ان سب کے باوجود حماس نے معاہدے کے تحت اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کی ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دی ہے کہ اگر غزہ سے ہفتہ کی دوپہر تک اسرائیلی یرغمالی رہا نہیں ہوئے تو جنگ بندی کے خاتمہ کی تجویز دوں گا، جس کے بعد تباہی آئے گی۔’ اس طرح غزہ میں ایک بار پھر جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں۔اگر ایک بار پھر غزہ پر آگ برسائی گئی تو صورتحال خاصی پیچیدہ ہوجائے گی۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: اس کا مالک بننے کو خریدنے اور غزہ کو خریدنے ایک بار پھر امریکی صدر کے باوجود نے غزہ کو انھوں نے کہ حماس دنیا کی اور اس کے بعد نے کہا کیا ہے کے لیے کہا کہ ہیں جو کو ایک
پڑھیں:
ڈائر وولف کے بعد قدیم ہاتھیوں کو بھی دوبارہ زندہ کرنے کا منصوبہ شروع
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)معدوم ہونے والے خوفناک بھیڑیوں (Dire Wolfs) کو دوبارہ زندہ کرنے کے کامیاب منصوبے کے بعد، اب سائنس دان پراعتماد ہیں کہ طویل عرصہ قبل معدوم ہوجانے والے قدیم دور کے برفانی ہاتھی (وولی میمتھ) کو دوبارہ انسانوں کے درمیان لایا جا سکتا ہے۔
وولی میممتھ زمانہ قدیم کے وہ برفانی ہاتھی تھے جن کے جسم پر لمبے لمبے بال ہوتے تھے، جب کی آخری نسل بھی آج سے 4 ہزار سال قبل معدوم ہو گئی تھی۔
ڈیلی اسٹار کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے برفانی ہاتھی کو واپس لانے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے ، یہ ایک معدوم ہونے والی ہاتھی کی ایک نسل تھی جن کا کبھی زمین پر غلبہ ہوا کرتا تھا۔
کلوسل بائیوسائنسز نامی کمپنی قدیم دور کے ہاتھی بنانے کے لیے جین ایڈیٹنگ کا استعمال کر رہی ہے جس میں وولی میمتھ نامی ہاتھی کی بنیادی حیاتیاتی خصوصیات ہیں۔ وہ اس جانور کو آرکٹک ماحولیاتی نظام میں دوبارہ متعارف کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو کاربن کو جذب کرنے والے اور شمسی تابکاری کی عکاسی کرنے والے گھاس کے میدانوں کو فروغ دے کر موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
کمپنی نے برفانی ہاتھی کو واپس لانے میں پیش رفت کی ہے۔ انہوں نے مذکورہ ہاتھی کے ڈی این اے کا ایک نقشہ بنایا ہے اور ہاتھی کے اسٹیم سیل بنانے کا ایک طریقہ تلاش کیا، جو اس عمل میں ایک اہم قدم ہے۔
ڈاکٹر بین لیم کے مطابق وہ صرف برفانی ہاتھی کے ڈی این اے کو ٹھیک نہیں کر رہے ہیں، بلکہ اس کے بجائے، وہ ایشیائی ہاتھی کے ڈی این اے کا استعمال کر رہے ہیں اور میمتھ سے کھوئے ہوئے جینوں کو موجودہ ہاتھیوں کے ڈی این اے میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
قدیم ہاتھیوں میں کھال کی دو موٹی تہوں اور چھوٹے کان ہوتے تھے، جس کی وجہ سے انہیں سرد موسم میں گرم رہنے میں مدد ملتی تھی۔ ان کا سائز افریقی ہاتھیوں سے ملتا جلتا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اونی میمتھ کی نسل ممکنہ طور پر انسانی شکار، رہائش گاہ کے نقصان، اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ختم ہوگئی تھی۔ اس دیوہیکل جانور نے صدیوں سے لوگوں کو مسحور کر رکھا تھا۔ اب سائنسدان انہیں دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کلوسل بائیوسائنسز نامی کمپنی جنہوں نے معدوم سفید بھیڑیوں کو واپس لانے پر کام کیا، اب اونی میمتھ کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے 200 ملین ڈالر کی فنڈنگ اکٹھی کی اور اسے اس پروجیکٹ کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ کیا۔ کمپنی کے سی ای او بین لیم نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا انسان 2028 تک قدیم دور کے برفانی ہاتھی کو بھی ایک بار پھر دیکھ سکیں گے۔
مزیدپڑھیں:اوورسیز پاکستانیوں کیلئے خوشخبری، ریاستی مہمانوں جیسا پروٹوکول دینے کا اعلان