اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ 5ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے،103کو فوجی تحویل میں بھیجا گیا،کیا ان پر بھی وہی چارجز آئے جو فوجی تحویل والوں پر آئے؟

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی بنچ نے سماعت کی،بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری  نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ٹوون ڈی آئین کے آرٹیکل 8کی ذیلی شق 3اے میں آتا ہے تو ایف بی علی کیس ختم کرنا پڑے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ 17ممبر فل کورٹ نے بھی یہی کہا تھا کہ ایف بی علی میں ٹھیک کہا گیا ہے،آرٹیکل 8کی ذیلی شق 3اے ممبر آف آرمڈ فورسز پر لاگو ہوتی ہے،وکیل عزیر بھنڈاری نے کہاکہ جب تک اس فائنڈنگ کو ختم نہیں کرتے اس کی اجازت کیسے ہوگئی،جسٹس امین الدین نے کہاکہ انہوں نے کہا تو ہے بنیادی حقوق دستیاب ہیں۔

پچھلے مالی سال میں حکومتی ملکیتی اداروں کا اوسط خسارہ 851 ارب روپے رہا

وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں پتہ کہ کس اصول کے تحت پک اینڈ چوز کیاگیا،جسٹس امین الدین نے کہاکہ پک اینڈ چوز ایف آئی آر کی رجسٹریشن کے بعد ہوتی ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ 5ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے،103کو فوجی تحویل میں بھیجا گیا،کیا ان پر بھی وہی چارجز آئے جو فوجی تحویل والوں پر آئے؟عزیر بھنڈاری نے کہاکہ ملٹری ٹرائل والوں پر کون سے چارجز آئے کسی کو نہیں پتہ نہ ہی وہ ریکارڈ پر ہے،1973کے آئین میں دیکھیں تو 8تھری اے نہیں آتا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ چاہے آپ جتنے مرضی خطرناک کیوں نہ ہوں؟عزیر بھنڈاری نے کہاکہ میں وکالت نامے پر دستخط کروانے گیا تھااسی کیس میں مجھے بھی پکڑ کر لے گئے،مجھے بھی دو گھنٹے اندر رکھا گیا، ایف بی علی کیس میں جووجوہات دی گئی وہ ٹھیک ہیں،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ ایف بی علی کیس کسی کو سمجھ نہیں آ رہی، اتنے دن سے اسی پر بحث ہورہی ہے ، چھوڑدیں اسے۔

جنرل ساحر شمشاد مرزا سے چیف آف سٹاف بحرین نیشنل گارڈ کی ملاقات،خطے کی بدلتی صورتحال اور سیکیورٹی سے متعلق امور پرگفتگو

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: عزیر بھنڈاری نے کہا جسٹس مسرت ہلالی فوجی تحویل ایف بی علی چارجز ا ئے نے کہاکہ والوں پر

پڑھیں:

سویلنز کا ٹرائل صرف 175 کے تحت ہی ہو سکتا ہے، فوج 245 کے دائرہ سے باہر نہیں جاسکتی۔ جسٹس جمال مندوخیل

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر آج بھی جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، جس میں عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دئے۔ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی ،جسثس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ گزشتہ روز شروع کئے گئے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے آئین کس چیز کی اجازت دیتا ہے، عام ترامیم بنیادی حقوق متاثر نہیں کر سکتی، سلمان اکرم راجہ نے جو مثال دی تھی وہ سویلینز میں ہی آئیں گے۔ وکیل عزیر بھنڈاری کے مطابق جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا تھا کہ 83 اے کے تحت آرمڈ فورسز کے اسٹیٹس کو دیکھنا ہوتا ہے، آرمی ایکٹ میں ٹو ون ڈی کی پروویژن کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ آرٹیکل 243 کے مطابق اس کا اطلاق پہلے سے ہوتا ہے۔ جس پر عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ اس پر آپ کی ججمنٹس موجود ہیں، ملزم کے اعتراف کے لیے سبجیکٹ کا ہونا ضروری ہے۔ وکیل عزیر بھنڈاری کا مؤقف تھا کہ کورٹ مارشل کے علاوہ کوئی پروویژن نہیں ہے جو اس میں لگے۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ وہ نہ لگے اس کا لگنا ضروری تو نہیں ہے۔ جس پر وکیل عزیر بھنڈاری کا مؤقف تھا کہ یہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ وکیل عزیر بھنڈاری کے مطابق ایف بی علی کیس نے اسٹیٹس واضح کر دیا تھا، کوئی بھی ممبر جس کا تعلق ہو قانون کے مطابق اطلاق ہو گا، ٹو ون ڈی والے 83 اے میں نہیں آتے یہ ایف بی علی کیس نے واضح کیا۔ وکیل عزیر بھنڈاری کا مؤقف تھا کہ اگر یہ اس میں آگئے تو بنیادی حقوق دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، آرمی ایکٹ کا تعلق صرف ڈسپلن سے ہے۔ جسٹس امین الدین خان بولے کہ شق سی کے مطابق جو ملازمین آتے ہیں وہ حلف نہیں لیتے ہوں گے۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ شق سی والے کبھی بھی کورٹ مارشل نہیں کر سکتے، کورٹ مارشل ہمیشہ آفیسرز کرتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ جرم کی نوعیت آرمڈ فورسز ممبرز بتائیں گے۔ عزیر بھنڈاری بولے نے کہا کہ جرم کی نوعیت سے بنیادی حقوق ختم نہیں ہوتے۔ عزیر بھنڈاری کا مؤقف تھا کہ آئین بننے سے پہلے کے جاری قوانین کا بھی عدالت جائزہ لی سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ ٹو ون ڈی کو نکالنے کے باوجود بھی کیا ملٹری جسٹس سسٹم چلتا رہے گا۔ وکیل عزیز بھنڈاری نے جواب دیا کہ ٹرین چلے گی، سوال یہ ہے کہ کس کو بٹھایا جا سکتا ہے کس کو نہیں، جسٹس منیب فیصلے سے بھی کورٹ مارشل جاری رہنے کا تاثر ہے، اگر چہ مارشل لا میں بھی پارلیمنٹ کے ذریعے بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ عزیز بھنڈاری نے موقف اختیار کیا کہ فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175 سے باہر ہیں، جبکہ سویلنز کا ٹرائل صرف 175 کے تحت ہی ہو سکتا ہے، فوج 245 کے دائرہ سے باہر نہیں جاسکتی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا (3)8 کے مقصد کے لیے بنائی گئی عدالتیں دوسروں کا ٹرائل کرسکتی ہیں، آئین کے تحت آرمڈ فورسز ایگزیکٹو کے ماتحت ہیں، کیا ایگزیکٹو کے ماتحت فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کرسکتی ہیں یا نہیں، کیا عدالتوں کو آزاد ہونا چاہیے یا نہیں۔ خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت 24 فروری تک ملتوی کردی گئی، بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری سوموار کو بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا ایگزیکٹوکے ماتحت فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کرسکتی ہیں؟جج آئینی بینچ
  • ایگز یکٹوکے ماتحت فورسز عدالتی اختیار کا اسرمال کرسکتی ہیں یا نہیں ؟جسٹس جمال
  • سویلنز کا ٹرائل صرف 175 کے تحت ہی ہو سکتا ہے، فوج 245 کے دائرہ سے باہر نہیں جاسکتی۔ جسٹس جمال مندوخیل
  • شق سی والوں کا کورٹ مارشل نہیں کر سکتے،کورٹ مارشل آفیسرز کا ہوتا ہے،وکیل عزیر بھنڈاری 
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: کیا فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کرسکتی ہیں؟ جج آئینی بینچ
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کیس: عمران خان کے وکیل کے دلائل جاری
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: جرم کی نوعیت سے بنیادی حقوق ختم نہیں ہوتے، عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری کا موقف
  • میرے خلاف بہت خبریں لگتی ہیں بہت دل کرتا ہے جواب دوں: جسٹس مسرت ہلالی
  • پارلیمنٹ آپ کچھ اور بات، یہاں کچھ اور بات کرتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی