5ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے،103کو فوجی تحویل میں بھیجا گیا،کیا ان پر بھی وہی چارجز آئے جو فوجی تحویل والوں پر آئے؟ جسٹس مسرت ہلالی
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ 5ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے،103کو فوجی تحویل میں بھیجا گیا،کیا ان پر بھی وہی چارجز آئے جو فوجی تحویل والوں پر آئے؟
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی بنچ نے سماعت کی،بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ٹوون ڈی آئین کے آرٹیکل 8کی ذیلی شق 3اے میں آتا ہے تو ایف بی علی کیس ختم کرنا پڑے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ 17ممبر فل کورٹ نے بھی یہی کہا تھا کہ ایف بی علی میں ٹھیک کہا گیا ہے،آرٹیکل 8کی ذیلی شق 3اے ممبر آف آرمڈ فورسز پر لاگو ہوتی ہے،وکیل عزیر بھنڈاری نے کہاکہ جب تک اس فائنڈنگ کو ختم نہیں کرتے اس کی اجازت کیسے ہوگئی،جسٹس امین الدین نے کہاکہ انہوں نے کہا تو ہے بنیادی حقوق دستیاب ہیں۔
پچھلے مالی سال میں حکومتی ملکیتی اداروں کا اوسط خسارہ 851 ارب روپے رہا
وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں پتہ کہ کس اصول کے تحت پک اینڈ چوز کیاگیا،جسٹس امین الدین نے کہاکہ پک اینڈ چوز ایف آئی آر کی رجسٹریشن کے بعد ہوتی ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ 5ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے،103کو فوجی تحویل میں بھیجا گیا،کیا ان پر بھی وہی چارجز آئے جو فوجی تحویل والوں پر آئے؟عزیر بھنڈاری نے کہاکہ ملٹری ٹرائل والوں پر کون سے چارجز آئے کسی کو نہیں پتہ نہ ہی وہ ریکارڈ پر ہے،1973کے آئین میں دیکھیں تو 8تھری اے نہیں آتا،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ چاہے آپ جتنے مرضی خطرناک کیوں نہ ہوں؟عزیر بھنڈاری نے کہاکہ میں وکالت نامے پر دستخط کروانے گیا تھااسی کیس میں مجھے بھی پکڑ کر لے گئے،مجھے بھی دو گھنٹے اندر رکھا گیا، ایف بی علی کیس میں جووجوہات دی گئی وہ ٹھیک ہیں،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ ایف بی علی کیس کسی کو سمجھ نہیں آ رہی، اتنے دن سے اسی پر بحث ہورہی ہے ، چھوڑدیں اسے۔
جنرل ساحر شمشاد مرزا سے چیف آف سٹاف بحرین نیشنل گارڈ کی ملاقات،خطے کی بدلتی صورتحال اور سیکیورٹی سے متعلق امور پرگفتگو
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: عزیر بھنڈاری نے کہا جسٹس مسرت ہلالی فوجی تحویل ایف بی علی چارجز ا ئے نے کہاکہ والوں پر
پڑھیں:
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا، سپریم کورٹ
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ایگزیکٹو ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف عدالتی افسر کی کسی بھی شکایت کے جواب میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے کوئی بھی کارروائی نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہوگا۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پہلے تو آرٹیکل 203 کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سمیت ماتحت عدالتوں کی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے اپنے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا ۔
مزید پڑھیں: 9 مئی مقدمات، چیف جسٹس فریقین میں توازن کیلیے پرعزم
دوسرا ایڈمنسٹریٹو جج کی جانب سے پریذائیڈنگ جج کے خلاف ریفرنس ناکافی بنیادوں پر خارج کرنے کی روشنی میں چیف جسٹس نے تبادلے کی درخواست پر مزید کارروائی نہ کرنے میں مکمل جواز پیش کیا کیونکہ اس درخواست میں میرٹ کا فقدان تھا اور وہ صرف ایک ایسے حوالے پر مبنی تھی جس میں ثبوت کی کمی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی طرف سے تحریر کردہ 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب پراسیکشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی گئی۔
ریاست کی جانب سے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے ایک پریذائیڈنگ جج کے دوسرے سے تبادلے کی درخواست کی سماعت میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جج کیخلاف ریفرنس پر حکومت کو پیغام دینا تھا دے دیا، چیف جسٹس
ہم اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ کسی صوبے میں ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اس صوبے کے اندر عدلیہ کی سربراہ ہوتا ہے۔ لہٰذا عدالتی افسر کی ایسی کسی شکایت کے جواب میں چیف جسٹس کی جانب سے کوئی بھی کارروائی نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہو گا۔
ریاست کی نمائندگی کرنے والے سپیشل پراسیکیوٹر کا بنیادی زور یہ تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیرا 8 اور 9 میں درج نتائج نہ صرف غیر ضروری تھے بلکہ چیف جسٹس کے اختیار کے مینڈیٹ سے بھی باہر تھے۔
واضح رہے لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے اے ٹی سی ججز کے معاملات میں ایگزیکٹو ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف موقف اختیار کیا تھا۔ انہوں نے اے ٹی سی جج راولپنڈی کے تبادلے کی پنجاب حکومت کی درخواست پر سخت استثنیٰ لیا تھا۔