امریکا کے سابق نائب خصوصی ایلچی ٹائسن بارکر نے کہا کہ روس کی افواج اب ایک دیو قامت لیتھیم ذخائر سے 4 میل سے کچھ زیادہ دور ہیں، زیلنسکی نے کہا ہے کہ کیا یہ معدنیات روسی شراکت داروں ایران، شمالی کوریا اور چین کو دی جائیں گی؟۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے سیکڑوں ارب ڈالر کے معدنی ذخائر پر اپنی نظریں جمالی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ روس کے ساتھ جنگ میں امریکا کی جانب سے خرچ کی گئی رقم معدنیات سے وصول کرلیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ یوکرین کے ساتھ معدنیات کے حوالے سے آسان معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، معاہدے میں ابتدائی طور پر صرف یہ ذکر ہوگا کہ یوکرین کے وسیع وسائل کا امریکا کے پاس کتنا حصہ ہو گا؟، بعد میں تفصیلی شرائط پر بات چیت کی جائے گی۔ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے گزشتہ ہفتے تفصیلی امریکی تجویز کو مسترد کر دیا تھا، جس کے تحت واشنگٹن کو یوکرین کی 50 فیصد اہم معدنیات مل سکتی تھیں، جن میں گریفائٹ، یورینیم، ٹائٹینیم اور لیتھیم شامل ہیں، جو الیکٹرک کاروں کی بیٹری کے لیے لازمی جزو ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ مکمل معاہدے تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ کیف کو ممکنہ طور پر مزید امریکی فوجی حمایت کی اجازت دینے یا یوکرین اور روس کے مابین 3 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے باضابطہ امن مذاکرات کے لیے آگے بڑھنے سے پہلے یوکرین کے ساتھ ایک معاہدہ ہو۔ ٹرمپ کے یوکرین کے ایلچی کیتھ کیلوگ اس ہفتے کیف میں ہیں، تاکہ نظر ثانی شدہ معاہدے کے پیرامیٹرز اور دستخط کے بدلے یوکرین کی ضروریات پر تبادلہ خیال کرسکیں۔ زیلنسکی نے کہا کہ وہ جمعرات کو کیلوگ سے ملاقات کریں گے، اور ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ یہ ملاقات اور امریکا کے ساتھ مجموعی تعاون تعمیری ہو۔ ٹرمپ کے ایک مشیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر زیلنسکی کے بارے میں بتایا کہ بالکل ! ہمیں اس شخص کو حقیقت کی طرف واپس لانے کی ضرورت ہے۔

وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے باوجود معاہدے پر زور جاری ہے، ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنے یوکرینی ہم منصب کو ’انتخابات کے بغیر ڈکٹیٹر قرار دیا تھا، جب زیلنسکی نے کہا تھا کہ ٹرمپ روسی غلط معلومات کے بلبلے میں پھنس گئے ہیں، جس کے جواب میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار یوکرین ہے‘۔ امریکا نے گزشتہ 3 سال میں یوکرین کو فوجی امداد کے طور پر اربوں ڈالر فراہم کیے اور ٹرمپ نے کہا ہے کہ یوکرین کی معدنیات میں امریکی سرمایہ کاری اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ ہم کسی نہ کسی شکل میں یہ رقم واپس حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کیف پر زور دے رہے ہیں کہ وہ واشنگٹن کی امداد کے اعتراف میں امریکا کو 500 ارب ڈالر کی معدنی مراعات دیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عوامی طور پر امریکی عوام کو یہ اشارہ دیں کہ امریکہ امداد واپس لے رہا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اصل امریکی تجویز کس حد تک ماضی کے ہتھیاروں کی ترسیل یا مستقبل کی قسطوں کے معاوضے کے طور پر تیار کی گئی ہے، تاہم زیلنسکی کا کہنا تھا کہ اس میں امریکی مفادات پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے، اور کیف کے لیے سیکیورٹی گارنٹی کا فقدان ہے۔ انہوں نے بدھ کے روز صحافیوں کو بتایا کہ میں اپنے ملک کو فروخت نہیں کر سکتا۔ اس معاملے سے واقف تیسرے ذرائع نے بتایا کہ یوکرین ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کو تیار ہے، ایک اور ذرائع نے یہ بھی کہا کہ کیف ایک معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن یہ امریکا کے تجویز کردہ انتظامات کی طرح ’جارحانہ‘ نظر نہیں آنا چاہیے۔

معدنیات کے ممکنہ معاہدے کے بارے میں امریکی بات چیت کی تفصیلات، بشمول انتظامیہ کے اندر کس نے اصل تجویز کا مسودہ تیار کرنے میں مدد کی، نامعلوم ہیں۔ یہ نظر ثانی شدہ طریقہ کار، وائٹ ہاؤس میں آئندہ ہفتوں میں کیف کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بارے میں زیر بحث آنے والے کئی معاملات میں سے ایک ہے، جو ایک پیچیدہ شعبے کے لیے غیر معمولی طور پر فوری ٹائم لائن ہے، جہاں معاہدوں میں عام طور پر حکومتوں کے بجائے نجی کمپنیاں اور ریاستی ادارے شامل ہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنی مایوسی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ زیادہ تر امریکی امداد گرانٹ تھی، جب کہ یورپ نے بنیادی طور پر قرضے دیے تھے، اگرچہ امریکا کو کچھ بھی واپس نہیں ملا، لہٰذا اس معاہدے سے انہیں اپنا پیسہ واپس مل سکتا ہے۔ 
انہوں نے زیلنسکی کی جانب سے ففٹی ففٹی کی تقسیم کو مسترد کرنے پر بھی تنقید کی، اور اسے بغیر کسی ثبوت کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔

امریکی صدر نے کہا کہ ہم نے نایاب زمین اور چیزوں پر مبنی ایک معاہدہ کیا تھا، لیکن انہوں نے اس معاہدے کو توڑ دیا، انہوں نے اسے 2 دن پہلے توڑدیا تھا۔ ایک نظر ثانی شدہ، آسان طریقہ کار امریکا کو متعدد قانونی اور لاجسٹک رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد دے گا اور اسے بعد میں آمدنی کی تقسیم سمیت ترقی کی تفصیلات پر بات چیت کرنے کا وقت دے گا۔
سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں اہم معدنیات کے تحفظ کے پروگرام کی ڈائریکٹر گریسلین بسکرن نے کہا کہ امریکا نے تاریخی طور پر امداد کے لیے قدرتی وسائل کے تبادلے کا استعمال نہیں کیا، لیکن یہ چین کی معدنیات کی پلے بک میں ایک آزمودہ ہتھیار ہے۔ یوکرین کی اقتصادی بحالی کے لیے امریکا کے سابق نائب خصوصی ایلچی ٹائسن بارکر نے کہا کہ یوکرین امریکی سرمایہ کاری کو تسلیم کرنے کا راستہ تلاش کرنے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین کے عوام امریکا کو اہم معدنی وسائل تک خصوصی رعایتی رسائی کی شکل میں اضافی فوائد دینے کے لیے تیار ہیں، جو امریکی ٹیکس دہندگان کی جانب سے یوکرین میں لگائے گئے اربوں ڈالر کے اعتراف میں ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں یوکرین کے لوگ کچھ عرصے سے حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ بارکر نے کہا کہ اسی طرح کی کچھ شرائط دیگر ممالک کو پیش کرنے کی ضرورت ہوگی جنہوں نے جنگ کے دوران یوکرین میں بہت زیادہ تعاون کیا، جن میں کینیڈا، برطانیہ، جاپان اور یورپی یونین شامل ہیں، لیکن روس کی افواج نے پہلے ہی یوکرین کے 5 حصوں پر قبضہ کر لیا ہے، جس میں نایاب زمینوں کے ذخائر بھی شامل ہیں، اب ایک دیو قامت لیتھیم ذخائر سے 4 میل سے کچھ زیادہ دور ہیں۔ زیلنسکی نے کہا ہے کہ کیا ان علاقوں میں معدنیات روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے شراکت داروں ایران، شمالی کوریا اور چین کو دی جائیں گی؟۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: زیلنسکی نے کہا معاہدہ کرنے کے بارے میں میں امریکی امریکی صدر کہ یوکرین یوکرین کی یوکرین کے امریکا کو امریکا کے نے کہا کہ انہوں نے کے ساتھ کرنے کی تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

غیرمنصفانہ تجارتی رویے پر کوئی ملک ٹیرف سے نہیں بچے گا، ٹرمپ

اپنے حالیہ بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ چین ہم سے بدترین سلوک کرتا ہے، اسی لیے اس پر سخت ٹیرف لگائے جائیں گے۔ سیمی کنڈکٹرز پر بھی ٹیرف کی شرح اگلے ہفتے کا اعلان کریں گے، البتہ کچھ کمپنیوں کے لیے رعایت دی جا سکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے خلاف سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ غیرمنصفانہ تجارتی رویے پر کوئی ملک ٹیرف سے نہیں بچے گا، خاص طور پر چین بھی نہیں بچے گا۔ اپنے حالیہ بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ چین ہم سے بدترین سلوک کرتا ہے، اسی لیے اس پر سخت ٹیرف لگائے جائیں گے۔ امریکی صدر نے واضح کیا کہ موبائل فونز پر ٹیرف جلد نافذ کیا جائے گا، تاہم اس میں کچھ لچک رکھی جائے گی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سیمی کنڈکٹرز پر بھی ٹیرف کی شرح اگلے ہفتے کا اعلان کریں گے، البتہ کچھ کمپنیوں کے لیے رعایت دی جا سکتی ہے۔ اس کے برعکس، چین نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جوابی ٹیرف کی پالیسی مکمل طور پر ختم کرے اور باہمی احترام کے راستے پر واپس آئے۔
چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے کہا کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور غیرمنصفانہ اقدامات ختم کرے۔ یاد رہے کہ اس وقت امریکا نے بیشتر چینی مصنوعات پر 145 فیصد ٹیرف عائد کر رکھا ہے، جبکہ چین نے بھی جواباً 125 فیصد ٹیرف امریکی اشیاء پر نافذ کر دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کا اسرائیل کو نیا تحفہ! 18 کروڑ ڈالر کے فوجی انجن دینے کی منظوری
  • ٹرمپ انتظامیہ کی شرائط نہ ماننے پر ہارورڈ یونیورسٹی کی 2.2 ارب ڈالر کی امداد منجمد
  • زیلنسکی کا ٹرمپ کو دوٹوک پیغام، فیصلوں سے پہلے یوکرین آ کر تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھیں
  • روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میری نہیں بائیڈن کی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کا لڑائی ختم کرنے پر زور
  • روس سے معاہدے سے پہلے ٹرمپ یوکرین کا دورہ کریں، زیلنسکی
  • غیرمنصفانہ تجارتی رویے پر کوئی ملک ٹیرف سے نہیں بچے گا، ٹرمپ
  • پاکستان سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کرنے والے دس ممالک میں شامل
  • ٹرمپ ٹیرف مضمرات
  • ریکوڈک منصوبہ: معیشت، معدنیات اور سرمایہ کاری کا نیا دور
  • دنیا پر ٹرمپ کا قہر