Daily Ausaf:
2025-04-15@09:33:52 GMT

ادھورا سچ اور جھوٹے سچے وعدے

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

کس کس کے منہ پر ہاتھ رکھو گے ؟ کس کس کی زبان بندی کے پروانے جاری کروگے ؟ کس کس کو دنیا کی نظروں سے غائب کروگے ؟
انسانی فطرت ہے وہ زیادہ دیر چپ نہیں رہ سکتا ،فقط اپنے واسطے ہی سے نہیں ،اس جیسے اور انسانوں پر جیتے جی قدغن لگانے پر دنیا چپ کی دائمی بکل مار کر نہیں رہ سکتی ،فطرت کے قا نون کو توڑنے کی بھی کچھ حد ہوتی ہے پھر قانون خود بول اٹھتا ہے ۔جیسے حاضر سروس جج جناب جسٹس محسن اختر کیانی بول اٹھے ہیں ۔
شہرت بخاری نے کہا تھا کہ دروغ مصلحت آمیز جب عروج پہ ہوتو آس پاس کہیں چیختی ہے سچائی عدلیہ کے خاموش اژدہام میں سے ایک شخص جسٹس محسن اختر کیانی آخر بول ہی پڑے ہیں کہ’’انتظامیہ سمیت تمام ستون گر چکے ہیں ،عدلیہ ، انتظامیہ اور پارلیمنٹ سمیت سب ستون گر چکے ہیں، عدلیہ ہوا میں معلق ہے،مگر ہم مایوس نہیں ‘‘ جناب محسن اختر کیانی مایوس نہیں ہونگے ،نہ ہوں ، مگر پورا سچ یہ ہے کہ پوری قوم ہی مایوس ہے ،ہاں مگر جناب سپیکر کتنے دیدہ دلیر ہیں کہ ایک معزز جسٹس کے سامنے ہی نہیں ،پوری قوم کے روبرو ’’عدلیہ کی طرف سے پارلیمنٹ کی ہتک ہوئی ہے‘‘
اور رہی قوم ،تو اس کے سامنے تو وہ یا ان کی حکومت جوابدہ ہی نہیں کہ یہ ووٹ کے رستے نہیں کھوٹ کے رستے پارلیمنٹ میں پہنچا ئے گئے ہیں ۔یہ جب اپنے ضمیر کے سامنے ہی جوابدہ نہیں تو کسی اور کی بات تو بہت دور ہوجاتی ہے ۔اور یہ المیہ فقط جناب سپیکر کا نہیں پوری پارلیمنٹ کا ہے ، ریاست کے ہر منصبدار کا ہے ،اسٹیبلشمنٹ کے ہر فرد کا ہے جو جمہوریت کی ہی نہیں معیشت کی کشتی کو بربادی کے دہانے پر کھڑا کردینے والوں کو ملک کا کوتوال بنوانے کا ذمہ دار ہے۔
پہلے سیاستدان ضمیر کے قیدی ہوتے تھے اب فقط صحافی ضمیر کے قیدی ہیں مگر کچھ! جس ملک کا وزیراعظم ببانگ دہل دروغ گوئی کو عار نہ سمجھتا ہو ،اس ملک میں سچ کی زبان کیوں کر سلامت رہنے کا قانون روا رکھا جائے۔یہ ملک کالے کوٹ والے کی شب وروزکی محنت اور عوام کی بے پناہ قربانیوں سے بنا تھا ،اسے بنانے میں کسی جماعت کا کلیدی کردار نہیں تھا ہاں وہ نحیف نزار بوڑھا بیمار قائد،جاگیر داروں اور ساہوکاروں کے چنگل سے مظلوم مسلمانوں کو آزاد کرانے کے لئے وڈیروں کی جماعت مسلم لیگ کا پرچم ضرور استعمال کیا کرتا تھا اس اقرار کے ساتھ کہ’’میرے جیب میں کھوٹے سکے ہیں ‘‘ اور کھوٹے کو کھرا کون کرپایا یہ پون صدی کے سفر میں ایک پل بھی عیاں نہ ہوسکا اور نہ اس کا امکان ہے کہ اب کھوٹے سکے کسی ایک کی جیب میں نہیں،ٹکسال کے پیٹ میں ڈھلتے ہیں ۔اور ساری سیاسی جماعتیں ٹکسال ہی ہیں جس میں کھوٹے سکے ہی نہیں منافقت کی ساری کرنسیاں تیارہوتی ہیں جن سے ہارس ٹریڈنگ کا کام لیا جاتا ہے۔
ذکرعزت مآب جسٹس محسن اختر کیانی کا ہو رہا تھا جن کے سچ نے سےحکومت کا بھانڈا تو بیچ چوراہے کے پھوٹ گیا۔کل ایاز صادق بھی معذرت خواہانہ لہجے میں بات کریں گے جب ان کی باز پرس کا وقت آئے گا ۔یہ آخر سپیکر صاحب کو سوجھی ہی کیا کہ ایسا راگ الاپنے لگے جس کے ساز کا اختیار ان کے پاس تو کیا ان کے وزیراعظم تک کے اختیار میں بھی نہیں ۔ویسے نہ جانے عزت مآب جسٹس صاحب کے منہ سے حرف گیری کے الفاظ کیوں ادا ہو گئے ورنہ اس نظام بے سروپا میں بے خانماں جیتے ہیں، چپ کی چادر اوڑھ کے زندہ رہتے ہیں ۔رہے ہم تو :
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی
پنجاب سے پولیس نہیں سنبھل رہی اور وفاق سے،معیشت، نعروں کی سیاست چل رہی ہے،اشتہاری مہم باباکی تصویر بغیر ممکن نہیں کہ انہیں بھی تو زندہ رکھنا ہی ہے جو جیتے جی مار دیئے گئے ہیں۔مریم نواز نوجوانوں کو بلا سود 10 لاکھ سے 3 کروڑ تک کا قرضہ دیں گی،سندر اقدام ہے مگر یہ پیسہ کس کے گھر جائے گا،ان امیر زادوں کے جو راتیں موویز دیکھنے میں گزارتے ہیں اور دن نیند کے مزے لینے میں ،کسی غریب پڑھے لکھے خاندان میں غربت ہی ناچے گی کہ اس خاندان کے بچے عرب ممالک میں عزت نفس لٹاتے پھرتے ہیں یا امریکہ ‘برطانیہ اور کینیڈا و نیوزی لینڈ میں گوریوں کے ہاتھوں نصیب بنانے کے چکر میں ،وہ بھی اپنے سے بیس ،تیس سال بڑی ۔
بہرحال اپنے ملک کے لئے وہ بھی زرمبادلہ بھیج کرخوشحالی کے خواب دیکھتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ہونہار بھتیجی ملکر نعروں کی سیاست کا جوسماں سجائے ہوئے ہیں ،دیکھیں وہ کب تک قائم رہتا ہے۔بہرحال اورکچھ ہو نہ ہو تخت لاہور کی شاہراہوں پر سے حکمرانوں کا دھیان نہیں ہٹتا بھلے دوسرے شہروں کی ادھڑی ہوئی سڑکیں تعفن کی آماجگاہ بنی رہیں ۔بھلا ہو عزت مآب جسٹس کاجنہوں نے بے زبانوں کو زباں دینے کا عندیہ بخشا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: محسن اختر کیانی ہی نہیں ہیں کہ

پڑھیں:

جنگلات اراضی کیس: درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل

سپریم کورٹ میں جنگلات اراضی کیس پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے تمام صوبوں اور وفاقی حکومت سے تفصیلی رپورٹس طلب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ زیر قبضہ اور واگزار کروائی گئی اراضی کی تفصیلات بھی جمع کروائیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایک ایشو اسلام آباد کی حدود کا بھی تھا اس کا کیا ہوا؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ اسلام آباد کی حدود کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ ساری دنیا میں جنگلات بڑھائے جا رہے ہیں پاکستان میں کم، ہمیں رپورٹ نہیں حقیقت دیکھنا ہے، سب کو حقیقت کو بھی دیکھنا ہے۔ زیارت میں منفی 17 درجہ حرارت میں لوگ درخت نہیں کاٹیں تو کیا کریں؟

مزید پڑھیں: جنگلات کی بحالی کے لیے صحافی کا انوکھا گنیز ورلڈ ریکارڈ

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا حکومت سرد علاقوں میں کوئی متبادل انرجی سورس دی رہی ہے؟ سرکاری وکیل نے بتایا کہ زیارت میں ایل پی جی فراہم کی جارہی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہاڑی علاقوں پر بسنے والے غریب لوگوں کو کیا سبسڈی دی جا رہی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ عوام کو بہتر سہولیات دینا حکومتوں کا کام ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 2018 سے آج تک مقدمے میں رپورٹس ہی آرہی ہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ سندھ میں سندر اراضی سمندر کھا رہا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جسٹس امین الدین خان جنگلات اراضی کیس زیارت سپریم کورٹ

متعلقہ مضامین

  • ’آپ کے وعدے کا کیا ہوا؟‘ امریکی وفد کی آرمی چیف کی ملاقات پر پی ٹی آئی کے حامی مایوس
  • اپنی چھت اپنا گھر پر وگرام : ٹارگٹ پورا کرنے کیلئے پر عزم ‘ ماضہ میں صرف وعدے ہوئے : مریم نواز 
  • 9 مئی کیسز، اے ٹی سی کو 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت
  • خان اور پارٹی اللہ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں، شیر افضل مروت
  • جنگلات اراضی کیس: درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل
  • شارع فیصل پر فرار ہونے والے ڈمپر ڈرائیور نے گرفتاری دے دی
  • ڈمپر ایسوسی ایشن کے صدر اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ گئے، ڈی آئی جی ٹریفک
  • فیکٹ چیک: محصولات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے جھوٹے دعوے
  • وزیر خزانہ نے جعلی حکومت کے جھوٹے دعوؤں کی حقیقت عوام کے سامنے رکھ دی، بیرسٹر سیف
  • 26 ویں ترمیم کی خوبصورتی عدلیہ کا احتساب، جو ججز کیسز نہیں سن سکتے گھر جائیں: وزیر قانون