جرمنی کے انتخابات اور تبدیلی؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
میں نے حال میں ہی 6 دن کا جرمنی کا دورہ کیا ہے اور ہینوور سے براستہ فرینکفرٹ سٹٹ گارڈ تک طویل سفر کیا ہے۔ مغربی یورپ میں جرمنی، آبادی اور رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے ایک اندازے کے مطابق جرمنی کی آبادی تقریبا ً85ملین تک جاپہنچی ہے ایسا لگتا ہے کہ جرمن نسل تو سکڑ رہی ہے لیکن تارکین وطن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ جرمن کے لئے اب خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے حتیٰ کہ 23 فروری کو جرمنی میں ہونے والے عام انتخابات کا محور بھی تاریکن وطن کی جرمنی میں اس قدر آمد ہی سب سے بڑا ایشو بن کر ابھرا ہے دائیں بازو کی جماعتیں اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں اور مقامی باشندوں کے ووٹ اسی سنگل ایشو کی بنیاد پر حاصل کرنے کی دوڑ میں ہیں جبکہ روایتی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD جو امیگریشن کی حمایت یافتہ رہی ہے اس وقت تو حکومت میں ہے وہ بھی تارکین وطن کے بارے میں اپنی پالیسی کو بدلنے پر مجبور ہو رہی ہے یہاں حالیہ ماہ و سالوں میں آنے والے تارکین وطن میں شام سے تقریباً ایک ملین، یوکرین سے ایک ملین اور پچاس لاکھ کے قریب افغانی باشندے اور دوسرے ملکوں سے افراد جرمنی میں آئے ہیں ان کی اکثریت غیر قانونی راستوں کشتیوں کے ذریعے پہنچی ہے ٹرین سٹیشنوں، بس اسٹینڈوں اور بڑے بڑے پلوں کے نیچے بعض تارکین وطن نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جبکہ ہر بارڈر پر پولیس تعینات ہے لیکن پھر بھی کسی نہ کسی طرح تارکین وطن جرمنی میں داخل ہو رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں 30 ہزار تارکین وطن کو ڈی پورٹ بھی کردیا گیا ہے میں نے لاہور سے 40سال پہلے جرمنی جانے والے سیاسی و سماجی رہنما سید ظفریاب زیادی کے ہمراہ جب شہروں کے مختلف حصوں کا دورہ کیا یا پھر پاکستان سینٹر ہینوور اور اُمہ مسجد میں پاکستانیوں جن میں چوہدری الیاس، افضل قریشی، الطاف قریشی، عمر کمال،راجہ نثار اصغر ساہی اور دیگر سے تارکین وطن کے بارے میں جب بات کی ہے تو وہ سب بھی اس حوالے سے فکر مند تھے کہ اب نسلی امتیاز اور تعصبات اور اسلام و فوبیا بڑھ رہا ہے چونکہ انہیں لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں برے اثرات مرتب ہونگے اور جرمنی تبدیل ہوجائے گا میں نے جب جرمنی کی تیز ترین رفتار ٹرین انٹرسٹی جس کی رفتار 300کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اپنے سفر کے دوران یہ مشاہدہ کیا کہ ہر ملک کا باشندہ اس ٹرین میں سوار تھا مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں ایک شام کی تارک وطن خاتون اپنے ساز و سامان کے ہمراہ تین کمسن بچوں کے ساتھ سفر کررہی تھی میں نے لپک کر مدد کے لئے ایک بچہ تھام لیا جبکہ ایک جرمن خاتون جو انگریزی بول سکتی تھی اس نے بھی ازراہ ہمدردی ایک بچہ تھام لیا جبکہ شیر خوار بچے کو ماں دوران سفر اپنا دودھ پلاتی رہی جبکہ میں اور جرمن خاتون باقی دو بچوں کی دوران سفر دیکھ بحال کرتے رہے ہیں ہمیں اس شامی خاتون کے سامان اتارنے میں بھی اس کی مدد کرنی پڑی اسی طرح کے مناظر اور تارکین وطن کے بھی دیکھنے کو ہرجگہ ملتے ہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جرمن یا یورپین ممالک تارکین وطن کو اپنے ہاں مجبوری میں ویلکم کرتے چلے آرہے ہیں لیکن اب ان ممالک کو خطرہ لاحق ہے کہ تارکین وطن ہی یہاں میجارٹی میں نہ آجائیں نسلی تعصب برتنے والے سفید فام لوگوں کی نمائندگی کرنے والوں کی بڑی پارٹی AFD جو باقی پارٹیوں کی بہ نسبت تبدیلی کی جماعت ہونے کی دعویدار ہے اس کی مقبولیت تقریباً بائیس فیصد ہوچکی ہے اور خطرہ یہ ہے کہ دوسری پارٹی کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی جو تیس فیصد پر جارہی ہے آئندہ دونوں حکومت ہی نہ قائم کر لیں ستم ظریفی یہ ہے کہ الیکشن سر پر ہیں اور جلتی پر تیل اس وقت چھڑکا گیا جب ایک 24 سالہ افغان لڑکے نے مبینہ طور پر میونخ میں ٹریڈ یونین کے احتجاجی مظاہرین پر چلتی گاڑی چڑھا دی جس کے نتیجے میں 16 افراد جان بحق اور 30زخمی ہوگئے ہیں مسلمانوں کی تعداد جرمنی میں کوئی چار ملین ہو گی جبکہ پاکستانیوں کی تعداد تقریبا دو لاکھ کے لگ بھگ ہے طالب علم بھی کافی تعداد میں آ چکے ہیں۔
جرمنی میں 23فروری کو ہونے والے انتخابات کی ووٹنگ صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک جاری رہے گی یہاں الیکٹرانک ووٹنگ کے بجائے بیلٹ باکس کے ذریعے ووٹنگ ہوتی ہے پہلا نتیجہ شام ساڑھے چھ بجے متوقع ہے، جرمنی کی پارلیمنٹ، جسے وفاقی اسمبلی (Bundestag) کہا جاتا ہے، کے اراکین کی تعداد متغیر ہوتی ہے ہر عام انتخابات کے بعد، نشستوں کی تعداد انتخابی نتائج اور مخصوص قوانین کے تحت طے کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2021ء کے انتخابات کے بعد وفاقی اسمبلی میں 736 اراکین شامل تھے اب اس تعداد کو اخراجات کو بچانے کے لئے ایک سو سیٹیں کردی گئی ہیں گزشتہ اسمبلی کے اخراجات 7ملین یورو سے بڑھ کر ڈیڑھ بلین یورو تک بڑھ گے تھے معیشت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سیٹیں کم کی گئی ہیں یاد رہے جرمنی کو یوکرائن کی جنگ میں برطانیہ اور ڈنمارک کی طرح سب سے زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑ گئے ہیں جرمن اس جنگ سے قطعاً خوش نہیں ہیں جبکہ جرمنی کے انتخابات بھی اس لئے جلدی ہورہے ہیں کہ حکمران اتحاد ان ہی ایشوز کی بنیاد پر ٹوٹ گیا تھا جبکہ الیکشن کی مقررہ مدت ستمبر 2025ء تھی یہاں پارلیمانی نظام حکومت ہے چانسلر ہی وزیراعظم ہوتا ہے جبکہ صدارت کا عہدہ علامتی ہے عام انتخابات چار سال اور صدر پانچ سال کے لئے ہوتا ہے بڑی پارٹیوں میں گرین پارٹی، FDP، CDU, LINKE BSW انتخابات میں حصہ لے رہی اس دفعہ مسلمان اور پاکستانی بھی الیکشن میں حصہ رہے ہیں ہر ووٹر کے پاس دو ووٹ ہوتے ہیں ایک امیدوار کو ووٹ دیا جاتا ہے جبکہ دوسرا پارٹی کو جاتا ہے۔جرمنی کے کل 18 صوبے ہیں،ہر جرمن شہری، چاہے اس کی نسل یا مذہب کچھ بھی ہو، کو چاہیے کہ وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا چاہئے اپنی پسند کی پارٹی کو ووٹ دے ہر ووٹ گنتی ہوتا ہے اور وہ فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے! میرا عمومی تاثر یہی ہے کہ اس پہلے حکمران جماعتوں SPD، CDU، گرینز اور FDP نے اقلیتوں کے حقوق کو کسی حد تک نظرانداز کیا ہے اگرچہ SPD اور گرینز تارکین وطن اقلیتوں کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں، لیکن جب فار رائٹس AfD اور CDU کی طرف سے دبا ئو آتا ہے تو وہ ہمیشہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں، اگرچہ ان دونوں پارٹیوں میں تناسب کے لحاظ سے زیادہ تعداد میں تارکین وطن پس منظر رکھنے والے سیاستدان موجود ہیں، لیکن ان کی آوازیں پارٹی کے اندر اس وقت غیر موثر ہوجاتی ہیں جب اسلحہ کی ترسیل، امیگریشن قوانین میں تبدیلی ان کی سکونت رہائش کا حق اور امتیازی سلوک وغیرہ کے معاملات دبائو آتا ہے سیدھے اقلیتوں کے تحفظ کے لئے یا خاص طور پر مسلمانوں کے سیاسی منظر نامے میں کوئی مئوثر پلیٹ فارم نہیں ہے البتہ جو مسلمان یا پاکستانی پہلے سے جرمنی میں قانونی طور پر سکونت اختیار کرچکے ہیں وہ سارے حقوق انجوائے کررہے ہیں، جرمنی میں مقیم میری پاکستانیوں سے ان کے مسائل اور پاکستان کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہے جس کا ذکر پھر سہی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تارکین وطن کی تعداد رہے ہیں ہیں جب رہی ہے کے لئے ہے اور
پڑھیں:
'ہماری مدد کریں' امریکا سے بیدخل پاکستانیوں سمیت 300 محصورتارکین وطن کی دنیا سے اپیل
امریکا سے بےدخل کیے گئے پاکستانیوں سمیت 300 محصور افراد نے دنیا سے مدد کی اپیل کردی۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکا کی جانب سے ملک بدر کیے گئے 300 پاکستانیوں سمیت دیگر افراد کو پاناما کے ایک ہوٹل میں رکھا گیا ہے۔ ساحل سمندر کے کنارے واقع ہوٹل کو امریکا سے بے دخل کیے جانے والے افراد کو رکھنے کے لیے عارضی طور پر ڈیٹنشن سینٹر میں تبدیل کیا گیا ہے۔
تارکین وطن کی غیر ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں خواتین اور مردوں کو ہوٹل کے کمروں کی کھڑکیوں سے ' ہماری مدد کریں' اور ' ہم اپنے ملک میں محفوظ نہیں' جیسے پیغامات پلے کارڈز پر لکھ کر لہراتے ہوئے دیکھا گیا۔ امریکا سے ملک بدر کیے جانے والے 300 تارکین وطن کا تعلق پاکستان، بھارت، افغانستان، چین، ایران اور دیگر ممالک سے ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان تارکین وطن کو اس وقت تک وطن واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک بین الاقوامی حکام ان کی واپسی کا بندوبست نہیں کرتے۔
امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی امریکی سرحد پر قومی ایمرجنسی اور لاکھوں تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو نے ٹرمپ انتظامیہ کو امریکا سے بے دخل کیے گئے تارکین وطن کو عارضی طور پر اپنے ملک میں روکنے کی پیشکش کی تھی۔ پاناما کے حکام کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو امریکا اور پاناما کے درمیان موجود ہجرت کے معاہدے کے تحت طبی امداد اور خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔ امریکا بدر کیے جانے والے 200 افراد میں سے 171 نے پناہ گزینوں کی عالمی ایجنسیوں کی مدد سے اپنے ملک واپس جانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔