اداکارہ روحی بانو، عبدالقادر جونیجو اور کتا (پہلی قسط)
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
گزر گیا جو زمانہ اسے بھلا ہی دو
جو نقش بن نہیں سکتا اسے مٹا ہی دو
گزرا زمانہ، گزرا وقت، گزرے بڑے لوگ یاد ماضی کی طرح آج بھی کم از کم میرے جیسے لوگوں کے دلوں میں آباد ہیں۔ اس لئے کہ میں اس زمانے کا جس کا میں ذکر کرنے جا رہا ہوں۔ میں اس کا ہمسفر تھا۔کامیاب زمانوں کے کامیاب لوگ یعنی جہاں زمانے نے ان کو عزت دی وہاں وہ بھی زمانے کو اپنے نام سے منسوب کر گئے۔ فرانس کے سابق صدر ڈیگال مرحوم کا قول ہے کہ عظیم انسانوں کے بغیر کوئی کام عظیم نہیں ہوتے۔ وہ کیوں عظیم ہوتے ہیں تو ڈیگال نے کہا کہ ان کے کئے کاموں میں ارادے کی پختگی ان کو عظیم سے عظیم تر بنا جاتی ہے۔ ڈیگال کے اس موقف کے بعد بڑے لوگوں کے بارے میں کسی بھی طرح کی رائے اس کے آگے مانند پڑ جاتی ہے۔ ایک طویل عرصہ شوبز کی زندگی میں وابستگی کے بعد بہت دل کرتا ہے کہ اپنی یادوں کو قلم کے حوالے کروں۔ عزت، شہرت، دولت کے حوالے سے ان فنکاروں کے بارے بات کروں جنہیں وقت اور ان کے کئے کاموں نے بہت اونچا کر دیا اور وہ جو بہت نام تو کما گئے مگر نہ دولت اور نہ عزت سنبھال پائے۔ میں ان کو بھی جانتا ہوں جن کے پاس دولت بارش کی طرح برستی تھی اور وہ اس کو لٹاتے بھی بارش کی طرح تھے اور جب سب کچھ لٹاتے لٹاتے ختم ہو گیا تو نہ عزت رہی نہ دولت رہی نہ زمانہ رہا اور جب وقت رخصت قریب آیا تو آخری زندگی میں نہ دوست نہ غم خوار، نہ دل دینے والے کام آئے اور موت بھی آئی تو کسمپرسی کی حالت میں…
میں پی ٹی وی کے 70ء سے 2000ء تک کے دور کا چشم دید گواہ ہوں۔ اس زمانے کی چھوٹی بڑی سکرین کے بڑے لوگوں کے ساتھ گہرا تعلق رہا۔ ایک نہیں سینکڑوں چھوٹے بڑے نام اور بڑے فنکاروں اور ان کی ذاتی زندگیوں سے لے کر فلمی سکرین پر کئے کاموں تک کو بڑے اخبارات کے سپرد قلم کر چکا ہوں۔ زندگی نے وفا کی تو اب چند اہم بڑے فنکاروں کے بڑے یادگار واقعات کو نئی نسل کے حوالے ضرور کروں گا۔ ایسی اداکارائیں، گلوکارائیں، اداکار اور گلوکار، ہدایت کار، کہانی نویس، موسیقاروں کی ایک لمبی فہرست آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ایک طویل ڈرامے کی سیریل کی طرح چل رہی ہے۔ کئی ان گنت واقعات، ان گنت کہانیاں، ان گنت داستانیں کسی بھی بڑے ناموں کے ساتھ واقعات کا ہونا لازمی امر بن جاتا ہے۔ ان میں کچھ واقعات تاریخ کا حصہ بن تو کچھ واقعات دوسروں کے لئے سبق آموز بن کر دوسروں کے لئے بڑا پیغام دے جاتے ہیں۔ آج کے کالم کے ذریعے ماضی کے حوالے سے ماضی کی ایک عظیم اداکارہ کا ذکر کرنے جا رہا ہوں جس نے ایک زمانے تک ٹی وی کے ذریعے نہ صرف خود کو منوایا بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ ٹی وی کے ہر ڈرامے کی ضرورت بن گئی۔ اس وقت اس اداکارہ کی خوش قسمتی یہ رہی کہ ایک وہ دور جب وہ ڈراموں کو بہت اپنے نام کر گئی۔ دوسری طرف اس نے عروج سے موت تک زندگی کے بڑے عذاب بھی جھیلے۔ کبھی پاگل خانے کبھی کسی ایسی جگہوں جہاں نفسیاتی امراض کو پناہ دی جاتی ہے۔ میری مراد روحی بانو سے ہے جس نے زندگی کی جہاں آسانیاں دیکھیں وہاں بہت مشکلات کا سامنا کیا۔
اپنے دور کی سپر سٹار ٹی وی اداکارہ روحی بانو برصغیر کے مشہور طبلہ نواز استاد اللہ رکھا کی بیٹی اور طبلہ نواز ذاکر حسین کی سوتیلی بہن بھی تھی۔ یاد رہے ذاکر حسین کا 2024ء کو بھارت میں انتقال ہوا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس معاشرے نے روحی بانو کی طرح کئی فنکاروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ وہ اپنے دور کی جتنی بڑی انسان، جتنی بڑی اداکارہ تھی اس سے کئی گناہ عذاب جھیلتی رہی۔ اس کی اور بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ ایک کرائم واقعہ میں اس کا جوان بیٹا مار دیا گیا اور یہی نہیں دولت اور گھر کے لالچ میں روحی بانو کو اس کے اپنوں نے اسے اس کے اپنے ہی گھر سے بے گھر کردیا گیا۔ جو اس کی واحد پناہ گاہ تھی۔ نتیجتاً وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی اور اپنے آخری وقت میں وہ گلبرگ کی گلیوں میں پاگلوں کی طرح پھرتی رہی۔ آخرکار اس کی ایک بہن فرام ترکی اسے اپنے ساتھ لے گئی اور وہیں روحی بانو کا انتقال ہو گیا۔ مشہور زمانہ رائٹر منو بھائی (مرحوم) روحی بانو کو سب سے زیادہ باصلاحیت اداکارہ سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے روحی کردار کو اوڑھ لیتی ہے۔ ہدایت کار جتنا بتاتا ہے، وہ اس سے زیادہ سمجھتی ہے۔ منو بھائی کے لکھے کئی ڈراموں میں روحی بانو نے یادگار کردار ادا کئے۔منو بھائی کی نظر شناسی ایک جگہ سہی میرے نزدیک روحی بانو ایک ذہین انسان ہی نہیں وہ اپنے دور کی کسی بھی بڑی فنکارہ سے کم حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ اس نے زندگی کے ساتھ کیا کھیل کھیلا یا زندگی اس کے ساتھ کیا کھیل گئی۔ یہ سوال اس کی آخری گزری زندگی کے دوران بھی اٹھا تھا۔ اگر ان واقعات کی طرف جائوں گا تو یہ ایک پوری داستان بن جائے گی۔ کہیں وہ خود تو کہیں زمانے نے بھی اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ وہ تو تہذیب کی اداکارہ تھی۔ وہ تو زندگی کے اصل کرداروں کی اداکارہ تھی، وہ تو کردار کے اندر ڈوب کر مر جانے والی اداکارہ تھی، وہ تو اداکاری میں اس حد تک چلی جاتی تھی کہ کردار بھی اس کے آگے لاجواب ہو جاتے اور بہت شہرت حاصل کی گئی عزت اور بہت کچھ ہونے کے باوجود اس کی زندگی اتنی عبرتناک ماحول اور برے حالات میں گزرے گی یہ کسی نے سوچا تک نہیں تھا۔ نجانے اس کی زندگی میں اس سے کونسی خطا ہو گئی، کیا بھول ہو گئی کہ اس کو نہ صرف کئی بار پاگل خانے میں دن گزارنے پڑے اور کئی دکھوں کے ساتھ زندگی اس کو اپنوں سے بھی دور کر دی گئی۔ (جاری ہے)
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اداکارہ تھی زندگی کے کے حوالے کے ساتھ اس کے ا کی طرح
پڑھیں:
معمر شخص کی جان بچانے والے پاکستانی طالب علم جو چین میں “ ہیرو“ بن گئے
چین کی گنان میڈیکل یونیورسٹی کے دو پاکستانی طالب علموں یوسف خان اور محمد رفیع اللہ جواد کو شنگھائی ریلوے اسٹیشن پر اچانک طبی ایمرجنسی کا شکار ہونے والے معمر شخص کی زندگی بچانے کیلئے جرات مندانہ اور فلاحی اقدامات پر سراہا گیا ۔
چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق سونگ جیانگ ریلوے اسٹیشن رات کے وقت جب یوسف خان اور رفیق اترے تو انھوں نے پولیس اہلکاروں کو دیکھا کہ ایک ادھیڑعمر شخص ہارٹ آٹیک کے باعث زمین پر گرا ہوا تھا اوراس کے گرد لوگ جمع تھے۔
کوئی عام شخص ہوتا تو شاید ایسے منظر کو دیکھ کر نہ رکتا لیکن یوسف اور رفیق نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن وہ دوںوں دوست فوری ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے وہ فوری طور پراس کی مدد کے لئے پہنچے۔
اس شخص کا جائزہ لینے کے بعد انہوں نے اسے غیر فعال پایا، وہ سانس نہیں لے رہا تھا، اس کی نبض بی ہلکی چل رہی تھی ، وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا۔
رپورٹ کے مطابق یوسف نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کارڈیو پلمونری ریسیسیٹیشن(سی پی آر) اور منہ سے سانس شروع کردی جبکہ جواد نے اس شخص کی حالت کی نگرانی کرکے مدد کی۔
سی پی آر کے چار چکر لگانے کے بعد بزرگ شخص کو آہستہ آہستہ ہوش آ یا اور اس نے دوبارہ سانس لینا شروع کر دیا، دونوں طالب علم اس کے ساتھ رہے اور اس کے استحکام کو یقینی بنایا جب تک کہ ایمبولینس اسے مزید طبی دیکھ بھال کیلئے اسپتال لے جانے کے لئے نہیں پہنچی۔
رپورٹ کے مطابق ان کے فوری اور پیشہ ورانہ ردعمل نے انہیں موقع پر موجود عینی شاہدین، پولیس افسران اور طبی عملے کی طرف سے وسیع پیمانے پر سراہا گیا۔
بہت سے لوگوں نے ان کی ہمت، تحمل اور طبی مہارت کی تعریف کی، جو اس شخص کی زندگی بچانے میں اہم ثابت ہوئی۔
پاکستان کے صوبے کے پی کے سے تعلق رکھنے والے یوسف اور جواد جنوبی چین کی گنان میڈیکل یونیورسٹی سے کلینیکل میڈیسن میں بیچلر کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔
چائنہ اکنامک نیٹ کے مطابق اخلاقیات پر یونیورسٹی کی توجہ نے ہمیشہ ہمیں اچھے کام کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یہاں ہمارے میڈیکل اسٹڈیز نے ہمیں ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے اور نازک حالات میں زندگیاں بچانے کے لئے علم اور مہارت سے لیس کیا ہے۔
واقعہ کے دوران پہلی بار سی پی آر کرنے والے یوسف نے ایک زندگی بچانے میں کامیاب ہونے پر بے حد فخر اور خوشی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ زندگیاں بچانا ہر ڈاکٹر اور میڈیکل طالب علم کا مقدس فرض ہے اور میں اسی طرح کی کسی بھی صورتحال میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دوبارہ ایسا کروں گا۔