سینیٹر علامہ ساجد میر: مدبر سیاستدان و عالم دین
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
علامہ ساجد میر کی شخصیت نہ صرف دینی، تعلیمی، سیاسی اور سماجی میدانوں میں نمایاں خدمات کا باعث ہے بلکہ ان کی زندگی اسلامی اصولوں کی پاسداری، مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور عالمی سطح پر اسلامی اقدار کو فروغ دینے کا ایک کامل نمونہ بھی ہے۔ ان کی خدمات ایک ہمہ جہت رہنما کی مثالی شخصیت کی عکاسی کرتی ہیں۔
2 اکتوبر 1938ء کو سیالکوٹ کے ایک علمی و مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے والے علامہ ساجد میر نے ایسے ماحول میں اپنے ابتدائی سال گزارے جہاں تعلیم اور ادب کو اولین ترجیح دی جاتی تھی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد انہوں نے جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ میں داخلہ لیا اور قرآن حکیم کوحفظ کیا۔بعدازاں، گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری مکمل کر کے اپنی علمی بنیاد کو استوار کیا۔ ان کا تعلیمی سفر نہ صرف پاکستان بلکہ نائیجیریا میں تدریسی خدمات کے ذریعے عالمی سطح پر تعلیم کے معیار اور اداروں کی بہتری میں نمایاں کردار ادا کرتا رہا، جس سے ان کی شخصیت میں ایک نئی جہت شامل ہوئی۔نائیجیریا میں اسلامی تعلیمات کے فروغ اور تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے گرانقدرخدمات انجام دیں۔
1985ء میں وطن واپسی کے بعد، ساجد میر نے مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی ذمہ داری سنبھالی، جس سے ان کی وطن وفائی اورمذہبی و قومی خدمات کا پہلو مزید واضح ہوا۔ ان کی قیادت نے جماعت کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی مستحکم کیا، جس سے امت مسلمہ میں ان کے اثر و رسوخ کو مزید تقویت ملی۔
دین اسلام کی خدمت کے لیے وقف علامہ ساجد میر نے اتحادِ امت اور اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے ہمیشہ اپنی آواز بلند کی۔عالم اسلام کے عظیم رہنماء علامہ احسان الٰہی ظہیررحمۃ اللہ علیہ کی شہادت ہوئی تو انہوں نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کی قیادت سنبھال کر دینی اداروں کی بنیادیں مضبوط کیں اور عوام میں اخلاقی و روحانی بیداری کو فروغ دیا۔ ان کی پراثر خطابت اور گہری فکری بصیرت نے فرقہ واریت کے خلاف جدوجہد میں ایک نیا ولولہ پیدا کیا اور اسلامی اصولوں کو عام کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔جماعت کے انتظامی ڈھانچے کوبہترومنظم بنانے ، دعوتی سرگرمیوں کو وسعت دینے اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔
سیاسی میدان میں، 1994ء سے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن کے طور پر، علامہ ساجد میر نے ملکی سیاست میں اسلامی نظریات اور قومی سلامتی کو اولین ترجیح دیتے ہوئے مدبرانہ فیصلے کیے ہیں۔ ان کا سیاسی وژن ہمیشہ عوامی مفاد، اسلامی اصولوں اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے گرد گھومتا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے انہوں نے ملکی مسائل کی ترجمانی کی اور ان کے فیصلوں میں اعتدال پسندی اور سنجیدگی جھلکتی ہے۔مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان مسلک اہلحدیث کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہے۔ حالیہ دنوں میں، مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی مجلس شوریٰ نے سینیٹر علامہ ساجدمیرکوساتویں بارمتفقہ امیر منتخب کیا ہے،جو جماعت کے کارکنان و علماء کرام کے غیرمتزلزل اعتمادکامظہرہے۔یہ انتخاب اس امرکی واضح دلیل ہے کہ ان کی قیادت میں جماعت نے ہمیشہ دینی اصولوں پر عمل کیا اور ترقی کی راہ پر گامزن رہی۔ اسی کے ساتھ، ڈاکٹر حافظ عبدالکریم کو ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا،جوجماعت کی تنظیمی مضبوطی اور یکجہتی کا ثبوت ہے۔ اس موقع پر، وزیراعظم شہباز شریف کی مبارکبادنے ان کی سیاسی بصیرت اور دینی خدمات کو قومی سطح پر سراہا اور ان کی قیادت کو مزید تقویت بخشی ہے۔
عالمی سطح پر، علامہ ساجد میر کی مقبولیت کا راز ان کی دینی علمیت اور بین الاقوامی مسائل پر مؤثر موقف میں مضمر ہے۔ وہ کشمیر اور فلسطین جیسے حساس تنازعات پر واضح موقف اختیار کرتے ہیں اور غزہ کے مسلمانوں کو امدادی سامان فراہم کرنے والے پہلے پاکستانی رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ علاوہ ازیں، برما، صومالیہ، چیچنیا اور ایری ٹیریا کے مسلمانوںکی آواز بن کر انہوں نے انصاف اور امن کا پیغام عام کیا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، ترکی اور دیگر مسلم ممالک میں ان کی خدمات کو بلند مقام حاصل ہے اور عالمی فورمز پر ان کی آواز مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور عالمی استحکام کے لیے سنی جاتی ہے۔ مزید برآں، ان کے سعودی عرب، مصر، ترکی اور متحدہ عرب امارات سمیت عالم اسلام کے ساتھ قریبی تعلقات ان کی شخصیت کو امت مسلمہ کے عظیم لیڈر کے طور پر عالمی سطح پر مستند کرتے ہیں۔
پاکستان میں مذہبی اور سیاسی یکجہتی کی ضرورت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ علامہ ساجد میر نے مختلف مکاتبِ فکر کو قریب لانے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے پیش پیش رہ کر نہ صرف قومی یکجہتی میں اضافہ کیا بلکہ ملک کو اندرونی انتشار سے محفوظ رکھنے میں بھی نمایاں مدد فراہم کی ہے۔
سینیٹر علامہ ساجد میر کی جامع خدمات اور قیادت انہیں ایک منفرد رہنما کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ ان کی زندگی علم، حکمت اور تقویٰ کا حسین امتزاج ہے جو نہ صرف موجودہ دور کے چیلنجز کا مؤثر حل پیش کرتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی مشعلِ راہ کا کام دیتا ہے۔ پاکستان کو ایسے مخلص اور باصلاحیت رہنماؤں کی اشد ضرورت ہے جو ملکی و عالمی مسائل کو جامع نقطہ نظر سے حل کرتے ہوئے اسلامی اقدار کو فروغ دیں اور عوامی مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی عطافرمائے ، ان کی خدمات کو مزیدوسعت دے اور پاکستان و عالم اسلام کی ترقی و یکجہتی میں ان کا کردار ہمیشہ قائم رہے۔ آمین!
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: علامہ ساجد میر نے عالمی سطح پر مرکزی جمعیت ان کی خدمات کے طور پر انہوں نے کی قیادت کو فروغ کے لیے
پڑھیں:
ڈاکوؤں کیوجہ سے عام شہری محفوظ نہیں ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
سابق وزیر غالب ڈومکی سے ملاقات کے موقع پر علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ غالب ڈومکی پر قاتلانہ حملہ اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں انکے دو محافظوں کا قتل سندھ میں جاری بدامنی کا تسلسل ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ سندھ میں ڈاکوؤن کی وجہ سے عام شہری غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ چوری، اغواء برائے تاوان وارداتیں مسلسل ہو رہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سکھر میں ممتاز قبائلی و سیاسی رہنماء سابق صوبائی وزیر میر غالب حسین خان ڈومکی سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ غالب ڈومکی پر چند روز قبل ڈاکوؤں نے حملہ کیا تھا۔ جس میں ان کے دو گن مین شہید ہوئے تھے، جبکہ وہ خود اور ان کی اہلیہ زخمی ہوئیں۔ ان سے ملاقات کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین ضلع شکار پور کے صدر اصغر علی سیٹھار، ٹاؤن کمیٹی بخشاپور کے سابق چیئرمین میر الطاف حسین ڈومکی، میر امتیاز علی خان ڈومکی و دیگر بھی موجود تھے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سندھ میں ڈاکو راج کے سبب ہر شہری غیر محفوظ ہے۔ چوری، اغواء برائے تاوان کی مسلسل وارداتیں ہو رہی ہیں۔ میر غالب ڈومکی پر قاتلانہ حملہ اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں ان کے دو محافظوں کا قتل سندھ میں جاری بدامنی کا تسلسل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس جرات سے آپ اور آپ کے محافظوں نے ڈاکوؤں کا مقابلہ کیا اور کچھ ڈاکو موقع پر ہلاک اور زخمی ہوئے، یہ واقعہ ڈاکوؤں کے خلاف مزاحمت کی بہترین مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ واقعے میں ملوث سارے مجرم بے نقاب ہو چکے ہیں، لہٰذا حکومت اور سندھ پولیس کو ان سب کے خلاف بھرپور اقدام کرنا چاہئے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے میر غالب حسین خان ڈومکی نے کہا کہ امن و امان کی ابتر صورتحال سے نظام زندگی مفلوج ہو جاتا ہے۔ بدامنی سے معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ عوام مکمل طور پر غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔