پاکستان کے عزیز ترین دوست کا یوم تاسیس آج سے دو دن بعد یعنی 22,فروری کو ہے ، سعودی حکومت نے یوم تاسیس کو سعودی عرب کی ابتدا کا نام دیا ہے THE DAY WE BEGIN لفظی معنی اس بات کو ظاہر کرتے ہیں یہ دن دنیا کے عظیم اسلامی ملک کی ابتدا سے تعبیر کیاگیا ہے سعودی عوام اس دن کا پر تپاک خیر مقدم کرتے ہیں اس دن قومی سطح پر مختلف شہروں میں کئی سرکاری تقریبا ت کا انعقاد ہوتا ہے، سعودی عوام اور یہاںموجود لاکھوں غیرملکی بھی اس دن کا شدت سے انتظار کرتے ہیں،اس دن کا جشن مملکت میں ہونے والی دیگر قومی تقریبات سے الگ ہے، کیونکہ اس کا مقصد پہلی سعودی ریاست کے قیام کے وقت سے قائم ہونے والے معاشرے کی ثقافت کو پھیلانا ہے۔ اس میں روایتی ملبوسات، قومی گیت، سعودی اردہ ڈانس اور دیگر ثقافتی سرگرمیوںکے ذریعے عوام کو سعودی عرب کی ثقافتی تاریخ سے روشناس کیا جاتاہے یوم تاسیس منانے والی سرگرمیوں میں سعودی شہروں کے عوامی چوکوں اور مقامات پر قومی اردہ رقص کی پرفارمنس بھی شامل تھی، جو کہ جھنڈوں اور تلواروں کو اٹھائے ہوئے روایتی دستوں کے ذریعہ پیش کیا جاتاہے ، جو ریاست کی شان اور طاقت کی علامت ہے ۔ روایتی ملبوسات کی نمائش پریڈ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جس میں شہریوں نے اپنے فخر اور قومی تشخص کے اظہار کے لیے ورثے کا لباس زیب تن کرتے ہیں سعودی عرب کا یوم تاسیس سعودی عرب میں ایک قومی موقع ہے، جو 1727 میں امام محمد بن سعود کے ذریعہ پہلی سعودی ریاست کے قیام کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس کی منظوری خادم الحرمین الشریف شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی طرف سے 27 جنوری 2022 کو جاری کردہ شاہی فرمان کے ذریعے دی گئی۔ ہر سال 22 فروری کو مملکت کے بانی کی سالگرہ اور سرکاری تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔سعودی ریاست کی تاریخ کی جدیدیت کے بارے میں عام خیال کے برعکس، سعودی ریاست کی تاریخ قدیم زمانے سے ملتی ہے۔ پہلی سعودی ریاست کے قیام کو تین صدیوں سے زیادہ عرصہ گزرا ہے، جس کے دوران اس نے کسی بھی بیرونی اثر و رسوخ سے اپنی لچک اور آزادی کو برقرار رکھا۔ اپنے قیام سے لے کر آج تک یہ اپنے حکمرانوں اور عوام دونوں کے لحاظ سے ایک خالص عرب ریاست ہے۔جو لوگ یوم تاسیس سے معلومات نہیں رکھتے انکے لئے یہ بتا نا ضروری ہے کہ یہ وہ دن ہے جس دن پہلی سعودی ریاست کی بنیاد امام محمد بن سعود نے 22 فروری 1727 کو رکھی تھی۔ اس نے اپنی جدید ریاست کے دارالحکومت کے طور پر دریہ کا انتخاب کیا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک، بعض ذرائع نے پہلی سعودی ریاست کی ابتدا کو شیخ محمد بن عبدالوہاب کی دریہ میں آمد اور ان کی مذہبی دعوت کے اعلان سے جوڑا تھا۔ تاہم، یہ تاریخ قیام کی تاریخ سے بہت بعد کی ہے اور اس کا ریاست کے ظہور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پہلی سعودی ریاست کے ظہور کی اصل تاریخ وہ تھی جب امام محمد بن سعود نے دریہ میں اقتدار سنبھالا اور وہاں پہلی سعودی ریاست قائم کی۔اگرچہ اس دن کو یوم تاسیس کے طور پر نہیں جانا جاتا تھا جب تک کہ شاہی فرمان کے اجراء کے بعد اس نام کو اپنایا گیا اور اسے ایک قومی موقع کے طور پر منایا گیا، لیکن اسے مملکت کے تاریخی دستاویزی ماخذوں میں پہلے سے ہی بانی کی تاریخ کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔خادم الحرمین الشریف شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے یوم تاسیس کے اعلان کے ساتھ کہا تھا 22 فروری کو سعودی مملکت کے قیام کی یاد میں ہر سال منایا جاتا ہے۔ اسے یوم تاسیس کے طور پر منایا جائے گا اور یہ ایک سرکاری تعطیل بن جائے یہ دن سعودی ریاست کی گہری جڑوں والی تاریخ اور اس کے شہریوں کے اپنے حکمرانوں کے ساتھ مضبوط تعلق کے اعزاز میں، جو تین صدیاں قبل امام محمد بن سعود کے دور سے آج تک پھیلے ہوئے ہیں۔پہلی سعودی ریاست کی شان کو یادگار بنانے کے لیے یوم تاسیس کا انتخاب کرنا قدیم زمانے سے ریاست کی گہری جڑوں پر فخر کرنا مقصد ہے ۔ یہ شہریوں اور ان کے رہنماؤں کے درمیان رشتے کو مضبوط کرنے کا بھی مطالبہ ہے جنہوں نے اس ملک کو اس کی شان کی طرف لے جایا ہے، اور قومی اتحاد، سلامتی اور استحکام پر فخر پر زور دیا ہے، جو کہ سعودی ریاست نے قائم کیا تھا، اور بادشاہوں، بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کے بیٹوں کی کامیابیوں کا جشن منائیں، ترقی اور اتحاد کو بڑھانے میں۔سعودی عرب کی تابناک تاریخ کے حوالے سے آل سعود کا سلسلہ نسب ان کے آباؤ اجداد شہزادہ منی بن ربیعہ المریدی سے ملتا ہے۔ ان کا تعلق الدرو کے قبیلہ المرادہ سے ہے جو بنو حنیفہ کا حصہ ہے جو خلیج عرب کے ساحل کے ساتھ جزیرہ نما عرب کے مشرقی حصے میں رہتے تھے۔ انہوں نے ایک شہر کی بنیاد رکھی اور اس کا نام دریہ رکھا۔ پہلا دریہ، اپنے قبیلے کے بعد، دسویں صدی میں قحط اور خشک حالات کی وجہ سے وسطی عرب جزیرہ نما سے ہجرت کے بعد کے دور میں، بنو حنیفہ کے قبائل استحکام بحال ہونے کے بعد حجر الیمامہ واپس آگئے۔ اس دوران، منی بن ربیعہ المریدی الحنفی، جب جزیرہ نما کے مشرقی حصے میں اپنے آبائی شہر دریہ میں تھے، اپنے چچا زاد بھائی ابن دیرہ کی طرف سے دعوت ملی کہ وہ اپنے قبیلے کو لے کر اپنے آباء و اجداد کے علاقے میں آباد ہو جائیں۔خادم الحرمین الشریف شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے تیرھویں آباؤ اجداد شہزادہ منی بن ربیعہ المریدی الحنفی اپنے قبیلے کے افراد کے ساتھ جزیرہ نما عرب کے مشرقی حصے سے اس کے مرکز خاص طور پر یمن کے علاقے میں واقع وادی حنیفہ کی طرف منتقل ہوئے۔ وادی حنیفہ میں پہنچ کر شہزادہ منی نے غصیبہ اور الملائبید کے علاقوں میں دریہ شہر قائم کیا، اس نے 1446 میں غصیبہ کو اپنے حکمران ہیڈ کوارٹر کے طور پر اور الملائبید کو اپنے زراعت کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر منتخب کیا۔ اس کا نام شہزادہ منی کے قبیلے کے نام پر دیا گیا تھا، جو جزیرہ نما عرب کے مشرقی حصے میں مقیم تھا۔ بعد میں، امارت پر منی المریدی کے بیٹوں اور پوتوں نے 280 سال کے عرصے میں حکومت کی۔ یہ پہلی سعودی ریاست کے قیام کا مرکز تھا۔ دریہ شہر ایک اہم ریاستی دارالحکومت کے لیے موزوں اسٹریٹجک پوزیشن میں واقع ہے، جو نجد، وادی حنیفہ کی ایک اہم وادی کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے نمایاں خصوصیات کا حامل ہے۔ دریہ میں جمع ہونے والے ان عوامل اور تجربات کو امام محمد بن سعود نے بخوبی سمجھا تھا، جن کی قیادت میں دریہ میں شہری ریاست ایک بڑی ریاست میں تبدیل ہوئی، جسے پہلی سعودی ریاست کہا جاتا تھا۔آج یہ عظیم ریاست خادم الحرمین الشریف شاہ سلمان، اور ولی عہد محمد بن سلمان کی ولولہ قیادت میںدنیا کے نقشے دنیا کی اہم ترین ریاست بن چکا ہے جو عالمی منظر نامے میںایک مضبوط ملک ہے ۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: خادم الحرمین الشریف شاہ سلمان پہلی سعودی ریاست کے قیام سعودی ریاست کی کے مشرقی حصے یوم تاسیس کے طور پر کی تاریخ کرتے ہیں دریہ میں جاتا ہے سعود کے کے ساتھ کے بعد اور اس عرب کے کی طرف
پڑھیں:
100 سال سے زائد عرصے میں پہلی بار مصر میں ایک فرعون کا مقبرہ دریافت
ماہرین آثار قدیمہ نے مصر میں ایک صدی سے زائد عرصے کے بعد پہلی بار ایک فرعون کا مدفن دریافت کیا ہے۔برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر Piers Litherland نے اپنی ٹیم کے ساتھ یہ مدفن دریافت کیا۔
وہ مصر کی وادی ملوک (بادشاہوں کی وادی) میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے تحقیقی کام کر رہے ہیں۔اس کام کے دوران انہوں نے ایک چیمبر کی چھت کو دیکھا جسے نیلے رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا جبکہ اس پر زرد ستارے بنے ہوئے تھے۔اس چھت کے بعد انہوں نے ایک زینہ دریافت کیا جو مقبرے کی جانب لے جاتا ہے۔مزید جانچ پڑتال سے ثابت ہوا کہ یہ فرعون تحتمس دوم کا مدفن ہے۔اس فرعون نے مصر پر 1493 سے 1479 قبل مسیح تک حکومت کی تھی۔
ماہرین کو فرعون کے مدفن والے حصے تک پہنچنے میں کئی ماہ لگے کیونکہ انہیں کافی ملبہ صاف کرنا پڑا۔پہلے ڈاکٹر Piers Litherland کا خیال تھا کہ یہ مقبرہ کسی فرعون کی بیوی کا ہے۔مگر انہوں نے تدفین والے مقام کی چھت کو دیکھا جسے ایسے مناظر سے سجایا گیا تھا جو بادشاہوں کے لیے استعمال ہوتے تھے تو علم ہوا کہ یہ کسی فرعون کا مدفن ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ 1922 میں فرعون توتخ آمن کے مدفن کی دریافت کے بعد ایک صدی سے زائد عرصے بعد ہونے والی سب سے اہم ترین دریافت ہے۔Piers Litherland نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ‘جب میں مدفن سے باہر آیا تو میری اہلیہ وہاں انتظار کر رہی تھی اور اسے دیکھ کر میں رونے لگا۔اس کے بعد Piers Litherland کی ٹیم نے ملبے کی صفائی کا کام شروع کیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس مدفن میں نوادرات موجود نہیں اور ایسا اس لیے نہیں کہ ماضی میں چوروں نے اس کا صفایا کر دیا بلکہ ہمارے خیال میں دانستہ طور پر اسے خالی رکھا گیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ جب ہم نے کام شروع کیا تو وہاں پانی بہنا شروع ہوگیا کیونکہ اسے ایک آبشار کے نیچے تعمیر کیا گیا تھا۔فرعون کی باقیات کو ایک دوسری راہداری سے باہر لایا گیا۔
Piers Litherland کے مطابق ہمیں ٹنوں وزنی ملبے کو منتقل کرنا پڑا اور پھر ایک سفید مرمر کے پتھر کے ذرات ملے جس پر تحتمس دوم کا نام درج تھا۔اس مدفن کی دریافت مشترکہ طور پر برطانیہ کے نیو کنگڈم ریسرچ فاؤنڈیشن اور مصری وزارت سیاحت و Antiquities نے مشترکہ طور پر ایک پراجیکٹ کے تحت کی۔
وزیر خزانہ کا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے ٹیکس بڑھانے کا اعلان
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا، رائٹ سائزنگ کا مکمل پلان تیار کر لیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو استعمال کرکے ٹیکس بڑھائیں گے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا ریٹیلرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھاکہ ملک کی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے، پالیسی ریٹ میں کمی سے کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کو فائدہ ہو رہا ہے جبکہ حکومت معیشت کے تمام شعبوں میں بنیادی اصلاحات کر رہی ہے، اصلاحات سے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم معاشی استحکام کیلئے پرعزم ہے، رائٹ سائزنگ کے لئے مکمل پلان تیار کیا ہے، اداروں کے تمام معاملات کو دیکھ کرہی رائٹ سائزنگ کی جائے گی، نجکاری کے عمل کو مزید شفاف کر رہے ہیں۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھاکہ ہمیں اپنے معاشی اہداف کا مکمل ادراک ہے، حکومتی اخراجات میں کمی کے لئے اقدامات کر رہے ہیں، پائیدار معاشی استحکام کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں گے، ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ معیشت میں ریٹیل سیکٹر کا حصہ 19 فیصد ہے جبکہ ٹیکسز میں ریٹیل سیکٹر کا حصہ ایک فیصد ہے، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو استعمال کرکے ٹیکس بڑھائیں گے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ 9.4 ٹریلین کیش کی ڈاکومینٹیشن کرنی ہے، قومی ایئر لائن کی نجکاری کو ری لانچ کر رہے ہیں، 30 جون تک تمام اداروں کی رائٹ سائزنگ کا عمل مکمل کریں گے، مینو فیکچرنگ، سروسز اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کا تناسب پائیدار نہیں ہے۔