غلام محمد قاصؔر کی مشہور نظم ’سمیتا پاٹل‘ کی تخلیقی کہانی بہت پراسرار ہے۔ یہ نظم جس صبح مکمل ہوئی اسی شام سمیتا پاٹل کا انتقال ہو گیا تھا۔ پیرا سائیکالوجی میں ایسے واقعات کو Precognition کہا جاتا ہے، یعنی آئندہ واقعات کی پہلے سے خبر ہو جانا۔
قاصؔر گورنمنٹ کالج درہ آدم خیل میں بطور معلم تعینات تھے اور روزانہ پشاور سے پبلک ٹرانسپورٹ پر وہاں آیا جایا کرتے تھے۔ کئی روز سے راستے میں ایک خاص مقام (بڈھ بیر کے آس پاس) پر انہیں آمد ہوتی لیکن نظم مکمل نہیں ہو رہی تھی۔ پھر ایک روز اسی مقام پر ان کی گاڑی خراب ہو گئی۔ قریب ہی ویران جگہ پر ایک زیارت تھی، قاصؔر نے وہاں فاتحہ پڑھی تو انہیں لگا جیسے گھنٹیاں بجنے لگی ہیں، پھر اسی کیفیت میں نظم مکمل ہوئی جبکہ گاڑی بھی سفر کے لیے تیار تھی:
دل کے مندر میں خوش بو ہے لوبان کی، گھنٹیاں بج اٹھیں، دیوداسی تھی وہ
کتنے سرکش اندھیروں میں جلتی رہی، دیکھنے میں تو مشعل ذرا سی تھی وہ
نور و نغمہ کی رم جھم پھواروں تلے، مسکراتی ہوئی اِک اداسی تھی وہ
پانیوں کی فراوانیوں میں رواں اس کی حیرانیاں، کتنی پیاسی تھی وہ
حسن انساں سے فطرت کی سرگوشیاں گھل گئیں تیرے لہجے کی جھنکار میں
فن کی تکمیل سچا سراپا ترا ، بے زبانی کو لایا جو اظہار میں
مدتوں تک نمائش کی خواہش رہی، زندگی تب ڈھلی تیرے کردار میں
جو تھی زندہ محبت کی بنیاد پر وقت نے چن دیا اس کو دیوار میں
دھوپ ہر روپ میں، ریت ہر کھیت میں، فصلِ جذبات پر خشک سالی رہے
دو گھڑی دل کسی کے خیالوں میں گم اور پھر عمر بھر بے خیالی رہے
آئنہ اب ترستا رہے عکس کو اور نظر روشنی کی سوالی رہے
میرے حصے کا یہ آنکھ بھر آسماں جگمگاتے ستاروں سے خالی رہے
اس غیر معمولی واقعہ کی تفصیلات پروفیسر سہیل احمد (شعبہ اردو پشاور یونیورسٹی) کے ایم فل کے تحقیقی مقالے (غلام محمد قاصؔر: فن اور شخصیت) میں موجود ہیں۔ معروف شاعر سجاد بابر مرحوم اور قاصؔر کے آخری ایام کے معالج ڈاکٹر علی رضوی بھی راوی ہیں کہ وہ یہ واقعہ قاصؔر کی زبانی سن چکے ہیں۔
تشنگی اور تشفی کی ملی جلی کیفیت میں، عزیز شاعر قاصؔر کے صاحبزادے عماد قاصر سے رابطہ کیا تو انہوں نے مزید حیران کن تفصیلات سے آگاہ کیا۔ قاصؔر اسکول پہنچے تو آدھی چھٹی کے وقت اپنے دوست اور کیمسٹری کے معلم منیر حسین شاہ کو نظم سنائی، جو صاحبِ کشف بھی تھے۔ انہوں نے نظم سنتے ہی آنکھیں کھولیں اور کہا کہ یہ تو آپ کی پسندیدہ اداکارہ سمیتا پاٹل کا نوحہ ہے۔
قاصؔر نے کہا کہ سمیٹا پاٹل تو حیات ہیں؟ منیر حسین شاہ نے پھر یہی کہا کہ یہ سمیٹا پاٹل کا نوحہ ہے اور کمرے سے نکل گئے۔ قاصؔر اس روز گھر پہنچے تو حیران کن خبر ان کی منتظر تھی کہ بھارتی آرٹ فلموں کی معروف اداکارہ سمیٹا پاٹل (17 اکتوبر 1955 – 13 دسمبر 1986) دورانِ زچگی زندگی کی بازی ہار گئیں۔ قاصؔر نے وہ ورق نکالا جس پر نظم تحریر تھی، اسے ’سمیٹا پاٹل‘ کا عنوان دیدیا۔
’شعر اک مشغلہ تھا قاصرؔ کا
اب یہی مقصد حیات بنا‘
آج غلام محمد قاصؔر کی 26ویں برسی ہے۔ وہ 4 ستمبر 1941 کو ڈیرہ اسماعیل خان کے دور افتادہ گاؤں پہاڑ پور میں پیدا ہوئے۔ آنکھیں کھولیں تو باپ کا سایہ سر پر نہ تھا۔ ماں نے انتہائی غربت اور کسمپرسی میں پرورش کی اور تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ قاصؔر کہتے تھے’میری پرورش ایسے قصبے میں ہوئی جہاں ریل گاڑی تو اب بھی نہیں۔ ہمارے زمانہ طالب علمی تک وہاں بجلی بھی نہیں تھی۔ پہاڑ پور ہائی اسکول سے میٹرک کیا پھر وہیں ملازمت شروع کردی۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر ایم اے اردو کیا۔
قاصؔر نے اس دوران پاکستان ریلوے لاہور، شعبہ آڈٹ میں بھی دو برس تک خدمات انجام دیں۔ پھر فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے مردان میں لیکچرر تعینات ہوگئے۔ بطور مدرس پشاور، درہ آدم خیل، پشاور، طورو اور پبی میں خدمات انجام دیں۔ ٹیکسٹ بک بورڈ پشاور کے لیے مختلف سطح پر نصاب بھی مرتب کیا۔ پی ٹی وی پشاور کے لیے بیش بہا خدمات ہیں، باالخصوص ڈرامہ ’تلاش‘ اور ’بھوت بنگلہ‘ سنگ میل ہیں۔
قاصؔر کہتے تھے کہ ’میری شاعرانہ تربیت میں ہیمنت کمار، نوشاد اور شنکر جے کشن کی موزوں کی ہوئی دھنوں نے اہم کردار ادا کیا۔ کم عمری میں شاعری کی جو اولین کوششیں کیں وہ فلمی دھنوں پر سرائیکی یا اردو میں اہل بیت کے فضائل و مصائب کے بیان پر مشتمل ہیں۔ قاصؔر کا پہلا مجموعہ ’تسلسل‘ 1977، دوسرا ’آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے‘ 1988 اور تیسرا مجموعہ ’دریائے گماں‘ 1997 میں شائع ہوا۔
20 فروری 1999 کو قاصؔر، کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوں پشاور میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ قاصؔر اپنی شاعری کی بدولت ہمیشہ اردو دنیا میں زندہ و جاوید رہیں گے۔ قابل تحسین بات یہ ہے کہ ان کی اہلیہ سلمیٰ قاصر اور بچوں عماد، عدنان اور نیلم نے ان کی میراث پر کڑا پہرہ دیا۔ 2009 میں قاصؔر کی کلیات ’اِک شعر ابھی تک رہتا ہے‘ اور مذہبی کلام ’سرِ شاخِ یقین‘ کی اشاعت ان ہی کی مرہونِ منت ہے۔
1988 میں قاصؔر کا دوسرا شعری مجموعہ ’آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے‘ منظر عام پر آیا تھا، انہوں نے اس کا پیش لفظ ’پس منظر‘ لکھا تھا جو بوجوہ شائع نہیں کیا جا سکا تھا جو ’رنگ ادب‘ کے غلام محمد قاصؔر نمبر میں 2022 میں بعد از وفات شائع ہوا۔ قاصؔر کی یہ تحریر بطور نقاد ایک اہم دستاویز ہے۔
قاصؔر لکھتے ہیں کہ ’ہمارے علاقے میں کسی کو پاگل کتا کاٹ لے تو اس کا علاج ٹوٹکوں سے کیا جاتا ہے اور جب ہائیڈرو فوبیا کی علامات ظاہر ہوتی ہیں تو ’معالج‘ کہتا ہے اب اس پر نیلا کپڑا ڈال دو، اس کے بعد مریض انتہائی اذیت سے مر جاتا ہے۔ میڈیکل سائنس کی تازہ اطلاع ہے کہ کاٹنے کی صورت میں ہر کتے کو پاگل تصور کیا جائے۔ بہرحال لگتا ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ سگ گزیدہ ہیں جن میں سے کسی کو نفسانی خواہشات نے کاٹا ہے اور کسی کو ہوس زر کے باؤلے کتے نے، اور ہم سب پر آسمان کی نیلی چادر ڈال دی گئی ہے۔ دیکھیں اس ردائے نیلگوں کے نیچے ہم کب تک ایڑیاں رگڑتے ہیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: شعر ا ک مشغلہ تھا قاص ر کا غلام محمد قاصر مشکورعلی غلام محمد قاص ر قاص ر کی قاص ر کا کے لیے تھی وہ
پڑھیں:
پشاور انڈر 22 گیمز میں ڈیرہ اسماعیل خان کے دانیال محسود نے پہلا گولڈ میڈل جیت لیا
پشاور انڈر 22 گیمز میں ڈیرہ اسماعیل خان کے دانیال محسود نے پہلا گولڈ میڈل جیت لیا WhatsAppFacebookTwitter 0 21 February, 2025 سب نیوز
ڈیرہ اسماعیل خان (محمد ریحان ) پشاور میں ہونے والے انڈر 22 گیمز میں ڈیرہ اسماعیل خان کی جانب سے دانیال محسود نے پہلا گولڈ میڈل جیت لیا۔ تفصیلات کے مطابق پشاور میں ہونے والے انڈر 22 گیمز میں ڈیرہ اسماعیل خان کی جانب سے دانیال محسود نے پہلا گولڈ میڈل جیت لیا،
دانیال محسود نے فائنل فائٹ میں پشاور کے فائٹر کو ہرا کر گولڈ میڈل اپنے نام کیا، دانیال محسود کے کوچ 100سے زائد گینز بک ریکارڈ ہولڈر عرفان محسودہیں جن کی قیادت میں انہوں نے گولڈمیڈل حاصل کیا۔