’’مظلوم کشمیری‘‘ صاحب سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
حضرت مظلوم کشمیری سے یہ دہائیوں بعد ہونے والی ملاقات تھی۔ حضرت مظلوم کشمیری سے تین عشروں سے زیادہ کا تعلق ہے۔ اس تعلق پر اکثر وقت کی گرد جمی رہتی ہے اور کبھی مدتوں بعد بادِ صبا کا کوئی جھونکا اس گرد کو اُڑا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ معلوم کرنے کا شوق کہ ’’کون سی وادی میں ہے کون سی منزل پہ ہے، عشق بلا خیز کا یہ قافلہ ٔ سخت جان‘‘ ہمیں ایک بار پھر مظلوم کشمیری کے دربار میں لے گیا۔ ایک روایتی صحافیانہ تجسس بھی تھا اور آنے والے حالات کا ایک خاکہ بنانے کی ضرورت بھی۔ حضرت مظلوم کشمیری نے بہت پرتپاک استقبال کیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد میرا ذہن حضرت سے ہونے والے پہلے انٹرویو تک جا پہنچا۔ بتیس سال پہلے کی بات ہے جب ایک وسیع کمرے کی فرشی نشست پر حضرت سے انٹرویو کر رہا تھا۔ کشمیر کی مسلح جدوجہد کو چار پانچ سال کا عرصہ ہی گزرا تھا۔ غالباً جون 1994 کے دن تھے۔ طویل انٹرویو کے آخر میں مَیں نے پوچھا تھا کہ یہ سفر کیسا رہا حضرت نے ایک محاورے میں اس کا جواب دیا۔ کریوٹھ میوٹھ زیوٹھ (کڑوا میٹھا اور طویل) اب تو بتیس سال بعد بھی یوں لگ رہا ہے کہ سفر واقعی طویل ہوگیا ہے۔ میں نے یہ جملہ یاد دلاتے ہوئے پوچھا کہ آپ کو اس وقت اندازہ تھا کہ سفر اتنا طویل ہوگا؟ حضرت کے جواب کا خلاصہ کچھ یوں تھا اگر انہیں یہ اندازہ ہوتا کہ حالات اس رخ چل پڑیں گے تو شاید اپنا فیصلہ لینے سے پہلے کچھ اور سوچتے۔ حضرت اب تہی دست اور تہی دامن ہیں اور اب ان کے پاس کہنے، فخر کرنے کو صرف یہ مصرعہ بچا ہے
ہر داغ ہے اس دل میں بجُز داغِ ندامت
ان کے پاس اپنے اور پرائیوں کے چبھتے ہوئے سوالوں کے جواب نہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ توڑ نہیں نبھا سکتے تھے تو پھر ہمیں خواب نگر کی تاریک اور دلدلی مسافتوں کی نذر کیوں کیا تھا؟ مظلوم کشمیری کے مطابق کشمیریوں کی بدبختی کا آغاز جنرل پرویزمشرف کے دور میں ہوا جب کشمیریوں کو بتادیا گیا اب پاکستان آپ کی مزید عملی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ پرویز مشرف کے ساتھ متعدد ملاقاتوں سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی حکومت کشمیریوں کی عملی مدد سے ہاتھ کھینچ چکی ہے مگر سانحہ یہ ہو اکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں کشمیر ہی سے ہاتھ کھینچ لیا گیا اور عملی طور پر لاتعلقی کے مطالبے کو قبول کر لیا گیا جس کے بعد ہی پانچ اگست کا فیصلہ ممکن ہوا۔ اب کیا ہوگا؟ مظلوم کشمیری سمیت کسی کو بھی معلوم نہیں۔ مظلوم کشمیری صاحب سے پوچھا کہ اب کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے جواب سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مظلوم صاحب بھی عملی طور پر نظر بندی کا شکار ہو چکے ہیں اور اب کی آزاد اُڑانوں کے موسم اور دن لد گئے ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی عجائب خانے میں رکھی ہوئی ایسی اشیاء ہیں جو وقت اور حالات کے بازار میں متروک نادر اور نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ عجائب خانے کے شیلف میں کچھ حالات کی نمی کچھ وقت کی طوالت کی زنگ اور کچھ اندرونی شکست وریخت ان نادر ونایاب اشیاء کو خود ہی اپنے انجام تک پہنچا دے گی۔ مظلوم صاحب کے پاس کوئی نسخہ کوئی وظیفہ اور منتر ایسا نہیں کہ حالات کا دھارا بدلا جا سکے۔ ان کی باتوں میں احساس ِ زیاں اور دھوکا ہوجانے کا غم نمایاں تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ اگلے مورچوں پر کشمیر کا جہاد لڑ رہے ہیں تو انہیں باور کرایا جاتا تھا کہ دل برداشتہ نہیں ہوتے پراکسی جنگوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ مظلوم صاحب ایک بار اپنے ’’جہاد‘‘ کے لیے احباب کے منہ سے ’’پراکسی وار‘‘ کی اصطلاح سن کر ہکا بکا رہ گئے۔ ایک درد وکرب کی کہانی تھی جو میں نے پہلی بار سنی تھی مگر میں نے 1993,94 میں اسی صفحے پر کشمیر کا ’’غلام اعظم‘‘ اور کشمیر کا انگور کے عنوان سے لکھا تھا کہ بھائیو کسی روز آپ اچانک حالات زمانہ کا شکار ہوجائو گے جب آپ پیچھے مڑ کر دیکھو گے تو قدم بڑھائو کے نعرے لگانے والے غائب ہو چکے ہوں گے۔ یہ کشف وکرامت نہیں تاریخ کا سبق تھا اور تاریخ کو جاری حکمت عملی سے جوڑکر تصویر بنانے کی کوشش تھی۔
مظلوم صاحب کے ساتھ ڈھائی گھنٹے سے زیادہ وقت پر محیط نشست کے بعد اجازت لی تو الوداعی معانقہ کرتے ہوئے میرا تاثر تھا کہ کنٹرول لائن کے اُس پار والے مظلوم کشمیری صاحب کنٹرول لائن کی اِس جانب ہونے والے سلوک کے باعث صرف مظلوم ہی نہیں مجبور کشمیری بھی بن چکے ہیں اور ان کی گفتگو میں ماضی کا ہر جلاوطن کشمیری حریت پسند جھانک رہا تھا۔
بالخصوص راولپنڈی کے انجمن فیض الاسلام کے احاطے میں آسودہ ٔ خاک کشمیری راہنما چودھری غلام عباس کی تقریر کا وہ شعر یا دآرہا ہے جب وہ لیاقت باغ راولپنڈی میں شیخ عبداللہ کے دورہ پاکستان کے موقع پر تقریر کر رہے تھے تو حالات اور ریاست کی پالیسیوں سے ناراض نالاں دلبرداشتہ اور وقت کے عجائب خانے میں پڑے چودھری غلام عباس جنہیں رئیس الاحرار کا خطاب دیا گیا تھا اور جن کی آمد پر قائد اعظم نے گورنر جنرل ہائوس میں باہر آکر استقبال کیا تھا برسوں بعد جلسے میں کہہ رہے تھے۔
ہم نے جب وادیٔ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مظلوم کشمیری مظلوم صاحب نے والے تھا کہ
پڑھیں:
ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد کی وفات
ریاض احمدچودھری
ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد،انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الہ راجعون ۔ پروفیسر صاحب کی علم 93 برس تھی ۔ وہ بہت سی کتابوں کے مصنف اور مولانا مودودی کے جاری کردہ ترجمان قرآن کے مدیر اعلیٰ تھے۔پروفیسر صاحب مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن کا ترجمہ بھی کر چکے تھے جو اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر نے شائع کیا۔ پروفیسر صاحب جنرل ضیاء الحق شہید کے دور میں جب پی این اے کی تحریک چل رہی تھی اور بھٹو صاحب کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا تھا تو اس کے بعدپی این اے کے فیصلے کے مطابق ملکی سالمیت ، ترقیات و منصوبہ بندی کے وزیر رہے۔ پروفیسر صاحب سینکڑوں بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوتے رہے اور ان کی بے شمار کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ پروفیسر صاحب کافی عرصے سے علیل تھے اور انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں قیام پذیر تھے۔ پروفیسر صاحب کئی بار جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ میں شامل رہے۔
راقم الحروف سے پروفیسر صاحب کی گاہے بگاہے بہت سی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔جب وہ وزیر تھے تو کئی بار لاہور اور اسلام آباد میں ان سے ملاقاتیں ہوئیں اور اس کے علاوہ کراچی ، ملتان اور دیگر شہروں میں ان سے اہم معاملات پر بات کرنے کا شرف حاصل رہا۔ پروفیسرخورشید احمد (23 مارچ 1932 ـ 13 اپریل 2025ء )، ایک پاکستانی ماہر اقتصادیات، فلسفی، سیاست دان، اور ایک اسلامی کارکن تھے جنھوں نے اسلامی معاشی فقہ کو ایک تعلیمی نظم و ضبط کے طور پر تیار کرنے میں مدد کی اور لیسٹر میں اسلامک فاؤنڈیشن کے شریک بانیوں میں سے ایک تھے۔
ایک سینئر قدامت پسند شخصیت، وہ اسلام پسند جماعت اسلامی پارٹی کے دیرینہ کارکن رہے ہیں، جہاں انھوں نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر 2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں سینیٹ کے لیے کامیابی سے حصہ لیا۔ انھوں نے 2012ء تک سینیٹ میں خدمات انجام دیں۔ جب انھوں نے 1980ء کی دہائی میں ملک کی قومی معیشت کو اسلامائز کرنے کے کردار پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پلاننگ کمیشن کی سربراہی کی تو انھوں نے ضیاء کی انتظامیہ میں پالیسی مشیر کے طور پر اپنا کردار ادا کیا۔
پروفیسر صاحب 23 مارچ 1932ء کو دہلی، برطانوی ہندوستان میں ایک اردو بولنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ دہلی کے اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد، یہ خاندان پاکستان منتقل ہو گیا اور لاہور، پنجاب میں آباد ہو گیا، جس کے بعد، اس نے 1949ء میں بزنس اور اکنامکس کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ 1949ء میںانہوں نے اپنا پہلا انگریزی مضمون مسلم اکانومسٹ میں شائع کیا۔ انہوںنے بی اے میں اپنی گریجویشن اکنامکس (1952) میں فرسٹ کلاس آنرز میں حاصل کی۔ انہوں نے ابوالاعلیٰ مولانا مودودی کے فلسفیانہ کام کو پڑھنا شروع کیا اور ان کی جماعت، جماعت اسلامی کے کارکن رہے۔ 1952ء میں، انہوں نے بار کا امتحان دیا اور اسلامی قانون اور فقہ پر زور دیتے ہوئے جی سی یو کے لاء پروگرام میں داخلہ لیا۔ اپنی یونیورسٹی میں، وہ اسلامی علوم میں ٹیوشن کی پیشکش کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے طالب علم کارکن رہے۔ لاہور میں پرتشدد فسادات کے نتیجے میں، پروفیسر صاحب نے جی سی یو چھوڑ دیا تاکہ پنجاب پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جے آئی کے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری اور حراست سے بچ سکیں، اور مستقل طور پر کراچی چلے گئے۔ جہاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اپنے مقالے کا دفاع کرنے کے بعد معاشیات میں آنرز کے ساتھ ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
1962ء میں، خورشید احمد نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں آنرز کے ساتھ ایم اے کے ساتھ گریجویشن کیا اور 1965ء میں برطانیہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ حاصل کیا۔ پروفیسر خورشیداحمد نے لیسٹر یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اپنی ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے لیے فیکلٹی آف اکنامکس میں شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے 1967ـ68 میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کے لیے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا کامیابی سے دفاع کیا۔ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ اسلامی معاشی فقہ پر تھا۔ 1970ء میں، خواندگی کو فروغ دینے کے لیے ان کی خدمات کو لیسٹر یونیورسٹی نے تسلیم کیا، جس نے انھیں تعلیم میں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا۔ 1970ء میں، وہ انگلینڈ چلے گئے اور لیسٹر یونیورسٹی میں عصری فلسفہ پڑھانے کے لیے فلسفہ کے شعبہ میں شامل ہوئے۔
پروفیسر خورشید احمد ، ایک انوکھے پاکستانی جن کے تیار کردہ اسلامی معیشت کے منصوبوں سے کئی ممالک مستفید ہو رہے ہیں، مغرب میں جن کے قائم کردہ تعلیمی ،اسلامی تحقیقات اور دعوت ابلاغ کے کئی مراکز چل رہے ہیں جن کو بین الاقوامی سطح پر عالمی خدمات کے اعتراف میں شاہ فیصل ایوارڈ، اور اسلامی ترقیاتی بنک کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی فکر رہنمائی اور منصوبہ بندی سے لاکھوں بے سہارا اور یتیم بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں جدید طرز کی جامعات کے قیام کے خاکے تیار کئے۔ محترم حافظ نعیم الرحمن،امیر جماعت اسلامی پاکستان ،سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نائب امرا لیاقت بلوچ میاں محمد اسلم ڈاکٹر اسامہ رضی ڈاکٹر عطاء الرحمٰن پروفیسر محمد ابرہیم سیکرٹری جنرل امیر العظیم۔ڈپٹی سیکرٹریز سید وقاص انجم جعفری خالد رحمن اظہر اقبال حسن عبد الحق ہاشمی عثمان فاروق شیخ سید فراست علی شاہ ممتاز حسین سہتو۔جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما راشد نسیم حافظ محمد ادریس امیر جماعت اسلامی پاکستان کے سیاسی مشیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی پاکستان قیصر شریف نے پروفیسر خورشید احمد کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور لواحقین سے اظہار تعزیت کیا ہے
پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی کے بزرگ اعلیٰ اوصاف کے حامل سیاسی رہنما انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر شاہ فیصل ایوارڈ اور نشان امتیاز کے حامل عالمی معاشی دانشور کئی کتابوں کے مصنف اور متعدد عالمی اداروں کے ڈائریکٹر تھے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے کہا پروفیسر خورشید احمد کی ملی قومی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے