تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے بڑھتے واقعات
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
پاکستانی تعلیمی اداروں میں طلبہ بالخصوص طالبات کو ہراساں کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات نے طلبہ، والدین، انتظامیہ اور پالیسی سازوں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ ملک بھر میں مختلف یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں میں جنسی ہراسانی، دھونس اور دیگر بدانتظامی کی مسلسل سامنے آنے والی خبروں کے نتیجے میں طلبہ، خاص طور پر طالبات کی حفاظت اور فلاح و بہبود کے بارے میں سنگین سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات ماضی میں بالعموم اسلام آباد، کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں وقوع پزیرہوتے رہے ہیں جب کہ اس حوالے سے خیبر پختون خوا اپنے رجعت پسندانہ طرز بودو باش کی وجہ سے پردہ اخفاء میں رہا ہے لیکن اب جب سے ہمارے ہاں مخلوط تعلیم کا دور دورہ ہوا ہے اور اس پر مستزاد سوشل میڈیا نے اپنی کرامات دکھانی شروع کی ہیں تب سے خیبر پختون خوا کی جامعات اور درس گاہوں سے بھی جنسی ہراسانی کے واقعات رپورٹ ہونا شروع ہوئے ہیں جن میں گومل یونیورسٹی کے بعد گزشتہ دنوں ملاکنڈ یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعے کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔
دراصل گزشتہ چند برسوں میں ملک بھر سے ہراسانی کے جو متعدد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں وہ تعلیمی اداروں میں ایک پریشان کن رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک اہم عنصر جو رپورٹ شدہ کیسز میں اضافے کا باعث بنا ہے وہ سوشل میڈیا اور آگاہی مہمات کے ذریعے طلبہ میں بڑھتی ہوئی بیداری ہے۔ متاثرین اب زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنی شکایات درج کرا رہے ہیں جس کی وجہ سے باضابطہ شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اب بھی کئی واقعات رپورٹ نہ ہونے کے خدشات موجود ہیں کیونکہ متاثرین کو بدنامی اور ادارہ جاتی ردعمل کا خوف ہوتا ہے۔
ہراسانی کے مسئلہ پر بات کرتے ہوئے ہمیں ان اسباب کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو بڑھتے ہوئے واقعات کا باعث بن رہے ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں جہاں طلبہ اور اساتذہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو سمجھنا ہوگا اور اس حوالے سے ان دونوں میں پائی جانے والی خامیوں اور کمزریوں کو زیر بحث لانا ہوگا کیونکہ اس بات میں کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ ہمارے ہاں ماضی میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان موجود تعلق اور رشتے کو روحانی باپ سے تشبیہ دی جاتی تھی جس کے عملی مظاہرے ہماری تاریخ میں آج بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن جب سے استاد اور طالب علم کے درمیان رشتہ کمزور ہوا ہے اور اساتذہ نے روحانی باپ کا کردار نبھانا چھوڑ دیا ہے تب سے یہ مقدس رشتہ زوال کا شکار نظر آتا ہے۔ اسی طرح ماضی میں استاد تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کو بھی اپنا فرض منصبی سمجھتا تھا لیکن اب استاد اس بنیادی کردار سے اپنے آپ کو سبکدوش کر چکا ہے جس کا اثر نوجوان نسل کی بے راہ روی اور جنسی ہراسانی جیسے واقعات کی شکل میں نمودار ہورہا ہے۔
اسی طرح تعلیمی اداروں میں ویلنٹائن ڈے، اساتذہ اور طلبہ کے برتھ ڈے، ویلکم اور فیئرر ویل پارٹیوں اور ثقافتی تہواروں کے نام پر طلبہ و طالبات اور اساتذہ کی مخلوط تقریبات بھی ا ٓگے جاکر ہراسانی کے کیسز میں محرک یا جلتی پر تیل کا کام کررہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ملاکنڈ یونیورسٹی میں ہراسانی کا جو حالیہ واقعہ پیش آیا ہے کیا یہ سب کچھ راتوں رات یا اچانک وقوع پذیر ہوا ہے ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے یہ واقعہ تو انتہا اور آخری مرحلہ ہے اس سے قبل یقینا کئی دیگر مراحل آئے ہوں گے جس میں مذکورہ استاد کے ساتھ ساتھ متذکرہ طالبہ کو بھی بغیر تحقیق کے یکطرفہ طور پر بے گناہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس ضمن میں ہمارا موجودہ جدید تعلیمی نظام بھی ایک اہم عامل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں حاضری و امتحانات، اسائنمنٹ اور ریسرچ سپروائزر کے طور پر استاد کے کردار اور اس کو حاصل اختیارات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے کہ جب آپ استاد کو یکطرفہ طور پر بغیر کسی چیک اور روک ٹوک کے یہ اختیارات دیں گے تو وہ لامحالہ ان کا ناجائز استعمال کرے گا جس کا نتیجہ ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی صورت میں برآمد ہوگا لہٰذا ہمیں ہراسانی کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اگر ایک طرف اساتذہ اور طلبہ کے کردار پر بات کرنی چاہیے تو دوسری جانب اس صورتحال سے ہمارے ناقص نظام تعلیم کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات طلبہ پر نفسیاتی، جذباتی اور تعلیمی طور پر شدید اثرات مرتب کررہے ہیں۔ متاثرین اکثر اضطراب، ڈپریشن اور خود اعتمادی میں کمی کا شکار ہو جاتے ہیں جو ان کی تعلیمی کارکردگی اور کیریئر کے امکانات کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں، ہراسانی کا کلچر ایک زہریلا تعلیمی ماحول پیدا کرتا ہے جو خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے یا کیمپس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکتا ہے۔ ہراسانی کے ممکنہ خوف اور خطرات کے پیش نظر بعض اوقات انتہائی قابل اور ذہین بچے اور بچیاں یا تو پوری طرح اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے یا پھر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت، والدین، تعلیمی ادارے اور ہم سب بحیثیت معاشرہ کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے جہاں ہراسانی مخالف پالیسیوں کا سختی سے نفاذ اس جرم کے سدباب میں کردار ادا کرسکتا ہے وہاں یونیورسٹیوں اور کالجوں کو انسداد ہراسانی پالیسیوں کے حوالے سے طلبہ اور طالبات نیز اساتذہ اور انتظامیہ میں شعور اور آگہی پیدا کرکے بھی مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح محفوظ رپورٹنگ کے نظام کا قیام یقینی بناتے ہوئے اداروں کو گمنام شکایت کے طریقہ ہائے کار متعارف کرانے چاہئیں اور متاثرین کو نفسیاتی مدد فراہم کرنی چاہیے۔ طلبہ اور عملے کو ہراسانی کی شناخت اور اس کی روک تھام کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے باقاعدہ ورکشاپس، سیمینارز اور آگاہی مہمات کا انعقاد بھی ضروری ہے۔ نیز اداروں کو صنفی شمولیت پر مبنی پالیسیاں اپنانی چاہئیں اور فیصلہ سازی میں خواتین کی نمائندگی کو بھی ہر سطح پر یقینی بنانا چاہیے۔
یہ مسئلہ چونکہ ایک وبا کی صورت اختیار کررہا ہے اس لیے متعلقہ حکومتوں کو بھی اس بحران سے نمٹنے میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں موجودہ قوانین کو مضبوط بنانا اور تعلیمی اداروں میں ان کے نفاذ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی نگرانی کے لیے ریگولیٹری باڈیز کے ذریعے کڑی نگرانی اور ان اداروں پر جرمانے عائد کرنے چاہئیں جو ہراسانی کی شکایات پر کارروائی میں ناکام رہتے ہیں۔ مزید یہ کہ متاثرین کو قانونی معاونت اور انتقامی کارروائی سے بچاؤ کی یقین دہانی کے ذریعے شکایات درج کرانے کی حوصلہ افزائی بھی اس مسئلے کی روک تھام میں کردار ادا کرسکتی ہے۔ حرفِ آخر یہ کہ اس سے پہلے کہ تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات ایک سنگین تر سماجی مسئلے کا رخ اختیار کرلیں اس کے تدارک کے لیے پالیسی میں اصلاحات، آگاہی مہمات اور قوانین کے سخت نفاذ پر مشتمل جامع حکمت عملی کا نفاذ نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ان اجتماعی کوششوں کے ذریعے ہی ہم اس پریشان کن مسئلے کا خاتمہ کر کے اپنی درس گاہوں کو علم اور ترقی کے محفوظ مراکزبھی بنا سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے بڑھتے اساتذہ اور حوالے سے کے ذریعے کے ساتھ رہے ہیں کو بھی اور اس ہوا ہے
پڑھیں:
پاکستان امریکا اور چین کے درمیان فاصلے کم کرنے میں کردار ادا کرسکتا ہے، بلاول بھٹو
MUNICH:چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بڑھتے ہوئے عالمی تناؤ کے درمیان پاکستان امریکا اور چین کے مابین فاصلے کم کرنے میں کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
جرمنی میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے دوران ڈوئچے ویلے کو انٹر ویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان مذاکرات کےآغاز میں پاکستان کے تاریخی کردار کو اجاگر کیا اور کہا کہ اگر آپ ہمیں کسی کیمپ کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو ہم خود کو ایک مصالحت کار اور ثالث کے طور پر دیکھنا چاہیں گے۔ انہوں نے پاکستان تقسیم کو وسعت دینے کے بجائے خلیج کو پاٹنے کا خواہاں ہے۔
بلاول نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک ’ ڈیل میکر ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی لیڈرشپ میں پاکستان کلیدی علاقائی چیلنجز سے نبردآزما ہوسکتا ہے۔
انہوں نےاس بات پر بھی زور دیا کہ علاقائی حریف ہونے کے باوجود پاکستان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے، تاہم ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ بھارت کے لیے چین کے حریف کے طورپر امریکی حمایت ہتھیاروں کی دوڑ کا سبب بن سکتی ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے چین کے ساتھ پاکستان کے مستحکم تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے زور دیا کہ پاکستان دنیا کے دیگر ممالک سے بھی تعلقات قائم رکھے۔
گذشتہ برس پاکستانی دفتر خارجہ نے ’ ایک فریق کا فائدہ دوسرے کا نقصان ‘ کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا تھا، چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔
سیکیورٹی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے پاکستان کے موجودہ چیلنجز کا سبب افغانستان سے امریکی انخلا کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان اورد اعش جیسے گروہ طاقت ور ہوئے۔
بلاول بھٹو نے جارحیت پسندی کے خلاف ماضی میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لیے سیاسی اتفاق رائے زور دیا۔
پاکستان نے 1970 کی دہائی کے اوائل میں کلیدی مصالحت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے امریکا اور چین کے مابین سفارتی تعلقات قائم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔
1971 میں پاکستان نے امریکا اور چین کے درمیان خفیہ رابطہ کاری کو ممکن بنایا۔ بعدازاں صدر یحییٰ خان نے امریکی صدر رچرڈ نکسن اور چینی حکمران چون این لائی کے درمیان پیغام رساں کا کردار ادا کیا۔
پاکستان نے جولائی 1971 میں امریکی قومی سلامی کے مشیر ہنری کیسنجر کے بیجنگ کے خفیہ دورے کا اہتمام کیا۔ سرکاری طور پر ہنری کسنجر پاکستان کے دورے پر تھے مگر بیماری کے بہانے وہ بڑی خاموشی سے اسلام آباد سے چین پرواز کرگئے تھے۔
ہنری کسنجر کے دورے سے امریکی صدر نکسن کا 1972 کا انتہائی اہم دورہ چین ممکن ہوپایا، جس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ طور پر سفارتی تعلقات کی ابتدا ہوئی۔