Jasarat News:
2025-02-21@13:08:36 GMT

صدر ٹرمپ ایک بات بھول رہے ہیں

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

صدر ٹرمپ ایک بات بھول رہے ہیں

ہیرلڈ لیم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ’’امیر تیمور نے دنیا کو درہم بر ہم کیا‘‘۔ صدر ٹرمپ کے بیانات نے اب تک دنیا کو درہم کم اور برہم زیادہ کیا ہے، خاص طور پر غزہ کو امریکی ملکیت میں لینے کے دعوے نے، جس نے بین الاقوامی اور عالمی سطح پر تنقید اور اعتراضات کے الائو بھڑکا دیے۔ وائٹ ہائوس اور اس کے ترجمان جن کی حدت اور شدت کو کم کرنے کے لیے آئے دن جنہیں نئے معانی پہنا رہے ہیں کہ ٹرمپ کے منصوبے کا مطلب غزہ پر امریکا کا قبضہ یا اس کی تعمیر نو نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے بدھ کے روز ایک پریس بریفنگ میں کہا: ’’صدر نے غزہ میں زمینی فوج بھیجنے کا وعدہ نہیں کیا… امریکا غزہ کی تعمیر نو کے اخراجات برداشت نہیں کرے گا‘‘۔ ان کی یہ وضاحت اس لحاظ سے بے معنی، تضاد پر مبنی، بیکار اور فضول تھی کیونکہ صدر ٹرمپ نے اس سے پہلے منگل کے روز اپنے بیانات میں غزہ کو محفوظ بنانے میں مدد کے لیے امریکی فوج بھیجنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا تھا: ’’ہم وہ کریں گے جو ضروری ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم ایسا کریں گے‘‘۔

امریکی وزیر ِ خارجہ مارکو روبیو نے بدھ 5 فروری 2025 کو صدر ٹرمپ کے موقف کی شدت کو کم کرنے اور اس کا جواز پیش کرنے کے لیے کہا کہ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی کے بارے میں جو پیشکش کی ہے اس کا مقصد جارحانہ اقدام نہیں ہے، ان کی پیشکش اس علاقے سے ملبہ ہٹانے اور تباہی سے جگہ کو صاف کرنے میں مداخلت کرنے کی نمائندگی کرتی ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’غزہ کی تعمیر نو کے دوران لوگوں کو کہیں تو رہنا پڑے گا‘‘۔ جمعرات کے روز صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر اپنے وزیر خارجہ کے بیان کو دھواں دھواں کردیا کہ اسرائیل لڑائی کے خاتمے کے بعد غزہ کی پٹی امریکا کے حوالے کر دے گا۔ جمعہ 7 فروری 2025 کو جاپانی وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران ٹرمپ نے کہا: ’’بنیادی طور پر امریکا اس معاملے کو ایک جائداد کی سرمایہ کاری کے طور پر دیکھے گا، غزہ ہمارے لیے ایک جائداد کی ڈیل ہے، جہاں ہم اس علاقے میں سرمایہ کار ہوں گے، اور ہم کسی بھی قدم کو جلد بازی میں نہیں اٹھائیں گے‘‘۔

یوں دنوں میں نہیں گھنٹوں میں ٹرمپ انتظامیہ اور خود صدر ٹرمپ غزہ کے معاملے پر بیانات تبدیل کررہے ہیں جسے بہت سے مبصرین فیصلوں میں ہچکچاہٹ، تبدیلی اور نظر ثانی سے تعبیر کررہے ہیں، کچھ اسے دنیا کی توجہ منتشر کرنے اور دھیان ہٹانا قرار دے رہے ہیں جب کہ کچھ اس پورے معاملے کو محض ایک مفروضہ اور فرضی قصہ باور کررہے ہیں جس میں مضبوط حقائق کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی شخص کے فیصلوں میں شش و پنج اور ان میں سے بعض سے دستبرداری کو ہچکچاہٹ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ اس صورت میں ہو گا جب اس کی پہلے سے منصوبہ بندی نہ کی گئی ہو، اور یہ امکانات اور توقعات سے باہر ہو، اور یہ بات امریکا جیسی ریاست سے بعید از امکان ہے جو اپنے منصوبے اور پروگرام، ملازمین، مفکرین اور پالیسی سازوں کی فوج کے ذریعے تیار کرتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ غزہ سے جبری انخلا کے لیے ماحول کو سازگار بنانا چاہتی ہے جسے خطے کے مسلم حکمران مسترد کر چکے ہیں، خاص طور پر مصر اور اردن۔ صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے ہچکچاہٹ ظاہر کرتے بیانات نبض جانچنے کا عمل ہیں کہ اگر ان دونوں ممالک کے عوام اس انخلا کے خلاف اپنی حکومتوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اور مسلمانوں سے غداری کو روکنے کے لیے اپنے حکمرانوں کے مقابل آگئے تو کیا یہ مسلم حکمران اپنے لوگوں پر صدر ٹرمپ کے بیان پر عمل کرنے، انہیں ان کے ملکوں سے بے دخل اور خالی کرنے اور یہودیوں کو ضم کرنے یا اسے ٹرمپ کی مرضی کے مطابق کسی اور وقت تک ملتوی کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں؟؟

صدر ٹرمپ انخلا کے منصوبے پر اس وقت عمل درآمدکا ارادہ رکھتے ہیں جب وہ اس پر عمل درآمدکو کم سے کم ضمنی نقصان کے ساتھ ممکن سمجھیں گے۔ وہ فی الحال تیاریوں میں مصروف ہیں اور تیاری کے عرصے تک تحمل کا مظاہرہ اور ہچکچاہٹ پر مبنی بیانات ان کی پالیسی کا حصہ ہیں، جیسا کہ ان کے اس بیان سے ظا ہر ہے کہ: ’’غزہ ہمارے لیے ایک جائداد کا سودا ہے، جہاں ہم اس علاقے میں سرمایہ کار ہوں گے اور ہم کوئی بھی قدم اٹھانے میں جلدی نہیں کریں گے‘‘۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے لیے صدر ٹرمپ کا یہ منصوبہ ان کے خوابوں سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ ایسا منصوبہ تو کوئی اسرائیلی وزیراعظم بھی سوچنے اور پیش کرنے کا نہیں سوچ سکتا تھا۔ یہ منصوبہ ان کے توراتی خوابوں، فلسطین کے لوگوں کو بے دخل کرنے اور فلسطین کو یہودیوں کے لیے خاص کرنے کے منصوبوں سے ہم آہنگ ہے۔ اس منصوبے نے نیتن یاہو اور ان کی حکومت کے لیے ایک نجات دہندہ کا کردار ادا کیا ہے۔ نیتن یاہو نے حماس سے امن معاہدے کے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کو ٹرمپ سے ملاقات کے بعد تک ملتوی کر دیا تھا جو امریکا جانے سے پہلے شروع ہونے والے تھے۔ انہوں نے واشنگٹن جانے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ مذاکرات کی بحالی کے لیے ان کی ایک شرط ہے کہ حماس اپنے رہنماؤں کو غزہ کی پٹی سے نکالنے پر راضی ہو جائے۔ جب صدر ٹرمپ سے ان کی ملاقات ہوئی اور صدر ٹرمپ نے غزہ کو خالی کرانے کا اپنا حد سے گزرتا ہوا منصوبہ پیش کیا تو انہوں نے فوری طور پر وفد کو دوسرے مرحلے کے مذاکرات کے لیے بھیج دیا اور اپنی شرط کو بھول گئے۔

صدر ٹرمپ کے غزہ انخلا کے منصوبے نے اسرائیلی وزیر خزانہ بذالیل سموٹریچ کو بھی نیتن یا ہو کی حکومت میں رہنے پر قائل کرلیا جس نے دھمکی دی تھی کہ اگر نیتن یاہو دوسرے مرحلے کے بعد جنگ دوبارہ شروع نہیں کرتا تو وہ حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ لہٰذا غزہ کے لوگوں کو بے دخل کرنے، حماس کو ختم کرنے اور تمام یرغمالیوں کو بازیاب کرانے کا ٹرمپ کا منصوبہ، نیتن یاہو اور سموٹریچ کے منصوبوں کو جنگ میں واپس جانے اور نیتن یاہو کی حکومت کو گرنے اور مقدمات میں جانے سے بچانے کے لیے ایک تحفہ اور راستہ ثابت ہوا ہے۔

نیتن یاہو کو جنگ میں جائے بغیر صدر ٹرمپ کے منصوبے سے تمام ممکنہ اہداف حاصل ہورہے ہیں۔ فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں انہوں نے صدر ٹرمپ کے خیال کو ایک عظیم خیال قرار دیا جو شروع میں کچھ لوگوں کو عجیب لگ رہا ہے لیکن بعد میں ممکن نظر آئے گا اور غزہ کے مسئلہ کا بنیادی حل تشکیل دے گا۔ اب وہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں یرغمالیوں کو بازیاب کرانے، جنگ کے خاتمے کے لیے ماحول کو سازگار بنانے اور حماس کو منظر سے ہٹانے کے لیے انتظامات کرنا چاہتے ہیں، لیکن غزہ سے اہل غزہ کے انخلا کے منصوبے پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے غزہ کے لوگوں پر مزید سختی شروع کر دی گئی ہے، یہود انسانی امداد، خیموں اور موبائل گھروں کی ترسیل کی اجازت دینے میں تاخیر کررہے ہیں، اس کے علاوہ پانی، خوراک اور صحت سے متعلق معاملات کو بھی خراب کیا جارہا ہے، تاکہ غزہ میں رہنے اور زندگی گزارنے کا آپشن اگر ناممکن نہیں تو، مشکل ضرور ہو جائے اور اس کے مقابلے میں ایسی جگہوں پر ہجرت کا موقع فراہم کیا جائے جہاں زندگی کے قابل قبول حالات فراہم کیے جائیں۔ اس طرح ٹرمپ نے انخلا کے منصوبے کا اعلان کر کے اور معاہدہ ابراہیم میں واپسی اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور اگلے چار ہفتوں کے دوران مغربی کنارے میں توسیع کے بارے میں سوچنے کا وعدہ کر کے یہودیوں کے ساتھ اپنی وفاداری کا مکمل ثبوت دے رہے ہیں۔ لیکن اس سارے کھیل میں ایک چیز فراموش کردی گئی ہے، سب سے زیادہ اہم اور کھیل پلٹ دینے والی، امت مسلمہ کی ثابت قدمی اور ان کا جذبہ جہاد۔ امت مسلمہ اپنے ذلیل حکمرانوں کی طرح امریکی ایجنٹ نہیں ہے۔ وہ اس منصوبے کو پاش پاش کرکے رکھ دے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انخلا کے منصوبے صدر ٹرمپ کے کررہے ہیں نیتن یاہو انہوں نے لوگوں کو کرنے اور کے لیے ا لیے ایک کرنے کے کے ساتھ رہے ہیں اور اس غزہ کی غزہ کے اور ان

پڑھیں:

یورپ کا گریہ

حالیہ سالوں میں عالمی سیاست دو بحرانوں کی اسیر ہے، دونوں ہی بحران جنگی ہیں اور دونوں ہی بائیڈن حکومت کی دین ہیں۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی بربریت رکوا چکے اور اب روس کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں۔ یہ وہی ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جن کے متعلق 2016 سے لبرل امریکی میڈیا نے یہ تاثر پھیلانا شروع کردیا تھا کہ وہ ایک مسخرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ مغرب سے باہر بھی دنیا کے قریباً ہر ملک میں گنتی کے چند لبرل ضرور پائے جاتے ہیں، سو ہمارے ہاں بھی اپنا وجود رکھتے ہیں، اور بیک ظرف و زمان تب ہی دستیاب ہوتے ہیں جب کوئی قاری صاحب بھی وہی شوق پورا کرلیں جس شوق کی تکمیل کو لبرلزم نے مغرب میں قانونی تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔ یا پھر تب جب کوئی لبرل کسی آفت کا اس قدر شکار ہوجائے کہ اس آفت کو ٹالنے کے لیے موم بتیوں کی روشنی ہی واحد علاج قرار پائے۔ انہی مقامی لبرلز نے بھی اپنے اپنے ممالک میں ٹرمپ کو مسخرے کے طور پر ہی پینٹ کرنا شروع کردیا۔ یقین جانیے کچھ عرصے کے لیے تو خود ہم بھی اس پر یقین کر بیٹھے تھے۔

شاید جدید سیاسیات میں یہ چیز مسخرے پن کا ہی درجہ رکھتی ہوگی کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں کسی ملک پر جنگ مسلط نہ کی۔ اس کے برخلاف اس نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی راہ ہموار کی اور دوحہ مذاکرات کو حتمی نتیجے تک پہنچایا۔ یہ مسخرہ روایتی سیاستدان نہیں، سو نتیجہ دیکھیے کہ امریکا کی سیاسی روایت صدیوں سے اس اصول پر کھڑی تھی کہ امریکا دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرتا۔ مسخرے یعنی ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کو توڑا اور دوحہ میں مذاکرات کی وہ میز سجا لی جس کی ایک جانب ایسے چہرے بیٹھے تھے جو گوانتانامو بے میں امریکا کے ہی قیدی رہے تھے۔ یہ اس بولڈ قدم کا ہی نتیجہ ہے کہ افغان جنگ کو ختم ہوئے 4 برس ہوچکے۔

اپنے دوسرے دور میں بھی مسخرہ پہلے دور والے چلن پر ہے، وہ نہایت طاقتور یہودی لابی کو لبھانے کے لیے زبان سے جو بھی کہہ رہا ہے مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ غزہ پر بمباری رک چکی اور اب سعودی عرب سمیت 4 عرب ممالک اس کی تعمیر نو کا آغاز کرنے کی تیاری میں ہیں۔ اہل غزہ کہیں نہیں جا رہے، وہ غزہ میں ہیں اور غزہ میں ہی رہیں گے۔

یوکرین کے حوالے سے مسخرے یعنی ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ نے صرف ایک ہفتے میں ہی اتنے بولڈ قدم اٹھا لیے ہیں کہ یورپ پہلے سکتے، پھر ماتم اور اب گریے کے مرحلے میں ہے۔ یہ ہم محض کہہ نہیں رہے، بلکہ پوری دنیا نے دیکھا کہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے اس کانفرنس کے صدر کرسٹوف ہیوسگن باقاعدہ رو پڑے۔ وہ شدت غم سے اپنی تقریر جاری نہ رکھ سکے، ڈائس سے اترے اور سیدھا جاکر پہلی صف میں بیٹھی کسی خاتون کے گلے لگ کر اپنا دکھ مٹانے کی کوشش فرما لی۔ گورا مینٹلی کتنا سٹرانگ ہوتا ہے، اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ شدید صدمے میں بھی کرسٹوف کو یہ اچھی طرح یاد رہا کہ غم مٹانے کے لیے موزوں سینہ کونسا ہوتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے پچھلے ایک ہفتے کے دوران جو چند بڑے اعلانات کیے ہیں ان میں سرفہرست یہی ہے کہ یوکرین نیٹو کا ممبر نہیں بنے گا۔ دوسرا یہ کہ امریکا یوکرین کی سلامتی کی ضمانت دینے کو تیار نہیں، گویا اس کی سلامتی ہمارا درد سر نہیں۔ تیسرا یہ کہ اگر کسی یورپین ملک نے امن فوج کے نام پر اپنی فورس یوکرین بھیجی تو اس کا ذمہ دار وہ ملک خود ہوگا۔ نیٹو یا امریکا اس کے دفاع یا ریسکیو کے لیے نہیں آئےگا۔ چوتھی بات یہ کہ یورپ کو چین یا روس سے کوئی خطرہ نہیں، اسے خطرہ اپنے ہی چھچورپنوں سے ہے۔ مثلاً یہ چھچور پن کہ رومانیہ کے صدارتی انتخابات اس بنیاد پر منسوخ کردیے گئے کہ ان انتخابات میں روس نے ٹک ٹاک کے ذریعے مداخلت کرکے اپنے پسندیدہ امیدوار جیرجسکو کی فتح کی راہ ہموار کی ہے۔ اس حوالے سے نائب امریکی صدر جے ڈی وینس نے میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صاف صاف کہا ’اگر سوشل میڈیا کی چند ہزار پوسٹیں آپ کا انتخابی عمل متاثر کردیتی ہیں تو پھر آپ کے ہاں جمہوریت نہیں کچھ اور چل رہا ہے، ہم سوشل میڈیا پر پابندی قبول نہیں کریں گے۔‘

اس پورے معاملے میں سب سے اہم ڈیڑھ گھنٹے کی وہ ٹیلیفونک گفتگو ہے جو امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ عرف مسخرے اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن عرف ڈکٹیٹر کے بیچ ہوئی۔ اس کال کو ڈونلڈ ٹرمپ نے ’گریٹ کال‘ قرار دیا۔ اس حوالے سے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ بقول ٹرمپ پیوٹن سے یوکرین، مشرق وسطیٰ، ایران اور ڈالر کے مستقبل سمیت ہمہ جہت گفتگو ہوئی اور طے پایا کہ امریکا اور روس کے مابین فوری طور پر باقاعدہ مذاکرات شروع ہونے چاہییں۔ پیش رفت کی رفتار اتنی تیز رہی کہ روس اور امریکا کے مابین پہلے رابطے کے پانچویں روز دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود سعودی دارالحکومت ریاض پہنچ گئے۔ جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو مذاکرات کے پہلے دن کا سورج ریاض میں غروب ہوچکا۔ بالعموم پہلا دن ہی یہ طے کردیتا ہے کہ خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے یا نہیں؟ سو پہلے دن کی گفتگو کے بعد دونوں وفود نے میڈیا سے الگ الگ بات چیت کی ہے۔ روسی وفد کے سربراہ وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے

’ہمیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ امریکی وفد ہمارے مؤقف کا پوری طرح اور درست شعور رکھتا ہے۔ بات چیت بہت مثبت اور تعمیری رہی‘۔

اگرچہ پروٹوکول کے مطابق امریکی وفد کی قیادت وزیر خارجہ مارکو روبیو کررہے ہیں، مگر سب جانتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے کلیدی رول نمائندہ خصوصی سٹیو ویٹکوف کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے پہلے روز سے متعلق عالمی میڈیا نے سٹیو ویٹکوف کی ہی رائے کو ہائی لائٹ کیا ہے۔ سٹیو نے کہا ’گفتگو کے بعد ہماری ٹیم نے آپسی گفتگو میں ایک دوسرے سے کہا، اتنے اچھے نتائج کی تو ہم نے توقع بھی نہیں کی تھی، بات چیت بہت ہی تعمیری رہی اور اس میں شامل ہر شخص کی یہ سنجیدہ کوشش رہی کہ مسائل کا کوئی پائیدار حل تلاش کیا جائے، یہ بہت ہی سولڈ گفتگو تھی‘۔

اس گفتگو کے حوالے سے یہ نکتہ اچھی طرح ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ ضیا دور والے جنیوا مذاکرات کی طرح کی گفتگو نہیں ہے۔ 80 کی دہائی والے جنیوا مذاکرات کا واحد ایجنڈا افغان جنگ تھی، اور ساری بات چیت اسی سے متعلق تھی۔ جبکہ روس اور امریکا کی حالیہ بات چیت کا ایجنڈا روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی رائے کے مطابق طے پایا ہے۔ صدر پیوٹن کئی ماہ سے اپنے انٹرویوز اور تقاریر میں یہ بات کرتے آرہے تھے کہ ایشو یوکرین نہیں، ایشو کچھ اور عالمی سنگین مسائل ہیں جن کا نتیجہ یوکرین کی جنگ ہے۔ اگر وہ مسائل حل کر لیے جائیں تو یوکرین کی جنگ بھی ختم ہوجائے گی اور آئندہ کے لیے بھی جنگ جیسی صورتحال پیدا ہونے کا امکان باقی نہیں رہے گا۔ پیوٹن کی اس رائے سے صدر ٹرمپ متفق ہیں، چنانچہ دونوں ممالک کے مابین بات چیت ہمہ جہت ہی ہے۔

اس بات چیت کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ کو اس سے باہر رکھا ہے، جس پر یورپ کا صدمے سے برا حال ہے۔ آپ ذرا تصور کیجیے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ ایسے ممالک ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بالعموم اور سوویت زوال کے بعد سے بالخصوص خود کو دنیا کے ’مالکان‘ سمجھتے آئے ہیں۔ جب بھی کوئی عالمی بحران کھڑا ہوا امریکی صدر نے ان ممالک کے اس وقت کے سربراہوں کو بطور مالکان ساتھ ہی رکھا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کو بھی توڑ دیا۔ برطانوی وزیراعظم، فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر پر واضح کردیا گیا ہے کہ دو بڑوں کی بات چیت میں بچوں کا کوئی کام نہیں۔

سوال تو بنتا ہے کہ آخر ٹرمپ نے یورپین لیڈروں کو اس بڑی عالمی شرمساری سے کیوں دوچار کیا؟ اگر آپ لبرل ہیں تو یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیجیے کہ مسخرے نے تو یہی کرنا تھا، اور اگر آپ لبرل یعنی مغربی اقدار کے کاپی پیسٹر نہیں ہیں تو پھر جواب یہ ہے یورپ کی موجودہ قیادت گلوبلسٹ لبرلز پر مشتمل ہے۔ یو ایس ایڈ اور مختلف طرح کے ادارے یورپین ممالک میں یہ بات یقینی بناتے آئے ہیں کہ کوئی اچھوت یعنی نان لبرل اقتدار میں نہ آنے پائے، جس کی تازہ مثال رومانیہ کا صدارتی الیکشن ہے۔ اور اگلی مثال جرمنی کا الیکشن بننے جارہا تھا، اس معاملے پر حالیہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کے دوران نائب امریکی صدر جے ڈی وینس پورے یورپ کے کانوں سے دھواں نکال چکے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ رومانیہ میں بھی جلد انتخابی عمل مکمل ہوگا اور جرمنی میں بھی آئی ایف ڈے پر پابندی بس حسرت بن کر رہ جائے گی۔

اگر آپ نے یورپین پارلیمنٹ کے گزشتہ برس والے انتخابات پر غور کیا ہو تو بخوبی جانتے ہوں گے کہ ان انتخابات میں یورپ بھر سے قدامت پسند بڑی تعداد میں جیتے، مگر یورپین یونین کی تشکیل دیکھیے کہ اس کا سربراہ ہی نہیں بلکہ باقی کابینہ بھی غیرمنتخب لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ جنہیں پیار سے ’برسلز کے بیوروکریٹس‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ حالیہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں تندور گرم پا کر بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی دو چار نان سیک لیے۔ جے شنکر نے کہا ’یہ غیر منتخب لوگ جو کبھی انتخابات میں کھڑے نہیں ہوئے، خود ہی اپنا تقرر کرکے جمہوریت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور باقی دنیا کو جمہوریت کے بھاشن دیتے ہیں، ان کے سفیر ہمارے ممالک میں جو حرکتیں کرتے ہیں وہی حرکتیں ان کے ممالک میں بھارتی سفیر کرے تو یہ قبول کریں گے؟‘

ان حالات میں یورپ کے پاس اب دو ہی راستے ہیں، یا تو امریکا پر انحصار ختم کرکے اپنے قدموں پر کھڑے ہوجائیں اور آخری دموں پر کھڑے لبرلزم کو بچا لیں یا پھر انتخابات میں من پسند نتائج حاصل کرنے والی حرکتیں بند کرکے ووٹ کوعزت دیں۔ اگر انہوں نے یہ دوسری آپشن چن لی تو یورپ میں نیشنلسٹ حکومتوں کا سرکل پورا ہوجائےگا، اور یہی وہ موقع ہوگا جب ٹرمپ یورپ کو واپس قریب کرلیں گے۔ مگر بس قریب ہی، یورپ کو پرانی حیثیت وہ کبھی نہیں دیں گے، کیونکہ اس یورپ کی تو پوری قیادت ہی امریکا کو پالنی پڑتی ہے جس پر اربوں ڈالرز صرف ہوجاتے ہیں اور امریکا اس وقت 34 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ٹرمپ کے پاس تیر بہدف مسخرہ پن یہی ہے کہ خرچوں کے بوجھ سے خود کو آزاد کیا جائے۔ ٹرمپ کے نزدیک امریکا کی بڑی فضول خرچیوں میں سے ایک یورپین قیادت کی پرورش ہے۔

یہ تو ہم سب دیکھ ہی چکے کہ ٹرمپ ہر طرح کی فضول خرچیاں بند کرنے کے موڈ میں ہیں، اس ضمن میں یو ایس ایڈ کا حشر آپ کے سامنے ہی ہے۔ سو بے جا نہ ہوگا کہ جاتے جاتے ہم مقامی لبرلز کو بھی ایک مخلصانہ مشورہ دے دیں۔ پلیز کوئی باعزت روزگار ڈھونڈ لیجیے۔ این جی اوز والا دور تو تمام ہوا۔ کرسٹوف ہیوسگن کی طرح رونے کو جی کرے تو ہمارا کاندھا حاضر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

wenews امریکا این جی اوز جوبائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ رعایت اللہ فاروقی روس عالمی سیاست مسخرہ پن میونخ سیکیورٹی کانفرنس وی نیوز یو ایس ایڈ یورپ یوکرین جنگ

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ نے زیلنسکی کو نااہل اور انتخاب کے بغیرمسلط آمر قرار دیا
  • غزہ کو نیلام کرنے کا صیہونی منصوبہ
  • صدر ٹرمپ کا ادویات، گاڑیوں اور سیمی کنڈکٹرز پر 25 فیصد ٹیرف لگانے کا عندیہ
  • یورپ کا گریہ
  • ٹرمپ کی بھارے کو امداد فراہم کرنے پر کڑی تنقید
  • مودی محترم ہیں مگر اصول توڑے نہیں جاسکتے، صدر ٹرمپ کی وضاحت
  • ٹرمپ کے مقابلے میں غزہ کے لیے ’عرب منصوبہ‘ پیش کرنے کی تیاریاں
  • ڈونلڈ ٹرمپ بڑی مصیبت میں پھنس گئے
  • صدر ٹرمپ یوکرین کو بھی پورا ہڑپ کرنے کے لیے بے تاب