دشمن سے مقابلے کا مجرب نسخہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایران کا دفاعی نظام اب ساحلوں اور ملک کے اندر موجود میزائل اور ڈرون شہروں پر انحصار کرتا ہے۔ اگر امریکہ نے کوئی غلطی کی تو اس خطے میں موجود اسکے تمام اڈے جنگ کے پہلے ہی لمحے میں تباہ ہو جائیں گے۔ امریکی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان پر میزائلوں اور ڈرونوں کی بارش ہو جائیگی۔ دوسری طرف ٹرمپ اور انکی نئی ٹیم افغانستان اور عراق پر حملوں جیسی تباہ کن جنگوں کے اخراجات برداشت نہیں کرنا چاہتی۔ لہذا امام خامنہ ای کے فرمان کے مطابق: "ہماری سخت خطرات (فوجی جنگ) سے نمٹنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے، آج دشمن کے سخت خطرات سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔" آج کا خطرہ وہی نرم جنگ کا خطرہ ہے۔ تحریر: محمد کاظم انبارلوئی
دشمن کی دھمکیوں سے نمٹنے کے لیے رہبر انقلاب نے کچھ بنیادی نکات بیان فرمائے ہیں۔
1۔ امام خامنہ ای نے یوم اللہ 29 بہمن کے موقع پر تبریز کے عوام سے ملاقات میں دشمن کی طرف سے جاری نرم جنگ کے خطرات پر غور کرنے کا باب کھولا ہے اور ایران کی اشرافیہ اور عوام کو اس حوالے سے انتباہات دیئے ہیں۔ آج اسلامی انقلاب کے بعد دنیا کو مذہبی نصوص میں سماجی سرمایہ کے تصوراتی بنیادوں کے حوالے سے ایک نئی تعبیر اور تفسیر ملی ہے۔ یہ سوچ اسلامی دنیا میں خاص طور پر عرب دنیا میں کہیں زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔ آج عرب دنیا، صیہونی حکومت کی جنگی مشینری اور اس سے بھی بڑھ کر نیٹو کے خلاف فلسطینی قوم کی مزاحمت پر حیرت سے نگاہ ڈالتی ہے۔ کیونکہ اس نے دیکھا ہے کہ پچھلی نصف صدی میں قوم پرستی، سوشلزم اور لبرل ازم پر مبنی سیاسی نظریات صیہونی قابضین کے ساتھ چھ روزہ جنگ میں کچھ بھی نہہں کرسکے تھے۔ لیکن اسلام اور قرآن کی تعلیمات پر انحصار کرنے سے غزہ جیسی چھوٹی سی بستی میں اتنی طاقت پیدا ہوئی کہ اس نے صیہونی دہشت گردوں اور امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
مذہبی اور قرآنی تعلیمات ایسے سماجی سرمایہ کو جنم دیتی ہیں، جو حق کی خاطر ڈٹ جانے کا عملی سبق دیتی ہیں۔ ایران میں جو چیز دشمن کی نرم اور سخت سازشوں کے خلاف جوش و جذبہ کو یقینی بناتی ہے، وہ مذہب پر مبنی سماجی سرمایہ ہے۔ اس سماجی سرمایہ کاری کی مضبوط بنیادوں میں عزم، حوصلہ، بہادری، مساوات، ہم آہنگی، انصاف، ایمانداری، قومی حقوق کا احترام اور سماجی انصاف وغیرہ شامل ہے۔ امریکی پروپیگنڈا مشینری اس طرح کے سرمایہ کو نقصان پہنچانے کے لئے لوگوں کے ذہنوں کو مسلسل دھوکہ دے رہی ہے، تاکہ نہ صرف ایران اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف کھڑے ہونے کی بنیاد کو کمزور کیا جا سکے، بلکہ معاشرے میں تفرقہ اور نفاق پیدا کرکے انقلاب کے اصولوں کو متنازع بنا دیا جائے۔
2۔ گذشتہ ہفتے، حماس کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کو روکنے کے خلاف مزاحمت کے بعد، ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ وہ غزہ کو جہنم میں تبدیل کر دیں گے۔ لیکن دھمکیوں کے آخری گھنٹوں میں ٹرمپ اور نیتن یاہو نے پسپائی اختیار کرکے حماس کی شرائط قبول کیں اور حماس کی شرائط پر قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ اس مقاومت کے پیچھے راز کیا ہے۔؟ آج فلسطینی قوم حماس کی قیادت کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ آخری سانس تک، آخری لمحات تک، آخری گھر تک اور آخری قربانی تک قیام امام حسین علیہ السلام کا دیا ہوا درس حریت ہے۔کربلا میں امام حسین (ع) نے جو کچھ کیا، وہ انسانی تاریخ میں حق اور باطل کے مابین عظیم فتح کا باعث بنا۔ فلسطینی مجاہدین کا ٹرمپ کی دھمکی پر یہ جواب کہ ہم آسمان کے علاوہ کہیں بھی منتقل نہیں ہوں گے، یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ اور صیہونی حکومت مجاہدین کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کی دھمکیوں کو ہمارے ذہنوں اور دلوں میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
3۔ اس سال 22 بہمن 11 فروری کے عظیم مارچ نے، انقلاب کی 46 ویں سالگرہ کے موقع پر، یہ ظاہر کیا کہ دشمن نرم جنگ کی دھمکیوں میں ناکام رہا ہے۔ یہ امام خامنہ ای کا اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ کے موقع پر قوم کی پرجوش موجودگی کا تجزیہ ہے۔ دشمن لوگوں کے ذہنوں میں غلط تصورات پیدا کرنے کے لیے ایک ساتھ چار کام کرتا ہے۔ وہ ترقی کو چھوٹا دکھاتا ہے، مسائل کو بڑا دکھاتا ہے، امریکہ کے جھوٹے وعدوں کو مثبت دکھاتا ہے اور حکمرانوں کے فیصلوں کو منفی دکھاتا ہے۔ دشمن نرم دھمکیوں میں ایک منظر کو کاٹتا ہے اور اسے عام کرتا ہے! صرف ذہین افراد ہی یہ سمجھتے ہیں کہ دشمن عوام کے ذہنوں میں غلط فہمی پیدا کرکے فریب کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتا ہے۔ یونیورسٹی سے آنے والی حالیہ خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ طلبہ کی ہوشیاری نے اس سازش کو ناکام بنا دیا ہے۔
4۔ صیہونی حکومت نے قوم کو پانچ اطراف سے مغلوب کرنے کی کوشش کی ہے۔
اول: شناخت، پہچان اور ادراک کو نشانہ بنانا۔
دوم: سرحدوں اور مرکز میں بدامنی پیدا کرنا
سوم: امریکی پابندیوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا
چہارم: سائبر اور انفارمیشن جنگ مسلط کرنا
پنجم: جاسوسی اور ہلاکت خیز اقدامات کی صف بندی کرنا، جو دہشت گردی کو خدمات فراہم کرسکتی ہیں۔
بہرحال ایران ان تمام پہلوؤں کی طرف متوجہ ہے۔ ایران کا دفاعی نظام اب ساحلوں اور ملک کے اندر موجود میزائل اور ڈرون شہروں پر انحصار کرتا ہے۔ اگر امریکہ نے کوئی غلطی کی تو اس خطے میں موجود اس کے تمام اڈے جنگ کے پہلے ہی لمحے میں تباہ ہو جائیں گے۔ امریکی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان پر میزائلوں اور ڈرونوں کی بارش ہو جائیگی۔ دوسری طرف ٹرمپ اور ان کی نئی ٹیم افغانستان اور عراق پر حملوں جیسی تباہ کن جنگوں کے اخراجات برداشت نہیں کرنا چاہتی۔
لہذا امام خامنہ ای کے فرمان کے مطابق: "ہماری سخت خطرات (فوجی جنگ) سے نمٹنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے، آج دشمن کے سخت خطرات سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔" آج کا خطرہ وہی نرم جنگ کا خطرہ ہے، جس کا امام خامنہ ای نے تین اہم کاموں کے تناظر میں بیان کیا ہے۔
1۔ انقلابی جذبے کو برقرار رکھنا
2۔ ملک کی ترقی کو مضبوط بنانا
3۔ انقلاب کے مقاصد کی طرف پیش قدمی کو جاری رکھنا
بہرحال اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی اس بات میں شک کرے تو گویا وہ گمراہ ہوا اور دشمن کی سازش کو پروان چڑھا رہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امام خامنہ ای سماجی سرمایہ سخت خطرات کرتا ہے کا خطرہ دشمن کی کے خلاف حماس کی
پڑھیں:
اپنے آپ سے باتیں کرنا شرم کی بات نہیں، خودکلامی کے فوائد بھی ہیں!
عام طور پر زندگی میں خود سے باتیں کرنا عجیب یا شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے لیکن طبی ماہرین کے مطابق یہ عادت درحقیقت بہت سے فوائد کی حامل ہے۔ خود کلامی نہ صرف دماغی صلاحیتوں کو بہتر بناتی ہے بلکہ جذباتی صحت کو بھی مستحکم کرتی ہے۔
تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ خیالات کو زبانی طور پر بیان کرنے سے دماغ کے متعدد حصے فعال ہو جاتے ہیں، جس سے مسائل کو حل کرنے کی مہارت اور وضاحت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اونچی آواز میں خود سے بات کرنا میموری کو بہتر بناتا ہے، معلومات کو منظم کرتا ہے اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کو مستحکم کرتا ہے۔
خود کلامی جذباتی ضبط کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ عادت منفی جذبات سے دور رکھتی ہے اور اضطراب اور تناؤ کو کم کرنے میں معاون ہے۔ ماہرین کے مطابق خود سے باتیں کرنا آپ کو زیادہ عقلی نقطہ نظر فراہم کرتا ہے، جس سے آپ چیلنجوں کا بہتر طریقے سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اونچی آواز میں خود سے بات کرنا علمی صلاحیتوں کو بہتر بناتا ہے، خاص طور پر مسائل حل کرنے کے معاملات میں۔ یونیورسٹی آف وسکونسن میڈیسن کے پروفیسر گیری لوپیان کے مطابق ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ تصویروں میں اشیا کو تلاش کرتے ہوئے ان کے نام اونچی آواز میں بولتے ہیں، وہ انہیں جلد ڈھونڈ لیتے ہیں۔
خود کلامی ایک ایسا عمل ہے جو علمی اور جذباتی بہبود دونوں کو فروغ دیتا ہے۔ یہ عادت آپ کو زیادہ منظم اور توجہ مرکوز رہنے میں مدد دیتی ہے، جس سے روزمرہ کے کاموں کو ترجیح دینے اور انہیں مؤثر طریقے سے انجام دینے میں آسانی ہوتی ہے۔
خود سے باتیں کرنا شرمندگی کا باعث نہیں، بلکہ یہ ایک فائدہ مند عادت ہے جو دماغی اور جذباتی صحت کو بہتر بناتی ہے۔ اگر آپ کو کبھی خود سے باتیں کرتے ہوئے شرم محسوس ہو تو یاد رکھیں کہ یہ عادت آپ کی علمی صلاحیتوں کو بڑھانے اور جذباتی توازن برقرار رکھنے میں مددگار ہے۔ اب سے خود کلامی کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائیں اور اس کے فوائد سے لطف اندوز ہوں!