WE News:
2025-02-21@13:00:32 GMT

یورپ کا گریہ

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

حالیہ سالوں میں عالمی سیاست دو بحرانوں کی اسیر ہے، دونوں ہی بحران جنگی ہیں اور دونوں ہی بائیڈن حکومت کی دین ہیں۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی بربریت رکوا چکے اور اب روس کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں۔ یہ وہی ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جن کے متعلق 2016 سے لبرل امریکی میڈیا نے یہ تاثر پھیلانا شروع کردیا تھا کہ وہ ایک مسخرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ مغرب سے باہر بھی دنیا کے قریباً ہر ملک میں گنتی کے چند لبرل ضرور پائے جاتے ہیں، سو ہمارے ہاں بھی اپنا وجود رکھتے ہیں، اور بیک ظرف و زمان تب ہی دستیاب ہوتے ہیں جب کوئی قاری صاحب بھی وہی شوق پورا کرلیں جس شوق کی تکمیل کو لبرلزم نے مغرب میں قانونی تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔ یا پھر تب جب کوئی لبرل کسی آفت کا اس قدر شکار ہوجائے کہ اس آفت کو ٹالنے کے لیے موم بتیوں کی روشنی ہی واحد علاج قرار پائے۔ انہی مقامی لبرلز نے بھی اپنے اپنے ممالک میں ٹرمپ کو مسخرے کے طور پر ہی پینٹ کرنا شروع کردیا۔ یقین جانیے کچھ عرصے کے لیے تو خود ہم بھی اس پر یقین کر بیٹھے تھے۔

شاید جدید سیاسیات میں یہ چیز مسخرے پن کا ہی درجہ رکھتی ہوگی کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں کسی ملک پر جنگ مسلط نہ کی۔ اس کے برخلاف اس نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی راہ ہموار کی اور دوحہ مذاکرات کو حتمی نتیجے تک پہنچایا۔ یہ مسخرہ روایتی سیاستدان نہیں، سو نتیجہ دیکھیے کہ امریکا کی سیاسی روایت صدیوں سے اس اصول پر کھڑی تھی کہ امریکا دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرتا۔ مسخرے یعنی ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کو توڑا اور دوحہ میں مذاکرات کی وہ میز سجا لی جس کی ایک جانب ایسے چہرے بیٹھے تھے جو گوانتانامو بے میں امریکا کے ہی قیدی رہے تھے۔ یہ اس بولڈ قدم کا ہی نتیجہ ہے کہ افغان جنگ کو ختم ہوئے 4 برس ہوچکے۔

اپنے دوسرے دور میں بھی مسخرہ پہلے دور والے چلن پر ہے، وہ نہایت طاقتور یہودی لابی کو لبھانے کے لیے زبان سے جو بھی کہہ رہا ہے مگر عملی حقیقت یہ ہے کہ غزہ پر بمباری رک چکی اور اب سعودی عرب سمیت 4 عرب ممالک اس کی تعمیر نو کا آغاز کرنے کی تیاری میں ہیں۔ اہل غزہ کہیں نہیں جا رہے، وہ غزہ میں ہیں اور غزہ میں ہی رہیں گے۔

یوکرین کے حوالے سے مسخرے یعنی ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ نے صرف ایک ہفتے میں ہی اتنے بولڈ قدم اٹھا لیے ہیں کہ یورپ پہلے سکتے، پھر ماتم اور اب گریے کے مرحلے میں ہے۔ یہ ہم محض کہہ نہیں رہے، بلکہ پوری دنیا نے دیکھا کہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے اس کانفرنس کے صدر کرسٹوف ہیوسگن باقاعدہ رو پڑے۔ وہ شدت غم سے اپنی تقریر جاری نہ رکھ سکے، ڈائس سے اترے اور سیدھا جاکر پہلی صف میں بیٹھی کسی خاتون کے گلے لگ کر اپنا دکھ مٹانے کی کوشش فرما لی۔ گورا مینٹلی کتنا سٹرانگ ہوتا ہے، اس کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ شدید صدمے میں بھی کرسٹوف کو یہ اچھی طرح یاد رہا کہ غم مٹانے کے لیے موزوں سینہ کونسا ہوتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے پچھلے ایک ہفتے کے دوران جو چند بڑے اعلانات کیے ہیں ان میں سرفہرست یہی ہے کہ یوکرین نیٹو کا ممبر نہیں بنے گا۔ دوسرا یہ کہ امریکا یوکرین کی سلامتی کی ضمانت دینے کو تیار نہیں، گویا اس کی سلامتی ہمارا درد سر نہیں۔ تیسرا یہ کہ اگر کسی یورپین ملک نے امن فوج کے نام پر اپنی فورس یوکرین بھیجی تو اس کا ذمہ دار وہ ملک خود ہوگا۔ نیٹو یا امریکا اس کے دفاع یا ریسکیو کے لیے نہیں آئےگا۔ چوتھی بات یہ کہ یورپ کو چین یا روس سے کوئی خطرہ نہیں، اسے خطرہ اپنے ہی چھچورپنوں سے ہے۔ مثلاً یہ چھچور پن کہ رومانیہ کے صدارتی انتخابات اس بنیاد پر منسوخ کردیے گئے کہ ان انتخابات میں روس نے ٹک ٹاک کے ذریعے مداخلت کرکے اپنے پسندیدہ امیدوار جیرجسکو کی فتح کی راہ ہموار کی ہے۔ اس حوالے سے نائب امریکی صدر جے ڈی وینس نے میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صاف صاف کہا ’اگر سوشل میڈیا کی چند ہزار پوسٹیں آپ کا انتخابی عمل متاثر کردیتی ہیں تو پھر آپ کے ہاں جمہوریت نہیں کچھ اور چل رہا ہے، ہم سوشل میڈیا پر پابندی قبول نہیں کریں گے۔‘

اس پورے معاملے میں سب سے اہم ڈیڑھ گھنٹے کی وہ ٹیلیفونک گفتگو ہے جو امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ عرف مسخرے اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن عرف ڈکٹیٹر کے بیچ ہوئی۔ اس کال کو ڈونلڈ ٹرمپ نے ’گریٹ کال‘ قرار دیا۔ اس حوالے سے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ بقول ٹرمپ پیوٹن سے یوکرین، مشرق وسطیٰ، ایران اور ڈالر کے مستقبل سمیت ہمہ جہت گفتگو ہوئی اور طے پایا کہ امریکا اور روس کے مابین فوری طور پر باقاعدہ مذاکرات شروع ہونے چاہییں۔ پیش رفت کی رفتار اتنی تیز رہی کہ روس اور امریکا کے مابین پہلے رابطے کے پانچویں روز دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود سعودی دارالحکومت ریاض پہنچ گئے۔ جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو مذاکرات کے پہلے دن کا سورج ریاض میں غروب ہوچکا۔ بالعموم پہلا دن ہی یہ طے کردیتا ہے کہ خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے یا نہیں؟ سو پہلے دن کی گفتگو کے بعد دونوں وفود نے میڈیا سے الگ الگ بات چیت کی ہے۔ روسی وفد کے سربراہ وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے

’ہمیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ امریکی وفد ہمارے مؤقف کا پوری طرح اور درست شعور رکھتا ہے۔ بات چیت بہت مثبت اور تعمیری رہی‘۔

اگرچہ پروٹوکول کے مطابق امریکی وفد کی قیادت وزیر خارجہ مارکو روبیو کررہے ہیں، مگر سب جانتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے کلیدی رول نمائندہ خصوصی سٹیو ویٹکوف کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے پہلے روز سے متعلق عالمی میڈیا نے سٹیو ویٹکوف کی ہی رائے کو ہائی لائٹ کیا ہے۔ سٹیو نے کہا ’گفتگو کے بعد ہماری ٹیم نے آپسی گفتگو میں ایک دوسرے سے کہا، اتنے اچھے نتائج کی تو ہم نے توقع بھی نہیں کی تھی، بات چیت بہت ہی تعمیری رہی اور اس میں شامل ہر شخص کی یہ سنجیدہ کوشش رہی کہ مسائل کا کوئی پائیدار حل تلاش کیا جائے، یہ بہت ہی سولڈ گفتگو تھی‘۔

اس گفتگو کے حوالے سے یہ نکتہ اچھی طرح ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ ضیا دور والے جنیوا مذاکرات کی طرح کی گفتگو نہیں ہے۔ 80 کی دہائی والے جنیوا مذاکرات کا واحد ایجنڈا افغان جنگ تھی، اور ساری بات چیت اسی سے متعلق تھی۔ جبکہ روس اور امریکا کی حالیہ بات چیت کا ایجنڈا روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی رائے کے مطابق طے پایا ہے۔ صدر پیوٹن کئی ماہ سے اپنے انٹرویوز اور تقاریر میں یہ بات کرتے آرہے تھے کہ ایشو یوکرین نہیں، ایشو کچھ اور عالمی سنگین مسائل ہیں جن کا نتیجہ یوکرین کی جنگ ہے۔ اگر وہ مسائل حل کر لیے جائیں تو یوکرین کی جنگ بھی ختم ہوجائے گی اور آئندہ کے لیے بھی جنگ جیسی صورتحال پیدا ہونے کا امکان باقی نہیں رہے گا۔ پیوٹن کی اس رائے سے صدر ٹرمپ متفق ہیں، چنانچہ دونوں ممالک کے مابین بات چیت ہمہ جہت ہی ہے۔

اس بات چیت کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ کو اس سے باہر رکھا ہے، جس پر یورپ کا صدمے سے برا حال ہے۔ آپ ذرا تصور کیجیے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ ایسے ممالک ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بالعموم اور سوویت زوال کے بعد سے بالخصوص خود کو دنیا کے ’مالکان‘ سمجھتے آئے ہیں۔ جب بھی کوئی عالمی بحران کھڑا ہوا امریکی صدر نے ان ممالک کے اس وقت کے سربراہوں کو بطور مالکان ساتھ ہی رکھا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کو بھی توڑ دیا۔ برطانوی وزیراعظم، فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر پر واضح کردیا گیا ہے کہ دو بڑوں کی بات چیت میں بچوں کا کوئی کام نہیں۔

سوال تو بنتا ہے کہ آخر ٹرمپ نے یورپین لیڈروں کو اس بڑی عالمی شرمساری سے کیوں دوچار کیا؟ اگر آپ لبرل ہیں تو یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیجیے کہ مسخرے نے تو یہی کرنا تھا، اور اگر آپ لبرل یعنی مغربی اقدار کے کاپی پیسٹر نہیں ہیں تو پھر جواب یہ ہے یورپ کی موجودہ قیادت گلوبلسٹ لبرلز پر مشتمل ہے۔ یو ایس ایڈ اور مختلف طرح کے ادارے یورپین ممالک میں یہ بات یقینی بناتے آئے ہیں کہ کوئی اچھوت یعنی نان لبرل اقتدار میں نہ آنے پائے، جس کی تازہ مثال رومانیہ کا صدارتی الیکشن ہے۔ اور اگلی مثال جرمنی کا الیکشن بننے جارہا تھا، اس معاملے پر حالیہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کے دوران نائب امریکی صدر جے ڈی وینس پورے یورپ کے کانوں سے دھواں نکال چکے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ رومانیہ میں بھی جلد انتخابی عمل مکمل ہوگا اور جرمنی میں بھی آئی ایف ڈے پر پابندی بس حسرت بن کر رہ جائے گی۔

اگر آپ نے یورپین پارلیمنٹ کے گزشتہ برس والے انتخابات پر غور کیا ہو تو بخوبی جانتے ہوں گے کہ ان انتخابات میں یورپ بھر سے قدامت پسند بڑی تعداد میں جیتے، مگر یورپین یونین کی تشکیل دیکھیے کہ اس کا سربراہ ہی نہیں بلکہ باقی کابینہ بھی غیرمنتخب لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ جنہیں پیار سے ’برسلز کے بیوروکریٹس‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ حالیہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں تندور گرم پا کر بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی دو چار نان سیک لیے۔ جے شنکر نے کہا ’یہ غیر منتخب لوگ جو کبھی انتخابات میں کھڑے نہیں ہوئے، خود ہی اپنا تقرر کرکے جمہوریت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور باقی دنیا کو جمہوریت کے بھاشن دیتے ہیں، ان کے سفیر ہمارے ممالک میں جو حرکتیں کرتے ہیں وہی حرکتیں ان کے ممالک میں بھارتی سفیر کرے تو یہ قبول کریں گے؟‘

ان حالات میں یورپ کے پاس اب دو ہی راستے ہیں، یا تو امریکا پر انحصار ختم کرکے اپنے قدموں پر کھڑے ہوجائیں اور آخری دموں پر کھڑے لبرلزم کو بچا لیں یا پھر انتخابات میں من پسند نتائج حاصل کرنے والی حرکتیں بند کرکے ووٹ کوعزت دیں۔ اگر انہوں نے یہ دوسری آپشن چن لی تو یورپ میں نیشنلسٹ حکومتوں کا سرکل پورا ہوجائےگا، اور یہی وہ موقع ہوگا جب ٹرمپ یورپ کو واپس قریب کرلیں گے۔ مگر بس قریب ہی، یورپ کو پرانی حیثیت وہ کبھی نہیں دیں گے، کیونکہ اس یورپ کی تو پوری قیادت ہی امریکا کو پالنی پڑتی ہے جس پر اربوں ڈالرز صرف ہوجاتے ہیں اور امریکا اس وقت 34 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ٹرمپ کے پاس تیر بہدف مسخرہ پن یہی ہے کہ خرچوں کے بوجھ سے خود کو آزاد کیا جائے۔ ٹرمپ کے نزدیک امریکا کی بڑی فضول خرچیوں میں سے ایک یورپین قیادت کی پرورش ہے۔

یہ تو ہم سب دیکھ ہی چکے کہ ٹرمپ ہر طرح کی فضول خرچیاں بند کرنے کے موڈ میں ہیں، اس ضمن میں یو ایس ایڈ کا حشر آپ کے سامنے ہی ہے۔ سو بے جا نہ ہوگا کہ جاتے جاتے ہم مقامی لبرلز کو بھی ایک مخلصانہ مشورہ دے دیں۔ پلیز کوئی باعزت روزگار ڈھونڈ لیجیے۔ این جی اوز والا دور تو تمام ہوا۔ کرسٹوف ہیوسگن کی طرح رونے کو جی کرے تو ہمارا کاندھا حاضر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

wenews امریکا این جی اوز جوبائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ رعایت اللہ فاروقی روس عالمی سیاست مسخرہ پن میونخ سیکیورٹی کانفرنس وی نیوز یو ایس ایڈ یورپ یوکرین جنگ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا این جی اوز جوبائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ عالمی سیاست میونخ سیکیورٹی کانفرنس وی نیوز یو ایس ایڈ یورپ یوکرین جنگ میونخ سیکیورٹی کانفرنس ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں امریکی صدر امریکا کی ممالک میں کہ امریکا حوالے سے ہیں اور میں بھی بات چیت یورپ کو کے بعد میں ہی ہیں تو کے لیے میں یہ

پڑھیں:

یوکرین جنگ، امریکا کا 500 ارب ڈالر یوکرینی معدنیات سے وصول کرنیکا منصوبہ

امریکا کے سابق نائب خصوصی ایلچی ٹائسن بارکر نے کہا کہ روس کی افواج اب ایک دیو قامت لیتھیم ذخائر سے 4 میل سے کچھ زیادہ دور ہیں، زیلنسکی نے کہا ہے کہ کیا یہ معدنیات روسی شراکت داروں ایران، شمالی کوریا اور چین کو دی جائیں گی؟۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے سیکڑوں ارب ڈالر کے معدنی ذخائر پر اپنی نظریں جمالی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ روس کے ساتھ جنگ میں امریکا کی جانب سے خرچ کی گئی رقم معدنیات سے وصول کرلیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ یوکرین کے ساتھ معدنیات کے حوالے سے آسان معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، معاہدے میں ابتدائی طور پر صرف یہ ذکر ہوگا کہ یوکرین کے وسیع وسائل کا امریکا کے پاس کتنا حصہ ہو گا؟، بعد میں تفصیلی شرائط پر بات چیت کی جائے گی۔ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے گزشتہ ہفتے تفصیلی امریکی تجویز کو مسترد کر دیا تھا، جس کے تحت واشنگٹن کو یوکرین کی 50 فیصد اہم معدنیات مل سکتی تھیں، جن میں گریفائٹ، یورینیم، ٹائٹینیم اور لیتھیم شامل ہیں، جو الیکٹرک کاروں کی بیٹری کے لیے لازمی جزو ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ مکمل معاہدے تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ کیف کو ممکنہ طور پر مزید امریکی فوجی حمایت کی اجازت دینے یا یوکرین اور روس کے مابین 3 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے باضابطہ امن مذاکرات کے لیے آگے بڑھنے سے پہلے یوکرین کے ساتھ ایک معاہدہ ہو۔ ٹرمپ کے یوکرین کے ایلچی کیتھ کیلوگ اس ہفتے کیف میں ہیں، تاکہ نظر ثانی شدہ معاہدے کے پیرامیٹرز اور دستخط کے بدلے یوکرین کی ضروریات پر تبادلہ خیال کرسکیں۔ زیلنسکی نے کہا کہ وہ جمعرات کو کیلوگ سے ملاقات کریں گے، اور ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ یہ ملاقات اور امریکا کے ساتھ مجموعی تعاون تعمیری ہو۔ ٹرمپ کے ایک مشیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر زیلنسکی کے بارے میں بتایا کہ بالکل ! ہمیں اس شخص کو حقیقت کی طرف واپس لانے کی ضرورت ہے۔

وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے باوجود معاہدے پر زور جاری ہے، ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنے یوکرینی ہم منصب کو ’انتخابات کے بغیر ڈکٹیٹر قرار دیا تھا، جب زیلنسکی نے کہا تھا کہ ٹرمپ روسی غلط معلومات کے بلبلے میں پھنس گئے ہیں، جس کے جواب میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ ’جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار یوکرین ہے‘۔ امریکا نے گزشتہ 3 سال میں یوکرین کو فوجی امداد کے طور پر اربوں ڈالر فراہم کیے اور ٹرمپ نے کہا ہے کہ یوکرین کی معدنیات میں امریکی سرمایہ کاری اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ ہم کسی نہ کسی شکل میں یہ رقم واپس حاصل کرنے جا رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کیف پر زور دے رہے ہیں کہ وہ واشنگٹن کی امداد کے اعتراف میں امریکا کو 500 ارب ڈالر کی معدنی مراعات دیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عوامی طور پر امریکی عوام کو یہ اشارہ دیں کہ امریکہ امداد واپس لے رہا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اصل امریکی تجویز کس حد تک ماضی کے ہتھیاروں کی ترسیل یا مستقبل کی قسطوں کے معاوضے کے طور پر تیار کی گئی ہے، تاہم زیلنسکی کا کہنا تھا کہ اس میں امریکی مفادات پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے، اور کیف کے لیے سیکیورٹی گارنٹی کا فقدان ہے۔ انہوں نے بدھ کے روز صحافیوں کو بتایا کہ میں اپنے ملک کو فروخت نہیں کر سکتا۔ اس معاملے سے واقف تیسرے ذرائع نے بتایا کہ یوکرین ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کو تیار ہے، ایک اور ذرائع نے یہ بھی کہا کہ کیف ایک معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن یہ امریکا کے تجویز کردہ انتظامات کی طرح ’جارحانہ‘ نظر نہیں آنا چاہیے۔

معدنیات کے ممکنہ معاہدے کے بارے میں امریکی بات چیت کی تفصیلات، بشمول انتظامیہ کے اندر کس نے اصل تجویز کا مسودہ تیار کرنے میں مدد کی، نامعلوم ہیں۔ یہ نظر ثانی شدہ طریقہ کار، وائٹ ہاؤس میں آئندہ ہفتوں میں کیف کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بارے میں زیر بحث آنے والے کئی معاملات میں سے ایک ہے، جو ایک پیچیدہ شعبے کے لیے غیر معمولی طور پر فوری ٹائم لائن ہے، جہاں معاہدوں میں عام طور پر حکومتوں کے بجائے نجی کمپنیاں اور ریاستی ادارے شامل ہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنی مایوسی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ زیادہ تر امریکی امداد گرانٹ تھی، جب کہ یورپ نے بنیادی طور پر قرضے دیے تھے، اگرچہ امریکا کو کچھ بھی واپس نہیں ملا، لہٰذا اس معاہدے سے انہیں اپنا پیسہ واپس مل سکتا ہے۔ 
انہوں نے زیلنسکی کی جانب سے ففٹی ففٹی کی تقسیم کو مسترد کرنے پر بھی تنقید کی، اور اسے بغیر کسی ثبوت کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔

امریکی صدر نے کہا کہ ہم نے نایاب زمین اور چیزوں پر مبنی ایک معاہدہ کیا تھا، لیکن انہوں نے اس معاہدے کو توڑ دیا، انہوں نے اسے 2 دن پہلے توڑدیا تھا۔ ایک نظر ثانی شدہ، آسان طریقہ کار امریکا کو متعدد قانونی اور لاجسٹک رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد دے گا اور اسے بعد میں آمدنی کی تقسیم سمیت ترقی کی تفصیلات پر بات چیت کرنے کا وقت دے گا۔
سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں اہم معدنیات کے تحفظ کے پروگرام کی ڈائریکٹر گریسلین بسکرن نے کہا کہ امریکا نے تاریخی طور پر امداد کے لیے قدرتی وسائل کے تبادلے کا استعمال نہیں کیا، لیکن یہ چین کی معدنیات کی پلے بک میں ایک آزمودہ ہتھیار ہے۔ یوکرین کی اقتصادی بحالی کے لیے امریکا کے سابق نائب خصوصی ایلچی ٹائسن بارکر نے کہا کہ یوکرین امریکی سرمایہ کاری کو تسلیم کرنے کا راستہ تلاش کرنے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین کے عوام امریکا کو اہم معدنی وسائل تک خصوصی رعایتی رسائی کی شکل میں اضافی فوائد دینے کے لیے تیار ہیں، جو امریکی ٹیکس دہندگان کی جانب سے یوکرین میں لگائے گئے اربوں ڈالر کے اعتراف میں ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں یوکرین کے لوگ کچھ عرصے سے حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ بارکر نے کہا کہ اسی طرح کی کچھ شرائط دیگر ممالک کو پیش کرنے کی ضرورت ہوگی جنہوں نے جنگ کے دوران یوکرین میں بہت زیادہ تعاون کیا، جن میں کینیڈا، برطانیہ، جاپان اور یورپی یونین شامل ہیں، لیکن روس کی افواج نے پہلے ہی یوکرین کے 5 حصوں پر قبضہ کر لیا ہے، جس میں نایاب زمینوں کے ذخائر بھی شامل ہیں، اب ایک دیو قامت لیتھیم ذخائر سے 4 میل سے کچھ زیادہ دور ہیں۔ زیلنسکی نے کہا ہے کہ کیا ان علاقوں میں معدنیات روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے شراکت داروں ایران، شمالی کوریا اور چین کو دی جائیں گی؟۔

متعلقہ مضامین

  • ’کینیڈا کو حاصل نہیں کیا جاسکتا‘، آئس ہاکی میں امریکا کو شکست کے بعد جسٹن ٹروڈو کا ٹرمپ کو پیغام
  • بھارت کو چین کے خلاف محاذ آرائی میں امریکا سے بھرپور معاونت کی اُمید 
  • صدر ٹرمپ کے یورپی اتحادیوں کے ساتھ اختلافات میں اضافہ
  • یوکرین جنگ، امریکا کا 500 ارب ڈالر یوکرینی معدنیات سے وصول کرنیکا منصوبہ
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرینی صدر کو مزاحیہ اداکار قرار دے دیا
  • کئی معاملات میں بھارت سے اختلافات برقرار ہیں، صدر ٹرمپ
  • ٹرمپ نے اب یوکرین کے معاملے میں گڑبڑ گھوٹالا شروع کردیا
  • ’ان کے پاس ہم سے زیادہ پیسہ ہے،‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کو فنڈنگ بند کردی
  • صدر ٹرمپ یوکرین کو بھی پورا ہڑپ کرنے کے لیے بے تاب