Jasarat News:
2025-04-15@09:56:01 GMT

جاز کیش اور پی آئی اے کے درمیان شراکت داری

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

جاز کیش اور پی آئی اے کے درمیان شراکت داری

جاز کیش اور پی آئی اے کے درمیان شراکت داری معاہدہ کے موقع پر دستاویزات کا تبادلہ کیا جارہا ہے

کراچی (کامرس رپورٹر)جاز کیش اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے درمیان شراکت داری کے تحت مسافر اب جاز کیش کے ذریعے اپنی پروازوں کی ڈیجیٹل ادائیگی کر سکیں گے۔ اس سہولت سے 48 ملین جاز کیش صارفین، خاص طور پر دیہی اور نیم شہری علاقوں کے افراد، بغیر بینک اکاؤنٹ کے آسانی سے پی آئی اے ٹکٹ بک کر سکیں گے۔نئی سروس کے تحت مسافر پی آئی اے ہیلپ لائن پر بکنگ کے بعد PSID نمبر حاصل کریں گے، جسے جاز کیش ایجنٹ یا ایپ کے ذریعے ادا کیا جا سکتا ہے۔ ادائیگی مکمل ہونے پر پی آئی اے فوری طور پر ٹکٹ جاری کرے گی۔جاز کیش کے صدر مرتضیٰ علی نے کہا کہ جاز کیش کے وسیع ایجنٹ نیٹ ورک اور ایپ کے ذریعے ہم لاکھوں پاکستانیوں کو سہولت فراہم کر رہے ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کو جو بینک اکاؤنٹ نہ ہونے کی وجہ سے ٹکٹنگ ایجنسیوں یا روایتی بینکنگ ذرائع پر انحصار کرتے تھے۔ اب وہ آسانی سے پی آئی اے کی ٹکٹ بُک کر سکیں گے۔پی آئی اے کے چیف کمرشل آفیسر، نوشیروان عادل نے بھی اس شراکت داری کو مسافروں کے لیے ایک بڑی سہولت قرار دیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شراکت داری پی ا ئی اے جاز کیش

پڑھیں:

’’سنہری شہر‘‘ عجائبات مصر کا قدیم شاہ کار

پانچ ہزار برس گزر جانے کے باوجود ہم ابھی تک یہ درست اندازہ نہیں لگا سکے کہ مصریوں نے اہراموں کو اس بہترین انجینئرنگ کے ساتھ کیسے بنایا تھا جو آج کے جدید علوم کو بھی شرما دے۔ یہ اہرام ستاروں اور کہکشاؤں کی پوزیشن دیکھ کر بنائے گئے ہیں اور ان میں بے شمار ایسے چیمبر اور کمرے موجود ہیں جہاں انسان ابھی تک نہیں پہنچ سکا۔

یہ بلاشبہ انسانی عقل و دانش کا بہترین نمونہ ہیں اور بادشاہوں کی شان کے عین مطابق ہیں۔ یوں تو مصر میں موجود سب ہی اہرام عجائبات عالم میں شمار ہوتے ہیں تاہم سب سے بڑا اور قدیم ترین اہرام گیزا کا اہرام ہی مانا جاتا ہے۔

حال ہی میں سائنس دانوں نے دعویٰ کیا کہ گیزا کے خفرع اہرام کے نیچے ایک عظیم زیرزمین شہر دریافت ہوا ہے، جو بہت پرانا ہے اور پانچ ہزار سال پرانے اہرام سے کہیں قدیم ہے۔ انہوں نے ریڈار پلسز سے 4,000 فٹ گہرے کنویں اور کمرے ڈھونڈے، محققین کا کہنا ہے کہ یہ ایک گم شدہ ترقی یافتہ تہذیب کی باقیات ہیں جو تباہ کن واقعے سے ختم ہوئی۔ جدید تحقیق سے پتا چلا کہ اہرام کے نیچے 2,100 فٹ کی گہرائی میں آٹھ انوکھے، عمودی سلنڈر جیسے ڈھانچے ملے ہیں، جو اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ وہاں کوئی پوشیدہ شہر یا پراسرار چیز ہوسکتی ہے۔

یہ دریافت زمین کے اندر کی چیزوں کو جانچنے والی جدید ٹیکنالوجی سے ہوئی۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سلنڈر قدرتی نہیں لگتے، بلکہ کسی قدیم تہذیب کے بنائے ہوئے ہوسکتے ہیں۔ یہ وسیع اور پیچیدہ زیرزمین انفرااسٹرکچر موجود ہے جو تقریباً دو کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے اور گیزا کے تینوں بڑے اہرام کو آپس میں جوڑتا ہے۔ یہ حیران کن انکشاف جدید ریڈار ٹیکنالوجی کی مدد سے کیا گیا ہے جس کے بعد اہرامِ مصر کے نیچے توانائی کے قدیم نیٹ ورکس کی قیاس آرائیاں ایک بار پھر زور پکڑنے لگی ہیں۔

سائنس دانوں کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق اہرامِ گیزا کی بنیاد میں پانچ یکساں کثیرالمنزلہ ڈھانچے دریافت کیے گئے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ان کے ساتھ آٹھ انتہائی لمبے کنویں موجود ہیں جن کے اردگرد سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ یہ سیڑھیاں سطح سے تقریباً چھ سو اڑتالیس میٹر نیچے جاتی ہیں اور آخر میں دو بڑے مکعب نما کمروں میں مل جاتی ہیں۔ ان کمروں کا سائز اسی بائی اسی میٹر ہے اور ان کی تعمیر انتہائی منظم انداز میں کی گئی ہے۔

یہ دریافت اس روایتی نظریے کو چیلینج کرتی ہے کہ اہرامِ مصر محض شاہی مقبرے تھے۔ ماضی میں محققین اس بات پر بحث کرتے رہے ہیں کہ یہ ممکنہ طور پر توانائی پیدا کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ یہ نظریہ مشہور سائنس داں نکولا ٹیسلا اور انجنیئر کرسٹوفر ڈن کے خیالات سے مماثلت رکھتا ہے۔ ٹیسلا کا ماننا تھا کہ اہرامِ مصر زمین کی قدرتی توانائی کو جمع کرنے اور استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ کرسٹوفر ڈن کا خیال تھا کہ یہ اہرام ایک ایسی مشین کے طور پر کام کرتے تھے جو زمین کی حرکت کو توانائی میں تبدیل کرنے کے لیے بنائی گئی ہو۔

اس نئی دریافت کے بعد ماہرینِ آثارِقدیمہ اور سائنس دانوں کے درمیان بحث مزید شدت اختیار کرچکی ہے کہ کیا اہرامِ مصر محض مقبرے تھے یا پھر یہ کسی ایسی متحرک توانائی کا مرکز تھے جسے قدیم مصری تہذیب نے کسی خاص مقصد کے لیے استعمال کیا تھا۔ مصر کے اہرام دنیا کے سب سے پرانے اور پراسرار ڈھانچوں میں سے ہیں۔

ماہرین صدیوں سے یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے نیچے کوئی سرنگیں، کمرے یا شہر چھپا ہے یا نہیں۔ پہلے بھی کچھ رپورٹس میں زیرِزمین سرنگوں کا ذکر آیا تھا، لیکن یہ نیا انکشاف اس بات کو مزید مضبوط کرتا ہے کہ اہرام کے نیچے بہت کچھ چھپا ہوا ہوسکتا ہے۔ اگر یہ واقعی زیرِزمین شہر ہے تو ماہرین کے خیال میں یہ دنیا کی سب سے بڑے آثارِقدیمہ کی دریافت ہوسکتی ہے۔ اس دریافت نے دنیا بھر کے ماہرینِ آثارقدیمہ اور تاریخ دانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس دریافت کو ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے، جس سے قدیم مصر کی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں نئے سوالات اور جوابات سامنے آرہے ہیں۔

 ’’سنہری شہر‘‘ کی دریافت میں جدید ترین سائنس و ٹیکنالوجی نے نہ صرف شہر کے پوشیدہ رازوں کو بے نقاب کیا ہے بلکہ قدیم مصری تہذیب کی گہرائیوں کو بھی واضح کیا ہے۔ ذیل میں اس دریافت میں استعمال شدہ جدید ٹیکنالوجیز کی تفصیل پیش کی جاتی ہے:

 ہائی ریزولوشن ریڈار اور ریموٹ سینسنگ: ماہرینِ آثارِقدیمہ نے زیرِزمین ڈھانچوں کی تفصیلی نقشہ سازی کے لیے ہائی ریزولوشن ریڈار کا استعمال کیا۔ اس ٹیکنالوجی نے ریڈار امیجز کے ذریعے شہر کے مختلف حصوں، تہوں اور عمارتوں کی موجودگی کی نشان دہی کی، جس سے یہ پتا چلا کہ شہر کا ڈھانچا نہایت منظم اور وسیع تھا۔

 فوٹو گرامیٹری اور 3D ماڈلنگ: جدید فوٹو گرامیٹری ٹیکنالوجی کے ذریعے، کھدائی کی گئی جگہ کی باریک بینی سے تصاویر لی گئیں جن سے ڈیجیٹل 3D ماڈلز تیار کیے گئے۔ یہ ماڈلز نہ صرف شہر کے نقشے کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ محققین کو عمارتوں کی تعمیراتی تیکنیکوں اور رہائشی علاقوں کی ترتیب کا بھی تجزیہ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

کیمیائی اور مواد کا تجزیہ: جدید لیبارٹری ٹیکنالوجی کے ذریعے برآمد شدہ اینٹوں، مٹی کے برتنوں اور زیورات کا کیمیائی تجزیہ کیا گیا۔ اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ قدیم مصریوں نے نہ صرف مضبوط اور پائے دار تعمیراتی مواد استعمال کیے بلکہ ان کی ٹیکنالوجی اور تیکنیکیں آج کے جدید معیارات سے میل کھاتی ہیں۔

ڈیجیٹل نقشہ سازی اور جیوفزیکل سروے: موجودہ دور کے ڈیجیٹل نقشہ سازی کے آلات اور جیوفزیکل سروے کی تیکنیکوں نے ’’سنہری شہر‘‘ کے زیرِزمین ڈھانچے کا مکمل نقشہ تیار کرنے میں مدد کی ہے۔ ان آلات کے ذریعے کھدائی کے دوران جمع کردہ ڈیٹا کو کمپیوٹر پر پروسیس کر کے تفصیلی نقشے اور ورچوئل ریپریزنٹیشنز بنائی گئی ہیں، جو مستقبل کی مزید تحقیق کا بنیادی اثاثہ ثابت ہوں گی۔

 جدید تجزیاتی سافٹ ویئر: جدید سافٹ ویئر کے ذریعے جمع کردہ ڈیٹا اور تصاویر کو تجزیہ کر کے شہر کی تعمیراتی تکنیک، شہری منصوبہ بندی اور اقتصادی سرگرمیوں کی تفصیلی معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ یہ سافٹ ویئر نہ صرف ڈیٹا کو منظم کرتا ہے بلکہ مختلف زاویوں سے تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی فراہم کرتا ہے، جس سے شہر کی جامع تصویر سامنے آتی ہے۔

ان جدید ٹیکنالوجیز کے استعمال سے سنہری شہر کی دریافت نہ صرف ایک تاریخی واقعے کے طور پر سامنے آئی ہے بلکہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قدیم مصری تہذیب میں بھی جدید ترین ٹیکنالوجی اور منظم شہری منصوبہ بندی کے آثار موجود تھے۔ اس دریافت نے محققین کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ نہ صرف قدیم شہر کے فنِ تعمیر اور اقتصادی نظام کو سمجھ سکیں بلکہ اس کے ذریعے مستقبل میں مزید کھدائی اور تحقیق کے نئے طریقے وضع کرسکیں۔

 جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی آلات کی مدد سے ’’سنہری شہر‘‘ کی دریافت میں چند اضافی پہلو سامنے آئے ہیں جو اس شہر کی مزید تفصیلی جانچ اور ورچوئل نمائندگی کو ممکن بناتے ہیں:

ملٹی اسپیکٹرم امیجنگ: جدید ملٹی اسپیکٹرم امیجنگ ٹیکنالوجی نے دیواروں اور فرش کے نقوش کو بے نقاب کیا ہے جو عام روشنی میں نظر نہیں آتے۔ اس سے قدیم تحریریں اور نقوش دریافت کرنے میں مدد ملی، جن سے اس شہر کی مذہبی اور ثقافتی تفصیلات کا بہتر ادراک ہوتا ہے۔

تھرمل اور لیڈار سروے: تھرمل امیجنگ اور لیڈار (LiDAR) کی مدد سے زیرِزمین تعمیراتی ڈھانچوں کی گہرائی اور ساخت کو واضح کیا گیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجیز نہ صرف کھدائی کی سطح پر موجود عمارتوں کی مکمل تفصیل فراہم کرتی ہیں بلکہ مستقبل میں ورچوئل رئیلٹی ٹورز اور ڈیجیٹل ورژن کی تیاری کے لیے بھی استعمال ہوں گی۔

ڈیپ لرننگ اور مصنوعی ذہانت: جدید تجزیاتی سافٹ ویئر اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے جمع کردہ ڈیٹا کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل نقشہ سازی اور ماڈلنگ میں مددگار ثابت ہو رہی ہے، جس سے شہر کے مختلف حصوں کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل ہوتی ہیں اور تاریخ کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔

ورچوئل اور اگمینٹڈ رئیلٹی: جدید ورچوئل رئیلٹی (VR) اور اگمینٹڈ رئیلٹی (AR) کے استعمال سے سنہری شہر کا ورچوئل ٹور تیار کیا جا رہا ہے۔ اس سے محققین اور عام افراد کو اس شہر کی تاریخی عمارتوں اور انفرااسٹرکچر کو ڈیجیٹل طور پر دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

انٹرا ایکٹیو ڈرون سروے: جدید ڈرونز کے ذریعے شہر کے اوپر سے اعلیٰ معیار کی 3D نقشہ سازی کی گئی ہے۔ اس سے نہ صرف عمارتوں اور تہوں کی درست پیمائش ممکن ہوئی بلکہ ان کے مقام اور ساخت کا جامع تجزیہ بھی انجام دیا گیا۔

بایومیٹرک اور سیرامکس تجزیہ: جدید تجرباتی لیبارٹریز میں استعمال شدہ سیرامکس اور بایومیٹرک تجزیے سے دریافت ہوا ہے کہ شہر کے تعمیراتی مواد میں قدرتی خام مال کی اعلیٰ خصوصیات موجود تھیں۔ یہ مواد نہ صرف مضبوطی کا سبب تھے بلکہ ماحول سے مطابقت کا بھی قوی ثبوت پیش کرتے ہیں۔

حساس اور خود کار ڈیٹا انٹیگریشن: مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کی مدد سے مختلف ذرائع سے حاصل شدہ ڈیٹا (جیسے ریڈار، تھرمل امیجنگ، ملٹی سپیکٹرم امیجنگ) کو یکجا کر کے ایک جامع ڈیجیٹل نقشہ تیار کیا جا رہا ہے، جس سے شہر کی تاریخ اور تعمیراتی تیکنیکوں کا مکمل منظرنامہ سامنے آرہا ہے۔

نئی نسل کے سینسرز: جدید سینسرز کا استعمال کرتے ہوئے شہر کے ماحولیاتی عوامل جیسے درجۂ حرارت، نمی اور ہوا کی روانی کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔ اس معلومات سے شہر کے تحفظ اور مرمت کے لیے مستقبل کی منصوبہ بندی میں مدد ملتی ہے۔

ڈیجیٹل ورچوئل اور اگمینٹڈ ریئلٹی ٹور: محققین نے ورچوئل اور اگمینٹڈ ریئلٹی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ایک مکمل ڈیجیٹل ٹور تیار کیا ہے۔ اس ٹور کی بدولت عام لوگ اور محققین شہر کی تاریخی عمارتوں اور تہوں کی تفصیل کو ورچوئل طور پر دیکھ سکتے ہیں، جس سے اس کی تہذیبی اہمیت اور تعمیراتی تیکنیکوں کا گہرائی سے ادراک ممکن ہوتا ہے۔

یہ تمام جدید ترین سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ایجادات نہ صرف سنہری شہر کی دریافت کو مزید واضح کرتی ہیں بلکہ قدیم مصر کی ترقی یافتہ شہری منصوبہ بندی اور تکنیکی مہارت کی نئی جہتیں بھی اجاگر کرتی ہیں۔

سونار اور واٹر چینل مانیٹرنگ: شہر کے آس پاس ممکنہ زیرِزمین نہروں، دریائی راستوں اور آبی ذخائر کی نشان دہی کے لیے جدید سونار ٹیکنالوجی اور ہائیڈروگرافک سروے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ تحقیق اس بات کی وضاحت کر سکتی ہے کہ پانی کی فراہمی کیسے منظم کی جاتی تھی اور کیا یہاں کوئی قدیم آبی نظام موجود تھا۔

تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے آثار کی بحالی: دریافت شدہ شکستہ مجسموں، دیواروں، اور دیگر تعمیراتی عناصر کی بحالی کے لیے جدید تھری ڈی پرنٹنگ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ اسکین کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر اصل اشیاء کی نقول بنائی جا رہی ہیں تاکہ محققین ان کی اصل شکل و صورت اور فن کارانہ مہارت کو سمجھ سکیں۔

کرپٹوگرافک تکنیک سے تحریری نقوش کا تجزیہ: شہر میں پائے جانے والے قدیم رسم الخط کو ڈی کوڈ کرنے کے لیے کرپٹوگرافک تجزیہ کیا جا رہا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگ لکھنے اور حساب کتاب میں کتنے ماہر تھے۔ یہ تحقیق شہر کے انتظامی اور معاشی نظام کو سمجھنے میں مدد دے رہی ہے۔

بائیومیٹرک نقشوں کی مدد سے مجسموں کا تجزیہ: دریافت شدہ انسانی مجسموں اور تصویری خاکوں کی بائیومیٹرک اسکیننگ کی جا رہی ہے تاکہ ان کے چہرے کے خدوخال، نسلی شناخت اور ان کے معاشرتی رتبے کے بارے میں جانچ کی جا سکے۔ اس سے قدیم مصری سماج کی تنوع اور طبقاتی تقسیم کا مطالعہ ممکن ہورہا ہے۔

ہولوگرافک رئیلٹی اور انٹرایکٹو میوزیم: سنہری شہر کی مکمل ڈیجیٹل بحالی کے بعد ایک ہولوگرافک رئیلٹی سسٹم تیار کیا جا رہا ہے، جس کے ذریعے لوگ انٹرایکٹو میوزیم میں جا کر شہر کو اس کی اصل حالت میں دیکھ سکیں گے۔

یہ جدید ٹیکنالوجیز نہ صرف سنہری شہر کے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہیں بلکہ قدیم مصری تہذیب کے ترقی یافتہ ہونے کا بھی ثبوت فراہم کر رہی ہیں۔

آرکیٹیکچرل فورینسک تجزیہ: ماہرین نے آرکیٹیکچرل فورینسک تجزیہ کے ذریعے تعمیراتی ڈھانچوں کے مٹیریل، انجینئرنگ ڈیزائن، اور تعمیراتی تیکنیکوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سنہری شہر میں استعمال ہونے والی تعمیراتی مہارتیں جدید دور کی پائے دار عمارتوں کے اصولوں سے کافی حد تک مماثلت رکھتی ہیں۔

نیورل نیٹ ورکس اور ڈیٹا ماڈلنگ: مصنوعی ذہانت کے جدید نیورل نیٹ ورکس کی مدد سے تاریخی اعدادوشمار کو ڈی کوڈ کیا جا رہا ہے، جس سے معلوم ہورہا ہے کہ شہر کے رہائشی علاقوں، عبادت گاہوں، اور بازاروں کی منصوبہ بندی کتنی منظم تھی۔ ڈیٹا ماڈلنگ کی مدد سے شہر کی ممکنہ آبادی، روزمرہ کی سرگرمیاں اور اقتصادی ڈھانچہ سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔

ریڈیواکٹیو اسپیکٹروسکوپی: ریڈیواکٹیو اسپیکٹروسکوپی کے ذریعے یہاں استعمال ہونے والے معدنیات اور دھاتوں کی شناخت کی جا رہی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ شہر میں استعمال ہونے والا تعمیراتی مواد دوسرے علاقوں سے درآمد کیا گیا تھا، جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہ ایک تجارتی مرکز تھا۔

ڈیپ لرننگ پر مبنی سیمیونٹک اینالیسز: قدیم تحریروں، نقوش اور آرٹ ورک کا ڈیپ لرننگ پر مبنی سیمیونٹک تجزیہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے معانی کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے۔ اس سے شہر کی ثقافتی، مذہبی اور سائنسی ترقیات کو جانچنے میں مدد مل رہی ہے۔

لیزر آبزرویشن اور اسپیکٹرل انالسس: شہر کی دیواروں اور نوادرات پر لیڈار (LiDAR) اور اسپیکٹرل امیجنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے غیر مرئی تحریری نقوش اور فن پارے دریافت کیے گئے ہیں، جو کہ قدیم مصری فن اور طرزِزندگی کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کر رہے ہیں۔

ڈیجیٹل جیو کیمیکل میپنگ: جیو کیمیکل میپنگ کی مدد سے شہر میں موجود مٹی، پانی اور پتھروں کے کیمیائی اجزاء کی شناخت کی جا رہی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس علاقے میں صنعتی سرگرمیاں کس حد تک موجود تھیں اور یہاں کے لوگ کس قسم کے وسائل استعمال کرتے تھے۔

کرونو اسٹریٹیگرافک تجزیہ

ماہرین کرونو اسٹریٹیگرافک تجزیے کے ذریعے شہر کی مختلف سطحوں اور تہوں کا معائنہ کر رہے ہیں، جس سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ یہ شہر کن مختلف ادوار میں آباد رہا، کس طرح اس کی ترقی ہوئی، اور آیا اسے کسی قدرتی آفت یا جنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سینٹی میٹرک پریسیڑن والی جی پی ایس میپنگ: سینٹی میٹرک درستی کے حامل جدید جی پی ایس سسٹمز کی مدد سے شہر کے انفرااسٹرکچر کا انتہائی باریک بینی سے نقشہ بنایا جا رہا ہے، جس سے معلوم ہورہا ہے کہ سڑکیں، گلیاں، اور عمارتیں کس طرح ترتیب دی گئی تھیں اور ان کا جغرافیائی تعلق کس انداز میں تھا۔

تھرمو لومینیسینس ڈیٹنگ: یہ تیکنیک شہر میں پائی جانے والی مٹی کے ذرات اور قدیم برتنوں کی عمر معلوم کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ اس سے شہر کی تعمیر کا اصل دور متعین کرنے میں مدد مل رہی ہے اور یہ بھی پتا چل رہا ہے کہ یہاں کی آبادی کب عروج پر تھی۔

حیاتیاتی تجزیہ: یہ معلوم کرنے کے لیے کہ یہاں کے لوگ کن بیماریوں، غذا، اور طرزِزندگی کا شکار تھے، انسانی ڈھانچوں اور دانتوں کا بایو آرکیالوجیکل تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ اس سے قدیم مصریوں کی صحت اور ان کے طرزِزندگی کے بارے میں قیمتی معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔

الٹرا وائلٹ اور انفراریڈ اسکیننگ: شہر میں موجود دیواروں اور نوادرات پر کسی بھی پوشیدہ تحریر یا نقوش کو تلاش کرنے کے لیے الٹرا وائلٹ (UV) اور انفراریڈ (IR) اسکیننگ کی جا رہی ہے۔ اس طریقے سے ایسی تحریریں بھی سامنے آئی ہیں جو عام آنکھ سے نظر نہیں آتی تھیں، اور ان سے قدیم رسم الخط اور فنون لطیفہ کے نئے پہلو سامنے آ رہے ہیں۔

موسمیاتی اور ماحولیاتی ماڈلنگ: اس دریافت کے بعد شہر کے ماضی کے ماحولیاتی حالات کا جائزہ لینے کے لیے آب و ہوا اور ماحول کی سمیولیشن کی جا رہی ہے۔ یہ ماڈلنگ اس بات کا تعین کرنے میں مدد دے رہی ہے کہ اس علاقے میں آب و ہوا کی تبدیلیاں کس طرح شہر کے عروج و زوال پر اثرانداز ہوئیں۔

ہولوگرافک اور ڈیجیٹل رئیلٹی کے ذریعے تاریخ کی بازیافت: محققین نے جدید ہولوگرافک پروجیکشن اور ڈیجیٹل رئیلٹی کا استعمال کرتے ہوئے شہر کی ممکنہ شکل کو اس کی اصل حالت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے نہ صرف محققین بلکہ عام لوگ بھی اس قدیم شہر کی گلیوں میں ورچوئل طور پر گھوم پھر سکتے ہیں اور اس کے شان دار ماضی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

کوگنیٹو آرٹیفیشل انٹیلیجنس: مصنوعی ذہانت کے جدید ترین کوگنیٹو ماڈلز کے ذریعے یہاں ملنے والے نوادرات اور تحریروں کی شناخت اور ترجمہ کیا جا رہا ہے، جس سے قدیم مصری زبان، ثقافت، اور سماجی نظام کے بارے میں مزید تفصیلات سامنے آ رہی ہیں۔

یہ تمام جدید تیکنیکی پہلو ’’سنہری شہر‘‘ کی دریافت کو ایک نئی اور دل چسپ جہت فراہم کر رہے ہیں، اور قدیم مصر کی شہری ترقی، سائنس، اور ٹیکنالوجی کی نئی داستانیں سامنے لا رہے ہیں۔

انٹرا ایکٹیو ڈرون سروے: جدید ڈرونز کے ذریعے شہر کے اوپر سے اعلیٰ معیار کی 3D نقشہ سازی کی گئی ہے۔ اس سے نہ صرف عمارتوں اور تہوں کی درست پیمائش ممکن ہوئی بلکہ ان کے مقام اور ساخت کا جامع تجزیہ بھی انجام دیا گیا۔

قدیم دستاویزات اور تحریروں کی AI پر مبنی ڈی کوڈنگ: قدیم مصری زبان میں لکھی گئی تحریروں اور کتبوں کو جدید مصنوعی ذہانت (AI) اور مشین لرننگ کے ماڈلز کی مدد سے ڈی کوڈ کیا جا رہا ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی ایسے الفاظ اور جملے پہچان سکتی ہے جو انسانی آنکھ کے لیے مدھم ہو چکے ہیں، جس سے نئے تاریخی حقائق سامنے آ رہے ہیں۔

قدیم تجارتی راستوں اور معیشت کا تجزیہ: شہر میں دریافت ہونے والی مہریں، سکے، اور تجارتی اجناس کے نمونے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔ ماہرین آرکیومیٹرک تجزیے کے ذریعے ان اشیاء کے جغرافیائی ذرائع معلوم کر رہے ہیں، جس سے یہ پتا چل رہا ہے کہ اس شہر کے تجارتی تعلقات دوردراز علاقوں سے بھی تھے۔

قدیم رہائشی نظام اور سماجی تقسیم: سنہری شہر کی رہائشی عمارتوں کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت کے معاشرتی طبقات مختلف علاقوں میں آباد تھے۔ جدید جیو اسپیشل میپنگ کی مدد سے شہر میں امرا، متوسط طبقے، اور مزدور طبقے کے علاقوں کو واضح کیا جا رہا ہے، جس سے قدیم مصر کے سماجی ڈھانچے پر روشنی پڑتی ہے۔

قدیم صنعتی ترقی اور کاری گری: اس شہر میں دریافت شدہ ورکشاپس، دھات سازی کے کارخانے، اور پتھر تراشنے کے مراکز اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں صنعتی ترقی خاصی بلند سطح پر تھی۔ ماہرین میٹلرجیکل (Metallurgical) اور پیٹروگرافک (Petrographic) تجزیے کے ذریعے دریافت شدہ اوزاروں اور برتنوں کے مٹیریل اور ساخت کو جانچ رہے ہیں۔

قدیم مصریوں کی آبی ٹیکنالوجی اور نہری نظام: ماہرین نے گراؤنڈ پینیٹریٹنگ ریڈار (GPR) اور ہائی ریزولوشن سیٹلائٹ امیجنگ کے ذریعے شہر کے زیرزمین پانی کے نظام اور نہروں کو تلاش کیا ہے۔ اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ قدیم مصری پانی ذخیرہ کرنے، تقسیم کرنے، اور نکاسی کا ایک انتہائی مربوط اور سائنسی نظام رکھتے تھے۔

قدیم اجسام کے فارنزک تجزیے: سنہری شہر میں پائی جانے والی انسانی باقیات پر فارنزک اینتھروپولوجی کی جدید تیکنیکوں کا استعمال کیا جا رہا ہے، جس میں ہڈیوں کی کاربن ڈیٹنگ، سی ٹی اسکیننگ، اور بایو کیمیکل اینالیسز شامل ہیں۔ اس تحقیق سے قدیم مصر کے طرززندگی، صحت، خوراک، اور بیماریوں کے بارے میں نئی معلومات حاصل ہورہی ہیں۔

قدیم روشنی کے ذرائع اور توانائی کے نظام: شہر میں پائے جانے والے قدیم لیمپ، مشعلیں، اور روشنی کے دیگر ذرائع کا کیمیکل اور اسٹرکچرل تجزیہ کرکے یہ معلوم کیا جا رہا ہے کہ قدیم مصری روشنی کے لیے کون سا ایندھن استعمال کرتے تھے؟ کیا وہ کوئی ابتدائی تیل کا نظام رکھتے تھے؟

ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر اور آبادی کی نقل مکانی: جدید پالینو لوجیکل اور سیڈیمنٹ اسٹڈی کے ذریعے یہ معلوم کیا جا رہا ہے کہ اس شہر پر وقت کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کا کیا اثر پڑا؟ کیا یہ شہر خشک سالی، سیلاب، یا دیگر ماحولیاتی عوامل کے باعث ویران ہوا؟

قدیم مصریوں کا فنِ تعمیر اور جغرافیائی سروے: سنہری شہر میں موجود قدیم عمارتوں کے جیومیٹریکل اور اسٹریکچرل تجزیے سے پتا چل رہا ہے کہ مصری معمار انتہائی مہارت رکھتے تھے۔ ہائی ریزولوشن لیزر اسکیننگ کے ذریعے ان عمارتوں کی مضبوطی، استعمال شدہ مواد، اور تعمیراتی اصولوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

یہ جدید تحقیقات اس تاریخی دریافت کو مزید مستند بنا رہی ہیں اور قدیم مصر کی علمی، سائنسی، اور سماجی ترقی پر نئی روشنی ڈال رہی ہیں۔

قدیم تحریروں اور علامات کی تشریح: محققین کمپیوٹر وژن اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے شہر میں دریافت ہونے والی دیواروں، برتنوں، اور دیگر نوادرات پر کندہ تحریروں اور علامات کی تشریح کر رہے ہیں۔ اس جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے قدیم مصری رسم الخط کو تیزی سے سمجھا جا رہا ہے، اور نئے الفاظ اور فقرے دریافت ہو رہے ہیں، جو زبان کی تاریخ میں اہم اضافہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

نان ڈسٹرکٹیو ایکس رے اور نیوٹرون امیجنگ: نوادرات کے اندرونی ڈھانچے کو دیکھنے کے لیے جدید ایکس رے فلوروسینس اور نیوٹرون امیجنگ تیکنیکیں استعمال کی جا رہی ہیں۔ ان غیرتباہ کن (نان ڈسٹرکٹیو) طریقوں سے قدیم مجسموں، تابوتوں، اور دیگر اشیاء کے اندرونی راز کھل رہے ہیں، جنہیں کھولے بغیر ہی تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔

الٹرا فاسٹ لیزر اسکیننگ: جدید الٹرا فاسٹ لیزر اسکینرز کے ذریعے شہر کی ہر عمارت اور راستے کو انتہائی باریک بینی سے اسکین کیا جا رہا ہے، جس سے اس کا ڈیجیٹل آرکائیو تیار ہو رہا ہے۔ یہ ڈیٹا مستقبل میں تحقیق، بحالی، اور قدیم مصری فنِ تعمیر کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

الیکٹرو کیمیکل تجزیہ اور دھاتی نوادرات کی شناخت: شہر میں ملنے والے قدیم دھاتی سکے، آلات، اور زیورات کے تجزیے کے لیے الیکٹروکیمیکل انالیسز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس تیکنیک سے ان اشیاء میں استعمال ہونے والے دھاتوں کی نوعیت معلوم ہو رہی ہے، اور یہ بھی پتا چل رہا ہے کہ قدیم مصر میں مختلف دھاتوں کو کس طرح پروسیس اور استعمال کیا جاتا تھا۔

دماغی سائنس اور نیورل نیٹ ورکس کے ذریعے تاریخ کی تشریح: مصنوعی ذہانت میں نیورل نیٹ ورکس کا استعمال کر کے محققین یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قدیم مصریوں کی سوچ، تخلیقی صلاحیتیں، اور روزمرہ زندگی کے فیصلے کس طرح کے تھے۔ قدیم مصری آرٹ، تحریروں، اور انجنیئرنگ ڈیزائنز کے تجزیے سے یہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس وقت کے ذہنی و فکری رجحانات کیا تھے۔

نئے زیرِزمین کمروں اور تہہ خانوں کی دریافت: ریڈار اور جیوفزیکل سروے کے ذریعے اس بات کے شواہد مل رہے ہیں کہ شہر میں کچھ ایسے زیرِزمین کمرے اور تہہ خانے موجود ہیں جو ابھی تک دریافت نہیں ہوئے۔ ان جگہوں میں مزید نوادرات، کتبے، یا قیمتی اشیاء موجود ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں، جو تحقیق کو مزید وسعت دے سکتے ہیں۔

کیمیائی اور ماحولیاتی تجزیہ: ماہرین شہر میں موجود پرانی مٹی، پتھروں، اور نامیاتی مواد کا کیمیائی تجزیہ کر رہے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہاں کی فضا اور ماحول ہزاروں سال پہلے کیسا تھا؟ اس تحقیق سے قدیم مصر کے ماحولیاتی نظام اور آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلیوں کا سراغ لگانے میں مدد مل رہی ہے۔

ڈیجیٹل آرکائیوز اور مصنوعی ذہانت پر مبنی تحقیقاتی پلیٹ فارمز: یہ تمام معلومات ڈیجیٹل آرکائیوز اور اے آئی بیسڈ ریسرچ پلیٹ فارمز میں محفوظ کی جا رہی ہیں، جنہیں دنیا بھر کے محققین کسی بھی وقت آن لائن رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز مستقبل میں مزید دریافتوں اور تحقیق کے لیے بنیادی معلومات فراہم کریں گے۔

جیو فزیکل اسکیننگ اور سب سرفیس ریڈار: ماہرین نے زیرِزمین چھپی ہوئی ساختوں کی نشان دہی کے لیے جدید جیو فزیکل اسکیننگ اور گراؤنڈ پینیٹریٹنگ ریڈار (GPR) کا استعمال کیا ہے۔ اس تیکنیک کے ذریعے شہر کی خفیہ سرنگیں، ممکنہ تدفین گاہیں، اور دیگر زیرِزمین تعمیرات کی نقشہ سازی کی گئی ہے۔

ریموٹ سینسنگ اور سیٹلائٹ امیجرنگ: ماہرین نے سیٹلائٹ امیجری اور ریموٹ سینسنگ کے ذریعے شہر کے جغرافیائی خدوخال کا تجزیہ کیا، جس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ شہر انتہائی منظم شہری منصوبہ بندی پر مبنی تھا۔ مصنوعی سیاروں سے لی گئی ہائی ریزولوشن تصاویر نے شہر کے گلی کوچوں اور اہم مقامات کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔

کاربن ڈیٹنگ اور مٹی کے تجزیے: جدید کاربن ڈیٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے تعمیراتی ڈھانچوں، برتنوں اور دیگر اشیاء کی درست عمر کا تعین کیا جا رہا ہے۔ مٹی کے نمونوں کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ علاقہ ماضی میں زرعی پیداوار کے لیے موزوں تھا، جو یہاں انسانی آبادی کے قدیم ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔

ڈی این اے تجزیہ اور جینیاتی تحقیق: شہر میں دریافت شدہ انسانی باقیات اور دیگر نامیاتی نمونوں کا ڈی این اے تجزیہ کیا جا رہا ہے تاکہ یہاں بسنے والے لوگوں کے جینیاتی پس منظر، ان کی غذائی عادات، اور دیگر حیاتیاتی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا سکے۔

مصنوعی ذہانت کی مدد سے تحریری نقوش کی شناخت: دریافت شدہ کتبے اور تحریری نقوش کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے ڈی کوڈ کیا جا رہا ہے، جس سے اس شہر کے ثقافتی اور تاریخی پس منظر کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔ جدید الگورتھمز قدیم زبانوں اور علامتوں کو سمجھنے اور ترجمہ کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

یہ تمام سائنسی پیش رفت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ سنہری شہر ایک جدید اور منظم تہذیب کا مرکز تھا، جہاں شہری منصوبہ بندی، تعمیراتی تیکنیک، اور سائنسی ترقیات ایک اعلیٰ درجے پر موجود تھیں۔ اس دریافت سے قدیم مصر کے بارے میں ہمارے فہم میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔

سنہری شہر کی دریافت نے نہ صرف قدیم مصر کے تاریخی اور سائنسی پہلوؤں کو دوبارہ زندہ کیا ہے، بلکہ اس کے ذریعے ہمیں قدیم دنیا کی پیچیدہ حقیقتوں کو سمجھنے کا نیا موقع بھی ملا ہے۔ یہ شہر صرف ایک تعمیراتی معجزہ نہیں بلکہ انسانی ذہانت اور ثقافت کا عکاس بھی ہے۔ اس نے ہمیں یہ سکھایا کہ سائنسی تحقیق، جدید ٹیکنالوجی، اور ثقافتی ورثے کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کر سکتے ہیں جو اپنے علوم اور قدروں میں ایک مثال بن سکے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان امریکہ میں آئی ٹی سمجھوتہ: کانگریس وفد کی ملاقات، دیرینہ شراکت داری کے خواہشمند ہیں: آرمی چیف
  • مریم نواز کی ترکیہ کے نائب صدر سے ملاقات، تعلیمی منصوبوں، معاشی شراکت داری کے فروغ پر اتفاق
  • ’’سنہری شہر‘‘ عجائبات مصر کا قدیم شاہ کار
  • آرمی چیف کا امریکا کے ساتھ شراکت داری مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ
  • رحیم یار خان: ڈاکوؤں کی سہولت کاری پر کچے کے تھانوں کے ایس ایچ اوز برطرف
  • مریم نوازکی نائب صدر ترکیہ سے ملاقات، معاشی شراکت داری کے فروغ پر اتفاق
  • چینی قربت حاصل کرنے پر بھارت کی بنگلادیش کو سزا
  • لاؤس اور چین مستحکم دوستانہ شراکت دار ہیں، وزیراعظم لائوس
  • ملازمت پیشہ خواتین کیلئے بڑی سہولت، اسلام آباد میں ورکنگ ویمن ہاسٹل بنانے کا فیصلہ
  • بورڈنگ پاس اور چیک ان کا خاتمہ؟ عالمی فضائی سفر کی انڈسٹری میں بڑی تبدیلیوں کا امکان