اینٹی بائیوٹک مزاحمت، ایک سنگین بحران
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
عالمی ادارہ صحت نے اینٹی بائیوٹک مزاحمت کو انسانیت کے لیے سنگین عالمی مسائل میں شمار کیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق جراثیم کش ادویات کے خلاف مزاحمت ( اے، ایم، آر ) سالانہ تیرہ لاکھ اموات کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں طبی پیچیدگیوں کے علاوہ یہ مسئلہ نظامِ صحت اور معیشت کے لیے بھی بڑا چیلنج ہے۔ امریکی سوسائٹی برائے مائیکروبیالوجی نے پاکستان میں ہونے والی اموات کی بڑی وجہ اینٹی بائیوٹک مزاحمت کو قرار دیا ہے۔
اینٹی بائیوٹک سے کیا مراد ہے؟
اینٹی بائیوٹکس ادویہ کو الیگزنڈر فلیمنگ نے 1928 ء میں دریافت کیا جو بیکٹیریا سے لاحق امراض میں مستعمل ہیں۔ ایک خاص کیمیائی عمل سے یہ جسم میں موجود بیکٹیریا کی نمو کو روکتی یا مکمل طور پر ختم کر دیتی ہیں۔ سائنسی دنیا میں اینٹی بائیوٹکس کو مختلف درجوں یا جنریشنز میں تقسیم کیا گیا ہے جو مخصوص انفیکشن میں موثر ثٓابت ہوتی ہیں۔
اینٹی بائیوٹک مزاحمت کیسے پیدا ہوتی ہے؟
بیکٹیریا اور انسانی خلیات میں ساخت کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے۔ اینٹی بائیوٹک جسم میں داخل ہوکر خون کے ذریعے مختلف حصوں میں پہنچتی ہیں اور انفیکشن پھیلانے والے بیکٹیریا کی نشونما کو روکتی ہیں۔ لیکن اگر ان اینٹی بائیوٹکس کا غیر ضروری یا بے قاعدہ استعمال کیا جائے تو بیکٹیریا میوٹیشن کے ذریعے خاص جینیاتی تبدیلی کرکے ادویات کے خلاف اپنا دفاعی نظام مضبوط کرلیتے ہیں۔ نتیجتاً بیکٹیریا اس خاص اینٹی بائیوٹک سے مزاحم ہوجاتے ہیں اور ادویہ کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔
اینٹی بائیوٹک مزاحمت خطرناک کیوں؟
جب بیکٹیریا ایک مخصوص جنریشن کی اینٹی بائیوٹک سے مزاحم ہوجائیں تو وہ دوا بے فائدہ ہوجاتی ہے اور علاج کا عمل پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں مرض کو اگلی جنریشن کی اینٹی بائیوٹک تجویز کی جاتی ہے جس کی مزاحمت کے بعد مزید اگلی جنریشن کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ ماہرین کے مطابق 2050ء تک بنی نوع انسان تمام دستیاب اینٹی بائیوٹکس سے مزاحم ہو جائے گا۔ یہ امر نہ صرف طبی لحاظ سے ایک بڑا مسئلہ ہے بلکہ عالمگیر سطح پر معاشی لحاظ سے بھی ایک سنجیدہ پہلو ہے۔
موسمی بیماریوں میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال درست؟
موسم اور آب و ہوا کی تبدیلوں کے باعث کھانسی، نزلہ اور زکام جیسے امراض بہت عام ہیں۔ ان امراض کو طبی دنیا میں مکمل بیماری کے طور پر نہیں لیا جاتا۔ یہ عموماً وائرل ہوتے ہیں اور جسم کے قدرتی مدافعتی نظام کی بدولت چند دن میں خود ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ان معمولی موسمی تبدیلیوں میں ہمارے ہاں پہلی یا دوسری کو چھوڑ کر تیسری یا چوتھی جنریشن کی اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ وائرل بخار سے اینٹی بائیوٹک ادویہ کا کوئی تعلق نہیں۔ اس بے قاعدہ اور غیر ضروری استعمال سے ہمارے مدافعتی نظام کو غیر معمولی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر کسی مریض کو شدید وائرل انفیکشن ہو تو وہ تب ہی ڈاکٹر یا فارماسسٹ کے مشورے سے ویکسین لگوا سکتا ہے۔
کیا ہر فرد اینٹی بائیوٹک لے سکتا ہے؟
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ہر انسانی جسم کا ایک خاص طبی مزاج اور بیکٹیریل فلورہ ہوتا ہے۔ لازمی نہیں کہ کوئی اینٹی بائیوٹک اگر کسی ایک فرد کے لیے درست ہے تو دوسرے کے لیے بھی فائدہ مند ہو گی۔ اس معاملے میں سب سے اہم اور بنیادی مرحلہ مرض کی مناسب تشخیص کا ہے۔ انفیکشن اور بیکٹیریا کی نشاندہی کے بعد ہی خاص جنریشن کی دوا استعمال کی جائے۔ ہر اینٹی بائیوٹک کا ایک مکمل کورس ہوتا ہے جس کی مقدار اور مدت انفیکشن کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ کورس عموماً تین، پانچ یا سات دن تک ہوسکتا ہے۔ بعض مرتبہ ایک ہی خوراک سے مرض کی علامات رفع ہوجاتی ہیں اور مزید دوائی لینے کی حاجت نہیں سمجھی جاتی۔ دراصل، ایک یا دو خوراک سے وقتی طور پر آرام تو مل جاتا ہے لیکن کچھ جرثومے رہ جاتے ہیں جو کورس مکمل نہ کرنے کی صورت میں دوبارہ پنپتے اور مزاحم ہوجاتے ہیں۔ نتیجہ اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی صورت میں نکلتا ہے اور انسانی قوتِ مدافعت کمزور ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی وجوہ
نیشل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق پاکستان میں 73 فیصد سے زائد اینٹی بائیوٹک بغیر ضرورت کے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جدید طبی سہولیات نہ ہونے کے باعث مرض کی مناسب اور بروقت تشخیص نہیں ہو پاتی اور جراثیم کش ادویات کو بے قاعدہ طریقے سے لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ صاف پانی کی عدم دستیابی، نکاسی کا نامناسب انتظام اور مویشیوں میں ادویات کا بے جا استعمال بڑی وجوہ ہیں۔
قوانین کیا کہتے ہیں؟
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اینٹی بائیوٹک کنٹرول پروگرام کے تحت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان ( DRAP ) نے 2021 ء میں جراثیم کش ادویات کے غیر ضروری استعمال اور فروخت سے متعلق قوانین جاری کیے۔ مزید برآں اتھارٹی نے تمام اینٹی بائیوٹکس کی شیڈیول ڈی میں درجہ بندی کی ہے جس کے مطابق یہ ادویات مستند ڈاکٹر کی پرچی کے بغیر فروخت نہیں ہوسکتی اور ہر میڈیکل سٹور پر ان کی خرید و فروخت کا ریکارڈ مرتب کیا جائے گا۔
اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی عالمگیر سنگینی کے تحت ہر سال 18 سے 24 نومبر تک ہفتہْ آگاہی منایا جاتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عام عوام میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ مرض کی درست اور بروقت تشخیص کے بعد ہی ادویات کا استعمال کیا جائے۔ ہر فرد اپنے جسم کے مزاج اور ساخت کے مطابق ہی تجویز کردہ اینٹی بائیوٹک مقررہ مقدار میں استعمال کرے۔ اس کے علاوہ حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنا بھی بیماریوں سے دور رکھتا ہے اور ہم ادویات کے غیر ضروری استعمال سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
(مضمون نگار پنجاب یونیورسٹی ، لاہور کے کالج آف فارمیسی میں مدرس ہیں)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: استعمال کی ادویات کے جنریشن کی کے مطابق کیا جائے مزاحم ہو جاتا ہے ہیں اور کے لیے مرض کی
پڑھیں:
ڈرکنس اور دیگر پروسیسڈ فوڈز میں ایڈیٹیوز کس سنگین مرض کا باعث بن سکتے ہیں؟
ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر ڈائیٹ ڈرنکس، سوپ، ڈیری ڈیزرٹس اور چٹنیوں میں پائے جانے والے فوڈ ایڈیٹوز مکسچر ٹائپ 2 ذیابیطس کے خطرے کو قدرے بڑھا سکتے ہیں۔
محققین نے جریدے پی ایل او ایس میڈیسن میں رپورٹ کیا کہ عام طور پر مصنوعی میٹھے والے مشروبات میں پائے جانے والے ایڈیٹیوز سے تقریباً 110,000 افراد کے گروپ میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ 13 فیصد بڑھتا پایا گیا ہے۔
نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ اسی طرح اسٹاک فوڈز اور ساس جیسے الٹرا پروسیسڈ فوڈز میں بھی شامل ایڈیٹیوز ذیابیطس کے خطرے کو 8 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں۔
فرانس میں ایک طبی تحقیقی تنظیم INSERM میں ڈاکٹریٹ کی طالبہ اور سرکردہ محقق میری پیین ڈی لا گانڈری نے کہا، "نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سی مصنوعات میں موجود کئی اضافی چیزیں اکثر ایک ساتھ کھائی جاتی ہیں اور یہ کہ کچھ مرکبات اس ٹائپ 2 ذیابیطس کے زیادہ خطرے سے منسلک ہوتے ہیں۔