Express News:
2025-04-15@06:45:42 GMT

رمضان پیکیج

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

کئی جگہوں پر آج کل آپ کو رمضان بازار نظر آ رہے ہوں گے، آپ کے معمول کے سپر اسٹور آج کل اشتہار نشر کر رہے ہوں گے کہ ان کے پاس رمضان پیکیج دستیاب ہیں۔ چند برس سے یہ رواج سا بن گیا ہے کہ ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہر کوئی اس کام میں لگ جاتا ہے اور ثواب کمانے کا شوق بڑھ جاتا ہے۔

مختلف سپر اسٹورز پر دستیاب ان رمضان پیکیج کو کبھی ایک بار خرید کر اپنے لیے بھی استعمال کر کے دیکھیں تو آپ پر ساری قلعی کھل جائے گی اور اس کے بعد آپ کسی کو ریڈی میڈ رمضان پیکیج شاید نہ دیں ۔ اس رمضان پیکیج کی تفصیل کچھ یوں ہوتی ہے۔

آٹا، چاول، چینی، شربت کی ایک دو بوتلیں، گھی، کوکنگ آئل ، بیسن، چنے، چاٹ مسالہ، کھجور، بیسن، چائے کی پتی، دو ایک دالیں ۔ یہ پیکٹو ں میں بند ہوتے ہیں اور ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتے ہیں۔ آپ کو فیس بک پر بھی ایسے اشتہارات نظر آئیں گے اور مجھے Whatsapp پر بھی پیغامات آئے ہیں کہ اگر مجھے اس نیکی کے کام میں دلچسپی ہو تو میں فلاں فلاں بندے کو اتنی رقم فی پیکٹ بھجوا دوں ، وہ بندہ پانچ سو پیکٹ بانٹنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ماہ رمضان میں کسی غریب کے گھر میں راشن بھجوانے کا کتنا اجر ہے اور اس کے عوض جنت میں کون کون سے درجات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی کسی کے لیے اس بات کا تعین نہیں کر سکتا ہے کہ اس کے اعمال اور نیکیوں کے عوض اس کے لیے جنت میں کن درجات کا وعدہ کیا گیا ہے ۔

… سب سے پہلے تو یہ نکتہ اہم ہے کہ کیا رمضان میں پکوڑے، چاٹ وغیرہ کھانا، کسی کے لیے بھی لازمی ہے؟کیا ان غریب گھرانوں کو سال کے باقی گیارہ مہینے غربت کا مقابلہ نہیں کرنا پڑتا اور انھیں راشن کی ضرورت نہیں ہوتی؟کیا ہم صرف ماہ رمضان سے پہلے یا اس کے دوران ہی زکوۃ ادا کر سکتے ہں اور باقی سارا سال نہیں؟کیا رمضان کے فورا بعد آنے والی عید پر ان غرباء کی کوئی ضروریات نہیں ہوتیں؟

بہتر تو یہی ہے کہ ہم اپنی زکوۃ کو سارے سال پر پھیلا کر مستحقین کو تلاشیں ، اپنے خاندان میں، محلے میں، پڑوس میں، اپنے گاؤں میں اور اپنے ارد گرد سیکڑوںمستحقین ہمیں مل جائیں گے۔ اپنی جیب یا پرس میں ہر وقت اپنی زکوۃ کے حساب کی رقم ساتھ رکھیں، جہاں کوئی مستحق نظر آئے، اسے اس میں سے کچھ دے دیں، گن کر یا بے گنے۔ کسی سے کبھی پوچھ لیا کریں ، تنہائی میں کہ اسے کچھ چاہیے ہو تو آپ کو بتائے۔ اگر اللہ تعالی نے آپ کو صاحب نصاب یا صاحب حیثیت بنایا ہے تو اس لیے کہ آپ کے دل میں اس کی باقی مخلوق کا درد ہو، آپ ان کا خیال رکھیں ۔ انسان کی تخلیق کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے۔

ماہ رمضان کے لیے لوگوں کو سامان دے رہے ہیں تو اس بات کا بھی خیال رہے کہ اس میں اس خاندان کے افراد کی تعداد کے مطابق عید کے لیے کپڑے خرید کر دے دیے جائیں ، ساتھ سلائی کے لیے رقم دے دی جائے، یہ ممکن نہ ہو تو عید کے کپڑوں کے لیے رقم دے دی جائے اور اگر اس کی سکت نہ ہو تو اپنی الماریاں کھولیں اور ان میں ایسے لباس دیکھیں جو ان الماریوں میں برس ہا برس سے لٹک رہے ہیں، انھیں پہننے کی باری نہیں آتی یا وہ آپ کو پورے نہیں ہیں مگر آپ نے اس امید پر رکھ چھوڑے ہیں کہ ایک نہ ایک دن آپ ان میں پورے آسکیں گے۔

آپ ذرا سوچیں ، اگر آپ غریب ہوں، ماہ رمضان کی آمد ہو او ر آپ کے گھر ایک نہیں ، دو نہیں بلکہ تین یا اس سے بھی زائد لوگ رمضان پیکیج بھجوا رہے ہوں ۔ آپ کے لیے اس میں موجود بہت سی اشیاء غیر ضروری ہوں ، انتہائی ضرورت کی چیزوں کا فقدان ہو تو آپ ان پیکیج کا کیا کریں گے؟ فالتو چیزوں کو لے کر واپس انھی دکانوں پر جائیں گے جہاں سے وہ چیزیں خریدی گئی ہیں۔

کسی غریب کو رمضان پیکیج دینا ہو، کسی کی بیٹی کی شادی یا کسی کی بیماری میں اس کی مدد کرنا ہو تو اس کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ آپ اسے نقد رقم دیں۔ جتنی آپ کی زکوۃ بنتی ہے، جب آپ کسی گروپ کی صورت میں کام کررہے ہوں اور رمضان پیکیج دے رہے ہوں، بہتر ہے کہ آپ سب مل کو وہ رقم جمع کریں اور دو چار خاندانوں کو اتنا دے دیں کہ وہ سکون سے ماہ رمضان بھی گزار سکیں اور عید بھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رمضان پیکیج ماہ رمضان ان پیکیج رہے ہوں کے لیے

پڑھیں:

دہشت گردی، بڑا چیلنج

پاکستان کو قومی ترقی میں چند بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر مختلف حکمت عملیاں اختیار کی جاتی ہیں مگر اس کے باوجود بہتر نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ یا تو ہمیں مسائل کا حقیقی ادراک نہیں یا ہم ان مسائل کا ادراک رکھنے کے باوجود کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اگرچہ ہمیں سیاسی، انتظامی، معاشی، حکمرانی اور سیکیورٹی کے تناظر میں مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔پچھلے دنوں گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 کی رپورٹ میں پاکستان کو تجویز دی گئی ہے کہ اسے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے فوجی سیاسی، سماجی اور معاشی اقدامات لینے ہوں گے۔

اس رپورٹ کے بقول پاکستان دہشت گردی کے موجودہ خطرے سے نمٹنے کے لیے وقت پر بیدار نہ ہوا تو معاشی بحالی اور قومی ہم آہنگی کے خواب چکنا چور ہو سکتے ہیں۔اسی طرح متحرک حکمت عملی اور طویل مدتی اہداف پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ایک موثر انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی تیار کرنا ہوگا۔

گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی یہ رپورٹ ہماری قومی ترجیحات کے تعین میں بھی توجہ دلاتی ہے اور ہمارے داخلی سیاست کے مسائل کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست بالخصوص افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں بداعتمادی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کے بحران کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کی لہر داخلی،علاقائی اور عالمی سیاست سے منسلک مسائل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔

ہمیں دہشت گردی کے مسائل کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کوبھی ایک بڑے قومی اور علاقائی فریم ورک میں دیکھ کر موثر حکمت عملی اختیار کرنا ہی ہمارے ریاستی مفاد میں ہوگا۔دہشت گرد جس بڑے اندازکو بنیاد بنا کر پاکستان کی ریاست کی رٹ اور اداروں کو چیلنج کر رہے ہیں وہ واقعی ہمارے لیے تشویش کا پہلو ہے۔گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں یہ بھی انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ 2023میں ہونے والے 517 دہشت گرد حملوں کے مقابلے میں 2024 میں ہمیں ایک ہزار 99 حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان ملک کے سب سے زیادہ متاثرہ حصے ہیں جہاں 96 فیصد دہشت گردی کے حملے ہوئے ہیںجو یقیناً ایک بڑا چیلنج ہے۔

بنیادی طور پر اس طرح کی عالمی سطح پر جاری ہونے والی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان میں سیکیورٹی کے حالات پیچیدہ اور سنگین ہیں۔یہ معاملات پاکستان کی داخلی اور خارجی سطح پر جو تصویر پیش کرتے ہیں اس پر مختلف نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ ہم اپنی تمام تر حکمت عملیوں اور کوششوں کے باوجود دہشت گردی کی جنگ سے باہر نہیں نکل رہے اور دہشت گرد ہماری ریاست کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان حکومتی اور معاشرتی سطح پر سیاسی تقسیم کا شکار ہے۔سیاسی اور معاشی استحکام نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ بھی ہماری داخلی سطح پر سیاسی فیصلہ سازی کا عمل ہے اور ہم داخلی سیاست میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

اگرچہ ہمارے حکمران بضد ہیں کہ ہم سیاسی اور معاشی طور پر درست سمت میں ہیں اوراعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے ترقی کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔ان کے بقول دہشت گردی پر بھی کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے اور آنے والے دنوں میں دہشت گردی کا ہر سطح پر خاتمہ ہوگا اور اس پر کوئی سیاسی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔یہ حکمرانوں کا بیانیہ ہے جب کہ ہمارے حقیقی مسائل حکمرانوں کے پیش کردہ ترقی پر مبنی خیالات سے مختلف ہیں۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر جو بھی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہیں اس میں اتفاق رائے کا فقدان ہے۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی سیاسی قیادت حکومت کے مقابلے میں مختلف جگہ پر کھڑی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کے لیے ہمیں جو قومی اتفاق رائے درکار ہے اس میں کئی طرح کی سیاسی مشکلات کا سامنا ہے۔ افغانستان مسلسل ہمارے لیے درد سر بنا ہوا ہے اور پاکستان میں جو بھی دہشت گردی ہو رہی ہے اس کے ایک بڑے تانے بانے عملاً افغانستان سے جڑتے ہیں۔لیکن افغانستان سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے جو ہمیں معاونت درکار تھی وہ نہیں مل رہی۔ایک اچھی پیش رفت حالیہ دنوں میں یہ ہوئی ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی طور پر کچھ مثبت پہلو اور بات چیت کا عمل سامنے آیا ہے۔بات چیت اور مکالمے کی بنیاد پر مسائل کے حل کے لیے یہ دو طرفہ دروازہ بند نہیں ہونا چاہیے۔

سیاست کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے اور تمام تر اختلافات کے باوجود سیاسی جماعتوں کو سیاست سے دور رکھنے کی پالیسی سے ہر سطح پر گریز کیا جانا چاہیے۔اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ ان کی سیاست اپنی جگہ مگر ریاستی مفاد زیادہ اہم ہوتا ہے، اس لیے سیاسی جماعتوں کو بھی ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے ۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہمیں بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں سیاسی یا غیر سیاسی فریقین کو اعتماد میں لینا ہوگا ان سے بات چیت کرنی ہوگی ۔دہشت گردی کی یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور پاکستان میں ہر فریق چاہے وہ حکومت کا حصہ ہو یا حکومت سے باہر ہو اسے مل کر لڑنی ہے۔اگر ہم دہشت گردی کی اس جنگ میں خود باہمی ٹکراؤ یا تضادات کا شکار ہو جائیں گے تو پھر اس جنگ میں کامیابی کے امکانات بھی اور زیادہ محدود ہوں گے۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں دہشت گردی کی جنگ کے تناظر میں غیر معمولی حالات کا سامنا ہے تو پھر ہماری حکمت عملی بھی غیر معمولی اقدامات پر مبنی ہونا چاہیے۔علاقائی صورتحال میں بھی افغانستان سمیت بھارت کے ساتھ میں اپنے معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب یہ دونوں ممالک بھی پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں اور تعلقات کو بہتر بنائیں۔کیونکہ علاقائی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی بہتری کا عمل محض ان ملکوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے مجموعی بہتر اثرات خطے کی سیاست پر بھی پڑیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • 81فیصد
  • حادثہ سے بڑا سانحہ
  • دہشت گردی، بڑا چیلنج
  • ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟
  • پی ایس ایل کی فریاد
  • نون لیگ اور اُس کے پروجیکٹس
  • آزاد منڈی اور ٹیرف
  • اس کا حل کیا ہے؟
  • جھوٹی یاد داشتیں اور ان کا منفی اثر
  • دل پھر دل ہے، غم پھر غم ہے