قومی قیمتی وسائل کا زیاں کب تک؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ عوام کے قیمتی وسائل کا نقصان کرنے والے اداروں میں مزید زیاں کی اجازت نہیں دے گی۔ نجکاری میں تعطل قبول نہیں ہے۔موجودہ صورتحال میں لگتا ہے کہ قیمتی وسائل کا زیاں اور بعض اداروں کی نجکاری میں تاخیر حکومت کی مرضی اور اجازت سے ہو رہی ہے جس کی اب مزید اجازت نہیں دی جائے گی اور اب تک جو نقصان ہو چکا ہے وہ برداشت کر لیا جائے گا جو حکومت کی اجازت سے ہی ہوا ہوگا جس کا زیاں روکنے کا اب حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے اور جن کی وجہ سے یہ نقصان ہوا انھیں کچھ کہا جائے گا نہ قومی نقصان کے ذمے داروں کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی۔
متعلقہ اداروں کے ذمے دار قومی وسائل کو نقصان پہنچا چکے اس کی سزا متعلقہ اداروں کے ذمے داروں کو نہیں بلکہ عوام کو ہی بھگتنا پڑے گی کیونکہ ملک کو پہنچنے والے نقصانات کا خمیازہ اب تک عوام ہی بھگت رہے ہیں اور ان نقصانات کا زیاں مزید بھی عوام ہی بھگتیں گے اور قومی اداروں کو نقصانات پہنچانے والے محفوظ رہیں گے۔
ملک میں تین غیر سول ادوار کے علاوہ جوسول حکومتیں قائم ہوئیں، ان میں 1988 کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے تین تین بار اور پاکستان مسلم لیگ جونیجو، مسلم لیگ قائد اعظم اور پی ٹی آئی کو ایک ایک بار حکومت کا موقعہ ملا مگر مسلم لیگ قائد اعظم نے پہلی بار اپنی اقتداری مدت پوری کی تھی۔
مسلم لیگ جونیجو جنرل ضیا الحق کے دور میں بنوائی گئی تھی مگر جنرل ضیا نے اختلافات کے باعث وقت سے پہلے جونیجو حکومت ختم اور اسمبلی توڑ دی تھی مگر جنرل پرویز نے اپنے اقتدار میں مسلم لیگ قائد اعظم نہ صرف بنوائی تھی بلکہ اس کی اسمبلی کی 5 سالہ مدت پوری بھی کرائی تھی اور (ق) لیگ کے پہلے وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہو کر قومی اسمبلی نہیں توڑی تھی بلکہ غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز سے (ق) لیگی حکومت کی مدت پوری کرائی تھی ، درمیان میں ڈیڑھ دو ماہ کے لیے چوہدری شجاعت کو بھی نگران وزیر اعظم بنایا گیا تھا اور (ق) لیگ کی 5 سالہ حکومت پر کرپشن کے اتنے الزامات نہیں تھے جتنے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی حکومتوں پر سویلین صدر غلام اسحاق خان اور سردار فاروق نے لگا کر (ن) لیگ کی دو اور پیپلز پارٹی کی دو حکومتیں کرپشن کے الزامات میں برطرف کی تھیں جب کہ 1999 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت جنرل پرویز نے برطرف کی تھی اور یہ دونوں پارٹیاں اپنی اقتداری مدت پوری نہیں کر سکی تھیں۔ جنرل پرویز تو گیارہ سالوں میں دو دو بار حکومتوں کے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پر کرپشن کے الزامات لگاتے تھے اور انھوں نے دونوں سابقہ وزرائے اعظم کو نہ صرف جلا وطن ہونے پر مجبور کیا بلکہ وہ دونوں کی سیاست ختم نہیں کر سکے اور 2008میں پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ کو تیسری بار عوام نے منتخب کیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے برعکس پی پی کی دو بار کی حکومت میں مشہور تھا کہ پی پی کی حکومتوں میں پیسہ بھی ہوتا تھا اور روزگار بھی۔ 2007 میں پی پی کا نعرہ تھا کہ بے نظیر آئے گی روزگار لائے گی مگر مسلم لیگ (ن) کے دور میں ایسا نہیں تھا۔ پی پی کی حکومت لوگوں کو ملازمتیں دینے میں مشہور تھیں اور ہر سرکاری ادارے میں جگہ نہ ہونے کے باوجود اندھا دھند سرکاری بھرتیاں ہوتی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے بعد مسلم لیگ ن کے دور میں نئی ملازمتیں اپنوں کو کم ملیں اور پی پی حکومتوں میں بھرتی بے دریغ ملازمین بڑی تعداد میں نکالے جاتے جو پی پی اقتدار میں آ کر انھیں پھر بحال کر دیتی تھی۔
غیر سول حکومتوں کے برعکس سیاسی حکومت میں ہر سیاسی پارٹی نے اپنے جیالوں، متوالوں کو سرکاری ملازمتیں دیں۔ (ق) لیگی سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر ریلوے نے حد کردی تھی اور بڑوں کے علاوہ نچلی سطح پر اپنے حلقے کے ساٹھ ہزار افراد ریلوے میں بھر دیے تھے جس کا بیان ان کے بعد آنے والے پنجاب کے وزیر ریلوے نے دیا تھا کہ کہیں جگہ ہی نہیں تو میں اپنے لوگوں کو کہاں سے ملازمتیں دوں جو ان کا بھی حق ہے۔
(ن) لیگ سے کہیں زیادہ جیالے پی پی حکومتوں میں بھرتی کیے گئے، پی آئی اے، اسٹیل ملز و دیگر سرکاری اداروں کی تباہی بھی سیاسی حکومتوں میں ہوئی، پی آئی اے مسلسل خسارے میں، اسٹیل ملز سالوں سے بند اور یہی حال نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کا ہے جن کی فروخت یا نجکاری میں پیپلز پارٹی بڑی رکاوٹ ہے جس کا منشور ملازمتیں دینا اور (ن) لیگ کا منشور سرکاری اداروں سے فاضل ملازموں کو نکالنا۔ کہیں اپنے بھرنے کے لیے ڈاؤن سائزنگ ہے اور گولڈن شیک ہینڈ کے ذریعے ہزاروں افراد (ن) لیگ حکومت میں فارغ ہوئے کیونکہ ادارے مسلسل نقصان میں تھے۔
2018 میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت نے ملازمتیں دے کر باقی حد پوری کردی تھی جس کے وزیر اعظم نے دنیا بھر سے اپنے دوستوں کو بڑے سرکاری عہدے دے کر نوازا تھا۔ انھوں نے اپنی وفاقی اور دو صوبائی حکومتوں میں سوشل میڈیا کو سب سے زیادہ ترجیح دی اور اپنی سوشل میڈیا ٹیموں میں ہزاروں افراد بھرتی کرائے جن کا کام اب بھی اپنے بانی کی تعریفیں، حکومت اور اداروں کو بدنام کرنا ہے جن پر کروڑوں روپے ہر ماہ خرچ کیے جاتے تھے اور یہ کام کے پی میں 11 سالوں سے جاری ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر ہوا بازی نے پی آئی اے تباہ ہی نہیں بلکہ اسے دنیا میں بدنام کرایا اور خود مزے میں ہیں۔
ہر ادارے میں لاکھوں افراد فالتو اور اضافی ہیں مگر پیپلز پارٹی کسی کو بے روزگار کرنے کی مخالف ہے اور اتحادی حکومت پی پی کے باعث مجبور ہے اور عوام کے قیمتی وسائل ضایع ہو رہے ہیں اور سیاست کے باعث مزید ہوتے رہیں گے اوراتحادی حکومت محض بیان بازی کے کچھ نہیں کر سکے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی حکومتوں میں قیمتی وسائل مدت پوری مسلم لیگ کی حکومت کا زیاں کے وزیر میں پی ہے اور کی تھی اور پی
پڑھیں:
نظریے اور سوچ کو قید نہیں کیا جاسکتا: علی امین گنڈا پور کا ریاست اور اداروں کو پیغام
پشاور:خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وہ ریاست اور اداروں کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ نظریے اور سوچ کو قید نہیں کیا جاسکتا اور نہ دبایا جاسکتا ہے۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ عمران خان ایک نظریہ بن چکا ہے جو لوگوں میں موجود ہے، عمران خان دوبارہ آئے گا اور ملک کو ٹھیک کرے گا اور پاکستان کو حقیقی آزاد پاکستان بنائے گا۔یہ بات انہو ںنے قیوم اسپورٹس کمپلیکس میں خیبرپختونخوا گیمز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران کہی۔
ان کا کہناتھاکہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے کوئی جیتے گا نہیں تو ہارے گا کیسے اور کھیل میں ہار جیت بدل سکتی ہے جو اچھا کھیلے گا وہ جیتے گا لیکن زندگی کی ہار اور جیت میں فرق ہے۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ زندگی کی جیت میں بنیاد نظریے، اخلاقیات، اصولوں پر ہوتی ہے جو شخص اسلامی تعلیمات، اپنے نظریات، روایات ، اصولوں اور روایات کے ساتھ کے ساتھ کھڑا رہا وہ جیت سکتا ہے۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ اگر زندگی میں جیتنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو اس کو کوئی ہارا نہیں سکتا، آج جس شخص کو ریاست نے بے گناہ قید رکھا ہے وہ ایک نظریے اور سوچ کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ عمران خان ایک نظریہ اور سوچ بن گیا ہے جسے قید نہیں کیا جاسکتا اور دبایا نہیں جاسکتا، نظریہ کبھی مرتا نہیں اور نہ ختم کیا جاسکتا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ میں ریاست اور اداروں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جو دلوں میں ہوتے ہیں وہ نظریے ہوتے ہیں، وہ قید نہیں ہوسکتے، یہ وہ آواز ہے جو تم دبا نہیں سکتے، یہ آواز ہے ابھر کر آئے گا۔
علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ نظریہ مرتا نہیں ہے اور نہ ختم ہوتا ہے۔