اس انکشاف کا سہرا اگر کسی کے سرجاتا ہے تو وہ قہرخداوندی چشم گل عرف سوائن فلو عرف کوئڈ نائنٹین ہے۔اگرچہ اس نے یہ انکشاف خالص بدنیتی اور علامہ بریانی عرف برڈ فلو کو ہدف بنانے کے لیے کیا ہے۔ لیکن انکشاف تو بہرحال انکشاف ہوتا ہے۔جس طرح انصاف بہرحال انصاف ہوتاہے چاہے وہ تحریک انصاف ہی میں کیوں نہ ہو۔
انکشاف یہ تھا کہ گاؤں بلکہ علاقے بلکہ پورے ملک میں مینڈک اور مینڈکیاں ختم ہو رہی ہیں، مفقود الخبر ہورہی ہیں، کم یاب و نایاب ہورہی ہیں اور واقعی ہم نے جب غور کیا تو پہلے جہاں ہم قدم اٹھانے سے پہلے دیکھ لیا کرتے تھے کہ کہیں کوئی مینڈک یا مینڈکی تو پاؤں کے نیچے آنے والی نہیں ہے وہاں اب دیکھنے کو بھی کوئی مینڈک یا مینڈکی نہیں ملتی۔ پہلے کسان جب کھیت کو پانی دے لیتے تھے تو رات کو وہاں مینڈک لوگ باقاعدہ قوالیاں منعقد کرتے تھے۔ دھرنے کا سماں ہوتا اور مشاعرے کی کیفیت ہوتی لیکن اب کھیت پر ایسا سناٹا چھایا ہوتا ہے جیسے ایک ہُو کا عالم ہو
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستایاں ہیں
قصہ یوں ہوا کہ ان دنوں جمعرات، جمعہ اور چہلم برسیوں کی وارداتیں کچھ زیادہ ہونے لگی تھیں شاید اس لیے مال حرام کے سارے دروازے چوپٹ کھل گئے اور ایسے میں سوائے حرام رفت کا سلسلہ بھی تیز ہوجاتا ہے جب کہ ایسی واردات کو’’قضا‘‘ کرنا علامہ بریانی کے لیے نمازعید قضا کرنے کے مترادف ہے۔ایک طرف لگاتار یہ مرغن چرغن وارداتیں اور اوپر سے لوگوں نے اب یہ بدعت بھی شروع کی ہے کہ دسترخوان پر یخ بستہ کولڈ ڈرنکس کا انتظام بھی کرنے لگے ہیں۔چنانچہ ایک ہی گلے سے جب گرما گرم اور یخایخ مال و متاع گزرتا ہے تو اس طرح تو ہوتا ہے۔
اس طرح کی وارداتوں میں کہ علامہ کی آواز پہلے لنگڑانے لگی پھر لڑکھڑانا شروع ہوئی پھر گر پڑی پھر بیٹھ گئی پھر لیٹ گئی اور آخر میں انگریزی کی لیٹ late ہوگئی۔جب کہ ادھر چندے کا دھندہ بھی مندا نہیں ہونے دے رہے تھے۔چنانچہ جب لاؤڈ اسپیکر پکڑلیتے تھے یا لاؤڈ اسپیکرعلامہ کو پکڑ لیتا تھا۔جو آوازیں نشر ہوتی تھیں۔وہ صرف ٹراں ٹروں،ٹراں ٹروں پر مشتمل ہوتی تھیں قہرخداوندی تو ایسے مواقع کی تاک میں رہتا ہے چنانچہ اس نے زبردست پبلسٹی کرکے علامہ ہی کو’’ٹراں ٹروں‘‘ مشہور کردیا اور کچھ دنوں بعد یہ انکشاف بھی کر ڈالا کہ مینڈک اور مینڈکیاں نقل مکانی کرنے لگے ہیں کہ اب ہماری یہاں ضرورت ہی نہیں رہی ہے
اے مرے دل کہیں اور چل
اس چمن میں ہمارا گزارا نہیں
قہرخداوندی کی بدنیتی اور اس کی علامہ سے پرخاش اپنی جگہ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ واقعی مینڈک اور مینڈکیاں مفقود الخبر ہوتی جا رہی ہیں، اب ظاہر ہے کہ ہم جو اکیڈمیوں کے تعلیم یافتہ اور تفتیشی اداروں کے تربیت یافتہ ہیں ذمے داری بنتی ہے کہ اس نہایت ’’سنجیدہ‘‘ معاملے میں اپنا تحقیق کا ٹٹو اسٹارٹ کریں۔
پہلے تو ہمیں یہ خیال آیا کہ شاید کسانوں نے فصلوں پر کوئی ایسی دوا چھڑکنا شروع کی ہو جس سے زیربحث مخلوق کی نسل کشی ہوگئی ہو لیکن کسانوں اور دوا فروشوں نے کسی ایسی دوا کے استعمال سے قطعی انکار کردیا۔پھر ایک دانا دانشور نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کی کہ شاید علاقے میں سانپ بڑھ گئے ہوں جو مینڈکوں اور مینڈکیوں کو رغبت سے کھاتے ہیں۔لیکن ایک تو سانپوں کی تعداد پہلے کم ہوئی تھی بڑھی نہیں تھی دوسرے یہ کہ اگر ایسا ہوتا تو سانپوں کے’’مینو‘‘میں تو سب سے اوپر چوہے ہوتے ہیں وہ تو کم نہیں ہوئے بلکہ بڑھ گئے ہیں تو پھر؟۔ایک شخص نے انتہائی دور کی کوڑی لاتے ہوئے پاکستان اور ایک دوست ملک کی دوستی کو بنیاد بناکر یہ ہوائی اڑائی کہ شاید کچھ جرائم پیشہ عناصر نے مذکورہ مخلوق کو پکڑپکڑ کر اسمگل کرنا شروع کیا ہو کیونکہ اس سے پہلے گدھوں کی کھالوں کے سلسلے میں بھی ایسی ہی ہوائیاں اڑی تھیں لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ بندہ پریشان اللہ مہربان۔ہم بھی حیران وپریشان ہو رہے تھے کہ کوئی سراغ کوئی کلو اور کوئی کھرا نہیں مل رہا تھا کہ آخر ان مینڈکوں پر ایسی کیا بیتا آپڑی ہے کہ مسلسل مفقوط الخبر ہوتے جارہے ہیں۔ کہ اچانک ذہن میں ایک جماکا ہوا پھر دھماکا ہوا کہ جو آخر میں کھڑاکا ہوکر دھڑاکا ہو گیا۔اور یہ سب کچھ سامنے میز پر پڑے ہوئے اخبار کو دیکھ کر ہوا تھا۔پھر ہم نے انگلیوں پر کچھ حساب کرکے تاریخیں ملوائیں تو یہ راز کھلا کہ مینڈکوں کی نقل مکانی ٹھیک اس وقت شروع ہوئی ہے جب سے پاکستان میں حکومت، سیاست، جمہوریت، تجارت معیشت آئین اور قانون سب کچھ سمٹ کر ’’بیانات‘‘ میں مرتکز ہوا ہے۔
یعنی بیانات ہی بیانات پاکستان کی کل کائنات بن گئے ہیں۔ اخبارات اور چینلات میں بھی صرف بیانات ہی بیانات بیانات ہی بیانات اور ایک مرتبہ پھر بیانات ہی بیانات وہ ودیا بالن سے منسوب بات پھر دُم ہلانے لگی ہے۔اداکارہ ودیا بالن جس نے فلم پکچر میں تمام ڈرٹی پکچروں کا عطر مجموعہ پیش کیا تھا۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ ایک اچھی فلم کے لیے کیا ضروری ہے تو اس نے تین انگلیاں اٹھا کر کہا کہ اچھی فلم کے لیے تین چیزیں لازمی ہیں۔نمبر ایک انٹرٹینمنٹ نمبر دو انٹرٹینمنٹ اور نمبر تین انٹرٹینمنٹ۔اور یہی ہم پاکستانی سیاست،جمہوریت اور حکومت ہر ایک کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان تینوں کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں۔ بیانات، بیانات اور بیانات۔جسے مختصر کرکے ٹراں، ٹروں، ٹراں ٹروں اور ٹراں ٹروں بھی کہا جاسکتا ہے اب جب ہر طرف دائیں بائیں آگے پیچھے اور اوپر نیچے، ٹراں ٹروں ہی ہو تو بیچارے مینڈک بھاگیں گے نہیں تو کیا کریں گے۔
قہرخداوندی چشم گل عرف سوائین فلو نے تو خواہ مخواہ ہمارے بیچارے علامہ بریانی کو ٹراں ٹروں کے لیے ٹارگٹ کیا ہے۔یہ ٹراں ٹروں صرف ہمارے گاؤں یا علاقے کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک گیر صورت اختیار کرچکا ہے۔یقین نہ ہو تو ابھی اٹھ کر باہر نکلیے آنکھیں اور کان کھول کر دیکھیے اور سنیے اگر کہیں ایک بھی مینڈک یا مینڈکی دکھائی یا سنائی دے تو ہمارا نام بدل کر ’’معاون خصوصی‘‘ رکھ لیجیے۔ ارے ہاں یادش بخیر۔معاونین خصوصی سے یاد آیا کہ پہلے مرحلے میں جب بیانات کی وبا ہمارے ملک پر کرونا عرف کوئڈنائنٹین کی طرح نازل ہوئی تھی تو صرف مینڈک ہی راہ فرار اختیار کرنے لگے وہ بڑے بڑے زرد و سبز رنگ کے مینڈک جسے ہماری پشتو میں ’’بھاٹا‘‘ کہتے ہیں جو بھانڈ یا بھاٹ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔لیکن جب بیانات کے لیے یہ خصوصی مخلوق میدان میں آئی جسے معاونین خصوصی کہا جاتاہے۔تو وہ چھوٹی چھوٹی مینڈکیاں بھی بھاگ اٹھیں۔جو نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔اس لومڑی کی طرح جو جنگل میں بے تحاشا بھاگ رہی تھی کسی نے پوچھا بی لومڑی کیا ہوا جو اتنی سرپٹ دوڑ رہی ہو۔لومڑی نے کہا جنگل کے اس سرے پر قانون نافذ کرنے والے اونٹوں کو پکڑ رہے ہیں۔
پوچھنے والے نے کہا مگر تم تو اونٹ نہیں لومڑی ہو۔ لومڑی نے کہا ہاں میں ہوں تو لومڑی ہی لیکن اگر ان سے کسی نے جھوٹ موٹ بھی کہا یا خود ہی مجھے اونٹ کا بچہ سمجھ لیا اور مجھے پکڑ کرلے گئے تو جب تک میں خود کو لومڑی ثابت کروں گی تب تک وہ میری کوئی بھی کل سیدھی نہ چھوڑیں گے۔
مینڈکیوں نے بھی شاید اسی خدشے سے غائب غُلہ ہونا شروع کیا ہوگا کہ اگر ہمیں بھی بچہ مینڈک سمجھ کر پکڑلیا گیا تو جب تک خود کو مینڈکی ثابت کریں گے تب تک وہ چھترول کرکے اتنا سُجا چکے ہوں گے کہ ٹراں ٹروں بن چکے ہونگے اور ہمیں بھی معاون خصوصی بنا چکے ہوں گے۔بہرحال ہماری تحقیق مکمل ہوگئی کہ دو فقیر ایک کمبل میں تو گزارہ کرسکتے ہیں لیکن ایک ملک میں دو قسم کے ’’ٹراں ٹروں‘‘ نہیں چل پاتے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بیانات ہی بیانات رہی ہیں شروع کی میں بھی کے لیے
پڑھیں:
جنگ میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا!
معاصر اصطلاح میں جسے ’بین الاقوامی قانون‘ کہا جاتا ہے، وہ یورپ میں ’قومی ریاستوں کے نظام‘ (nation-state system) کی تخلیق ہے ۔ اس لیے اس کی تاریخ بہت مختصر ہے۔
بین الاقوامی قانونِ جنگ کی تاریخ
جنگ سے متعلق بین الاقوامی قانون کےلیے جس معاہدے کو ایک طرح سے نقطۂ آغاز سمجھا جاتا ہے، وہ 1864ء کا جنیوا معاہدہ ہے جس کے ذریعے یورپی اقوام نے آپس میں یہ طے کرلیا کہ جنگ میں زخمی ہونے والوں کی دیکھ بھال کی جائے گی اور اس مقصد کے لیے جنگ میں غیر جانب دار بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کو اپنا کام کرنے کے لیے ممکنہ سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
اسی دور کے لگ بھگ امریکی خانہ جنگی کے تناظر میں امریکی فوج کے لیے تیار کیے گئے ضابطے ’لِیبر کوڈ‘ کا بھی خصوصاً ذکر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں جاری کیے گئے ’اعلان‘ کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس میں قرار دیا گیا کہ ’جنگ کا واحد جائز مقصد فریقِ مخالف کو شکست دینا ہے، نہ کہ اسے ملیا میٹ کرنا‘۔
بین الاقوامی قانونِ جنگ کے ارتقا میں ہیگ میں 1899ء اور 1907ء میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں کا کردار بھی بہت اہم ہے کیونکہ ان کانفرنسوں کے ذریعے کوشش کی گئی کہ بین الاقوامی عرف اور تعامل سے اصول مستنبط کرکے انھیں باقاعدہ معاہدات کی صورت میں مدوَّن کیا جائے۔ پہلی جنگِ عظیم (1914ء-1918ء) میں جب پہلی دفعہ ہزاروں کی تعداد میں جنگی قیدیوں کا مسئلہ سامنے آیا، تو 1929ء میں ایک اور جنیوا معاہدہ طے پایا جس میں جنگی قیدیوں کے متعلق قانونی اصول ذکر کیے گئے۔
دوسری جنگِ عظیم (1939ء-1949ء) کے بعد ایک تفصیلی ڈپلومیٹک کانفرنس کے بعد 4 ضخیم جنیوا معاہدات طے پائے جنھیں اب قانون کے اس شعبے کے بارے میں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ان میں پہلا جنیوا معاہدہ بری جنگ میں زخمی، بیمار یا معذور ہونے والے فوجیوں کے حقوق سے متعلق ہے جبکہ دوسرا جنیوا معاہدہ بحری جنگ میں زخمی، بیمار یا معذور ہونے والے فوجیوں کے حقوق کے بارے میں ہے۔ تیسرا جنیوا معاہدہ جنگی قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے اور چوتھا جنیوا معاہدہ جنگ کے دوران میں غیر مقاتلین اور عام شہریوں کے تحفظ اور مقبوضہ علاقوں کے متعلق امور کے لیے ہے۔ ان 4 معاہدات کے ساتھ 1977ء میں 2 مزید معاہدات ملحق کیے گئے جنھیں ’اضافی پروٹوکول‘ کہا جاتا ہے۔ ان معاہدات کے ذریعے عام شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید پیش رفت ہوئی۔ کئی دیگر معاہدات کے ذریعے ہتھیاروں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ دیگر موضوعات (جیسے جنگ کے دوران میں تاریخی اور ثقافتی ورثے کی حفاظت) پر بھی معاہدات کے ذریعے قانون سازی کی گئی ہے۔ان معاہدات کے علاوہ ریاستوں کے تعامل اور عرف سے بھی بین الاقوامی قانون کے اس شعبے سے متعلق اہم اصول معلوم ہوتے ہیں۔
تفہیم میں آسانی کی خاطر آداب القتال کے بین الاقوامی قانون کو 2 بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
ایک، ’قانون جنیوا‘ جو مسلح تصادم سے متاثر ہونے والے افراد کا تحفظ کرتا ہے؛ ان افراد میں عام شہری، زخمی، بیمار اور معذور جنگجو اور جنگی قیدی، نیز مقبوضہ علاقوں کے رہنے والے شامل ہیں؛ اور
دوسری قسم کو ’قانون ہیگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ قانون جنگ کے طریقوں اور ہتھیاروں کی تحدید کرتا ہے ۔
اس قانون کا اطلاق کب ہوتا ہے؟
اس قانون کا اطلاق ’مسلح تصادم‘ پر ہوتا ہے۔ چنانچہ جس صورتِ حال کو مسلح تصادم نہ کہا جاسکے، اس پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ 1949ء کے 4 جنیوا معاہدات میں یہ بنیادی اصول ذکر کیا گیا ہے کہ جب کسی ریاست کی جانب سے جنگ کا اعلان ہو، تو جنیوا معاہدات اور دیگر قوانین کا اطلاق ہوتا ہے، خواہ عملاً ایک گولی بھی نہ چلائی گئی ہو، اور خواہ جنگ میں حصہ لینے والی ریاستوں میں کوئی ریاست حالتِ جنگ سے انکاری ہو۔ مزید قرار دیاگیا ہے کہ جب کسی ریاست پر قبضہ ہو تو اسے مسلح تصادم کے مفہوم میں شامل سمجھا جاتا ہے اور مسلح تصادم کی یہ صورت اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک قبضہ برقرار ہے۔
مقبوضہ یا استعماری تسلط کے تحت علاقوں (Occupied or Colonial Territories) میں کی جانے والی مسلح مزاحمت کو قابض یا استعماری ریاست کا ’اندرونی معاملہ‘ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ قانون اسے ’بین الاقوامی مسلح تصادم‘ قرار دیتا ہے ۔ یہی اصول ان علاقوں کے لیے ہے جن کےلیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے آزادی کا حق تسلیم کرلیا ہو۔ نیز پہلے اضافی پروٹوکول نے آزادی کی جنگ لڑنے والوں کےلیے ’مقاتل‘ (combatant) کی حیثیت بھی تسلیم کی ہے اور یہ بھی قرار دیا ہے کہ مخالف فریق کی قید میں آنے پر ان کو ’جنگی قیدی‘ کی حیثیت حاصل ہوگی۔ جنگی قیدی وہ ہوتے ہیں جنھیں سزا کے طور پر قید نہ کیا گیا ہو، بلکہ جنگ میں مزید حصہ لینے سے روکنے کےلیے قید کیا گیا ہو، اور جنگ کے خاتمے پر انھیں آزاد کرانا لازم ہوتا ہے۔ انھیں صرف قانونِ جنگ کی خلاف ورزی پر سزا دی جاسکتی ہے، اور وہ بھی باقاعدہ مقدمہ چلا کر اور صفائی کا پورا موقع دینے کے بعد۔
جنیوا معاہدات کی صرف دفعہ 3 ، جو ان چاروں معاہدات میں مشترک ہے ، کا اطلاق کسی ملک کے اندر مسلح تصادم، یعنی خانہ جنگی یا بغاوت، پر بھی ہوتا ہے۔ تاہم کسی ریاست کے اندر حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو ’مسلح تصادم‘ نہیں کہا جاسکتا، خواہ وہ مظاہرے پُرتشدد بھی ہوں ۔ البتہ بعض علامات ایسی ہیں جن کی بنا پر ایسی صورتحال کو ’امن و امان کا مسئلہ‘ قرار دینے کے بجائے مسلح تصادم کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ کسی علاقے میں اپنی حکومت قائم کرلیں اور مرکزی حکومت کی باقاعدہ مزاحمت کریں؛ یا’شر پسندوں ‘ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے فوج کو باقاعدہ تمام اختیارات دے دیے ہوں ؛ یا مزاحمت کا سلسلہ ایک طویل عرصے پر محیط ہوجائے ؛ یا مزاحمت میں ہونے والا جانی و مالی نقصان بہت زیادہ ہو؛ یا حکومت خود تسلیم کرلے کہ یہ محض امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے ۔
اس قانون کے بنیادی اصول
مسلح تصادم پر لاگو ہونے والے قانون کی تفصیلات تو بہت ہیں، لیکن ان تفصیلات کوچند بنیادی اصولوں کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
اس قانون کا اولین اور بنیادی اصول ’انسانیت‘ ہے۔ یہ قانون قرار دیتا ہے کہ جنگ کے دوران میں بھی انسانیت کی حدود کی پابندی لازم ہے ۔ مثال کے طور پر اگر لڑنے والا ہتھیار ڈال دے، یا زخمی ہوجائے ، یا معذور ہوجائے ، یا کسی اور وجہ سے جنگ سے باز آجائے (hors de combat)، تو پھر اس پر حملہ ناجائز ہوجاتا ہے۔
اسی اصول کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر ’تمییز‘ (distinction) کا بنیادی اصول مانا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حملے کے دوران میں جائز اور ناجائز ہدف میں فرق کیا جائے ۔ چنانچہ دشمن کے فوجی ٹھکانوں پر حملہ جائز ہے، جبکہ شہری آبادی ، اسپتالوں ، اسکولوں ، بازاروں اور عبادت گاہوں پر حملہ ناجائز ہے۔ اسی طرح ایسے حملے ناجائز ہیں جن میں فوجی اور غیر فوجی دونوں کے نشانہ بننے کا احتمال ہو۔ اسی اصول پر ایسے ہتھیاروں کا استعمال بھی ناجائز ہے جن کا اثر صرف دشمن کے فوجیوں تک ہی محدود نہ ہو ، مثلاً کیمیائی ہتھیار۔
تاہم اگر جنگی حملے میں انسانیت اور تمییز کے اصولوں کی پابندی کی گئی ہو اور غیر مقاتلین کو دانستہ ہدف نہ بنایا گیا ہو، بلکہ حملے کو مقاتلین تک محدود رکھنے کےلیے ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہو، تو یہ قانون جنگ ایسے حملے کو جائز قرار دیتا ہے، خواہ اس کے نتیجے میں بعض غیر مقاتلین نادانستہ طور پر نشانہ بن جائیں۔ اسے فوجی ضرورت (military necessity) کا اصول کہتے ہیں۔ ایسے حملوں میں عام شہریوں کو پہنچنے والے ضرر کو ’ضمنی نقصان‘ (collateral damage) کے طور پر برداشت کیا جاتا ہے۔
فوجی ضرورت کے اس اصول کو انسانیت اور تمییز کے اصولوں کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے، تو نتیجے کے طور پر’تناسب کا اصول‘ سامنے آجاتا ہے ۔ اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ جنگ میں دشمن کو صرف اتنا ہی نقصان پہنچایا جائے جتنا اس کے حملے کی پسپائی، یا اس پر فتح کے حصول، کے لیے ضروری ہو۔ گویا جنگ کا مقصد دشمن کا صفایا کرنا (extermination) نہیں ہونا چاہیے۔ اس اصول کی بنیاد پر ایسے ہتھیاروں یا طریقوں کا استعمال بھی ناجائز ہوجاتا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائیں ، یا جو غیر ضروری اذیت دیں ، خواہ ان کا استعمال دشمن کے فوجیوں پر ہی ہو۔
بین الاقوامی قانون نے بالعموم 2ریاستوں کے مابین تعلقات کے ضمن میں ’برابر کے بدلے‘ (reprisal) کے اصول کو تسلیم کیا ہے، لیکن حملے کے ہدف کےلیے اس اصول کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ چنانچہ اگر ایک فریق عام شہریوں کو نشانہ بنائے، تب بھی دوسرے فریق کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ جواباً پہلے فریق کے عام شہریوں کو نشانہ بنائے۔ اگر اس نے ایسا کیا، تو یہ اسی طرح کا جرم ہوگا جیسے فریق اول کا فعل جرم تھا ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قانون کا ایک اور مسلمہ اصول ’جرم کے ارتکاب کے لیے انفرادی ذمہ داری‘ (Individual Criminal Responsibility) ہے ۔ اس اصول کے مطابق ہر فرد اس قانون کی خلاف ورزی کے لیے انفرادی طور پر ذمہ دار ہے۔ مثال کے طور اگر کسی کمانڈر کے حکم کی اطاعت میں ماتحتوں نے کسی عبادت گاہ پر حملہ کرکے اسے مسمار کردیا، تو ماتحت یہ عذر نہیں پیش کرسکتے کہ وہ اس مجرمانہ فعل کے ارتکاب پر مجبور تھے کیونکہ ان پر لازم تھا کہ وہ اپنے کمانڈر کا حکم مانیں ۔ اگر عدالت میں ثابت کیا گیا کہ ماتحت عملاً اس کام پر مجبور تھے اور انھوں نے نہ چاہتے ہوئے اس کام کا ارتکاب کیا، تب بھی وہ سزا سے نہیں بچ سکیں گے ۔ البتہ اس بنیاد پر ان کی سزا میں تخفیف کی جاسکے گی ۔ اسی طرح کمانڈر اپنے تمام افعال کے لیے بھی ذمہ دار ہوتا ہے اور اپنے ماتحتوں کے افعال کے لیے بھی۔ پس اگر کسی کمانڈر کے ماتحتوں نے کسی علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں کی آبادی پر مظالم ڈھائے، تو کمانڈر لاعلمی کا عذر نہیں پیش کرسکتا۔
پس جنگ میں ’سب کچھ‘ جائز نہیں ہے ، بالکل اسی طرح جیسے محبت میں بھی ’سب کچھ‘جائز نہیں ہوتا ؛ یقین نہیں، تو کرکے دیکھ لیں!
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔