دہشت گردی کے خاتمے کا عزم
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
سیکیورٹی فورسز نے جنوبی وزیرستان میں خفیہ اطلاع پرکامیاب کارروائی کرتے ہوئے 30 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ سیکیورٹی فورسز نے ضلع سراروغہ میں خوارج کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کیا، اس دوران دہشت گردوں کے ٹھکانے کو موثر طریقے سے نشانہ بنایا، علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے فورسزکو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری فورسز ہر دن دہشت گردی کے مکمل سدباب کے ہدف کے قریب تر جا رہی ہیں۔ قوم کے بیٹوں کی عظیم قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جائیں گی۔
بلاشبہ ہماری سیکیورٹی فورسز دہشت گرد عناصر کے مذموم عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہیں اور ان کے خلاف کامیاب کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاک فوج نے جس طرح ماضی میں پاک وطن کو امن کا گہوارہ بنایا تھا، آیندہ بھی ایسے ہی اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے پاکستان کا عزم ہمیشہ فولادی اور غیر متزلزل رہا جو خطے اور عالمگیر امن کی خاطر اس کے انتھک ارادے اور ثابت قدمی کی روشن دلیل ہے۔
درحقیقت افغان طالبان پر تشدد کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ (افغان) طالبان حکام کا ٹی ٹی پی پر لگام ڈالنے سے انکار ہے، جب کہ یہ تنظیم وہاں سے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، دوسری جانب بلوچستان میں تشدد میں حالیہ اضافہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک بیرونی کوشش معلوم ہوتی ہے۔
افغانستان میں طالبان حکام ٹی ٹی پی کو دہشت گردی کے لیے لاجسٹک اسپیس فراہم کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی سے پاکستان، ایران سمیت پورے خطے کو خطرات لاحق ہیں، طالبان کی عبوری حکومت کے آنے کے بعد گزشتہ 4 برس میں پاکستان میں دہشت گردی کے 600 کے قریب حملے ہوئے ہیں، افغانستان میں اس وقت القاعدہ اور داعش کے گروہ، بی ایل اے کا مجید بریگیڈ گروپ سرگرم ہیں۔
روس، چین اور پاکستان کا افغانستان میں کردار اہم ہے۔ افغانستان میں کچھ بھی ہو تو اس کے اثرات پاکستان، روس اور ایران پر ضرور آتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے بعد دیکھنا پڑے گا کہ یہ ممالک اب کیا کرتے ہیں، اس حوالے سے پاکستان نے آواز اٹھائی ہے۔ افغان طالبان کے پاس وسائل اور اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی کارروائیاں کرسکیں، ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو بھی بھارت بھاری فنڈنگ کر رہا ہے، کروڑوں ڈالرز کا جدید امریکی اسلحہ القاعدہ اور طالبان حکومت کے پاس موجود ہے۔
آج کل خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشت گردوں کا خاص ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں، ان کے ٹریننگ کیمپ پاکستان سے باہر ہیں، یہ لوگ سیکیورٹی فورسز اور عوام کو نشانہ بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بہت طاقتور ہیں۔ 2020کے قریب پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ملک میں دہشت گردی پر قابو پا لیا تھا مگر 15اگست 2021میں افغانستان میں اقتدار طالبان کے ہاتھ آیا اور ہزاروں افراد کو رہا کیا گیا تو دوبارہ دھماکے شروع ہو گئے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں زیادہ تر بلوچستان اور شمالی علاقہ جات میں دیکھنے میں آرہی ہیں جہاں ملک دشمن عناصر علیحدگی کی تحریک میں ملوث ہیں جنھیں بھارت اور افغانستان کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے۔ کابل انتظامیہ پاکستان میں موجود دہشت گردوں اور خوارج کی نہ صرف بھر پور سر پرستی کر رہی ہے بلکہ انھیں افغانستان میں امریکا کا چھوڑا گیا جدید اسلحہ بھی فراہم کر رہی ہے جسے دہشت گرد ہماری سیکیورٹی فورسز کے خلا ف استعمال کر رہے ہیں۔ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر ایک ہی ہیں۔
بی ایل اے اور دیگر بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کا آپس میں اتحاد ہے اور ان کا ایجنڈا پاکستان کی وحدت و سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے۔ امریکا افغانستان سے نکلتے ہو ئے جو اسلحہ پیچھے چھوڑ گیا تھا وہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے، بی ایل ایف اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جسے وہ پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
یہ گروپس کسی بھی صورت پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ خیبر پختونخوا میں ان دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں سے صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ اب صوبے کے عوام حکام سے ان دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کارروائیوں سے ان کے کاروبار اور معمولاتِ زندگی متاثر ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والے حالیہ واقعات اس امر کی دلیل ہیں کہ پاکستان کے دشمن ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ بلوچ قومیت کے نام پر جس طرح دہشت گردی کی جا رہی ہے اس سے عام بلوچ شہری کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس میں مٹھی بھر عناصر شامل ہیں جو بھارت کی شہ، اسلحہ اور پیسہ ملنے کی بنا پر اس طرح کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان طالبان بدستور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردوں کے حملے بڑھ رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور طاقت برقرار ہے، 2024کے دوران اس نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے جن میں سے کئی افغان سر زمین سے کیے گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ماہانہ 43 ہزار ڈالرز فراہم کر رہے ہیں، تنظیم نے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں نئے تربیتی مراکز قائم کیے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ٹی ٹی پی، القاعدہ برِصغیر (AQIS) اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں مل کر ’تحریکِ جہاد پاکستان‘ (ٹی جے پی) کے بینر تلے حملے کر رہی ہیں جس سے یہ تنظیم علاقائی دہشت گرد گروپوں کا مرکز بن سکتی ہے۔پاکستان میں سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں مارے جانے والے دہشت گردوں میں افغان شہریوں کی شناخت سامنے آنے کے باوجود افغان عبوری حکومت تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تھی کہ پاکستان میں معصوم لوگوں اور فوج کی سرحدوں پر قائم چوکیوں پر حملے افغانستان سے آپریٹ ہو رہے ہیں۔
افغان عبوری حکومت کی اسی ہٹ دھرمی اور بلوچستان، کے پی کے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر ہی پاکستان کی حکومت نے غیر قانونی طورپر پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کو اکتوبر 2023میں 30دن کے اندر اندر پاکستان چھوڑنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ کیونکہ پاکستان کے عوام میں افغان مہاجرین کے خلاف اشتعال بڑھتا جارہا تھا۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی دو وجوہات تھی۔ ایک تو دہشت گردوں کی ملک میں سہولت کاری میں افغان مہاجرین ملوث پائے گئے تھے۔
علاوہ ازیں مارے گئے دہشت گردوں کی بطور افغان شہری شناخت کے باوجود کابل میں افغان طالبان کی ’’میں نہ مانوں‘‘ پر مبنی پالیسی بھی پاکستانی عوام میں غصے کا سبب تھی۔ اوپر سے افغان مہاجرین بڑے پیمانے پر پاکستان سے ڈالر افغانستان اسمگل کرنے میں پائے گئے تھے جس کی باقاعدہ وڈیوز تیار کرکے سوشل میڈیا پر وائرل کی جاتیں اور پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا۔ پاکستان میں یقیناً خونریزی کے ساتھ یہاں سے ڈالروں کی شکل میں کرنسی کی منتقلی بھی معاشی دہشت گردی سے کم نہیں تھی۔
پاکستان کے عوام حق بجانب تھے کہ اگر افغانستان میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوچکی ہیں اور افغان کرنسی پاکستانی روپے کے مقابلے میں مضبوط اور مستحکم ہے تو پھر 4 ملین سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان سے چلے کیوں نہیں جاتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد جب عرب ریاستوں یا مغربی ممالک کا رخ کرتے تو پاکستان کا احسان مند ہونے کے بجائے باہر کے ملکوں میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف شر انگیز بیان بازی کرتے۔ افغان عبوری حکومت نے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث عناصر کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم کر رکھے ہیں اور افغانستان کی زمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے۔
ملک بھر میں بگڑتی ہوئی امن و امان اور سیکیورٹی کی صورتحال سے فوری طور پر نمٹنا ناگزیر ہو چکا ہے مگر عسکری قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کو بھی اپنی ذمے داریوں کا بوجھ اُٹھانا چاہیے۔ نیشنل ایکشن پلان میں سیکیورٹی اداروں، وفاق اور صوبائی حکومتوں سب کی ذمے داریاں متعین ہیں۔ ضرورت ہے کہ سیاسی قیادت اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھے اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے یکسوئی اختیارکرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں دہشت سیکیورٹی فورسز افغانستان میں افغان مہاجرین افغان طالبان دہشت گردی کے عبوری حکومت پاکستان کے کہ پاکستان کر رہے ہیں میں افغان بی ایل اے متحدہ کی فراہم کر ٹی ٹی پی کے خلاف رہی ہے ہی ہیں
پڑھیں:
پاکستان نے افغان باشندوں کے ساتھ ناروا سلوک کے افغانستان کے دعوے مسترد کر دیے
اسلام آباد:پاکستان نے افغانستان کے عبوری حکام کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ غیرقانونی افغان باشندوں کو واپس بھیجنے کے دوران ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی عزت اور وقار کے ساتھ میزبانی کی ہے اور افغان باشندوں کے ساتھ روایتی مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات فراہم کیں حالانکہ بین الاقوامی تعاون بہت کم تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ غیرقانونی طور پر رہنے والے غیرملکیوں کی واپسی کا عمل 2023 میں شروع کیا گیا، جس کے دوران یہ یقینی بنایا گیا کہ کسی کے ساتھ بدسلوکی یا ہراساں نہ کیا جائے۔
وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ افغان شہریوں کی آسانی سے وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے افغان حکام کو بھی اس عمل میں شامل کیا گیا۔ ترجمان نے افغان حکام کے دعووں کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان باشندوں کے ساتھ انسانی رویہ اپنایا ہے۔
ترجمان نے عبوری افغان حکام سے اپیل کی کہ وہ افغانستان میں ایسے حالات پیدا کریں جو واپس آنے والے افغان باشندوں کے لیے سازگار ہوں تاکہ وہ معاشرے میں مکمل طور پر ضم ہو سکیں۔ بیان میں کہا گیا کہ افغان حکام کا اصل امتحان یہ ہوگا کہ وہ ان لوگوں کے حقوق کو یقینی بنائیں، جن کا ذکر افغان حکام نے کیا ہے۔
پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ افغان حکام کو اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہییں، نہ کہ پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے کی ضرورت ہے۔وزارت خارجہ کے بیان میں واضح کیا گیا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے قوانین اور ضوابط کا احترام بھی ضروری ہے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب افغان حکام نے پاکستان پر غیرقانونی افغان باشندوں کے ساتھ ناروا سلوک کے الزامات عائد کیے تھے۔ پاکستان نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغان شہریوں کے ساتھ ہمیشہ انسانی اور مہمان نوازی کا رویہ اپنایا گیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ تنازع دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک نئی کشیدگی کا باعث بنا ہے،تاہم پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ مثبت تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے قومی مفادات اور قوانین کا تحفظ بھی ضروری ہے۔
اس تنازع کے پس منظر میں دونوں ممالک کے درمیان مزید مذاکرات اور بات چیت کی ضرورت ہے تاکہ اس مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔ پاکستان نے اپنی پالیسیوں میں شفافیت اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے جب کہ افغان حکام سے بھی اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کی توقع کی گئی ہے۔