غزہ کی تعمیر نو کیلئے 53 ارب ڈالر درکار ہے، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر (UNOSAT) کی طرف سے کئے گئے نقصان کے تخمینے کے مطابق 1 دسمبر تک پٹی میں تقریباً 69 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں جن کی مجموعی تعداد 170,812 تک پہنچ گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور ورلڈ بینک کی طرف سے جاری کردہ ایک جائزے میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کی تعمیر نو کی ضروریات، غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ اور مغربی کنارے میں فوجی آپریشن کے 15 ماہ بعد تعمیر نو کی لاگت 53 بلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ ابتدائی نقصان اور ضروریات کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ اگلے دس سالوں میں بحالی اور تعمیر نو کے لیے 53.
اقوام متحدہ کی ایک پچھلی رپورٹ کے مطابق محصور پٹی پر اسرائیلی بمباری جدید تاریخ میں بدترین تباہی کا باعث بنی ہے۔ گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر (UNOSAT) کی طرف سے کئے گئے نقصان کے تخمینے کے مطابق 1 دسمبر تک پٹی میں تقریباً 69 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں جن کی مجموعی تعداد 170,812 تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 36 ہسپتالوں میں سے صرف 18 ہسپتال 50 فیصد کے ساتھ جزوی طور پر کام کر رہے ہیں جن کی کل گنجائش 1,800 بستروں سے زیادہ نہیں۔ یکم دسمبر تک یونیسیف نے کم از کم 496 سکولوں یا 564 رجسٹرڈ سہولیات میں سے تقریباً 88 فیصد کی تباہی کی تصدیق کی ہے۔ زرعی اثاثوں کو اتنا نقصان پہنچا ہے کہ 2024ء کے اوائل تک نقصان کا تناسب 80 فی صد اور 96 کے درمیان ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ غزہ کی
پڑھیں:
طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان میں نافذ کیے گئے اخلاقی قوانین پر ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں ان قوانین کے نتیجے میں خواتین اور عام شہریوں کے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) کی رپورٹ کے مطابق، اگست 2024 سے طالبان حکومت کی جانب سے قائم کردہ وزارت "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے تحت افغان عوام پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس وزارت نے ملک کے 28 صوبوں میں 3,300 سے زائد اہلکار تعینات کیے ہیں اور ہر صوبے میں گورنر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں تاکہ ان ضوابط کو زبردستی نافذ کیا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، خواتین کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت، تعلیم، کاروبار اور عوامی زندگی میں شمولیت پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ صرف محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت سے خواتین کی آمدنی میں کمی، کاروباری روابط میں رکاوٹ اور فلاحی اداروں کی امدادی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے انکشاف کیا کہ 98 فیصد علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بند ہے جبکہ خواتین کی عوامی وسائل تک رسائی 38 فیصد سے بڑھ کر 76 فیصد تک محدود ہو چکی ہے۔ مزید برآں، 46 فیصد خواتین کو فیلڈ وزٹ سے روکا گیا اور 49 فیصد امدادی کارکنان کو مستحق خواتین سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کی یہ پالیسیاں نہ صرف عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ ایک مکمل ریاستی جبر کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ یہ سوال اب شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عالمی برادری ان مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا کوئی عملی اقدام کرے گی؟