یورپی یونین کا روس کے خلاف پابندیوں کے 16ویں پیکج پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 فروری 2025ء) یورپی یونین نے روس کے خلاف پابندیوں کے 16ویں پیکج پر اتفاق کر لیا ہے۔ برسلز کی جانب سے یہ اقدام ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب 24 فروری کو ماسکو کے کییف پر حملے کا تیسرا سال مکمل ہو نے والا ہے۔
یورپی یونین روسی تیل کے ٹینکروں کے اس ''شیڈو فلیٹ‘‘ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو روسی توانائی کے شعبے پر عائد پابندیوں سے بچنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔
تازہ پابندیوں میں روسی ایلومینیم کی پیداوار کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ یورپی یونین کی صدارت کرنے والے ملک پولینڈ کے وزیر خزانہ آندریج ڈومانسکی نےکہا کہ یوکرین کے خلاف اس جارحیت کی تیسری برسی کے موقع پر ان اقدامات کی منظوری ''لازمی‘‘ تھی۔(جاری ہے)
یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیر لائن نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ پابندیوں کے اس پیکج کو بلاک کے وزرائے خارجہ کے ذریعے باضابطہ طور پر قبول کیا جانا چاہیے، ''ہم کریملن پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
‘‘یوکرین پر نئے مذاکرات پیرس میں
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں آج بروز بدھ کو یوکرین پر منعقدہ ایک اور اجلاس کی میزبانی کر رہے ہیں، جس میں کئی یورپی اور غیر یورپی ممالک شامل ہوں گے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اس اجلاس میں ناروے، کینیڈا، لتھوانیا، ایسٹونیا، لٹویا، جمہوریہ چیک، یونان، فن لینڈ، رومانیہ، سویڈن اور بیلجیم کو مدعو کیا گیا ہے۔
روئٹرز نے مزید کہا کہ میٹنگ کا فارمیٹ ہائبرڈ ہو گا، جس میں ویڈیو لنک کے ذریعے بھی شرکت کی جا سکتی ہے۔ ماکروں نے اس سے قبل پیر کے روز برطانیہ، جرمنی اور اٹلی سمیت کئی دیگر ممالک کی شرکت کے ساتھ یوکرین کی صورتحال پر ایک ہنگامی میٹنگ کی میزبانی کی۔ اس اجلاس میں مغربی ممالک کے فوجی اتحاد نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) اور یورپی یونین کے نمائندے بھی موجود تھے۔
روسی ڈرون حملے کے بعد اوڈیسا کا بیشتر حصہ بجلی سے محروم
اسی دوران یوکرین کے جنوبی بندرگاہی شہر اوڈیسا کے میئر ہینادی تروخانوف نے کہا کہ روسی افواج کے حملے میں شہر کے زیادہ تر رہائشی علاقے بجلی، پانی یا گھروں میں گرمائش کی سہولتوں سے محروم ہو گئے۔ تروخانوف نے میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر لکھا، ''ہسپتال، کلینک اور سماجی انفراسٹرکچر سائٹس کو گرمائش کی سہولت سے محروم کر دیا گیا ہے۔
‘‘انہوں نے کہا کہ اوڈیسا پر ''بڑے پیمانے پر حملہ‘‘ کیا گیا۔ تروخانوف نے ان عمارتوں کی تصویریں پوسٹ کیں، جن میں کھڑکیاں اڑ گئی تھیں اور ان کی بیرونی سطح کو نقصان پہنچا تھا۔ انہوں نے ہلاکتوں کا کوئی ذکر نہیں کیا اور کہا کہ ماہرین نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں۔
ش ر⁄ ا ا ( اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، رؤئٹرز)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یورپی یونین گیا ہے کہا کہ
پڑھیں:
مینو” سے “میز” تک، دنیا کو بیداری کی ضرورت ہے، رپورٹ
مینو” سے “میز” تک، دنیا کو بیداری کی ضرورت ہے، رپورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 18 February, 2025 سب نیوز
بیجنگ :میونخ سیکیورٹی کانفرنس 2025 کی اختتامی تقریب میں کانفرنس کے چیئرمین کرسٹوف ہوئزگن نے روتے ہوئے کہا کہ امریکی نائب صدر وینس کی تقریر کے بعد ہمیں فکر مند ہونا پڑے گا کہ ہماری مشترکہ اقدار کی بنیاد اب مضبوط نہیں رہی۔اس منظر نے یورپیوں کو، جو ہمیشہ یہ سوچتے تھے کہ وہ امریکہ کے ساتھ میز پر بیٹھ کر عالمی ضیافت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، یہ احساس دلایا کہ ایسا لگتا ہے کہ انہیں امریکہ کی طرف سے میز سے باہر نکالا جا رہا ہے، جبکہ روس اور یوکرین کے درمیان تنازعے میں پھنسے ہوئے یوکرین نے پایا کہ وہ انکل سیم کی دعوت کے مینو پر صرف ایک پکوان ہیں۔ وینس کی ظالمانہ تقریر، اور ہوئزگن کے آنسوؤں نے یونی پولر دنیا کی سرد اور ظالمانہ فطرت کو بے نقاب کر دیا: امریکہ نے ہمیشہ دنیا کو “مینو” پر ایک پکوان کے طور پر دیکھا ہے، جبکہ دوسرے ممالک ایک ساتھی یا ویٹر بن سکتے ہیں، یا انہیں کسی بھی وقت ذبح کر کے کھایا جا سکتا ہے.
“یوکرین امن منصوبہ” جسے ٹرمپ انتظامیہ نے اجلاس سے پہلے پیش کیا تھا ،اسے “مینو اسٹائل ڈپلومیسی” کا نمونہ کہا جا سکتا ہے: یہ منصوبہ بظاہر “جنگ بندی کا معاہدہ” ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دوسروں کے مفادات کی قیمت پر بڑی طاقتوں کے درمیان مفادات کی تقسیم ہے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ “سیکیورٹی گارنٹی” کے نام پر یورپ پر اپنی دفاعی بالادستی پر کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ متعلقہ فریقوں کو مذاکرات سے باہر رکھا گیا ہے اور یورپ کو روس اور یوکرین کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی کیتھ کیلوگ نے ‘ایک مخصوص امن عمل پر عمل درآمد کرنے سے قاصر’ قرار دیا ہے۔ یہ منظر 20 ویں صدی کے 60 کی دہائی میں کیوبا کے میزائل بحران کی یاد دلاتا ہے، جب امریکہ اور سابق سوویت یونین نے براہ راست ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے ، جس میں سوویت یونین نے کیوبا پر حملہ نہ کرنے کے امریکہ کے وعدے کے بدلے کیوبا سے اپنے میزائل واپس لے لیے تھے، اور امریکہ نے یورپ سے یورپی اتحادیوں کی حفاظت کرنے والے’’ جوپیٹر میزائلوں‘‘ کو واپس لے لیا تھا،
جب کہ کیوبا اور امریکہ کے یورپی اتحادیوں کو چھوڑ دیا گیا تھا۔ دونوں میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ ہے کہ چھوٹے ممالک کے مفادات بڑی طاقتوں کے معاہدوں سے نگل جاتے ہیں اور نام نہاد “امن” طاقتوروں کے مفادات کی تنظیم نو سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس بار، جب یورپ نے اختلاف رائے کا اظہار کرنے کی کوشش کی، وینس نے “یورپی اقدار کے انحطاط” کی طرف انگلی اٹھائی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یورپ کی سلامتی کی بے چینی صرف ایک بلاوجہ چیخ ہے، اور یہ کہ یورپ کو سب سے بڑا خطرہ خود یورپ سے ہے۔ “متاثرین کے جرم” کا یہ بیانیہ یونی پولر بالادستی کا ایک عام بیانیہ ہے۔امریکہ کی “مینو منطق” کی ایک طویل تاریخ ہے، چاہے وہ افغانستان ہو، شام ہو، فلسطین اسرائیل تنازعہ ہو یا اب روس-یوکرین تنازعہ، ہر بار امریکہ نے خود کو “شیف” کے طور پر دیکھا ہے، اپنے مخالفین اور یہاں تک کہ اپنے اتحادیوں کو بھی ضیافت کی میز پر لایا ہے۔ ایک طرف انہوں نے مطالبہ کیا کہ یورپ زیادہ دفاعی اخراجات برداشت کرے اور یورپ سے فوجیں واپس بلانے کی دھمکی دی اور دوسری طرف اس نے یوکرین پر دباؤ ڈالا کہ وہ امریکہ کی جانب سے وضع کردہ مذاکراتی معاہدے کو قبول کرے اور ساتھ ہی یوکرین کو نایاب زمینی وسائل اور دوسرے طریقوں سے امریکہ کی طرف سے تمام امداد کا معاوضہ دینے پر مجبور کیا ۔ اجلاس کی افراتفری اور آنسو دراصل پرانے عالمی حکمرانی نظام کا ایک مرثیہ ہے ۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیئن نے کہا کہ “یورپ کو اپنا دفاع مضبوط کرنا ہوگا”، فرانس نے فوری طور پر ایک آزاد سلامتی کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے یورپی سربراہی اجلاس بلایا، اور یوکرین کے صدر زیلنسکی نے “یورپی فوج” کی تشکیل کی تجویز پیش کی – یہ اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ یورپ کو امریکہ پر انحصار کرنے کی قیمت کا احساس ہو گیا ہے.کثیر القطبی دنیا کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک، چاہے وہ بڑے ہوں یا چھوٹے، مضبوط ہوں یا کمزور، بین الاقوامی نظم و نسق اور قواعد کی تشکیل اور برقراری میں مساوی بنیادوں پر “باورچیوں” کی حیثیت سے حصہ لیں۔چین کی چھنگ ہوا یونیورسٹی میں سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی ڈپٹی ڈائریکٹر شیاؤ چھیئن کا ماننا ہے کہ دنیا ملٹی پولرائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے، جو ایک تاریخی ضرورت اور حقیقت دونوں ہے۔
چین سمیت بہت سے ممالک طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں اور بین الاقوامی میدان میں تیزی سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اجلاس کے دوران بہت سے یورپی ماہرین اور اسکالرز نے چین کے ساتھ بات چیت کرنے اور مشترکہ طور پر عالمی مسائل کا حل تلاش کرنے میں پہل کی۔شیاؤ چھیئن نے نشاندہی کی کہ آج کی افراتفری کی دنیا میں چین نے ہمیشہ اس بات کی وکالت کی ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق سنبھالا جانا چاہئے اور دنیا میں سب سے بڑا اتفاق رائے تلاش کرنا ہے ، جو کثیر القطبی دنیا کی تعمیر کا اہم سنگ بنیاد ہے۔ہوئزگن کے آنسو محض جذباتی آنسو نہیں ہونے چاہئیں بلکہ بیداری کے محرک ہونے چاہئیں۔ جب دنیا “مینو سیاست” کے حقیقت کو سمجھ لیتی ہے،تو یہ ماننا پڑےگا کہ صرف کثیر قطبیت کے عمل کو فروغ دے کر ہی ہر ملک “پکوان” سے “شیف” میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ بہرحال، حقیقی امن کبھی دوسروں کی طرف سے نہیں دیا جاتا ہے، بلکہ مساوی مکالمے اور چیک اینڈ بیلنس سے پیدا ہوتا ہے – اور یہ شاید سب سے بڑا اور اہم انکشاف ہے جو میونخ سیکیورٹی کانفرنس نے دنیا پر چھوڑا ہے۔