ہندوستان و طالبان۔۔۔۔۔ یہ سب کہانیاں ہیں
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: آج کے اس کالم میں اپنے پالیسی ساز اداروں سے ہمارا یہ تقاضا ہرگز نہیں ہے کہ مستقبل میں پیش آنیوالی مشکلات کیلئے کوئی منصوبہ بندی کریں بلکہ ہماری تو دست بستہ گزارش یہ ہے کہ کم از کم اپنی آنکھوں کے سامنے موجودہ مشکلات اور موجودہ دشمنوں سے تو ملک اور عوام کو تحفظ دیں۔ کہیں پر بھی ریاستی رِٹ کے مذاق بن جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو حکمران عقل کے اندھے ہیں اور یا پھر عقل کے اندھوں کے ہاتھ میں حکومت آگئی ہے، باقی ہندوستان و طالبان۔۔۔ یہ سب کہانیاں ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
کیا پاکستان کے صوبے براہِ راست بین الاقوامی مذاکرات کرنے اور اپنی خارجہ پالیسی طے کرنے میں خود مختار ہیں۔؟ ایک طرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں افغانستان و بھارت ہماری ریاستی رِٹ کیلئے چیلنج بن چکے ہیں اور دوسری طرف خیبر پختونخوا کی حکومت بیرسٹر محمد علی سیف کی سربراہی میں اپنے دو وفد طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کیلئے افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ ایک وفد کے بارے میں شنید ہے کہ وہ سفارتی معاملات طے کرے گا اور دوسرا وفد ایسے اسٹیک ہولڈرز کا ہے، جو اللہ ہی جانے کیا کریں گے۔ ملکی تاریخ میں، صوبوں کی طرف سے ایسی انوکھی پلاننگ پہلے کبھی سامنے نہیں آئی۔ اس عمل کی قانونی حیثیت پر بحث کیلئے قانون دانوں کو ہی موقع دیا جانا چاہیئے، تاہم ملک بچانے کیلئے ساری ملت کے ساتھ مشاورت کا دروازہ بھی کھلا رہنا چاہیئے۔
آج ہم جس فتنہ الخوارج سے زِچ ہو کر طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں، یہ سارے فتنہ باز جتھہ بردار کوئی اجنبی اور ہمارے نامحرم نہیں بلکہ ہمارے ہی مجاہد بھائی ہیں۔ حالیہ چند دنوں میں ہمارے ان مجاہد بھائیوں نے بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں شاہرگ کے مقام پر کوئلے کی کان کے قریب دھماکہ کرکے گیارہ مزدوروں کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیا۔ اسی طرح دو دِن پہلے ایک بار پھر پاراچنار جانے والے قافلے پر حملہ ہوا۔ بڑے مزے کے ساتھ مجاہد بھائیوں نے بگن، مندروی، ڈاڈ کمر، چارخیل اور اوچت کے مقام پر گاڑیوں کو لوٹا اور لوٹنے کے بعد آگ بھی لگائی گئی۔ اس حملے میں کئی لوگ زخمی اور جاں بحق ہوئے۔ تاجر برادری کے مطابق پندرہ سے زائد ڈرائیور اس مرتبہ بھی لاپتہ ہوگئے ہیں۔ آگاہ رہیں کہ اس کا عتاب بھی مجاہد بھائیوں کے بجائے بےچارے عام افغان مہاجرین پر ہی نازل ہوگا۔
عرصہ دراز سے مذکورہ بالا علاقوں کا طالبان یا مجاہد بھائیوں کے قبضے میں چلے جانا اور پاکستان کے ہاتھوں سے نکلنا کسی سے مخفی نہیں۔ ان علاقوں کو طالبان سے واپس لینے کے بجائے عام افغان مہاجرین پر شکنجہ کسنا دراصل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ کیا طالبان یعنی مجاہد بھائیوں کے ہاتھوں رفتہ رفتہ پاکستان کے جغرافئے سے دستبردار ہوتے جانا ہماری قومی پالیسی ہے۔؟ اب تو بچے بھی یہ لوری نہیں سُنتے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ نئی نسل افغانستان اور ہندوستان سمیت سب ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات چاہتی ہے۔ دہشت گردوں کو مذہب کا شیلٹر فراہم کرنا کسی کو بھی پسند نہیں۔ ہم لوگوں کو تو یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں، لیکن جوانوں کو یہ سوچنے سے کون روک سکتا ہے کہ پاکستان کے علاقوں پر مختلف شکلوں میں قبضہ جمانے والے یہ سارے دہشتگرد ایک ہی مذہب سے کیوں تعلق رکھتے ہیں۔؟
کیا عوام کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اس وقت مسلک وہابیت، اہلحدیث یا مکتب سلفی کے مرکز سعودی عرب میں کوئی داعش، القاعدہ، طالبان، سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی اور خودکُش بمباروں کا کیمپ نہیں۔؟ بھارت ہمارا دشمن ہی سہی، وہیں پر دیوبندی مکتب کا مرکز دارالعلوم دیوبند موجود ہے، پورے ہندوستان میں کہیں بھی ایک انچ زمین بھی کسی سپاہِ صحابہ، داعش، القاعدہ، طالبان یا لشکرِ جھنگوی کے قبضے میں نہیں۔؟ ہمارے ہمسائے میں شیعہ اکثریتی ملک ایران ہے۔ کیا ایران میں کوئی ایسا علاقہ ہے کہ جہاں اہلِ تشیع کے مسلح جتھے اہلِ سُنّت کو کھانا، غذا اور ادویات نہ پہنچنے دیتے ہوں اور اہلِ سُنّت کی مال بردار گاڑیوں کو لوٹ لیتے ہوں۔؟ یہ توجہ طلب نکتہ ہے کہ ہمارا یہی تفتان بارڈر جہاں پاکستانی مسافروں کو جی بھر کر ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے، وہیں ایرانی اسٹاف اپنے شہریوں کے ساتھ کتنے ادب و احترام کے ساتھ پیش آتا ہے۔؟ کیا ہم نے اپنے ہمسایہ ممالک سے کوئی اچھی چیز سیکھنے کے بجائے ہمیشہ نفرت، دشمنی، کینہ، منشیات اور اسلحہ ہی درآمد کرنا ہے۔؟
بالآخر یہ کس نے سوچنا ہے کہ کیوں سعودی عرب، ہندوستان اور ایران میں دیوبندی، وہابی اور شیعہ مسالک کے مراکز ہونے کے باوجود مسلح جتھے وہاں کبھی اس طرح نہ ہی مسافروں کو مارتے ہیں اور نہ ہی گاڑیوں کو لوٹتے ہیں اور نہ ہی جابجا مختلف علاقوں پر قبضہ جماتے ہیں۔؟ کیا ہم پاکستانی اتنے ہی بُرے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کا خون پینے کی لت پڑ چکی ہے۔؟ کیا ہمیں اپنے ہاں کی مذہبی اقلیتوں نیز بلوچوں، پختونوں، سندھیوں اور پنجابیوں کو جہاد انڈسٹری کے ذریعے تلف کرنے، ختم کرنے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے بجائے ان کے روزگار، تعلیم اور فلاح و بہبود کیلئے کچھ کرنے کا نہیں سوچنا چاہیئے۔؟ بات یہ نہیں کہ بلوچستان دہشت گردی کی زد میں ہے یا آئے روز بگن، مندروی، ڈاڈ کمر چارخیل اور اوچت کے مقام پر مسافروں کو قتل کیا جاتا ہے اور مال بردار گاڑیوں کو لوٹ لیا جاتا ہے، بلکہ بات کچھ اور ہے۔ بات یہ ہے کہ اب بھارت کو بُرا بھلا کہنے سے یہ لوٹا ہوا مال، جاں بحق ہونے والے لوگ اور طالبان کے زیرِ قبضہ علاقے واپس نہیں آسکتے۔ ساری دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ ہم نے اب تک طالبان کے بجائے بے چارے افغان ماجرین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
ان فرسودہ اور بوسیدہ پالیسیوں میں عوام کُشی، عوام دُشمنی اور ملکی بدحالی کے سوا کچھ نہیں۔ عوام افغانستان کے ہوں یا پاکستان کے دونوں طرف کے لوگ ہم سے نالاں ہیں۔ دونوں طرف کے لوگوں کو ناراض کرکے آخر مسلح جتھوں کو ہم کب تک پالتے رہیں گے۔؟ کیا ہے کوئی جو یہ سوچے کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کا اپنے دو وفد طالبان حکمرانوں کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کیلئے بھیجنا دوسرے صوبوں اور ملکی سالمیت کیلئے کیا پیغام رکھتا ہے۔؟ وفد بھیجنے والوں کو یہ طے کرنا چاہیئے کہ ہمارے عوام کو تحفظ، روزگار، علاج، تعلیم اور عدل و انصاف کی ضرورت ہے یا خودکُش دھماکوں، منشیات اور اسلحے کی۔؟ آج کے اس کالم میں اپنے پالیسی ساز اداروں سے ہمارا یہ تقاضا ہرگز نہیں ہے کہ مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات کیلئے کوئی منصوبہ بندی کریں بلکہ ہماری تو دست بستہ گزارش یہ ہے کہ کم از کم اپنی آنکھوں کے سامنے موجودہ مشکلات اور موجودہ دشمنوں سے تو ملک اور عوام کو تحفظ دیں۔ کہیں پر بھی ریاستی رِٹ کے مذاق بن جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو حکمران عقل کے اندھے ہیں اور یا پھر عقل کے اندھوں کے ہاتھ میں حکومت آگئی ہے، باقی ہندوستان و طالبان۔۔۔ یہ سب کہانیاں ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مجاہد بھائیوں پاکستان کے گاڑیوں کو طالبان کے میں اپنے کے بجائے کے ساتھ ہیں اور عوام کو ہیں کہ عقل کے
پڑھیں:
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
پہلے جب کبھی ہم مغربی معاشرے کے بارے میں پڑھتے تھے کہ میاں کے خراٹوں سے تنگ آ کر بیوی نے طلاق لے لی، تو بڑا غصہ آتا تھا کہ عجیب لوگ ہیں جو بیڈ روم بدلنے کے بجائے ساتھی بدل لیتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ انٹرنیٹ آنے کے بعد بہت سی بچگانہ باتوں پر طلاق لینے کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں کہ میاں برتن نہیں دھوتے، اس لیے طلاق کا مطالبہ،کبھی ڈنر پر نہ لے جانے پر طلاق کا مطالبہ، کہیں یہ کہ بیوی کے بوائے فرینڈ کے گھر آنے پر شوہر کی ناراضگی پر طلاق کا مطالبہ، کبھی بچوں کی پرورش پہ جھگڑا کہ طلاق کے بعد بچے کس کی ذمے داری ہوں گے، یورپ اور امریکا میں طلاق کے بعد عورت زیادہ فائدے میں رہتی ہے۔
لیکن اب دیکھ لیجیے کہ مغربی معاشرے کی غیر اخلاقی اور معیوب باتوں کو تو ہم نے بڑی جلدی اور بڑے فخر سے اپنایا، جیسے طلاق، شراب پینا وغیرہ۔ بعض اداروں کے ملازمین شراب کو غیر اخلاقی نہیں سمجھتے نہ ہی پینے والے۔ بلکہ وہ بڑے فخر سے ’’ مشروب مغرب‘‘ کا استعمال کرتے ہیں لیکن مغرب کی انسان دوستی، انسانی فلاح و بہبود، سینئر سٹیزن کے لیے ہر جگہ بہترین سہولتیں، کہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لیے میڈیکل فری، ایکسپائری ڈیٹ والی دواؤں اور خوردنی اشیا کا تلف کر دینا جیسی باتیں ہم نے نہیں اپنائیں۔ ہم عبادتیں بھی کرتے ہیں، مگر سب سے پہلے یہ کہ زائد المیعاد دواؤں کو نئی پیکنگ کرکے انسانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔
جعلی حکیم اور جعلی ڈاکٹر لوگوں کو درد سے نجات کے لیے ’’ کارٹی زون‘‘ دے کر انھیں اپاہج بنا رہے ہیں، جوڑوں کا درد اب ایک عام بیماری بن گئی ہے، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، دو چار کتابیں پڑھ کر کمپاؤنڈر اور نرسیں ڈاکٹر بن کر انسانی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ ’’روحانی گولیاں‘‘ کے نام سے جو دواؤں، ٹیبلٹ کی صورت میں جعلی حکیم اور جعلی ڈاکٹر دے رہے ہیں، لوگوں کو شعور نہیں ہے کہ ’’کارٹی زون‘‘ ہے کیا؟ بس وہ خوش ہو جاتے ہیں کہ ایک گولی کھاتے ہی ان کا درد چلا گیا، وہ یہ نہیں سوچتے کہ مستند حکیم اور ڈاکٹر دوا دیں گے وہ جادو نہیں ہے، آہستہ آہستہ ہی آرام آتا ہے۔
مستند ڈاکٹر بھی جوڑوں کے درد کے لیے ’’کارٹی زون‘‘ دے رہے ہیں، اور ان کا کاروبار خوب چل رہا ہے۔ ایک حکیم اور ایک مشہور ڈاکٹر کے بارے میں تو مجھے معلوم ہے کہ وہ کارٹی زون دیتے ہیں، ایک نوجوان باریش حکیم صاحب نے اپنا اور اپنے بھائی کا نام بطور حکیم بورڈ پر لکھوایا ہے لیکن کوئی ڈگری یا کسی طبیہ کالج کا نام یا مطب میں کوئی سرٹیفکیٹ نظر نہیں آتا، ان کی عمر دیکھ کر مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ تجربہ کار حکیم ہیں۔
میں نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ نے طب کی سند کس ادارے سے حاصل کی؟‘‘ تو وہ گڑبڑا گئے اور پھر سنبھل کر بولے’’ دیکھیے ڈگری کی کوئی اہمیت نہیں ہے، میری ماں، بیوی اور بھائی سب حکیم ہیں۔‘‘ میں نے ان سے سوال کیا کہ ’’ یہ جو اتنے بڑے بڑے ادارے کھلے ہیں وہ سب بے کار ہیں؟‘‘ تو وہ خاموش ہوگئے۔ خیر ہم دوا لے کر آگئے اور ایک خوراک دوا یعنی ایک گولی ہم نے کھائی، کوئی شام کے چھ بجے اور رات دس بجے۔ کمرکا موذی مرض ایک دم ختم ہو گیا، میں ڈر گئی اور سمجھ گئی کہ یہ کارٹی زون کا کمال ہے، دوسرے دن ان حکیم صاحب کو فون کرکے جب میں نے ان سے یہ کہا کہ آپ نے ہمیں ’’کارٹی زون‘‘ دی ہے تو ان کے پاس سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہیں تھا، ہم نے ان کی ٹھیک ٹھاک خبر لی اور دوا کو اٹھا کر پھینک دیا۔
ایک اور مشہور ڈاکٹر صاحب ہیں کافی عرصہ پہلے ان کے بارے میں پتا چلا کہ جوڑوں کے درد کا علاج بہت خوب کرتے ہیں۔ اس وقت تک ہمیں کارٹی زون کی تباہ کاریوں کے بارے میں پتا نہیں تھا، ہم ان ڈاکٹر کے پاس پہنچے اور اپنی حالت بتانی چاہیے تو انھوں نے ہماری بات سنے بغیر ایک ہاتھ سے اپنی فیس پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے نسخہ لکھ کر تھما دیا۔ ہم نے کہا کہ ’’ ڈاکٹر صاحب آپ نے ہماری بات تو سنی ہی نہیں، پھر آپ نے نسخہ کیسے لکھ دیا‘‘ وہ مسکرائے اور بولے کہ ’’میں سمجھ گیا کہ آپ کو گھٹنوں کے درد کی شکایت ہے، آپ بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتیں، آپ یہ ٹیبلٹ استعمال کیجیے آرام آئے گا۔‘‘
ہم بادل نخواستہ کلینک سے باہر آئے، دوائی لی اور گھر آگئے، ایک ٹیبلٹ کھائی، تقریباً تین چار گھنٹے بعد درد ایسے غائب ہو گیا جیسے کبھی تھا ہی نہیں، ہم گھبرا گئے اور شام کو اپنے فیملی فزیشن ڈاکٹر احسان کو ساری کہانی بتائی، تب انھوں نے انکشاف کیا کہ وہ گولیاں ’’کارٹی زون‘‘ ہیں، پھر انھوں نے کارٹی زون کے استعمال، اس کے نقصانات کے بارے میں اور یہ دوا کب کن مریضوں کو دی جاتی ہے، سب کچھ بتایا، تب ڈاکٹر صاحب کے کہنے سے میں نے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’خدارا! زہر مت کھائیے‘‘۔ اور دوسرے دن ان ڈاکٹر صاحب کے پاس جا کر شکایت کی کہ آپ نے ہمیں کارٹی زون دی ہے، اس پر وہ چپ ہوگئے اور ہم ٹیبلٹ ان کی میز پر رکھ کر واپس آگئے۔ وہ ڈاکٹر صاحب آج بھی ایک کلینک چلا رہے ہیں۔
بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں پہنچ گئی۔ ہم ایمان کی بات کرتے ہیں۔ مسلمان ہونے پر فخر ہے کہ ہم صاحب ایمان ہیں لیکن ذرا غور کیجیے تو پتا چلتا ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ مغرب پہ مہربان کیوں ہے؟ وہ انسان کو اہمیت دیتے ہیں جب کہ ہم دائروں میں بٹے ہوئے ہیں، کون ہندو ہے،کون مسلمان،کون مہاجر ہے، کون سندھی، بنگالی، پنجابی اور بلوچ، ہم ہر فیلڈ میں دو نمبری کا کام کر رہے ہیں۔
ریاست کیا ہوتی ہے، اس میں رہنے والوں کے حقوق کیا ہوتے ہیں، معاشی صورت حال روبہ زوال ہے لیکن بڑے بڑے جہازی سائز کے اشتہارات بتا رہے ہیں کہ ہم نے ایک سال میں ’’لازوال‘‘ ترقی کر لی ہے، مہنگائی کم ہوگئی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، لوگ مہنگائی سے رو رہے ہیں، رمضان کی آمد آمد ہے، تاجر خوش ہیں دکاندار خوش ہیں کہ ’’کھانے پینے‘‘ کا مہینہ آ رہا ہے، پھل قوت خرید سے باہر۔ چنے کی دال، بیسن، تیل اور گھی کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ہی ہر شے کی قیمت بڑھ جائے گی کہ یہ ’’کمانے‘‘ کا مہینہ ہے۔ زندگی کے تمام شعبے روبہ زوال ہیں۔ تعلیم تجارت بن گئی ہے، ریاست کیا ہوتی ہے، ووٹ کی قدر و قیمت کیا ہوتی ہے، جمہوریت کس بلا کا نام ہے؟ ہمارے ہاں ووٹ کا ’’احترام‘‘ کس طرح کیا جاتا ہے۔
سب کچھ پہلے سے طے ہے، پاکستان بننے کے بعد سے اب تک ’’پتلی تماشا‘‘ دکھایا جا رہا ہے۔ البتہ یہ اچھی بات ہے کہ پتلی تماشا دکھانے والوں کے ’’خفیہ ہاتھ‘‘ اب سامنے نظر آتے ہیں۔ جمہوریت نہ کبھی اس ملک میں آئی اور نہ آئے گی۔ البتہ جمہوریت کا لفظ وہ گیدڑ سنگھی ہے جو ہر مرض کی دوا ہے، کوئی سچ نہیں بول سکتا، سچ نہیں لکھ سکتا، کہ ہر طرف پہرے ہیں، آزادی صحافت پہ حملہ اب جائز ہے، پیکا ایکٹ باوجود مظاہروں کے نافذ کر دیا گیا ہے ۔ جی حضوری کرنے والے میاں مٹھو ٹائپ کے وزیروں کی لاٹری نکل آئی ہے۔
حال ہی میں ارکان اسمبلی کے الاؤنسوں اور تنخواہوں میں جو اضافہ کیا گیا ہے وہ ایک لالی پاپ ہے کہ لالی پاپ چوستے رہو اور میاں مٹھو بنے رہو، تمہیں چوری ملتی رہے گی، یہ مراعات دراصل سیاسی رشوت ہے کہ ’’ہمیں حکومت کرنے دو، ہماری راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالو، ہم جو چاہیں کرتے رہیں، تمہیں آنکھیں بند کرکے ’’لالی پاپ‘‘ کا مزہ لینا ہے۔
ایک طرف ارکان اسمبلی کی حیرت ناک تنخواہیں ان کی جو پہلے ہی سے پیٹ بھرے ہیں، کوئی جاگیردار ہے، کوئی زمیندار، کوئی وڈیرہ ہے تو کوئی سردار۔ اربوں روپوں کے مالک ہیں لیکن انھوں نے یہ نہ سوچا کہ انکار کر دیتے۔ دوسری طرف سرکاری ملازموں پر نزلہ گر رہا ہے کہ ان کی تنخواہوں سے مزید کٹوتی ہوگی، یوں تو ساری پارٹیاں آپس میں لڑتی رہتی ہیں لیکن تنخواہوں میں اضافے کے بل پر سب متفق ہوگئے، اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے جہاں ڈکٹیٹر شپ جمہوریت کے لفافے میں لپیٹ کر پیش کی جاتی ہے، کاش ان ’’خفیہ ہاتھوں‘‘ ہی کو قوم پر رحم آجائے اور وہ کچھ کریں یا نہ کریں مگر مہنگائی کم کروا دیں، تو لوگ دعا ہی دیں گے۔