Islam Times:
2025-04-15@09:23:50 GMT

ہندوستان و طالبان۔۔۔۔۔ یہ سب کہانیاں ہیں

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

ہندوستان و طالبان۔۔۔۔۔ یہ سب کہانیاں ہیں

اسلام ٹائمز: آج کے اس کالم میں اپنے پالیسی ساز اداروں سے ہمارا یہ تقاضا ہرگز نہیں ہے کہ مستقبل میں پیش آنیوالی مشکلات کیلئے کوئی منصوبہ بندی کریں بلکہ ہماری تو دست بستہ گزارش یہ ہے کہ کم از کم اپنی آنکھوں کے سامنے موجودہ مشکلات اور موجودہ دشمنوں سے تو ملک اور عوام کو تحفظ دیں۔ کہیں پر بھی ریاستی رِٹ کے مذاق بن جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو حکمران عقل کے اندھے ہیں اور یا پھر عقل کے اندھوں کے ہاتھ میں حکومت آگئی ہے، باقی ہندوستان و طالبان۔۔۔ یہ سب کہانیاں ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

کیا پاکستان کے صوبے براہِ راست بین الاقوامی مذاکرات کرنے اور اپنی خارجہ پالیسی طے کرنے میں خود مختار ہیں۔؟ ایک طرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں افغانستان و بھارت ہماری ریاستی رِٹ کیلئے چیلنج بن چکے ہیں اور دوسری طرف خیبر پختونخوا کی حکومت بیرسٹر محمد علی سیف کی سربراہی میں اپنے دو وفد  طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کیلئے افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ ایک وفد کے بارے میں شنید ہے کہ وہ سفارتی معاملات طے کرے گا اور دوسرا وفد ایسے اسٹیک ہولڈرز کا ہے، جو اللہ ہی جانے کیا کریں گے۔ ملکی تاریخ میں، صوبوں کی طرف سے ایسی انوکھی پلاننگ پہلے کبھی سامنے نہیں آئی۔ اس عمل کی قانونی حیثیت پر بحث کیلئے قانون دانوں کو ہی موقع دیا جانا چاہیئے، تاہم ملک بچانے کیلئے ساری ملت کے ساتھ مشاورت کا دروازہ بھی کھلا رہنا چاہیئے۔

آج ہم جس فتنہ الخوارج سے زِچ ہو کر طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں، یہ سارے فتنہ باز جتھہ بردار کوئی اجنبی اور ہمارے نامحرم نہیں بلکہ ہمارے ہی مجاہد بھائی ہیں۔ حالیہ چند دنوں میں ہمارے ان مجاہد بھائیوں نے بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں شاہرگ کے مقام پر کوئلے کی کان کے قریب دھماکہ کرکے گیارہ مزدوروں کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیا۔ اسی طرح دو دِن پہلے ایک بار پھر پاراچنار جانے والے قافلے پر حملہ ہوا۔ بڑے مزے کے ساتھ مجاہد بھائیوں نے بگن، مندروی، ڈاڈ کمر، چارخیل اور اوچت کے مقام پر گاڑیوں کو لوٹا اور لوٹنے کے بعد آگ بھی لگائی گئی۔ اس حملے میں کئی لوگ زخمی اور جاں بحق ہوئے۔ تاجر برادری کے مطابق پندرہ سے زائد ڈرائیور اس مرتبہ بھی لاپتہ ہوگئے ہیں۔ آگاہ رہیں کہ اس کا عتاب بھی مجاہد بھائیوں کے بجائے بےچارے عام افغان مہاجرین پر ہی نازل ہوگا۔

عرصہ دراز سے مذکورہ بالا علاقوں کا طالبان یا مجاہد بھائیوں کے قبضے میں چلے جانا اور پاکستان کے ہاتھوں سے نکلنا کسی سے مخفی نہیں۔ ان علاقوں کو طالبان سے واپس لینے کے بجائے عام افغان مہاجرین پر شکنجہ کسنا دراصل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ کیا طالبان یعنی مجاہد بھائیوں کے ہاتھوں رفتہ رفتہ   پاکستان کے جغرافئے سے دستبردار ہوتے جانا ہماری قومی پالیسی ہے۔؟ اب تو بچے بھی یہ لوری نہیں سُنتے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ نئی نسل افغانستان اور ہندوستان سمیت سب ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات چاہتی ہے۔ دہشت گردوں کو مذہب کا شیلٹر فراہم کرنا کسی کو بھی پسند نہیں۔ ہم لوگوں کو تو یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں، لیکن جوانوں کو یہ سوچنے سے کون روک سکتا ہے کہ پاکستان کے علاقوں پر مختلف شکلوں میں قبضہ جمانے والے یہ سارے دہشتگرد ایک ہی مذہب سے کیوں تعلق رکھتے ہیں۔؟

کیا عوام کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اس وقت مسلک وہابیت، اہلحدیث یا مکتب سلفی کے مرکز سعودی عرب میں کوئی داعش، القاعدہ، طالبان، سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی اور خودکُش بمباروں کا کیمپ نہیں۔؟ بھارت ہمارا دشمن ہی سہی، وہیں پر دیوبندی مکتب کا مرکز دارالعلوم دیوبند موجود ہے، پورے ہندوستان میں کہیں بھی ایک انچ زمین بھی کسی سپاہِ صحابہ، داعش، القاعدہ، طالبان یا لشکرِ جھنگوی کے قبضے میں نہیں۔؟ ہمارے ہمسائے میں شیعہ اکثریتی ملک ایران ہے۔ کیا ایران میں کوئی ایسا علاقہ ہے کہ جہاں اہلِ تشیع کے مسلح جتھے اہلِ سُنّت کو کھانا، غذا اور ادویات نہ پہنچنے دیتے ہوں اور اہلِ سُنّت کی مال بردار گاڑیوں کو لوٹ لیتے ہوں۔؟ یہ توجہ طلب نکتہ ہے کہ ہمارا یہی تفتان بارڈر جہاں پاکستانی مسافروں کو جی بھر کر ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے، وہیں ایرانی اسٹاف اپنے شہریوں کے ساتھ کتنے ادب و احترام کے ساتھ پیش آتا ہے۔؟ کیا ہم نے اپنے ہمسایہ ممالک سے کوئی اچھی چیز سیکھنے کے بجائے ہمیشہ نفرت، دشمنی، کینہ، منشیات اور اسلحہ ہی درآمد کرنا ہے۔؟

بالآخر یہ کس نے سوچنا ہے کہ کیوں سعودی عرب، ہندوستان اور ایران میں دیوبندی، وہابی اور شیعہ مسالک کے مراکز ہونے کے باوجود مسلح جتھے وہاں کبھی اس طرح نہ ہی مسافروں کو مارتے ہیں اور نہ ہی گاڑیوں کو لوٹتے ہیں اور نہ ہی جابجا مختلف علاقوں پر قبضہ جماتے ہیں۔؟ کیا ہم پاکستانی اتنے ہی بُرے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کا خون پینے کی لت پڑ چکی ہے۔؟ کیا ہمیں اپنے ہاں کی مذہبی اقلیتوں نیز بلوچوں، پختونوں، سندھیوں اور پنجابیوں کو جہاد انڈسٹری کے ذریعے تلف کرنے، ختم کرنے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے بجائے ان کے روزگار، تعلیم اور فلاح و بہبود  کیلئے کچھ کرنے کا نہیں سوچنا چاہیئے۔؟ بات یہ نہیں کہ بلوچستان دہشت گردی کی زد میں ہے یا آئے روز بگن، مندروی،  ڈاڈ کمر چارخیل اور اوچت کے مقام پر مسافروں کو قتل کیا جاتا ہے اور مال بردار گاڑیوں کو لوٹ لیا جاتا ہے، بلکہ بات کچھ اور ہے۔ بات یہ ہے کہ اب بھارت کو بُرا بھلا کہنے سے یہ لوٹا ہوا مال، جاں بحق ہونے والے لوگ اور طالبان کے زیرِ قبضہ علاقے واپس نہیں آسکتے۔ ساری دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ ہم نے اب تک طالبان کے بجائے بے چارے افغان ماجرین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔

ان فرسودہ اور بوسیدہ پالیسیوں میں عوام کُشی، عوام دُشمنی اور ملکی بدحالی کے سوا کچھ نہیں۔ عوام افغانستان کے ہوں یا پاکستان کے دونوں طرف کے لوگ ہم سے نالاں ہیں۔ دونوں طرف کے لوگوں کو ناراض کرکے آخر مسلح جتھوں کو ہم کب تک پالتے رہیں گے۔؟ کیا ہے کوئی جو یہ سوچے کہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کا اپنے دو وفد طالبان حکمرانوں کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کیلئے بھیجنا دوسرے صوبوں اور ملکی سالمیت کیلئے کیا پیغام رکھتا ہے۔؟ وفد بھیجنے والوں کو یہ طے کرنا چاہیئے کہ ہمارے عوام کو تحفظ، روزگار، علاج، تعلیم اور عدل و انصاف کی ضرورت ہے یا  خودکُش دھماکوں، منشیات اور اسلحے کی۔؟ آج کے اس کالم میں اپنے پالیسی ساز اداروں سے ہمارا یہ تقاضا ہرگز نہیں ہے کہ مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات کیلئے کوئی منصوبہ بندی کریں بلکہ ہماری تو دست بستہ گزارش یہ ہے کہ کم از کم اپنی آنکھوں کے سامنے موجودہ مشکلات اور موجودہ دشمنوں سے تو ملک اور عوام کو تحفظ دیں۔ کہیں پر بھی ریاستی رِٹ کے مذاق بن جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو حکمران عقل کے اندھے ہیں اور یا پھر عقل کے اندھوں کے ہاتھ میں حکومت آگئی ہے، باقی ہندوستان و طالبان۔۔۔ یہ سب کہانیاں ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مجاہد بھائیوں پاکستان کے گاڑیوں کو طالبان کے میں اپنے کے بجائے کے ساتھ ہیں اور عوام کو ہیں کہ عقل کے

پڑھیں:

عوام ریلیف سے محروم کیوں؟

مہنگائی کی شرح میں کمی ہو رہی ہے، لیکن اگر اعداد و شمار کا اثر عوام تک نہیں پہنچ رہا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے لاہور چیمبر آف کامرس میں خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انھوں نے مزید کہا کہ معاشی استحکام کے لیے مہنگائی کا کم ہونا لازمی تھا، ہم روزانہ کی بنیاد پر دالوں، چینی اور دیگر اشیا کی قیمتوں کو دیکھ رہے ہیں، افراط زر نیچے آنے کا فائدہ عام آدمی کو ہونا چاہیے۔

 وفاقی وزیر خزانہ نے آخرکار تسلیم کر لیا ہے کہ مہنگائی میں کمی کے اثرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ سرکاری میکنزم کی پیچیدگی اور سست روی ہے ۔ وفاقی سے صوبائی اور پھر ضلع سطح کی سرکاری مشینری زنگ آلود ہوچکی ہے۔گراس روٹ لیول پر اوور چارجنگ روکنے والی مشینری متحرک نہیں ہے۔ ضلع ، تحصیل اور یونین کونسل تک مہنگائی کو کنٹرول کرنے والا میکنزم فرسودہ اور ناکام ہوچکا ہے۔

 مہنگائی اور ناجائز منافع خوری زوروں پر ہے۔ تمام اشیائے خوردنی، پھلوں سبزیوں، گوشت وغیرہ کی قیمتوں اور کوالٹی چیک کرنے کے ذمے دار سرکاری افسر اور اہلکار کب کام کرتے ہیں اور کیسے کام کرتے ہیں ، کم از کم صارفین کو اس کا پتہ نہیں ہے۔ زرعی اور صنعتی شعبے کی مجموعی پیداوار میں بھی کمی ہو رہی ہے۔ٹیکسٹائل انڈسٹری اورمینو فیکچرنگ سیکٹر بھی ٹیکسوں کے کڑے نظام اور مہنگی بجلی کی وجہ سے کئی مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے بازار اسمگل شدہ غیر ملکی سامان سے اٹے پڑے ہیں۔

مہنگائی میں کمی کا فائدہ اگر عام آدمی تک نہیں پہنچتا تو اس کمی سے عام آدمی کی زندگی آسان نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ہاں یہ روایت موجود ہے کہ پٹرول اور بجلی کی قیمت بڑھتی ہے تو دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں، ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جاتے ہیں، بار برداری کے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے، فیکٹری مالکان اس اضافے کو اپنی لاگت میں شامل کر کے مارکیٹ میں اشیاء فراہم کرتے ہیں، مگر جب کسی چیز کی قیمت کم ہوتی ہے تو بڑھی ہوئی قیمتیں اُس تناسب سے کم نہیں کی جاتیں۔

صوبائی حکومتیں جن کے پاس انتظامیہ کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے، اور ہر صوبائی حکومت کے ماتحت ان گنت محکمے کام کر رہے ہوتے ہیں جن کا بنیادی مقصد اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی لانا ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انتظامیہ چھوٹے چھوٹے دکانداروں پر چھاپے مارتی ہے اور انھیں جرمانے بھی کیے جاتے ہیں، لیکن تھوک مارکیٹوں میں جہاں سے اشیاء کی ترسیل ہوتی ہے، جاتے ہوئے ان کے پَر جلتے ہیں۔ ملک کے تمام اضلاع میں مارکیٹ کمیٹیاں قائم ہیں، جو ڈپٹی کمشنر کی زیر نگرانی کام کرتی ہیں۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ مارکیٹ کمیٹی روزانہ اشیائے ضروریہ کے نرخ تو جاری کردیتی ہے، مگر اُس پر عمل کرانے کے لیے کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا،جس کی وجہ سے اِن مارکیٹ کمیٹیوں کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اشیاء کے جو سرکاری نرخ مقرر کیے جائیں، بازار میں اُن کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہر ضلع میں پرائس کنٹرول مجسٹریٹ موجود ہوتے ہیں، جن کا کام ہی یہ ہے کہ مصنوعی مہنگائی کو روکیں، لیکن اُن کی عدم فعالیت برقرار رہتی ہے۔ اربابِ اختیار کو اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں کام کرنے والے سرکاری افسران و اہلکار کو خود اتنا بااختیار نہ سمجھنے لگیں کہ انھیں قانون کی کوئی پروا ہی نہ رہے۔

 درحقیقت مصنوعی مہنگائی نے پنجے گاڑھ لیے ہیں سرکاری نرخ ناموں کو ہوا میں اڑا دیا گیا ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ سبزی ، دالیں، پھل، گوشت سمیت دیگر اشیاء کی من مرضی قیمتیں وصول کی جا رہی ہیں۔ اگر حقائق جاننے کی کوشش کی جائے تو حقیقت میں انفرادی لوٹ مار کو مہنگائی کا نام دیدیا گیا ہے۔ سبزی ودیگر اشیائے خورونوش کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی پر منافع کی شرح لا محدود ہے۔ ان کی قیمتوں کے تعین پر کسی کنٹرول کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث ناجائز منافع خوری عام ہے۔

دراصل ہمارے مالیاتی اور انتظامی اخراجات بڑھ رہے ہیں جس پر کنٹرول کرنے کے لیے حکومت ہمیشہ عوام سے ہی قربانی مانگتی ہے جب کہ صدر، وزیرِ اعظم، وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور بیوروکریسی خود قربانی کیوں نہیں دیتے اور اپنے اخراجات اور مراعات کم کیوں نہیں کرتے؟ ایک جانب مشکل مالی حالات کا رونا رو کر حکومت کفایت شعاری اور سادگی کے بہانے سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو فارغ کر رہی ہے تو دوسری جانب اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اربوں روپے کا ہوشربا اضافہ کر کے اپنے ہی دعوؤں کی نفی بھی کر رہی ہے۔ ایسے میں وفاقی کابینہ میں وزراء اور مشیروں کی ایک نئی فوج ظفر موج کا اضافہ گویا مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہے۔

 جہاں تک ایک عام آدمی کا سوال ہے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے۔ ہر پاکستانی اس وقت مہنگی ترین بجلی، پٹرول اور گیس خرید رہا ہے جن کی قیمتیں وفاقی حکومت کے براہ راست کنٹرول میں ہیں۔ دیگر ضروریات زندگی کی قیمتیں بھی بالواسطہ یا براہ راست انھی تینوں اشیاء سے جڑی ہوئی ہے۔ ایک طرف گیس، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور دوسری جانب بلا واسطہ اور براہ راست ظالمانہ ٹیکسوں کے نظام نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے اس وقت دو وقت کی روٹی پورا کرنا ایک عام پاکستانی کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے۔ ایسے میں صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں بھی عام عوام کی پہنچ سے بہت دور نکل چکی ہیں۔

حقائق تو یہ ہیں کہ آئی ایم ایف کے مزید قرضے کا مطلب عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ۔ حکومت یہ جان چکی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے چکانے کے لیے مزید قرضے لینا پڑیں گے۔ اس سارے عمل کا بوجھ پاکستانی عوام پر آئے گا بے دردی سے ان کی پیٹھوں پر مزید ٹیکسوں کی شکل میں مہنگائی کے تازیانے برسائے جائیں گے، پہلے ہی اس ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ لگ بھگ دو لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ جانیں آگے چل کر پھر کیا ہو گا۔

ہمارے ملک میں جہاں تک اشیائے ضروریہ کی طلب اور رسد میں توازن کا تعلق ہے، مرکز اور صوبوں میں منصوبہ بندی کے محکمہ جات موجود ہونے کے باوجود منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ مذکورہ محکمے عضو معطل کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ عملی طور پر ہوتا یہ ہے ہماری حکومتوں کے کرتا دھرتا، چند بیوروکریٹس کی ملی بھگت سے، پہلے تو اشیائے خورونوش کو برآمد کر کے مال بناتے ہیں۔ جب ملک میں ان اشیاء کی قلت پیدا ہو جاتی ہے تو وہی اشیاء درآمد کر کے اپنی حرام آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں۔

دوسرا مرحلہ قیمتوں کے تعین کا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا بھی کوئی مخصوص میکانزم موجود نہیں ہے۔ یہ اختیار ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ڈسٹرکٹ پرائس کنٹرول کمیٹی کو دیا گیا ہے جس میں تاجر تنظیموں کو بھی نمایندگی دی جاتی ہے۔ قیمتیں مقرر کرنے کے لیے مذکورہ کمیٹی کا ایک اجلاس بلایا جاتا ہے۔ دوران میٹنگ تاجروں کے نام نہاد نمایندے انتظامیہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اشیائے ضروریہ کے جو نرخ کمیٹی مقرر کر رہی ہے اس پر انھیں فروخت کرنا تاجروں کے لیے ممکن نہیں ہو گا، وہ پھر بھی خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ تاجروں کے حقیقی نمایندے ہوتے ہی نہیں، بلکہ انتظامیہ کے من پسند اور چنیدہ احباب ہوتے ہیں۔

اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے عام طور پر ضلعی افسروں کے ذریعے سے ملحقہ اضلاع کے مقرر کردہ نرخ لے لیے جاتے ہیں۔ پھر ان کی روشنی میں مکھی پر مکھی ماری جاتی ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں کوئی شے کس قیمت پر مل رہی ہے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا جاتا، آ ج بھی کوئی ڈپٹی کمشنر وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی طرف سے مقرر کردہ نرخ پر گوشت، دودھ یا دہی مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں کمی کے اثرات منافع خوروں کے باعث عوام تک منتقل نہیں ہو پا رہے، جس کی ایک بڑی وجہ حکومتی سطح پر مہنگائی کو کنٹرول کرنے والے نظام کا غیر فعال ہونا ہے۔ کم آمدنی والے طبقے کو تحفظ دینے کے لیے حکومت کو سوشل سیکیورٹی کے اقدامات کرنا ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی کو مذاکرات کیلئے راضی ہیں: اعظم سواتی کا دعویٰ
  • نہریں نہیں بننے دینگے ہمارا کیس مضبوط، کوئی مسترد نہیں کر سکتا: مراد شاہ 
  • افغانستان؛ مسجد کے قریب بم دھماکے میں خاتون جاں بحق اور 3 افراد زخمی
  • امریکی وفد سے ملاقات کیلئے نہ تو رابطہ ہوا نہ کارڈ آیا، بیرسٹر گوہر
  • یہ حکمران نہیں جیب کترے ہیں, مونس الٰہی
  • عوام ریلیف سے محروم کیوں؟
  • سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
  • طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
  • عوام کیلئے بڑی خوشخبری! پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں تاریخی کمی متوقع
  • وقف قانون کی مخالفت کیلئے ممتا بنرجی، ایم کے اسٹالن اور سدارامیا کا شکریہ ادا کرتی ہوں، محبوبہ مفتی