400 زبانوں پر عبور رکھنے والا 19 سالہ مسلم نوجوان
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
بھارت سے تعلق رکھنے والے 19 سالہ نوجوان محمود اکرم نے اپنی لسانیاتی صلاحیتوں سے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ وہ نہ صرف 400 زبانوں پر عبور رکھتے ہیں بلکہ اب ایک ساتھ کئی ڈگریاں بھی حاصل کر رہے ہیں۔
محمود کی کہانی
محمود کی غیر معمولی صلاحیتوں کا اندازہ بچپن سے ہی ہو گیا تھا۔ ان کے والد شلبئی موزیپریان، جو خود ایک ماہر لسانیات ہیں، نے انہیں تمل اور انگریزی حروف تہجی سے متعارف کرایا۔ محمود نے صرف 6 دن میں انگریزی اور تین ہفتوں میں تمل کے تمام 299 حروف سیکھ لیے۔ یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جو عام طور پر مہینوں کی محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔
محمود کے والد نے ان کی اس صلاحیت کو مزید نکھارا اور انہیں مزید زبانیں سیکھنے کی ترغیب دی۔ 6 سال کی عمر تک، محمود نے اپنے والد کے علم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور زبانوں کے مطالعے میں مزید گہرائی میں اتر گئے۔
ریکارڈ اور تعلیم
8 سال کی عمر میں محمود نے سب سے کم عمر کثیر لسانی ٹائپسٹ کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ 12 سال کی عمر تک، انہوں نے جرمنی کے ماہرین کو 400 زبانوں پر عبور حاصل کرکے متاثر کر دیا، جس پر انہیں ایک اور عالمی ریکارڈ ملا۔
محمود کی زبانوں کےلیے لگن نے انہیں روایتی تعلیم سے آگے بڑھایا۔ بھارت میں اپنے شوق کے مطابق اسکول نہ ملنے پر، انہوں نے اسرائیل کے ایک ادارے کے ساتھ آن لائن تعلیم حاصل کی، جہاں انہوں نے عربی، ہسپانوی، فرانسیسی اور عبرانی زبانوں پر توجہ مرکوز کی۔
استاد اور طالب علم
14 سال کی عمر میں، محمود یوٹیوب پر اپنے فالوورز کی حوصلہ افزائی سے متاثر ہو کر ایک استاد بن گئے۔ 2024 تک، وہ بیرون ملک جاکر میانمار، کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا میں زبانوں کے ورکشاپس کروا چکے تھے۔
اب 19 سال کی عمر میں، محمود ایک ساتھ کئی ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں۔ وہ چنائے کی الگپا یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں بی اے اور اینیمیشن میں بی ایس سی کر رہے ہیں، جبکہ برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی سے لسانیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، وہ قریباً مقامی سطح پر زبانوں پر عبور حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کر رہے ہیں سال کی عمر
پڑھیں:
29 سالہ انتظار ختم!
کرکٹ بلاشبہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے اور ہمارے ہاں اس کھیل کے شائقین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے لیکن کرکٹ سے پاکستانیوں کی دلی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کی شکست پر شائقین کے ہاتھوں ٹی وی سکرینیں ٹوٹنے کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں جبکہ قومی ٹیم کی فتح پرشائقین کی جانب سے اظہارِ خوشی کے جذباتی مناظر قابل دید ہوتے ہیں۔ ایک دور تھا جب دنیا میں صرف ٹیسٹ کرکٹ ہوا کرتی تھی اور لوگ اس میں گہری دلچسپی لیا کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں طویل فارمیٹ کی کرکٹ دیکھنے میں دلچسپی کم ہونے لگی تو ایک روزہ کرکٹ کو متعارف کرایا گیا جس نے اس کھیل کو ایک نئی زندگی بخشی۔ ون ڈے کرکٹ دیکھنے شائقین کی بڑی تعداد سٹیڈیمز کا رخ کرنے لگی ۔اکیسویں صدی میں جہاں دنیا نے مختلف شعبوں میں نمایاں ترقی کی وہاں کرکٹ کا کھیل بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ نت نئی جدتوں کے ساتھ جب ٹی 20کرکٹ کا آغاز ہوا تو اس نے کرکٹ کے میدانوں میں نئے رنگ بکھیر دیئے اور لوگ دیوانہ وار چوکوں اور چھکوں کی برسات دیکھنے سٹیڈیمز آنے لگے۔پاکستان میں بھی کھیل کے میدان آباد تھے جبکہ پاکستان نے 1996ء میں بھارت اور سری لنکا کے ساتھ مشترکہ طور پر ورلڈ کپ کرکٹ کی میزبانی بھی کی تھی ‘ اس میگا ایونٹ کا فائنل لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کھیلا گیا جہاں سری لنکا نے آسٹریلیا کو ہرا کر پہلی بار عالمی ٹائٹل اپنے نام کیا تھا ۔ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے اس وقت بند ہو گئے تھے جب 2009ء میں پاکستان کے دورے پر آئی سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کیا گیا۔ اس کے بعد غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آکر کھیلنے سے انکار کرتی رہیں اور کئی برس تک کرکٹ کے میدان سُونے رہے جس کے باعث شائقین کرکٹ عالمی سٹارز کو اپنے میدانوں میں کھیلتا دیکھنے کیلئے ترس گئے۔تقریباً دس برس تک یہاں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی گئی ‘ اس دوران متحدہ عرب امارات کو پاکستان نے ہوم گرائونڈ بنایا اور یہاں آکر دیگر ممالک کی ٹیمیں پاکستان کے مدمقابل ہوتی تھیں۔ پاکستانی حکومتوں اور کرکٹ بورڈز کی کاوشوں سے اب نہ صرف یہاں عالمی کرکٹ واپس آچکی ہے بلکہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جو ورلڈ کپ کے بعد ایک روزہ کرکٹ کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ ہے آج سے پاکستان کے میدانوں میں شروع ہو رہا ہے ۔29برس بعد پاکستان میں منعقدہ کرکٹ کے اس عالمی ٹورنامنٹ میں دنیا کی آٹھ بہترین ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں اور ماسوائے بھارت کے باقی ٹیمیں پاکستان آکر کھیلنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں ۔
چیمپئنز ٹرافی کے نویں ایڈیشن کا میلہ آج سے کراچی میں سجے گا اور یہ پہلی بار ہے جب پاکستان آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرے گا۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا پہلا ایڈیشن 1998ء میں بنگلا دیش میں کھیلا گیا جس میں جنوبی افریقا نے فائنل میں ویسٹ انڈیز کو 4 وکٹوں سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔ چیمپئنز ٹرافی کا دوسرا ایڈیشن کینیا میں کھیلا گیا، نیوزی لینڈ نے فائنل میں بھارت کو 4 وکٹوں سے مات دے کر چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 2002ء میں سری لنکا میں چیمپئنز ٹرافی کا تیسرا ایڈیشن ہوا جہاں بارش کے باعث فائنل میچ مکمل نہ ہو سکا، بھارت اور سری لنکا کی ٹیموں کو مشترکہ طور پر فاتح قرار دیا گیا۔ 2004ء میں انگلینڈ میں چیمپئنز ٹرافی کا میلہ سجا اور ویسٹ انڈیز نے میزبان ٹیم کو دو وکٹوں سے شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا۔2006ء میں بھارت میں چیمپئنز ٹرافی کا 5 واں ایڈیشن ہوا جہاں آسٹریلیا نے فائنل میں ویسٹ انڈیز کو ڈی ایل ایس میتھڈ کے تحت 8 وکٹوں سے مات دے کر پہلی بار چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل اپنے سر سجایا۔2009ء میں جنوبی افریقا میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی میں کینگروز نے کیویز کو شکست دے کر مسلسل دوسری بار چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل جیتا۔2013ء میں انگلینڈ میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی میں بھارتی ٹیم نے میدان مارا، بھارت نے فائنل میں انگلینڈ کو 5 رنز سے شکست دی۔2017ء میں چیمپئنز ٹرافی کا میلہ ایک بار پھر انگلینڈ میں سجا اور پاکستان نے روایتی حریف بھارت کو 180 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دے کر پہلی بار چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔2017ء میں انگلینڈ میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کے بعد آئی سی سی کی پالیسی کے تحت اسے ختم کر دیا گیا تاکہ ہر فارمیٹ (ٹی20، ون ڈے، ٹیسٹ) کے لیے صرف ایک بڑا ٹورنامنٹ رکھا جائے۔ تاہم نومبر 2021 ء میں آئی سی سی نے اعلان کیا کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا دوبارہ آغاز ہوگا اور اس کا نواں ایڈیشن 2025 ء میں پاکستان میں منعقد ہوگا۔اب چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی پاکستان کررہا ہے اور ساتھ ساتھ قومی ٹیم ٹائٹل کا دفاع کرنے کیلئے بھی جان لڑائے گی۔ اس میگا ایونٹ کا افتتاحی میچ آج پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔ اس ٹورنامنٹ کا سب سے ہائی وولٹیج میچ یعنی پاک بھارت ٹاکرا 23فروری کو دبئی میں کھیلا جائے گا۔
چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے انعقاد کو پاکستان میں یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ یہاں کرکٹ سٹیڈیمز کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کیلئے دن رات کاوشیں کی ہیں جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ اب جبکہ طویل عرصہ بعد پاکستان میں عالمی سطح کا میگا ایونٹ کھیلا جا رہا ہے تو شائقین کرکٹ سے بھی امید ہے کہ وہ اسے کامیاب بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔وہ بڑی تعداد میں کھیل کے میدانوں کا رخ کر کے نہ صرف اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھائیں بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیں کہ پاکستانی پُر امن اور کھیلوں سے محبت کرنیوالے لوگ ہیں۔ پوری قوم کی دعا ہے کہ یہ ایونٹ کامیابی سے انعقاد پذیر ہو تاکہ پاکستان کا روشن اور مثبت چہرہ دنیا کے سامنے آئے ‘ اس ایونٹ کے کامیاب انعقاد سے پاکستان میں عالمی کرکٹ کی مزید راہیں بھی کھل جائیں گی۔