Express News:
2025-02-21@06:51:56 GMT

ڈانٹ سے تنگ 14 سالہ لڑکے نے باپ کو زندہ جلا دیا

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

نئی دہلی: فرید آباد کے علاقے اجے نگر پارٹ 2 میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا، جہاں 14 سالہ لڑکے نے اپنے والد کو آگ لگا کر قتل کر دیا۔ 

پولیس کے مطابق، لڑکے کو باپ نے چوری کے شبہ میں ڈانٹا تھا، جس پر وہ طیش میں آ گیا۔

یہ واقعہ منگل کی رات تقریباً 2 بجے پیش آیا۔ مکان مالک ریاض الدین نے پولیس کو دی گئی شکایت میں بتایا کہ وہ اچانک محمد علیم کی چیخوں سے جاگے۔

ریاض الدین کا کہنا تھا "جب میں چھت کی طرف جانے لگا، تو دروازہ بند تھا۔ میں نے ایک پڑوسی کی مدد سے دروازہ کھلوایا، تو دیکھا کہ کمرے میں آگ لگی ہوئی تھی اور علیم اندر سے چیخ رہا تھا۔"

جب دروازہ توڑا گیا، تو محمد علیم شدید جھلسنے کے باعث موقع پر ہی دم توڑ گیا، جبکہ اس کا بیٹا کسی اور مکان میں کود کر فرار ہو گیا۔

پولیس کے مطابق، علیم نے اپنے بیٹے پر جیب سے پیسے چرانے کا الزام لگایا تھا۔ غصے میں آ کر لڑکے نے مبینہ طور پر کوئی آتش گیر مادہ اپنے والد پر چھڑک کر آگ لگا دی۔ پولیس نے لڑکے کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کر دی ہے۔

محمد علیم کا تعلق اتر پردیش کے ضلع مرزاپور سے تھا۔ وہ ستمبر 2024 میں اپنے بیٹے کے ساتھ فرید آباد منتقل ہوا تھا اور چھت پر ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہ رہا تھا۔

وہ مساجد کے لیے چندہ جمع کرنے اور ہفتہ وار بازار میں مچھر دانیاں و دیگر اشیاء بیچنے کا کام کرتا تھا۔ علیم کی بیوی کئی سال پہلے وفات پا چکی تھی اور اس کے چار شادی شدہ بچے علیحدہ رہتے تھے۔

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

ذرا کم عمر لڑکوں کی جانب بھی توجہ دیجیے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) ہمارے معاشرے میں اکثر یہی سننے کو ملتا ہے کہ لڑکیوں کی تربیت پر تمام توجہ مرکوز کی جائے۔ جی نسلوں کا سوال ہے جبکہ لڑکوں کی تربیتی آبیاری پر دھیان نہیں دیا جاتا جو کہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ لڑکوں کی تربیت معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

والدہ کے ساتھ بالخصوص والد کا بیٹوں کو سکھانا اس لیے اہم ہوتا ہے کیونکہ عام طور پر ان کا واسطہ بیرونی دنیا سے زیادہ پڑتا ہے۔

اگر ٹریننگ نہ کی گئی تو منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے چانسز زیادہ ہوں گے۔ جو حالات چل رہے ہیں ان میں اگر کم عمر لڑکوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو واضح نہ کیا گیا اور ان کو غلط بات پر نہ ٹوکا گیا تو لڑکے خودسر اور ضدی ہو کر والدین کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیں گے جو انہوں نے اپنے بیٹوں سے وابستہ کر رکھی ہیں۔

(جاری ہے)

بدتہذیب لڑکے راحت کی بجائے باعثِ زحمت بن جاتے ہیں اور بڑھاپے میں والدین کی ایسی درگت بناتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔

تلخ حقیقت ہے کہ آج کل کے بہت سے لڑکے تمیز سے بات کرنے کو اپنی انا کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اگر بڑے انہیں کسی بات پر ٹوکتے ہیں تو پلٹ کر ایسا جواب آتا ہے کہ بندہ دم بخو رہ جاتا ہے۔ نہ سلام نہ دعا نہ ہی کوئی لحاظ۔ سب آہستہ آہستہ رخصت ہوتا جا رہا ہے۔

لڑکے کی تربیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرہ کا فرض شناس شہری، خدمت گزار بیٹا، عزت کرنے والا داماد، غم گسار شوہر اور بہنوں کی سرپرستی کرنے والا بھائی بن سکے۔

تربیت سے حقوق و فرائض کی آگاہی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس ڈیجیٹل دور میں کڑی نگاہ رکھیے کہ ٹین ایج لڑکوں کی دوستیاں کس سے اور کس سبب ہیں۔ وہ کس سے ملتے ہیں۔ ملاقات کے دوران موضوعِ گفتگو کون سی باتیں ہوتی ہیں۔ خیال اس لیے رکھنا بھی ضروری ہے کہ کہیں کالعدم تنظیموں کے کارندے برین واشنگ کی تکنیک کے ذریعے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔

نیز مشاہدے میں آیا ہے کہ صاحب ثروت گھرانوں میں آٹھ سال کے بچوں کو ذاتی سمارٹ فون الاٹ کر دیا جاتا ہے اور وہ پڑھائی کرنے کی بجائے گھنٹوں گھنٹوں باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اب اتنی سی عمر میں کیا باتیں ہو سکتی ہیں کیا معلوم؟۔ جب کوئی دوست احباب یا ہمسایہ شکایت کر دے کہ اتنے سے بچے کے ہاتھ میں موبائل دینے کی کیا ضرورت ہے تو ان طنزیہ جملوں کی پاداش میں لڑکوں سے موبائل ہی چھین لیا جاتا ہے۔

بہتر تو یہ ہے کہ بچے کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کا طریق کار بتایا جائے، سوشل میڈیا اخلاقیات سے روشناس کروایا جائے۔ موبائل سکرین ٹائم مقرر کر دیا جائے۔ ذرا زرا سی بات پر قدغن لگانا کہاں کی دانشمندی ہے؟۔

حالات کا تقاضا ہے کہ پڑھائی کےساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے لڑکوں کی ٹریننگ اس نہج کی ہو کہ لڑکے کم عمری میں ہی تجارت کے معاملات سے روشناس ہوں۔

علاوہ ازیں اگر بچے سوشل پلیٹ فارم سے کمانے کا میلان رکھتے ہیں تو اس پر بھی ان کو سکھایا جائے کہ یہ والا بہترین ٹریک ہے یا پرخطر یا یہ وی لاگ کرنے سے نقصان یا بدنامی اٹھانی پڑ سکتی ہے۔ کیونکہ ٹین ایج لڑکے فالورز حاصل کرنے کے چکر میں کم عمری میں بندوق سے ایکٹنگ کرتے کرتے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں یا عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے ہیں۔

دراصل المیہ ہے کہ ہمارے بدترین سیاسی حالات نے ملک و قوم کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔

نہ کوئی امنگ ہے اور نہ ہی کوئی تحریک۔ جو نوجوانوں کو بہترین مستقبل کی جانب گامزن رکھے۔ اس لیے یوتھ کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کا راستہ ان کے لیے انتہائی سہل ہے۔ لیکن اس کے استعمال سے متعلق والدین کوئی آگاہی ہی نہیں دیتے۔

کم عمر لڑکوں کو لگثری گاڑیاں دینا ماورائے عقل ہے۔ جب وہ تیز رفتاری سے کسی کو اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیتے ہیں تب ہوش کے ناخن لیے جاتے ہیں۔

ذرا سوچیے کہ اس بچے کا مستقبل کیا ہو گا جس کی چڑھتی جوانی ہی سلاخوں کے سائے سے داغ دار کر دی ہو۔ پچھتانے سے بہتر ہے کہ کم عمری میں لڑکوں کو گاڑیاں قطعاً نہ دی جائیں۔ نیز ڈیجیٹل ڈیوائسز بھی بلاضرورت نہ تھمائی جائیں کیونکہ قبل از وقت ایسی اشیاءتھمانا موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ آپ کا بچہ ایک مشق نہیں جسے آپ جلدی جلدی نمٹا دیں۔

تربیت ایک ٹائم اور توجہ مانگتی ہے۔ لہذا اپنے لڑکوں پر نگاہ رکھیے، باخبر رہیے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہیں بلکہ لنکا ڈھانے کے مترادف ہے تو پھر ہو سکتا ہے کہ لڑکوں کی ٹریننگ کے فقدان کے سبب خدانخواستہ اگلی خبر آپ کا تعاقب کر رہی ہو۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مسافر بس اورڈمپر میں تصادم ، خواتین سمیت11زخمی
  • شہری ہوشیار! کراچی میں ڈکیتوں نے نیا طریقہ واردات اپنا لیا
  • باجوڑ: 4 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد پتھر مار کر قتل، ملزم گرفتار
  • کیا ’’ کے ایف سی’’ اپنا 90 سالہ پرانا نام بدلنے جارہا ہے ؟
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس، سفاک ملزم کا دوران تفتیش نوجوان کو زندہ جلانے کا اعتراف
  • 17 سالہ انڈین پاور لفٹر گردن پر 270 کلو کی راڈ گرنے سے ہلاک، دل دہلادینے والی ویڈیو وائرل
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: سفاک ملزم کا دوران تفتیش نوجوان کو زندہ جلانے کا اعتراف
  • گھر میں سوئی ماں اور 9 سالہ بیٹی پر تیزاب پھینک کر ملزم فرار
  • ذرا کم عمر لڑکوں کی جانب بھی توجہ دیجیے