بنگلادیش واپس آکر بدلہ لوں گی، شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
ڈھاکہ: سابق بنگلا دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش واپس آنے اور مارے گئے پولیس اہلکاروں کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کر دیا۔
انہوں نے ایک ویڈیو کال میں ان پولیس افسران کی بیواؤں سے بات کرتے ہوئے عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کو "مافیا سرغنہ" قرار دیا اور کہا کہ وہ جلد واپس آ کر انصاف دلائیں گی۔
شیخ حسینہ نے الزام لگایا کہ عبوری حکومت نے "دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ" دے رکھی ہے، جو بنگلہ دیش میں تباہی پھیلا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ سب کچھ مجھے اقتدار سے ہٹانے کی سازش کے تحت کیا گیا۔ مگر میں زندہ بچ گئی، اور خدا نے مجھے موقع دیا کہ میں انصاف دلا سکوں۔ میں ضرور واپس آؤں گی اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچاؤں گی۔"
یہ پولیس اہلکار 2024 میں ہونے والے طلبہ مظاہروں کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ یہ احتجاج ابتدا میں متنازع کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہوا لیکن بعد میں شیخ حسینہ کی برطرفی کا مطالبہ زور پکڑ گیا، جس کے بعد انہیں 5 اگست 2024 کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔
بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے کہا ہے کہ بھارت سے شیخ حسینہ کی حوالگی ہماری اولین ترجیح ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
خالی ڈھول
اسلام ٹائمز: ٹرمپ نے اپنی اس دھمکی کے چند گھنٹے بعد اردن کے شاہ عبداللہ سے ملاقات میں کہا کہ ”مجھے نہیں لگتا کہ حماس اس ڈیڈ لائن پر پورا اترے گی، وہ خود کو مضبوط دکھانے کی کوشش کر رہی ہے، دیکھتے ہیں وہ کتنی مضبوط ہے۔“ اسرائیلی وزیر دفاع گینٹز نے بھی اگلے دن ٹرمپ کی زبان بولتے ہوئے کہا کہ ”اگر حماس نے ہفتہ گیارہ بجے تک تمام قیدیوں کو رہا نہ کیا تو جہنم کے دروازے کھل جائیں گے اور حماس کا یہ عمل اس کی تباہی پر منتج ہوگا“۔ تحریر: سید تنویر حیدر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر آئندہ ہفتے تک تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو غزہ جہنم کا ایندھن بن جائے گا۔ ٹرمپ نے یہ پیشن گوئی حماس کے تازہ فیصلے اور گزشتہ پیر کو حماس کے ترجمان ابوعبیدہ کی طرف سے اسرائیلی قیدیوں کے چھٹے تبادلے کو معطل کرنے کے اعلان کے جواب میں کی۔ اس تبادلے کو منسوخ کرنے کی وجہ غزہ کے لیے جانے والے سامان کے راستے میں اسرائیل کی جانب سے کھڑی کی گئیں رکاوٹیں تھیں۔ ٹرمپ نے اپنی دی گئی دھمکی میں مزید کہا کہ ”ہم ہر ہفتے کو دو یا تین یرغمالیوں کی رہائی کا انتظار نہیں کر سکتے۔“ ان کے کہنے کے مطابق انہیں نہیں لگتا کہ اگر قیدی ہفتے تک رہا نہ کیے گئے تو وہ زندہ بچ پائیں گے۔
ٹرمپ نے اپنی اس دھمکی کے چند گھنٹے بعد اردن کے شاہ عبداللہ سے ملاقات میں کہا کہ ”مجھے نہیں لگتا کہ حماس اس ڈیڈ لائن پر پورا اترے گی، وہ خود کو مضبوط دکھانے کی کوشش کر رہی ہے، دیکھتے ہیں وہ کتنی مضبوط ہے۔“ اسرائیلی وزیر دفاع گینٹز نے بھی اگلے دن ٹرمپ کی زبان بولتے ہوئے کہا کہ ”اگر حماس نے ہفتہ گیارہ بجے تک تمام قیدیوں کو رہا نہ کیا تو جہنم کے دروازے کھل جائیں گے اور حماس کا یہ عمل اس کی تباہی پر منتج ہوگا“۔ گزشتہ جمعے کو ٹرمپ سے نامہ نگاروں نے پھر پوچھا کہ کیا ابھی تک وہ اپنی دھمکی پر قائم ہیں؟ ٹرمپ نے جواب میں کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ بارہ بجے کیا ہونا والا ہے؟
ٹرمپ کے کہنے کے مطابق اگر یہ سب کچھ ان پر منحصر ہوتا تو وہ بہت سخت مؤقف اختیار کرتے۔ ٹرمپ نے اپنی دھمکی کے حوالے سے مزید تجسس پیدا کرتے ہوئے کہا کہ ”میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ اسرائیل کیا کرے گا“۔ ٹرمپ کے اس دوٹوک اعلان کے بعد اکثر ذرائع ابلاغ کا تجزیہ تھا کے ہفتہ 12 بجے کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہو جائے گا اور ایک بار پھر غزہ پر آتش و آہن کی بارش برسنا شروع ہو جائے گی لیکن ہفتہ آیا اور حسب معمول گزر گیا اور کہیں کسی قسم کے جہنم کو نہ دیکھا گیا۔ معمول کے مطابق قیدیوں کا تبادلہ ہوا اور ساتھ ہی غزہ کی پٹی میں سامان کی ترسیل اور ٹرکوں کی آمدورفت تیز ہوگئی۔ جس دن ابوعبیدہ نے معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا اس دن کے بعد اوسطاً 600 ٹرک غزہ کی پٹی میں داخل ہوئے جو پچھلی تعداد سے دوگنا تھے۔
اس عرصے میں حماس اور تل ابیب کے درمیان ثالثوں کے پیغامات کے تبادلے سے معلوم ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کے نمائندوں نے ٹرمپ کی دھمکی پر اسرار نہیں کیا بلکہ تمام قیدیوں کی رہائی سے متعلق ٹرمپ کی دی گئی ڈیڈ لائن کے دن سے ہفتے تک اسرائیل کی کوئی غیر معمولی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی اور اگر کوئی ایسی سرگرمی تھی بھی تو حماس پر اس کا معمولی اثر بھی نہیں تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے ابتدائی ایام میں اپنے کیے گئے اعلان سے جس طرح ”یوٹرن“ لیا ہے اس سے عالمی سطح پر ان کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے اور بعض کے کہنے کے مطابق وہ ”خالی ڈھول“ ثابت ہوا ہے۔