Daily Ausaf:
2025-02-21@01:08:57 GMT

وقت اور زندگی کی حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

کیا یہ سوال منطقی طور پر اٹھایا جا سکتا ہے کہ وقت کو روک کر زندگی کا دورانیہ یا عمر بڑھا لی جائے؟ یہ سوال بہت دلچسپ ہی نہیں علمی اور دانشورانہ بھی ہے کہ جس سے البرٹ آئنسٹائن جیسے دنیا کے عظیم ترین سائنس دان کو بھی واسطہ پڑا تھا۔ دنیا کا کون سا انسان ہے کہ جو زیادہ دیر تک جینا نہیں چاہتا ہے؟ شائد زندہ رہنے کی یہی شدید خواہش انسانوں میں وقت کو سمجھنے کا احساس بھی پیدا کرتی ہے۔وقت کو عموما زمان و مکان کی پیمائش کا پیمانہ یا دورانیہ سمجھا جاتا ہے۔درحقیقت وقت کیا ہے؟ گہری تحقیق اور مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ ’’وقت‘‘کی ابھی تک کوئی حتمی یا متفقہ تعریف سامنے نہیں آئی ہے۔ بنی نوع انسان صرف اتنا جانتا ہے کہ سورج چاند ستاروں کی گردش، دن اور رات کے وقفوں، روزمرہ کے کاموں کے اوقات یا مختلف کاموں کی انجام دہی میں جو دورانیہ یا فاصلہ درکار ہوتا ہے جسے انگریزی میں Time and Space اور اردو میں زمان و مکان کہتے ہیں، اسے عموما وقت سے موسوم کیا جاتا یے۔ اس اعتبار سے وقت حرکت، سکون یا جدوجہد اور کارکردگی کے درمیان پیدا ہونے والی ایک ضمنی شے ہے جو چیزوں کی مدت اور زندگی وغیرہ کا احاطہ کرتا ہے جس کا اطلاق نہ صرف جان دار چیزوں پر ہوتا ہے بلکہ اس کے دائرے میں کائنات میں پائی جانے والی بے جان اشیاء بھی آتی ہیں۔وقت کے بارے ایک عام نظریہ یہ ہے کہ یہ ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا ہے مگر 2025 ء کے آغاز پر ایک انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز واقعہ یہ پیش آیا کہ اس سال کے آغاز میں اڑان بھرنے والی ایک پرواز دوبارہ ایک سال پیچھے یعنی 2024 ء میں لینڈ کر گئی۔
ایک غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ میں ایک مسافر طیارے نے 2025 ء کے پہلے دن اڑان بھری اور وہ دوبارہ 2024ء میں لانس اینجلس کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر اتری۔ کیتھے پیسیفک فلائٹ نمبر 880 ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے سے مقامی وقت کے مطابق آدھی رات کے بعد روانہ ہوئی۔ جیٹ ایئرلائنز نے بحر الکاہل کے اوپر سے راستہ بنایا، یہ پرواز یکم جنوری سال 2025 ء کی رات 12 بج کر 38 منٹ پر اڑی اور پھر حیران کن طور پر لاس اینجلس میں 31دسمبر 2024 ء کو رات 8بج کر 55 منٹ پر لینڈ کر گئی۔دراصل ہانگ کانگ لاس اینجلس سے وقت میں 16گھنٹے آگے ہے۔ اس لئے جب اس منفرد پرواز کے مسافر فلائٹ میں بیٹھے تو اس وقت ہانگ کانگ میں نیا سال شروع ہو چکا تھا اور جب وہ لاس اینجلس پر لینڈ اترے تو وہاں نئے سال 2025ء کے آغاز میں ابھی کچھ گھنٹے باقی تھے۔یوں ہانگ کانگ کے مسافروں نے نئے سال 2025 ء کا جشن دو مرتبہ منایا۔ کیا ایسا ممکن ہے اس اتفاقی واقعہ کی روشنی میں بنی نوع انسان کسی طرح اگر وقت پر کنٹرول حاصل کر لے تو وہ لمبے عرصے تک زندہ رہ سکے یا پھر اس کے ’’امر‘‘ ہونے کا دیرینہ خواب بھی پورا ہو جائے؟ میں اصولی طور پر اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ یہ موت پر قابو پانے کی ایک غیر منطقی سی بحث ہے۔ دنیا میں ہمیشگی زندگی مل جائے تو انسانیت ویسے ہی بوریت سے مر جائے گا۔ لیکن جدید سائنس دان وقت کو شکست دینے پر مصر ہیں جیسا کہ آئنساٹائن کے مطابق خلا میں وقت سست رفتاری سے گزرتا ہے یا روشنی کی رفتار سے سفر جاری رکھا جائے تو وقت تقریبا تھم جاتا ہے۔ پہلی بار ’’بلیک ہولز‘‘کا تصور آئن سٹائن نے پیش کیا تھا جس پر سٹیفن ہاکنگ نے بہت کام کیا، جن کے بارے دنیا کے تقریبا تمام سائنس دان متفق ہیں کہ بلیک ہولز کے کناروں (Even Horizons) پر وقت انتہائی سست رفتاری سے چلتا ہے جہاں سے 3 لاکھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والی روشنی بھی نہیں گزر سکتی ہے کیونکہ بلیک ہولز روشنی کی رفتار کو ختم کر کے اسے اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں اور روشنی ان میں گر کر فنا ہو جاتی ہے۔بلیک ہولز کے بارے عموما کہا جاتا ہے کہ ان کے اندر وقت تھم جاتا ہے جن کے اندر ورم ہولزہوتے ہیں جو بلیک ہولز میں گرنے والی چیزوں کو کسی دوسری دنیا یا متوازی کائناتوں میں سے کسی ایک کائنات میں دھکیل دیتے ہیں۔ اس سے وقت کی عمومی تعریف کے مطابق ایک تو انسان کے لئے ان بلیک ہولز کے اندر زندہ رہنا ممکن نہیں کیونکہ ان کے اندر بہت زیادہ کثافت ہوتی ہے۔دوسرا یہ کہ وقت حرکت اور فاصلے سے پیدا ہوتا ہے اور بنی نوع انسان کی زندگی کی حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ حرکت سے پیدا ہوتی ہے یعنی ہماری موجودہ زندگی ’’زمان و مکان‘‘کی محتاج ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو فہم و شعور اور وقت کے دورانیے سے محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہمارے لئے وقت کی رفتار سست پڑ جائے یا وقت تھم جائے تو ہم بظاہر عام مختص زندگی سے زیادہ دیر تک یا ہمیشہ کے لیئے موجود تو رہ سکتے ہیں مگر اس دوران ہم ’’زندہ‘‘نہیں رہ سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری موجودہ زندگی ’’حرکت‘‘ پر مبنی ہے۔ جس چیز میں حرکت، نسل کشی یا نشوونما نہیں وہ جاندار نہیں ہو سکتی ہے۔ ایک لمحہ کے لیئے سوچیں کہ ہمارا دل حرکت کرنا بند کر دے، خون جسم میں گردش نہ کرے یا ہمارا دماغ اور جسم کے دوسرے اعضا کام نہیں کریں گے تو ہم زندہ رہیں اور نہ زندگی گزار سکیں گے۔
بنیادی طور پر وقت زندگی گزارنے اور بسر کرنے کا پیمانہ اور دورانیہ ہے۔ انسان نے ایک سے زیادہ بار چاند پر قدم رکھا ہے۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ وہاں جو چیز جیسی رکھیں گے وہ وہاں ہزاروں سالوں کے بعد بھی آپ کو ویسی ہی ملے گی۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی عمر ان کی زندگی میں حرکت کی عدم موجودگی اور ان پر ہوا، روشنی یا کسی بیرونی دبائوکے کم یا نہ ہونے کی وجہ سے لامحدود حد تک لمبی ہو سکتی ہے۔زمانہ طالب علمی میں سنتے تھے کہ ناروے میں چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے۔ آب گوگل کر کے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں سردیوں کی راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہوتے ہیں۔ موسموں کی تبدیلی اور سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کے ساتھ دن اور رات کے اوقات میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ انگلینڈ میں سردیوں کے دوران بعض ایام صرف تین یا چار گھنٹے کے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ 2025 ء کے پہلے روز اڑنے والی فلائٹ کا واقعہ رونما ہوا جس کے مسافروں کو سال نو 2 بار منانے کا موقعہ ملا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی اور وقت کو سمجھ کر زندگی کا بھی دو بار لطف اٹھایا جا سکتا ہے؟ آئن سٹائن نے وقت کی مساوات کو پیش کرتے وقت ٹرین کے مسافروں کی مثال پیش کی تھی کہ ٹرین میں بیٹھے مسافر دیگر مسافروں کے لیئے ساکن مگر زمین پر موجود انسانوں اور دیگر چیزوں کے مقابلے میں حرکت میں ہوتے ہیں۔ یہ وقت کا دوہرا پہلو ہے جس کو مدنظر رکھ کر آئنسٹائن نے دعوی کیا تھا کہ وقت ایک مطابقتی Relative یا اضافی شے ہے۔ انہوں یہ بھی ثابت کیا تھا کہ ایک بوڑھا شخص اگر خلا میں زیادہ عرصہ رہے گا تو اس کی گھڑی زمین پر رہنے والوں کی گھڑیوں کے مقابلے میں سست رفتار سے چلے گی اور جب وہ واپس زمین پر پلٹے گا تو وہ ان بچوں سے زیادہ نوجوان ہو گا جن کو چھوڑ کر وہ خلا میں گیا تھا یعنی وہ بوڑھا خلا باز جوان اور زمین پر رہنے والے بچے بوڑھے ہو چکے ہوں گے۔
آئن سٹائن کے اس دعویٰ کو آج تک کوئی دوسرا سائنس دان چیلنج نہیں کر سکا ہے کہ جو اس دعویٰ کو سائنسی طریقے سے غلط ثابت کرے یا اس میں اضافہ کرے تو اسے ’’نوبل پرائز‘‘سے نوازا جا سکے۔ یہ زندگی اور وقت کو سمجھنے کا چیلنج ہے جسے انسان قبول کرے تو وہ زیادہ دیر یا ہمیشہ زندہ رہنے کا اپنا خواب بھی پورا کر سکتا یے۔ تاہم وقت اور زندگی ابھی تک ایسی پہیلیاں ہیں جنہیں آج تک کے انسان ابھی تک مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ ہمیں اس کام کو کرنے میں اتنا وقت لگا یا فلاں شخص اتنا عرصہ زندہ رہا۔ وقت کو سمجھ کر زندگی اور زندگی کو سمجھ کر وقت کو سمجھا جا سکتا ہے جس سے ان دونوں کو بہتر استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ گو کہ وقت اور زندگی دو معمے ہیں جن کو فی الحال مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا ہے۔ لیکن یہ واضح حقیقت ہے کہ ان کا بہترین مصرف ہی کامیابی و کامرانی کا راز ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: وقت کو سمجھ جا سکتا ہے ہانگ کانگ اور زندگی کی رفتار کے مطابق کے اندر جاتا ہے ہوتا ہے وقت کی کہ وقت

پڑھیں:

کراچی میں ٹرالر اور ڈمپر بے قابو؛ ٹکر سے مزید 2 افراد زندگی کی بازی ہار گئے

کراچی:

شہر قائد میں ٹرالر اور ڈمپر  کی ٹکر سے مزید 2 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔
 

پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بے خوف ٹرک، ٹرالر اور ڈمپرز ڈرائیورز  شہر کی سڑکوں پر بے قابو  پھرنے لگے، جس کے نتیجے میں ٹرالر اور ڈمپر کی ٹکر سے مزید 2 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ڈمپر کی ٹکر سے نوجوان جاں بحق
شاہراہ  فیصل پر کارساز کے قریب ایک حادثے میں  زخمی ہونے والا نوجوان دورانِ علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا، جس کی شناخت 19 سالہ شاکر علی کے نام سے ہوئی۔

پولیس کے مطابق نوجوان کی موٹر سائیکل  کو حادثہ ڈمپر کے ٹکرانے کی وجہ سے پیش آیا۔ ابتدائی کارروائی کے بعد پولیس نے لاش ورثا کے حوالے کرکے واقعے کی تفتیش شروع کردی ہے۔

ٹرالر کی ٹکر سے دوسرا شخص جاں بحق
دوسری جانب شاہ لطیف کے علاقے ملیر میں تیز رفتار ٹرالر کی ٹکر سے موٹر سائیکل پر سوار ایک شخص جاں بحق اور دوسرا زخمی ہوگیا۔ حادثے کے بعد ٹرالر کا ڈرائیور گاڑی چھوڑ کر فرار ہوگیا جس کے بعد پولیس نے ٹرالر کو تحویل میں لے کر تھانے منتقل کر دیا ہے۔

ایس ایچ او شاہ لطیف، راجا عباس نے میڈیا کو بتایا کہ واقعہ شاہ لطیف ملیر انور بلوچ ہوٹل کے قریب پیش آیا جہاں تیز رفتار ٹرالر نے موٹر سائیکل سوار 2 افراد کو ٹکر مار دی، جس میں جاں بحق شخص کی شناخت 45 سالہ عامر ولد غلام مصطفی کے طور پر ہوئی جب کہ زخمی کی شناخت 35 سالہ ساجد ولد محمد ہاشم کے طور پر کی گئی ہے۔

ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ جاں بحق اور زخمی دونوں آپس میں رشتے دار ہیں، جنہیں حادثے کے بعد فوراً جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔

متوفی عامر کے کزن عبدالرحمٰن نے جناح اسپتال میں میڈیا کو بتایا کہ زخمی ساجد مرنے والے عامر کا ماموں ہے۔ وہ دونوں موٹر سائیکلوں پر اپنے کزن کو کینٹ اسٹیشن چھوڑ کر واپس قائد آباد آ رہے تھے کہ ملیر انور بلوچ ہوٹل کے قریب تیز رفتار ٹرالر نے ان کی موٹر سائیکل کو ٹکر مار دی، جس کے نتیجے میں عامر جاں بحق اور ساجد زخمی ہوگیا۔

متوفی عامر پیدائشی گونگا اور بہرا تھا اور چند ماہ قبل اس نے پسند کی شادی کی تھی۔ وہ اسپیشل ایجوکیشن اسکول میں ملازم تھا۔ اسی طرح زخمی ساجد شادی شدہ اور ایک بچے کا باپ ہے اور نجی ٹیکسٹائل مل میں کام کرتا ہے۔ دونوں افراد مدینہ کالونی  قائد آباد کے رہائشی ہیں اور ان کا آبائی تعلق خیرپور میرس سے ہے۔متوفی عامر کی تدفین خیرپور میرس میں کی جائے گی۔

عبدالرحمن نے ٹرالر کے ڈرائیور کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پولیس حکام نے اس معاملے کی تفتیش شروع کردی ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • عام آدمی کے حالات زندگی
  • معمر شخص کی جان بچانے والے پاکستانی طالب علم جو چین میں “ ہیرو“ بن گئے
  • کراچی میں ٹرالر اور ڈمپر بے قابو؛ ٹکر سے مزید 2 افراد زندگی کی بازی ہار گئے
  • اداکارہ روحی بانو، عبدالقادر جونیجو اور کتا (پہلی قسط)
  • ملائیشیا میں پاکستانیوں کی زندگی کیسی ہے؟
  • ہانیہ عامر اور دلجیت دوسانجھ کی ایک جیسی انسٹا اسٹوری، حقیقت کیا؟
  • مریم نفیس کی بولڈ ڈریسنگ پر شوہر امان احمد کیا کہتے ہیں ؟ اداکارہ نے بتا دیا
  • وزیرِ اعظم کا خواب ہے کہ پاکستانی عزت کی زندگی گزاریں: وفاقی وزیر مصدق ملک
  • علم ہے رازِ حیات