کچھ رشتے داروں سے بدبو آنے کا بیان جگن کاظم کو مہنگا پڑ گیا
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
مارننگ شو میزبان جگن کاظم کو دوستوں اور خاندان والوں کے جسم اور منہ سے بدبو آتی ہے کا بیان دینا مہنگا پڑ گیا۔
گزشتہ دنوں جگن نے اپنا ایک شو صحت سے متعلق کیا جس میں حفظانِ صحت کی اہمیت سے متعلق گفتگو کی اور اسی دوران ایک شادی پر پیش آئے واقعے سے بھی آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ میں کچھ عرصہ قبل ایک شادی میں گئی جہاں کچھ جاننے والوں سے ملاقات اور بات چیت ہوئی، ان میں سے 2 افراد ایسے تھے جنہوں نے گندگی کی مثال قائم کی ہوئی تھی۔
ٹی وی ہوسٹ نے بتایا کہ ان افراد کے جسم اور کپڑوں سے اتنی بدبو آ رہی تھی کہ ساتھ کھڑے ہونے اور بات کرنے میں بھی مسئلہ درپیش تھا۔
جگن کاظم نے کہا کہ مجھ لگ رہا تھا کہ دونوں نے کئی دن سے اپنے بال بھی نہیں دھوئے ہیں اور ان کے بالوں میں خشکی بھی واضح تھی، ان دونوں افراد کی دانتوں کی صفائی بھی نہیں ہوئی تھی جس کے باعث بدبو آ رہی تھی۔
انہوں نے صفائی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی محفل یا پروگرام میں جائیں تو اپنی صفائی کا خیال رکھیں، صاف ستھرائی کی عادات اپنانے سے ہماری شخصیت میں نکھار آتا ہے۔
مارننگ شو میزبان کو اس بیان پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سوشل میڈیا صارفین نے ان کو آڑے ہاتھوں لے لیا ہے۔
صارفین نے کہا کہ شو کی میزبان کو کسی کے لیے بھی ججمنٹل نہیں ہونا چاہیے، میزبان اور اداکارہ کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ کون سی بات کہاں کرنی چاہیے۔
ایک صارف نے کہا کہ چینل پر بیٹھ کر کسی کے بارے میں ایسی بات کرنا بے عزتی کے مترادف ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
اس کا حل کیا ہے؟
’’ابھی میں کسی سے سن رہا تھا کہ کراچی میں ایک دن کی ہڑتال سے پتا نہیں کتنے ارب روپے میرے ذہن سے تعداد نکل گئی، نقصان ہوا۔ تو آپ مجھے بتائیے کہ فلسطین کے لیے اس طرح کی ہڑتال کرنے کا فائدہ کسے ہوا، کسی کو نہیں ہوا بلکہ آپ کو الٹا نقصان ہی ہوا ہے۔‘‘
’’بالکل درست فرمایا، اس طرح تو بھئی! ہماری قوم ہی کا نقصان ہوا ہے، میں تو کہتی ہوں کہ اس سے بہتر یہ تھا کہ آپ کام کرتے اور ایک دن کی کمائی جو بھی بنتی وہ ان کو پہنچا دی جاتی تو کم ازکم ان کا بھلا تو ہوتا۔‘‘
’’میں کہتا ہوں کہ اگر ہم صرف یہاں چند ایک لائن کی دکانوں سے بھی جمع کرتے تو کم از کم پچیس لاکھ تو جمع ہو جاتے اور اس طرح صرف اس علاقے سے کم از کم ایک کروڑ اور تخمینہ لگائیں تو اور بھی بلکہ کروڑوں روپے جمع ہو سکتے تھے کم از کم ان فلسطینیوں کے لیے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں کچھ تو بھلا ہو سکتا تھا لیکن نہیں، الٹا اپنا نقصان کر دیا۔ یہ کام دراصل کسی اور کا ہے اور کر عوام رہے ہیں۔‘‘
’’ان کی پروڈکٹس خریدنا بند کردیں یہ تو کر سکتے ہیں بھئی۔‘‘
’’دیکھیں ان کی پروڈکٹس جو امپورٹ ہوتی ہیں وہ چلیں بائیکاٹ کی بات سمجھ آتی ہے، پر وہ جو کہتے ہیں ان کی یہ اشیا نہ کھاؤ، وہ نہ کھاؤ۔ تو ایک بات سمجھ لیں کہ یہ ان کی فرنچائز ہیں، یہ ان کی ملکیت نہیں ہے، یہ دراصل ان کی بنی بنائی مشہور پروڈکٹس کا نام جو آپ کے ملک میں خریدے گئے یہ آپ کے اپنے پاکستانی بھائیوں کی ہیں بلکہ پہلے تو ان فرنچائز میں چیزیں امپورٹ ہو کر آتی تھیں لیکن اب سب کچھ یہاں پاکستان میں بنتا ہے۔
وہ لوگ تو اپنا نام بیچتے ہیں کہ جی آپ یہاں کتنی فرنچائز کھول سکتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں تاثر یہ ہے کہ اس طرح ہم اسرائیل کو نقصان پہنچائیں گے، درحقیقت نقصان تو ہمارا بھی ہے ناں، یہاں ہمارے کتنے لوگ کام کرتے ہیں، وہاں نقصان تو ہمارا بھی ہوا ہے، لوگوں کی تنخواہیں کیسے نکالیں گے۔۔۔ ان کا کیا فائدہ؟‘‘
’’نہیں، نقصان تو ہو سکتا ہے ناں، پیسے تو ان تک پہنچتے ہی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ لوگ پھر کام ہی بند کردیں، اس طرح اسرائیل کو تو نقصان ہوا ناں۔‘‘
اسرائیل کی فلسطینی عوام پر دوبارہ بمباری نے دنیا کی آزمائش شروع کر دی ہے، کون کیا سوچتا ہے؟ کیا کرنا چاہتا ہے؟ اور کس کے حق میں ہے۔ دو واضح پلیٹ فارم ہیں ایک مضبوط، بظاہر طاقتور اور اتحادیوں کے نرغے میں جب کہ دوسرا شکستہ، زبوں حال، خون سے رنگا۔ ایک ظالم ہے اور ایک مظلوم کہ آج کی دنیا لاکھوں سال پہلے پتھر کے دور میں پہنچ چکی ہے۔ ایسا وقت جب انسانوں کے دل بھی شاید پتھر کے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔
بڑے بڑے طاقتور اور انصاف کے علم بردار آج فرعون کے ساتھ ہیں۔ فرعون سے خوب یاد آیا کہ اس مغرور اور ظالم و جابر کی بھی بس ہوگئی تھی، اس کا وقت مقرر تھا اور اس مدت تک پہنچنے کے لیے تو تماشا خون و آگ کا تو ظالموں کے لیے چلتا ہی رہے گا۔
ادھر ٹرمپ اسرائیلی وزیر اعظم سے ملنے کے پروگرام بناتے ہیں اور وہاں غزہ میں ان زخمیوں کے کیمپوں پر حملے کیے گئے جنھیں عارضی طور پر اسپتالوں کے باہر قائم کیا گیا تھا۔ اسرائیلی فوجی دعوے کرتے ہیں کہ وہ شہریوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتے ہیں لیکن منظر عام پر ان کی وحشت میں ڈوبی وڈیوز آ چکی ہیں جو مسلمانوں کی نفرت میں اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ دیوانوں کی مانند مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کر رہے تھے جب کہ وہ نہ صرف خیموں میں قائم عارضی کیمپوں پر بلکہ گھروں پر بھی حملے کر رہے ہیں۔
دو سو اکیاون اسرائیلی شہریوں کے عوض جو دہشت گردی اور بربریت کا بازار غزہ میں بپا کیا گیا ہے،کیا اسے انصاف کی عالمی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے،کیا نیتن یاہو کا مظلوم فلسطینیوں کی رضاکارانہ ہجرت کا پلان مکمل ہو سکتا ہے،کیا واقعی بچے کچھے فلسطینی دنیا کے دوسرے ممالک میں منتقل ہو جائیں گے؟
یہ حقیقت ہے کہ فلسطین کی سنہری انبیا کی زمین پر قبضے کا خواب تو دیکھنے والے کب سے دیکھ رہے ہیں لیکن 19 جنوری کو طے کیا جانے والا جنگ بندی کا وہ معاہدہ جس کے ثالث امریکا، قطر اور مصر تھے گو اس کے مراحل تو تین تھے پر وہ سب تین تیرہ ہوکر رہ گئے۔
کیا جنگ بندی کے بعد تھکے ہارے اپنوں کے دکھوں میں کھوئے جنگ ختم کی فلم چلا دینے سے اصل مقصد کیا تھا؟ باقی ماندہ مظلوموں کو بھی ٹھکانے لگانا یا کچھ اور؟ یہ بھی تو کسی منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے لیکن اس پوری حقیقت کا سرا کس کے ہاتھ میں ہے کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ تو اسرائیل کی پارٹی کا مضبوط حصہ بن چکے ہیں۔
پھر دنیا کے ٹھیکے داران اب کیا کر سکتے ہیں، منصوبہ کیا ہے، اس کے اصل مقاصد سے کون کون واقف ہے، کون کون اس منصوبے کا حصہ ہے؟ وائرل وڈیوز میں مظلوموں پر ظلم کرنے والوں کی وردیوں پر اتحادیوں کے جھنڈوں کے نشانات واضح ہیں۔ ایک کھلا جرم جو سینہ تان کر کیا گیا۔ پاکستان ایٹمی طاقت کا مالک مختلف مسائل میں گھرا اپنوں سے ڈسا فلسطین کے مسئلے کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے یا آزمائش کے مراحل میں ہے۔ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ:
’’ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے۔‘‘
سورۃ الطور کی آیت نمبر اکیس میں یہی بیان کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کی عطا کردہ صلاحیتوں سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے اور النفس و آفاق کی آیات پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کو عقل دی گئی ہے لیکن وہ غور و فکر سے کام نہیں لیتا، رب العزت نے عمل اور سعی کو بہت اہمیت دی ہے۔
انسان کا عمل ہی اسے ترقی کی جانب لے جاتا ہے لیکن ہم تنزلی کی جانب جا رہے ہیں۔ ہمارے پاس عقل و شعور تو ہے لیکن نفسانی خواہشات نے بحیثیت قوم ہمیں گھٹنوں پر بٹھا دیا ہے، ہمیں خوف ہے کہ اگر ہم کسی بھی سپر پاورکے خلاف ری ایکٹ کرتے ہیں تو پکڑے جائیں گے بالکل ایسا ہی دیگر مسلم طاقت بھی سوچ رہی ہیں۔
بہت ساری عداوتیں کمزوری کو جنم دیتی ہیں اور یہ کمزوری ہمارے تعصب، اقربا پروری اور نفس کی کمزوری جیسی بیماریاں ابھارتی ہے۔ امت مسلمہ ان بیماریوں میں ڈوب چکی ہے۔ ہماری تقدیر کا فیصلہ کاتب نے لکھ دیا ہے۔ جیت، ہار یا بے عزتی اور شرمندگی اب ہم کس جانب بہتے چلے جاتے ہیں کون جانے۔عالمی عدالت نے تو اسرائیل کو غیر قانونی ریاست قرار دے دیا ہے جس کے مطابق دنیا بھر میں اسرائیل کو ایک خود مختار قوم کے طور پر تسلیم نہیں کرنا چاہیے لیکن اس عدالت کے فیصلے پر عمل ہو سکتا ہے یا نہیں یا یہ بھی جنگ بندی کے معاملے کی مانند اوپر سے میٹھا اور اندر سے کڑوا ہو، پر ہم اپنے رب پر یقین رکھتے ہیں کہ مایوسی کفر ہے۔