ہانیہ عامر اور دلجیت دوسانجھ کی ایک جیسی انسٹا اسٹوری، حقیقت کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
ہانیہ عامر اور دلجیت دوسانجھ کی ایک جیسی انسٹا اسٹوری نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی۔
پاکستانی ڈمپل کوئن ہانیہ عامر اور بھارتی گلوکار دلجیت دوسانجھ کی ایک جیسی انسٹا اسٹوری محض اتفاق ہے یا کچھ کھچڑی پک رہی ہے؟ سوشل میڈیا صارفین تشویش کا شکار ہو گئے۔
شوبز انڈسٹری کی دلکش اداکارہ ہانیہ عامر کی سپر اسٹار دلجیت دوسانجھ کی ایک ساتھ فلم یا گانا شوٹ کرنے سے متعلق چے میگوئیاں ہو رہی تھیں۔
جس پر دونوں کی ایک جیسی انسٹا اسٹوری نے مہر ثبت کر دی ہے۔
بھارتی میڈیا پر دونوں اسٹارز کے ایک ساتھ اسکرین شیئر کرنے کی افواہیں گرم تھیں، لیکن دونوں جانب سے کسی قسم کی کوئی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی تھی۔
انسٹاگرام اسٹوری میں ہانیہ عامر اور دلجیت دوسانجھ نے ایک جیسے منظر کو صارفین کے ساتھ شیئر کیا ہے۔
مداحوں نے اسٹوری پر خوشی کا اظہار کیا اور دونوں کی ممکنہ اسکرین شیئرنگ کے بارے میں قیاس آرائیوں نے زور پکڑ لیا۔
صارفین دونوں فنکاروں کی کولیبریشن کو فلم یا کسی سونگ کی شوٹ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین کبھی میں کبھی تم کی شرجینا کو دلجیت دوسانجھ کے ساتھ اسکرین پر دیکھنے کے لیے کافی پرجوش ہیں اور مختلف انداز سے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دلجیت دوسانجھ کی ایک ہانیہ عامر اور
پڑھیں:
وقت اور زندگی کی حقیقت
کیا یہ سوال منطقی طور پر اٹھایا جا سکتا ہے کہ وقت کو روک کر زندگی کا دورانیہ یا عمر بڑھا لی جائے؟ یہ سوال بہت دلچسپ ہی نہیں علمی اور دانشورانہ بھی ہے کہ جس سے البرٹ آئنسٹائن جیسے دنیا کے عظیم ترین سائنس دان کو بھی واسطہ پڑا تھا۔ دنیا کا کون سا انسان ہے کہ جو زیادہ دیر تک جینا نہیں چاہتا ہے؟ شائد زندہ رہنے کی یہی شدید خواہش انسانوں میں وقت کو سمجھنے کا احساس بھی پیدا کرتی ہے۔وقت کو عموما زمان و مکان کی پیمائش کا پیمانہ یا دورانیہ سمجھا جاتا ہے۔درحقیقت وقت کیا ہے؟ گہری تحقیق اور مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ ’’وقت‘‘کی ابھی تک کوئی حتمی یا متفقہ تعریف سامنے نہیں آئی ہے۔ بنی نوع انسان صرف اتنا جانتا ہے کہ سورج چاند ستاروں کی گردش، دن اور رات کے وقفوں، روزمرہ کے کاموں کے اوقات یا مختلف کاموں کی انجام دہی میں جو دورانیہ یا فاصلہ درکار ہوتا ہے جسے انگریزی میں Time and Space اور اردو میں زمان و مکان کہتے ہیں، اسے عموما وقت سے موسوم کیا جاتا یے۔ اس اعتبار سے وقت حرکت، سکون یا جدوجہد اور کارکردگی کے درمیان پیدا ہونے والی ایک ضمنی شے ہے جو چیزوں کی مدت اور زندگی وغیرہ کا احاطہ کرتا ہے جس کا اطلاق نہ صرف جان دار چیزوں پر ہوتا ہے بلکہ اس کے دائرے میں کائنات میں پائی جانے والی بے جان اشیاء بھی آتی ہیں۔وقت کے بارے ایک عام نظریہ یہ ہے کہ یہ ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا ہے مگر 2025 ء کے آغاز پر ایک انتہائی دلچسپ اور حیرت انگیز واقعہ یہ پیش آیا کہ اس سال کے آغاز میں اڑان بھرنے والی ایک پرواز دوبارہ ایک سال پیچھے یعنی 2024 ء میں لینڈ کر گئی۔
ایک غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ میں ایک مسافر طیارے نے 2025 ء کے پہلے دن اڑان بھری اور وہ دوبارہ 2024ء میں لانس اینجلس کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر اتری۔ کیتھے پیسیفک فلائٹ نمبر 880 ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے سے مقامی وقت کے مطابق آدھی رات کے بعد روانہ ہوئی۔ جیٹ ایئرلائنز نے بحر الکاہل کے اوپر سے راستہ بنایا، یہ پرواز یکم جنوری سال 2025 ء کی رات 12 بج کر 38 منٹ پر اڑی اور پھر حیران کن طور پر لاس اینجلس میں 31دسمبر 2024 ء کو رات 8بج کر 55 منٹ پر لینڈ کر گئی۔دراصل ہانگ کانگ لاس اینجلس سے وقت میں 16گھنٹے آگے ہے۔ اس لئے جب اس منفرد پرواز کے مسافر فلائٹ میں بیٹھے تو اس وقت ہانگ کانگ میں نیا سال شروع ہو چکا تھا اور جب وہ لاس اینجلس پر لینڈ اترے تو وہاں نئے سال 2025ء کے آغاز میں ابھی کچھ گھنٹے باقی تھے۔یوں ہانگ کانگ کے مسافروں نے نئے سال 2025 ء کا جشن دو مرتبہ منایا۔ کیا ایسا ممکن ہے اس اتفاقی واقعہ کی روشنی میں بنی نوع انسان کسی طرح اگر وقت پر کنٹرول حاصل کر لے تو وہ لمبے عرصے تک زندہ رہ سکے یا پھر اس کے ’’امر‘‘ ہونے کا دیرینہ خواب بھی پورا ہو جائے؟ میں اصولی طور پر اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ یہ موت پر قابو پانے کی ایک غیر منطقی سی بحث ہے۔ دنیا میں ہمیشگی زندگی مل جائے تو انسانیت ویسے ہی بوریت سے مر جائے گا۔ لیکن جدید سائنس دان وقت کو شکست دینے پر مصر ہیں جیسا کہ آئنساٹائن کے مطابق خلا میں وقت سست رفتاری سے گزرتا ہے یا روشنی کی رفتار سے سفر جاری رکھا جائے تو وقت تقریبا تھم جاتا ہے۔ پہلی بار ’’بلیک ہولز‘‘کا تصور آئن سٹائن نے پیش کیا تھا جس پر سٹیفن ہاکنگ نے بہت کام کیا، جن کے بارے دنیا کے تقریبا تمام سائنس دان متفق ہیں کہ بلیک ہولز کے کناروں (Even Horizons) پر وقت انتہائی سست رفتاری سے چلتا ہے جہاں سے 3 لاکھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والی روشنی بھی نہیں گزر سکتی ہے کیونکہ بلیک ہولز روشنی کی رفتار کو ختم کر کے اسے اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں اور روشنی ان میں گر کر فنا ہو جاتی ہے۔بلیک ہولز کے بارے عموما کہا جاتا ہے کہ ان کے اندر وقت تھم جاتا ہے جن کے اندر ورم ہولزہوتے ہیں جو بلیک ہولز میں گرنے والی چیزوں کو کسی دوسری دنیا یا متوازی کائناتوں میں سے کسی ایک کائنات میں دھکیل دیتے ہیں۔ اس سے وقت کی عمومی تعریف کے مطابق ایک تو انسان کے لئے ان بلیک ہولز کے اندر زندہ رہنا ممکن نہیں کیونکہ ان کے اندر بہت زیادہ کثافت ہوتی ہے۔دوسرا یہ کہ وقت حرکت اور فاصلے سے پیدا ہوتا ہے اور بنی نوع انسان کی زندگی کی حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ حرکت سے پیدا ہوتی ہے یعنی ہماری موجودہ زندگی ’’زمان و مکان‘‘کی محتاج ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو فہم و شعور اور وقت کے دورانیے سے محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہمارے لئے وقت کی رفتار سست پڑ جائے یا وقت تھم جائے تو ہم بظاہر عام مختص زندگی سے زیادہ دیر تک یا ہمیشہ کے لیئے موجود تو رہ سکتے ہیں مگر اس دوران ہم ’’زندہ‘‘نہیں رہ سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری موجودہ زندگی ’’حرکت‘‘ پر مبنی ہے۔ جس چیز میں حرکت، نسل کشی یا نشوونما نہیں وہ جاندار نہیں ہو سکتی ہے۔ ایک لمحہ کے لیئے سوچیں کہ ہمارا دل حرکت کرنا بند کر دے، خون جسم میں گردش نہ کرے یا ہمارا دماغ اور جسم کے دوسرے اعضا کام نہیں کریں گے تو ہم زندہ رہیں اور نہ زندگی گزار سکیں گے۔
بنیادی طور پر وقت زندگی گزارنے اور بسر کرنے کا پیمانہ اور دورانیہ ہے۔ انسان نے ایک سے زیادہ بار چاند پر قدم رکھا ہے۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ وہاں جو چیز جیسی رکھیں گے وہ وہاں ہزاروں سالوں کے بعد بھی آپ کو ویسی ہی ملے گی۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی عمر ان کی زندگی میں حرکت کی عدم موجودگی اور ان پر ہوا، روشنی یا کسی بیرونی دبائوکے کم یا نہ ہونے کی وجہ سے لامحدود حد تک لمبی ہو سکتی ہے۔زمانہ طالب علمی میں سنتے تھے کہ ناروے میں چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے۔ آب گوگل کر کے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں سردیوں کی راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہوتے ہیں۔ موسموں کی تبدیلی اور سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کے ساتھ دن اور رات کے اوقات میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ انگلینڈ میں سردیوں کے دوران بعض ایام صرف تین یا چار گھنٹے کے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ 2025 ء کے پہلے روز اڑنے والی فلائٹ کا واقعہ رونما ہوا جس کے مسافروں کو سال نو 2 بار منانے کا موقعہ ملا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی اور وقت کو سمجھ کر زندگی کا بھی دو بار لطف اٹھایا جا سکتا ہے؟ آئن سٹائن نے وقت کی مساوات کو پیش کرتے وقت ٹرین کے مسافروں کی مثال پیش کی تھی کہ ٹرین میں بیٹھے مسافر دیگر مسافروں کے لیئے ساکن مگر زمین پر موجود انسانوں اور دیگر چیزوں کے مقابلے میں حرکت میں ہوتے ہیں۔ یہ وقت کا دوہرا پہلو ہے جس کو مدنظر رکھ کر آئنسٹائن نے دعوی کیا تھا کہ وقت ایک مطابقتی Relative یا اضافی شے ہے۔ انہوں یہ بھی ثابت کیا تھا کہ ایک بوڑھا شخص اگر خلا میں زیادہ عرصہ رہے گا تو اس کی گھڑی زمین پر رہنے والوں کی گھڑیوں کے مقابلے میں سست رفتار سے چلے گی اور جب وہ واپس زمین پر پلٹے گا تو وہ ان بچوں سے زیادہ نوجوان ہو گا جن کو چھوڑ کر وہ خلا میں گیا تھا یعنی وہ بوڑھا خلا باز جوان اور زمین پر رہنے والے بچے بوڑھے ہو چکے ہوں گے۔
آئن سٹائن کے اس دعویٰ کو آج تک کوئی دوسرا سائنس دان چیلنج نہیں کر سکا ہے کہ جو اس دعویٰ کو سائنسی طریقے سے غلط ثابت کرے یا اس میں اضافہ کرے تو اسے ’’نوبل پرائز‘‘سے نوازا جا سکے۔ یہ زندگی اور وقت کو سمجھنے کا چیلنج ہے جسے انسان قبول کرے تو وہ زیادہ دیر یا ہمیشہ زندہ رہنے کا اپنا خواب بھی پورا کر سکتا یے۔ تاہم وقت اور زندگی ابھی تک ایسی پہیلیاں ہیں جنہیں آج تک کے انسان ابھی تک مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے ہیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ ہمیں اس کام کو کرنے میں اتنا وقت لگا یا فلاں شخص اتنا عرصہ زندہ رہا۔ وقت کو سمجھ کر زندگی اور زندگی کو سمجھ کر وقت کو سمجھا جا سکتا ہے جس سے ان دونوں کو بہتر استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ گو کہ وقت اور زندگی دو معمے ہیں جن کو فی الحال مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا ہے۔ لیکن یہ واضح حقیقت ہے کہ ان کا بہترین مصرف ہی کامیابی و کامرانی کا راز ہے۔