پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد قیصر—فائل فوٹو

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد قیصر کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے کوئی بیک ڈور چینل استعمال نہیں کیا جا رہا.

’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو مذاکرات کا موقع دیا تھا، لیکن سنجیدگی نہیں دکھائی۔

چار دیواری کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے: اسد قیصر

رہنما تحریک انصاف اسد قیصر نے کہا ہے کہ گھروں کی چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے۔

اسد قیصر کا کہنا ہے کہ ابھی وفاقی حکومت کے ساتھ کوئی بات نہیں ہو رہی۔

پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ شیر افضل مروت کے معاملے پر پارٹی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھا جائے گا۔

.

ذریعہ: Jang News

پڑھیں:

صوابی بہ مقابلہ نارووال جلسہ

آٹھ فروری کو تحریک انصاف نے بطور یوم سیاہ منایا تھا۔ ویسے تو تحریک انصاف پورے ملک میں احتجاج کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ تاہم صوابی میں جلسہ ہوا۔ آج کل جلسوں کی تصاویر اور ویڈیوز سے جلسوں کی کامیابی اور ناکامی کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ رات کی ویڈیوز لائٹ سب چھپا دیتی ہیں۔ اس لیے سب جلسے ہی اچھے لگتے ہیں۔ اسی لیے رات کا انتظار بھی کیا جاتا ہے۔ دن کے جلسے اسی لیے ختم ہو گئے ہیں۔

بہر حال فروری میں دو جلسے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے گڑھ صوابی میں جلسہ کیا ہے۔ جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے گڑھ نارووال میں جلسہ کیا ہے۔ ہم کسی حد تک دونوں جلسوں کا تقابلی جائزہ کر سکتے ہیں۔ ویسے تو صوابی جلسہ میں صرف کے پی سے لوگوں کو نہیں لایا گیا تھا بلکہ پنجاب کے بھی شمالی دس اضلاع کے لوگوں کو بھی صوابی پہنچنے کا کہا گیا تھا۔ آٹھ فروری کے صوابی جلسہ کے لیے تحریک انصاف نے بہت محنت کی، ساری قیادت وہاں پہنچی، پنجاب کی قیادت بھی وہاں پہنچی۔

بہر حال ہمیں اب تجزیہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مارکیٹ میں کے پی ، کے تحریک انصاف کے صدر جنید اکبر کی ایک آڈیو زیر گردش ہے۔ جس میں وہ صوابی جلسہ کی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔

وہ بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے رہنما لوگوں کو نہیں لائے۔ بلکہ جب ان سے لوگ لانے کا ثبوت مانگا گیا تو انھوں نے اسلام آباد احتجاج کی ویڈیوز اور تصاویر بھجوا دی ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے انھیں بیوقوف بنانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بیوقوف نہیں بنیں گے۔ سب کی رپورٹ بانی تحریک انصاف کو دیں گے۔ ویسے تو غیر جانبدار اندازے بھی یہی تھے کہ صوابی جلسہ ناکام ہو گیا ہے۔ لیکن اب تو صوبائی صدر نے ناکامی تسلیم کر لی ہے، اس لیے جلسہ کی ناکامی پر مہر لگ گئی ہے ۔

دوسری طرف نارووال میں چند سڑکوں کے افتتاح پر مریم نواز نے بھی ایک جلسہ سے خطاب کیا ہے۔ یہ جلسہ دن میں کیا گیا ہے۔ اس کی ویڈیوز میں رات کی لائٹنگ کا سہارا نہیں لیا گیا۔ اگر مریم نواز کے جلسے اور صوابی جلسے کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو نارووال میں نارووال کے ہی لوگ تھے۔ کوئی باہر سے لوگوں کو مدعو نہیں کیا گیا ۔ سیالکوٹ گوجرانوالہ سے بھی لوگوں کو نہیں بلایا گیا۔ فقط نارووال کا جلسہ تھا۔ لیکن پھر بھی صوابی جلسہ سے بڑا تھا۔ نارووال جلسہ میں صوابی جلسہ سے عوام کی تعداد زیادہ تھی۔ حالانکہ اس کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کوئی باقاعدہ کال بھی نہیں دی گئی تھی۔

ویسے مجھے تحریک انصاف کی صوابی جلسہ کی ناکامی میں یہ منطق قابل قبول نہیں کہ ارکان سمبلی لوگ نہیں لائے۔ تحریک انصاف کا تو سیاسی فلسفہ یہی رہا ہے کہ لوگ خود آتے ہیں۔ لوگ بانی تحریک انصاف کی کال پر آتے ہیں۔ عوام بانی تحریک انصاف سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ بس اڈیالہ سے کال ہی کافی ہے۔ لیکن اگر اس فلسفہ کو دیکھیں تو پھر ارکان اسمبلی سے یہ گلہ کیوں کہ وہ لوگوں کو نہیں لائے۔ اگر لوگ خود آتے ہیں تو پھر کے پی حکومت سے گلہ کیوں کیا جا رہا ہے کہ اس نے جلسہ میں مدد نہیں کی۔ اگر جلسے حکومت کی مدد سے ہی کامیاب ہوتے ہیں تو پھر بانی تحریک انصاف کی محبت کہاں گئی۔

اس طرح تو اب تحریک انصاف کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ لوگ اب بانی تحریک انصاف کی کال پر خود نہیں آتے۔ لوگ حکومتی آشیر باد کے بغیرنہیں آتے، لوگ حکومتی وسائل کے بغیر نہیں آتے۔ پہلے بھی لوگوں کو حکومتی وسائل اور حکومتی آشیر باد سے ہی لایا جاتا تھا۔ پھر پنجاب کے لوگوں سے گلہ کیوں۔ جب کے پی کے لوگ حکومتی آشیرباد کے بغیر آنے کو تیار نہیں تو پنجاب کے لوگ حکومتی آشیرباد کے بغیر کیسے آجائیں۔ پنجاب پر گلہ پھر ناجائز ہے۔

جہاں تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے تو مسلم لیگ (ن) میں ایک نیا جوش نظر آرہا ہے۔ وفاقی اور پنجاب حکومت کی کارکردگی نے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں میں ایک نیا جوش پیدا کیا ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) کا کارکردگی کا بیانیہ مقبول ہوتا نظر آرہا ہے۔لوگ کارکردگی کے معترف نظر آرہے ہیں۔ لوگ اب کارکردگی کی بات کر رہے ہیں۔ لوگوں کو اپنے مسائل حل ہونے کی امید نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ اس لیے ہمیں اب مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں اضافہ نظر آرہا ہے۔

اس سے قبل مریم نواز پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں میں بھی گئی ہیں۔ انھوں نے طلبا و طالبات سے بھی خطاب کیا ہے۔ انھیں جامعات میں بہت پذیرائی ملی ہے۔ ان کے جامعات کے خطاب بھی بہت پسند کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کہتی تھی کہ نوجوان ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نوجوان بھی ن لیگ کی حکومتوں کی کارکردگی پسند کر رہے ہیں۔

بالخصوص وفاقی اور پنجاب حکومتیں نوجوانوں کے لیے جو خصوصی اسکیمیں لائی ہیں وہ نوجوانوں میں مقبول اورپسند بھی کی جا رہی ہے۔ اس میں اسکالر شپ اسکیم بھی شامل ہے۔ لیپ ٹاپ اسکیم بھی شامل ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے آرمی چیف کا بھی نوجوان طلبا و طالبات سے خطاب دیکھا ہے۔ اور فوج کے افسران بھی یونیورسٹیوں میں گئے ہیں۔ نوجوانوں کی سوچ بھی اب حکومت کی طرف مائل نظر آرہی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ابھی ملک میں جلسہ جلوس کا مقابلہ شروع نہیں کرنا چاہتی۔ ابھی حکمت عملی یہی ہے کہ کام کیا جائے اور سیاسی درجہ حرارت کو کم رکھا جائے۔ ابھی دو سال کام کرنے کے ہیں ۔ سیاست تو شروع ہوگی جب ملک میں انتخابات کا بگل بجے گا۔ اس لیے حکومتی پالیسی سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے کی ہے۔ اس لیے صرف مناسب جواب ہی نظر آتا ہے۔ کیونکہ سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ اپوزیشن کے حق میں ہے۔ اس سے حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صوابی بہ مقابلہ نارووال جلسہ
  • آرمی چیف کے دورۂ پر سوشل میڈیا مہم چلانے والوں کیخلاف کارروائی کا اعلان
  • آرمی چیف کو برطانیہ میں ملنے والی عزت تحریک انصاف والے متنازع بنانا چاہتے ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات
  • تحریک انصاف میں ایک گروپ طاقتور گروپ کا مقصدپارٹی پر قبضہ کرنا ہے.شیرافضل مروت
  • اسد قیصر نے بیک ڈور چینل سے مذاکرات کی تردید کردی
  • تحریک انصاف کا عیدالفطر کے بعد تحریک چلانے کا فیصلہ
  • چار دیواری کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے: اسد قیصر
  • ایران نے مذاکرات کیلئے رابطہ نہیں کیا،امریکی وزیرخارجہ
  • تحریک انصاف کی ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے بیک چینل مذاکرات کی کوششیں، پارٹی سیکرٹری اطلاعات کی تردید