ذرائع کے مطابق محبوبہ مفتی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں ڈائریکٹر جنرل پولیس پر زور دیا ہے کہ وہ مکھن دین کے اہلخانہ کے لیے انصاف کو یقینی بنائیں اور مستقبل میں ایسے المناک واقعات کو روکیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ ضلع کٹھوعہ میں مکھن دین کی المناک موت کو کئی ہفتے گزر گئے ہیں اور ابھی تک کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق محبوبہ مفتی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں ڈائریکٹر جنرل پولیس پر زور دیا ہے کہ وہ مکھن دین کے اہلخانہ کے لیے انصاف کو یقینی بنائیں اور مستقبل میں ایسے المناک واقعات کو روکیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک عدالتی تحقیقات یا سوگوار خاندان کے لیے کسی قسم کی مدد یا معاوضے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مقتول کو خودکشی پر مجبور کرانے والا ایس ایچ او بلاور ابھی تک آزاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ صرف یہیں ختم نہیں ہوتا، مکھن دین جیسے بہت سے بے گناہ افراد کو یہی افسر عسکریت پسندی کے جھوٹے الزامات میں گرفتار کرتا ہے اور جب تک کارروائی نہیں کی جاتی، اس طرح کے المناک واقعات پیش آتے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: محبوبہ مفتی نے مکھن دین ابھی تک نے کہا

پڑھیں:

قدم زمین پر ، ہاتھ آسمان پر

وہی راستہ، وہی راستے میںمقام قیام و طعام… لاہور کا سفر درپیش تھا۔ وہی مخصوص چائے کے دو کپ اور ساتھ سبزی کے پکوڑے جن کا بل چند ماہ پہلے سات سو آیا تھا اور اس روز تیرہ سو پچاس روپے، ٹال ٹیکس بھی کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے، اور تواور مانگنے والوں کا ریٹ بھی بڑھ گیا ہے۔

پہلے وہ دس اور بیس کے نوٹ قبول نہیں کرتے تھے اور اب وہ پچاس روپے بھی نہیں لیتے۔ جتنی دیر میں اس چھوٹے سے ریستوران سے نماز پڑھ کر اور چائے پی کر نکلے تو باہر حسب معمول بالٹی اور برش لیے ایک نحیف سا آدمی گاڑی کے پاس کھڑا تھا، ایسا لگے کہ اس نے ہماری گاڑی کے شیشے صاف کیے ہوں، اس کا مدعا اس کے منہ پر لکھا تھا۔ اسے سو روپے دیے تو اس کے چہرے کے تاثرات سے علم ہوا کہ اس کا عوضانہ بھی بڑھ چکا تھا، ایک اور لال نوٹ لے کر وہ گاڑی کے وائپر سیدھے کرنے لگا۔

چند مہینوں بلکہ ہفتوں میں ہی لگنے لگا ہے کہ ہم شاید بیچ کے کچھ ماہ سوئے رہے تھے کہ اب جاگے ہیں تو قیمتوں نے کئی اونچی چھلانگیں لگا کر آسمان کو چھو لیا ہے ۔ صاف علم ہوتا ہے کہ ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام سرے سے ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اسے چیک کرنے والوں کو اصل حقائق سے خاص دلچسپی نہیں ہے۔

ہم بھی کوئی ایسے نواب نہیں مگر ارد گرد دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ عام لوگ کیسے گزارا کرتے ہیں۔ اگر کسی کی ماہانہ آمدنی، حکومت کے مقرر کردہ کم سے کم نر خوں کے مطابق بھی ہواور اس گھر میں چھ افراد رہتے ہوں، ظاہر ہے کہ اتنے لوگ تو کم ازکم ہوتے ہیں ان کے گھروں میں۔ ان سب کا پیٹ بھرنا، تن ڈھانکنا، بیماری اور تکلیف میںخرچ کرنا ، عیداور دیگر تقریبات، بچوں کی تعلیم کے اخراجات وغیرہ۔ کہاں سے یہ سب پورا ہوتا ہو گا؟؟ پورا مہینہ گھر میں پکتا کیا ہوگا؟؟ کوئی دال دیکھ لیں، سبزی اور گوشت لینا تو دور کی بات ہے۔

چند دن قبل میری ایک دوست نے بتایا کہ اس کے ہاں صفائی کا کام کرنے والی لڑکی پہلے ان کے باورچی خانے کے کوڑا دان میں سے چن کر سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے لے جاتی تھی اور اس کے پوچھنے پر بتایا کہ وہ سبزیو ں کے چھلکے دھو کر پکا لیتی تھی اور پھلوں کے چھلکے بچوں کو کھلا لیتی تھی۔ اسے دکھ ہوا کہ ان کے ہاں کا کوڑا بھی کسی غریب کا پیٹ بھرتا تھا۔

اس کے بعد وہ جب کبھی اپنے لیے سبزی لاتی ہے تو ساتھ کچھ زیادہ سبزی لے لیتی ہے کہ اس کی ملازمہ لے جائے مگر اس سبزی کے باوجود بھی وہ اس کے گھر کی سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے لے جاتی ہے جو کہ اب اسے کوڑ ا دان میں سے نکالنا نہیں پڑتے ہیں کیونکہ اب میری دوست اس سے ہی سبزی کٹواتی ہے اور اسے کچھ فالتو رقم بھی دے دیتی ہے ۔ ہم سب اس کی تقلید کرسکتے ہیں کہ کام کرنے والیوں کو معمول میں کچھ فالتو سامان یا رقم دے دیا کریں مگر کام کرنے والیاں ملک کی آبادی کا کتنے فیصد ہیں؟

عید سے قبل مرغی کا نرخ سو روپے کلو کے حساب سے روزانہ بڑھ رہا تھا ۔ ہر روز سوچتی کہ عید کے دن کے لیے مرغی خریدوں اور ہر روز کا نرخ سن کر سوچتی کہ کل لے لوں گی۔ عید سے عین دو روز پہلے جب نرخ ساڑھے نو سو روپے کلو سنا تو سر پکڑ لیا اور اپنے گوشت کی دکان والے سے سوال کیا، ’’ یہ مرغی کا نرخ آپ ہر روز سو روپے کے حساب سے کیوں بڑھا رہے ہیں؟‘‘ اس نے جواب میں ہنس کر کہا، ’’ آج تو ماشااللہ ڈیڑھ سو روپے بڑھا ہے باجی!!‘‘ اس نے تو ہنسنا ہی تھا مگر میں نہیں چاہتی تھی کہ ایک دن اور انتظار کروں اور کل رونا پڑ جائے۔ سوچا تھا کہ عید کے بعد تو نرخ لازمی کم ہوں گے کیونکہ قیمتیں یقینا عید کی وجہ سے بڑھ کر آخری حدوں کو چھو رہی ہیں۔

ہمیں تو کیاکسی کو بھی قیمتوں کی آخری حد کا کیا علم۔ عید کے بعد وہی مرغی تھی ، وہی دکان اور مرغی کانرخ تھا… ایک ہزار روپے فی کلو گرام۔ اب توسبھی سوچتے ہیں کہ ہم کیا کھائیں، بکرے کا گوشت کھانا تو اب خواب سا ہو گیا ہے۔ غریب تو سال میں ایک بار بڑی عید پر ہی کھا سکتا ہے اور بسا اوقات وہ بھی نہیں۔ پھل منڈیوں ، دکانوں اور ریڑھیوں میں پڑا سڑ جائے گا مگر اس کے نرخ کوئی کم نہیں کر تا کہ کوئی غریب بھی فیض یاب ہو جائے۔ منڈیوں میں غریب اس پھل کو خرید کر کھاتا ہے جو کہ دکان دار رد کر کے چلے جاتے ہیں اور وہ کوڑے کے ڈھیروں کی شکل میں منڈیوں میں رل رہا ہوتا ہے۔

کس کس چیز کی بابت بات کریں، ہر چیز کے قدم زمین پر ہیں کہ اسے زمین پر ہی فروخت ہونا ہے اورہاتھ آسمان کو چھونے کی کوشش میں ہیں۔ جوتے، بستر، کپڑے، برتن، گھر بنانے کا سامان، آلات برقی، گھی، تیل، چینی، آٹا، دالیں اور مسالہ جات۔ کپڑے و برتن دھونے کا سامان، ڈاکٹروں کی فیسیں، اسپتالوں میں داخلے کیے اخراجات اوردوائیں۔ بچوں کی اسکولوں کی فیسیں، یونیفارم، کتابیں اور سٹیشنری کا سامان… اسکولوں کی وین اور رکشوں کے کرائے۔ لگتا ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہے۔

پہلے پہل غریب اور سفید پوش بھی اپنی تنخواہ میں سے کچھ بچت کر کے مہینے میں ایک بار اپنے بچوں کو کوئی سستی سی تفریح کروا دیتے تھے۔ اب وہ بھی کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ ویسے بھی اب بچے اسکولوں سے اور سوشل میڈیا کے کھلے استعمال سے سیکھ گئے ہیں کہ کسی پارک میں چلے جانا کوئی تفریح نہیں اور سستی جگہ سے کچھ کھا لینا کوئی عیاشی نہیں۔ یہی وہ آگاہی ہے جس نے کم سن نوجوانوں کے ہاتھوں جرائم کی شرح میں خطر ناک اضافہ کر دیا ہے۔

مال اوردولت کو شرافت اور نجابت کا پیمانہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ دولت کہاں سے اور کن ذرایع سے آتی ہے، اس سے کسی کو غرض نہیں ہے۔ اب ، ’’ ہمیں کسی سے کیا لینا دینا !!‘‘ کا دور ہے، آپا دھاپی کی دنیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وقف قانون کی مخالفت کیلئے ممتا بنرجی، ایم کے اسٹالن اور سدارامیا کا شکریہ ادا کرتی ہوں، محبوبہ مفتی
  • جو غلط گاڑی چلا رہا ہے اسکے خلاف کارروائی کریں: شاہی سید
  • ابھی تو تیاری چل رہی ہے، سنگل ڈبل لے رہے ہیں، جیسے ہی تاریخ آئے گی تو پاور پلے لیا جائے گا، مراد سعید
  • ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد اب فرض ہوچکا ہے، مفتی تقی عثمانی
  • قدم زمین پر ، ہاتھ آسمان پر
  • بات چیت کے حوالے سے اگلے ہفتے کوئی نہ کوئی پیشرفت ضرور ہوگی: اعظم سواتی
  • بات چیت کے حوالے سے اگلے ہفتے کوئی نہ کوئی پیشرفت ضرور ہوگی، اعظم سواتی
  • فلسطینیوں کیساتھ کھڑے، فضل الرحمن: اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی
  • امت مسلمہ اسرائیل کیخلاف قراردادوں کے بجائے جہاد کا اعلان کرے: مفتی تقی عثمانی
  • پاکستان سمیت تمام مسلمان حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی